غزلیں۔ ۔ ۔ یاور ماجد

 

 

شعلہ جو ہے اس دل میں چھپا، تیز بہت ہے

بجھ جائے گا کچھ پل میں، ہوا تیز بہت ہے

 

اک تیری جھلک یاد کے در سے ہے در آئی

اک درد مرے دل میں اُٹھا تیز بہت ہے

 

چپکے سے بس اک سسکی ہی لی ہے مرے دل نے

کیوں گونجتی کانوں میں صدا تیز بہت ہے

 

اب راکھ تلک ڈھونڈے سی ملتی نہیں اس کی

اک جسم تری لو میں جلا تیز بہت ہے

 

پھر ٹوٹ گئے، گم ہوئے سب محور و مرکز

کیا کرتے کہ گردش کی بلا تیز بہت ہے

 

جس زہر نے کر ڈالا گگن نیلا سحر تک

وہ زہر مرے خوں میں گھُلا تیز بہت ہے

٭٭٭

 

 

پتا پتا شجر سے لپٹا ہے

کون اس راستے سے گزرا ہے ؟

 

آسماں بھی سراب ہی نکلا

بحر میں آب ہے کہ صحرا ہے

 

جانے کب اندمال ہو اس کا

دیکھنے میں تو زخم گہرا ہے

 

جیسے دل پر وحی اتر آئے

ایسے پنچھی شجر پہ اترا ہے

 

کوئی تو ہے جو کائنات مری

بے سبب روز و شب گھماتا ہے

 

 

دل کی نیّا میں جو لگی ہے آگ

اچھی لگتی ہے، کیوں بجھاتا ہے ؟

 

میں نہ دیکھوں تو ہے ادھورا سا

وہ فلک پر جو ایک تارا ہے

 

کوئی دستک سنائی دی ہے مجھے

دیکھنا کون در پہ آیا ہے

 

اس طرح اضطرار سے آخر

کون میرے سوا بہلتا ہے ؟

 

لا کے چھوڑیں گی ہی بہار یہاں

شور چڑیوں نے یوں مچایا ہے

 

مٹ نہ پائیں گی اس کی ریکھائیں

اس طرح کا ہے، ہاتھ مَلتا ہے ؟

 

خواب میں روز آ کے اک پنچھی

رات پچھلے پہر جگاتا ہے

 

یاد کی گلیوں میں کوئی راہی

کبھی گرتا، کبھی سنبھلتا ہے

 

آسماں کے توے پہ اک سورج

روز آتا ہے روز جلتا ہے

 

چاند جوبن پہ جب بھی آ جائے

ناؤ میری ہی کیوں ڈبوتا ہے ؟

 

وقت ہے اژدھا کوئی شاید

کینچلی روز اک بدلتا ہے

 

صبح دم ٹہنیوں پہ شبنم کے

روز موتی کوئی پروتا ہے

 

روز جب آفتاب ڈھل جائے

دل مرا جانے کیوں مچلتا ہے

 

میں نے جو سوچا، جو کہا، ہے برا

تم نے جو بھی کہا وہ اچھا ہے

 

پیڑ وہ ہی رہے ہرا ہر دم

روز جو دھوپ میں جھلستا ہے

 

بھر لو آنکھوں میں اب افق یاور

اس سے آگے تو بس اندھیرا ہے

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے