آباد نگر کا اجڑا شاعر۔ اسلم کولسری ۔۔۔چوہدری لیاقت علی

 

آباد نگر میں رہتا تھا اور اجڑی غزلیں کہتا تھا

کچھ نام بھی شاید تھا اس کا یاد آیا اسلم کولسری

 

میرے خیال میں شاعری اپنے جذبات و محسوسات کو سلیس اور سادہ زبان میں مختلف تشبیہات اور استعاروں سے بیان کرنے کا نام ہے۔ اساتذہ اور دیگر شعراء بھلے اس تعریف کو نہ تسلیم کریں مگر یہ ایک بالکل عام قاری کے ذہن میں آنے والا خیال ہے۔ میرے نزدیک اچھی شاعری وہ ہے جس میں اپنے آپ پر گزرنے والی واردات میں آپ دوسروں کو اس طرح شریک کرتے ہیں کہ آپ کے محسوسات صرف آپ کے نہیں رہتے بلکہ اس میں آپ کا قاری بھی شریک ہو جاتا ہے۔ اردو یا لشکری زبان کے آغاز کے ساتھ ہی اس زبان کے بہت سے شاعر مشہور اور معروف ہو گئے۔ ابتدا میں فارسی کا بہت گہرا رنگ اردو شاعری پر چڑھا رہا جسے انیسویں صدی کے شعراء کرام نے خالص اردو کے قالب میں ڈھالا۔ مختلف مکاتیب فکر وجود میں آ گئے جن میں دو مکاتیب میر اور غالب آج بھی شعراء کرام کی بنیادی تقسیم کا اہم ذریعہ ہیں۔ ان دونوں شعراء نے اردو شاعری پر بہت گہرا اثر ڈالا اور۔ ان اساتذہ کے بعد اردو شاعری نے بہت بڑے بڑے نام پیدا کئے جن میں حالی، اقبال، سیماب اکبر آبادی، حسرت اور پھر ان کے بعد آنے والوں میں فیض، ناصر، عالی، جالب و فراز شامل ہیں۔ اس قبیلے میں اقبال و حالی نے امت مسلمہ کو مخاطب بنایا اور ایک مشن کے تحت شاعری کی۔ بعد میں فیض اور ناصر کاظمی نے عام ڈگر سے ہٹ کر ایک نئی راہ اپنائی۔ اسی قبیلے کے اہم رکن جناب اسلم کولسری بھی ہیں جن کے فن اور عمدہ شاعری سے آپ کو روشناس کروانے کی ایک کوشش یہ مضمون ہے۔

ہمارے ہاں آج بھی ہجر، جدائی، وصال، نشہ، آنکھیں اور ان جیسی بے شمار اصطلاحات جو اردو شاعری کے آغاز سے ہی موضوع سخن رہی ہیں شد و مد کے ساتھ آباد ہیں اور عام ڈگر کے شاعر ان کو اپنی شاعری میں استعمال کر کے قاری اور شاعری دونوں کا امتحان لیتے ہیں اور آخر میں قاری اور شاعری دونوں شرمندہ ہو کر رہ جاتے ہیں۔ ستم ظریفی تو یہ ہے کہ ایسے شاعر بھی موجود ہیں جو تول کر شاعری کرتے ہیں۔ جی ہاں جب لکھے ہوئے کاغذوں کا وزن ایک کلو ہو گیا تو ایک کتاب تیار۔ اس طرح شاعری میں اوزان کی اہمیت ہوتی ہے تاہم اس وزن سے قطع نظر شاعر موصوف ٹنوں کے حساب سے شاعری کر چکے ہیں۔ اور جب کتابیں بکنا بند تو کسی نجی چینل پر میزبانی اپنی شاعری گائیں گے بھی اور سنائیں گے بھی۔ پھر ایک گروہ ایسا ہے جو دھڑے بندی کر کے کسی مقام تک پہنچا اور پھر !!! پچھلے چند سالوں سے ایک اور طرز کی بنیاد پڑی جس میں اپنی کتاب کو سرخ رنگ سے سجا کر ساتھ ایک سی ڈی فری اور ویلنٹاین ڈے کا تحفہ تیار۔ یاد رہے یہ مقدمہ شعر و شاعری نہیں ہے بلکہ اس تمہید کا مقصد صرف یہ ہے کہ آج بھی ایسے شاعر موجود ہیں جو اردو زبان میں ایسی شاعری کر رہے ہیں جو عام ڈگر سے ہٹ کر اور انوکھی ہے۔

اسلم کولسری اوکاڑہ کے نواحی گاؤں کولسر کے رہنے والے ہیں پھر جب یہاں فوجی چھاؤنی بنی تو ان کا گاؤں اس میں ضم ہو گیا، مگر یہ گاؤں ان میں اور ان کی شاعری میں جوں کا توں موجود ہے۔ انہوں نے اردو اور پنجابی دونوں زبانوں میں شاعری کی ہے۔ شاعری کی تمام مروجہ اصناف میں طبع آزمائی کی ہے اور اب تک ان کی شاعری کے دس مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ مجھے اسلم کولسری کیوں پسند ہیں۔ ندرت خیال، منفرد استعارے، سادگی و سلاست یہ وہ خیالات ہیں جو ذہن میں کولسری کی شاعری پڑھنے کے فوراً بعد آتے ہیں۔ کولسری کی شاعری کی ایک اہم خصوصیت اس کا سادہ ہونا ہے۔ ہمت اور کوشش سے اور خاص طور پر آرڈر پر تیار کر کے آرائشی الفاظ اور مشکل استعارے سے ان کی شاعری محفوظ ہے۔ ان کی شاعری عام مصالحوں مثلاً شرابیں شرابوں میں ملیں کتابیں کتابوں میں ملیں اور درختوں پر نام وغیرہ سے پاک ہے۔ موخر الذکر استعاروں کا استعمال اپنی غیر تکمیل شدہ خواہشات کا اظہار تو ہو سکتا ہے مگر شاعری نہیں۔ صاف و سادہ زبان، عام فہم شاعری، اپنی مٹی اور اپنے گاؤں سے محبت کولسری کی پہچان ہے۔

بلا شبہ اسلم اس ہجوم کا حصہ نہیں جو عرصۂ دراز سے شاعری کو بے حال کئے ہوئے ہیں۔ میر، فیض، ناصر، جمال احسانی، شکیب جلالی اپنے اپنے زمانے سے الگ، مگر میں انہیں ایک ہی قبیلے کا رکن گردانتا ہوں۔ اسلم کولسری نے ہر صنف میں شاعری کی۔ تاہم ان کا بیشتر شعری سفرغزل پر مشتمل ہے جو ان کی پہچان ہے۔

 

ابھی کہتا ہوں میں تازہ غزل بھی

ابھی تو زہر کا ساغر پیا ہے

پرو کر دیکھ لو کانٹے میں جگنو

کوئی اس شہر میں یوں بھی جیا ہے

 

مشہور مصنفہ بانو قدسیہ ان کے لئے رقم طراز ہیں :

اسلم کولسری لوگوں سے کٹا ہوا، ہاتھ ملتا، بجھا ہوا روہانسا شاعر ہے۔ وہ دو قدم آگے چل کر میلوں پیچھے بھاگ جانے والا تعریف اور شہرت کا آرزو مند ہو کر بھی گم نامی کے سہارے جینے کا خواب دیکھتا ہے۔ عید کے روز دروازہ مقفل کر کے سوجانے والا اسلم کولسری در اصل اندر ایک آوارہ تنکے کی صورت عمر گزار رہا ہے۔ اسلم کولسری محنت مزدوری، شکاری خواب، محبت، صبر، دعا سب مرحلوں سے گزر چکا ہے۔ اور ان ساری کڑی دھوپ سی کیفیتوں کے سائے اس کی شاعری پر پڑے ہیں۔

اسلم کولسری نے مختصر اور طویل دونوں بحروں میں اچھوتی اور عمدہ غزلیں تخلیق کی ہیں۔ ان کی ذاتی زندگی کے تجربات ان کی شاعری پر بہت زیادہ اثر انداز ہوئے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں ایک عام آدمی جن مصائب کا سامنا کرتا ہے اور معاش کے لیے جن خارزار راستوں پر گزرتا ہے، جن مصائب کا اسے سامنا کرنا پڑتا ہے وہ تمام کے تمام اپنی تلخ حقیقتوں سمیت ان کی شاعری میں نظر آتے ہیں۔ ان کی شاعری کی مثال ایسے دی جا سکتی ہے جیسے بانسریا کی مدھر آواز میں کسی ڈار سے بچھڑی کونج کی آہ شامل ہو جائے۔ جیسے گھائل ہو کر گرنے والا پرندہ گرتے گرتے نظر اٹھا کر آسمان کو دیکھتا ہو۔ یا جیسے کسی حساس دل پر کوئی ناگہانی آفت بیت جائے۔ ان کی شاعری میں گاؤں کی فطری سادگی اور پھر اس سادگی کے خاتمے کا دکھ، مشینوں کا راج، ہجرت کرنے کا دکھ، اپنی مٹی سے بچھڑ جانے کا دکھ، اپنا آپ بھلا دینے کا غم، معاشی نا ہمواری کا نوحہ سب اپنی پوری شدت کے ساتھ اثر انداز ہیں۔

 

شہر میں آ کر پڑھنے والے بھول گئے

کس کی ماں نے کتنا زیور بیچا تھا

 

شہر نے پھر سے ایک گاؤں پر

ایک کالی کمند پھینکی ہے

لوگ پکی سڑک کہتے ہیں

 

تو بھی تو کو ئی غیر نہیں غم گسار ہے

تھوڑی سی خاک تو بھی میرے سر میں ڈال دے

 

کردار یوسفی کا صلہ یوں ملا مجھے

ہر یار غم گسار میرا بھائی بن گیا

 

نوحہ

بنسری توڑ دی گڈرئیے نے

اور چپکے سے شہر میں جا کر

کارخانے میں نوکری کر لی

 

آنکھوں کے گل رنگ چمن میں اتری ہے برسات، غزل کی رات

آج تو جیسے قطروں میں تقسیم ہوئی ہے ذات، غزل کی رات

 

ہر صبح زندگی نئے اخبار کی طرح

میرے نحیف جسم کو دفتر میں پھینک دے

 

وقت نے کیا کیا مقدس روپ گھائل کر دیے

چاندنی، برکھا، پون، گاگر، ندی، ہمجولیاں

 

اسلم کولسری کی شاعری کی سب سے بڑی انفرادیت مختلف اور اچھوتے استعارے ہیں۔ تمثال آفرینی میں تشبیہ، استعارے اور اسم صفت کا استعمال شامل ہوتا ہے۔ کولسری کی شاعری ان تمام کو اس خوبصورتی سے یک جا کرتی ہے کہ ایک انتہائی عام خیال نادر ہو جاتا ہے۔ اور بالکل عام الفاظ قاری کے ذہن سے چپک کر رہ جا تا ہے۔ کولسری کی شاعری میں ہمیں منہ زور آندھیاں، جلتا ہوا مکان، شکستہ دیواریں، سنسان جنگل، سوکھا لہو، اداس بستی، بجھتی ہوئی تمنا، زخم زخم احساس، سوکھے پتے، عیار درندے، یخ بستہ موسم، رستے زخم، سلگتے شعر، گونجتے گاؤں، ٹوٹا ہوا تارا، جلتا ہوا جہاز، سیہ دھول، خالی ٹفن، دریدہ تن، نچے ہوئے آنچل، ابلتا پانی، جلتا ہوا اصرار، سنسناتی گولیاں، سلگتے شعر، بھیگی چھاؤں، جگمگاتی سڑکیں، مقدس روپ، پر خلوص دعوت، شبنمی دعوتیں جیسے سادہ مگر پر اثراستعارے موجود ہیں۔ ان منفرد استعاروں کی شعروں میں بنت بھی اس کمال کی ہے کہ ان کے اشعار صرف اشعار نہیں بلکہ ایک تصویر بن جاتے ہیں۔

 

دیدہ بے خواب کے بھیگے ہوئے اصرار پر

میں ترے لہجے کی سختی بھی گوارا کر گیا

 

تتلیوں کی جستجو میں گھر سے نکلا تھا مگر

جھاڑیوں میں اڑ رہی تھیں سنسناتی گولیاں

 

مسائل کے ابلتے پانیوں میں

جوانی کا جزیرہ جل رہا ہے

 

جوانی عارضی شے ہے جوانی

کسی مفلس کی بیماری نہیں ہے

 

رستے زخموں سے ڈھانپ رکھا ہے

جسم بار قبا نہیں سہتا

 

دامان کوہسار میں اک جھیل دیکھ کر

جلتا ہوا جہاز فضا میں ٹھہر گیا

 

مسئلوں کی جھاڑیوں میں پھنس گیا

خواہش دیدار کا زخمی ہرن

 

سارا پانی چھاگلوں سے آبلوں میں آ گیا

چلچلاتی دھوپ کے جلتے ہوئے اصرار پر

 

تیرے نام کی خوشبو شامل کر لیتا ہوں

خالی سانس تو سینے میں کنکر لگتا ہے

 

شرافت؟ میں نہیں سمجھا

پرانی بات ہے شاید

 

تارا سا بکھرتا ہے آکاش سے یا کوئی

ٹھہرے ہوئے آنسو کو کرتا ہے اشارہ سا

 

میں نے کرنوں سے نچوڑی تھی ذرا سی روشنی

اور میرے ہاتھ کیا حالات چھلنی ہو گئے

 

منصوبہ سفر ہی بڑا جاں گداز تھا

بیٹھے بٹھائے تھک کے ہوئے چُور چُور ہم

 

حسرتوں کی اداس بستی میں

مستعد مسئلوں کا پہرا ہے

 

ہاں اسی رستے پہ ہے شہر نگار آرزو

آپ چلتے جائیے میرے لہو کی دھار پر

 

ایک باسی نان کے ٹکڑے پہ آخر بک گئی

سانولی مالن کے تازہ پھول بکتے ہی نہ تھے

 

لاش کے پہلو سے چوری ہو گئے

ایک ٹوٹی سائیکل خالی ٹفن

 

کولسری کی شاعری کی مجموعی فضاء میں اگرچہ حزن کا جذبہ ابھر کر سامنے آتا ہے مگر اس جذبے کو انہوں نے منفی اور نہیں جانے دیا بلکہ یہ جذبہ شاعر کی نظر میں موجودہ تناظر کا ایک نوحہ ہے۔ اس منظر کشی سے شاعر قاری کو اپنے ذہن پر گزرنے والی واردات میں شامل کر لیتا ہے اور شاعر اور قاری ایک جیسے خطوط پر سوچنا شروع کر دیتے ہیں۔ تاہم شاعر اس حزنیہ جذبے کے بعد ایک امید بھری دنیا کا خواب دیکھتا ہے جس میں سدابہار ہریالی، صبح سہانی، شام سرمئی، چاندنی معطر اور آندھیوں، طوفانوں اور بگولوں کو یہاں داخلے کی اجازت نہیں ہو گی۔ شہر گاؤں کو ہڑپ نہیں کریں گے اور مشینوں کی جگہ انسانی جذبات کو اہمیت حاصل ہو گی۔ معاشرہ باہمی تعاون کے اصولوں پر عمل کرے گا اور تمام توانائیاں مثبت سمت میں استعمال ہوں گی۔ کولسری کی شاعری کا کینوس تمام جذبات کو الگ الگ رنگوں کی شکل میں ظاہر کرتا ہے، جس میں ہر رنگ اپنی چھب دکھاتا ہے اور پھر جیسے ایک قوس قزح آپ کی نگاہوں میں بکھر جاتی ہے۔

کولسری نے ایک غزل اپنے بیٹے کی وفات پر لکھی۔ یہ اشعار لکھتے ہوئے ان کا دل کتنی زور سے کانپا ہو گا۔ ہاتھ کتنی بار رکا ہو گا، آنکھ کتنی بار نم ہوئی ہو گی۔ اس کا اندازہ ان اشعار سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔

 

سورج سر مژگاں ہے اندھیرے نہیں جاتے

ایسے تو کبھی چھوڑ کے بیٹے نہیں جاتے

تو جانب صحرائے عدم چل دیا تنہا

بچے تو گلی میں بھی اکیلے نہیں جاتے

جو پھول سجانا تھے مجھے تیری جبیں پر

بھیگی ہوئی مٹی پہ بکھیرے نہیں جاتے

 

اسلم لفظ عربی مادے سلم سے نکلا ہے جس کے معنیٰ مکمل یا سالم ہوتے ہیں۔ ایک حمد میں انہوں نے اپنے نام کو اس خوبصورتی سے پرویا ہے :

ریزہ ریزہ ہونے پر بھی

اسلم کہلاتا ہوں سائیں

یوں کولسری کا بیشتر شعری سفر غزل پر محیط ہے تاہم انہوں نے نظموں اور گیتوں کے ساتھ ساتھ مشہور جاپانی صنف ہائیکو میں بھی طبع آزمائی کی ہے۔ ان کے ہائیکو اور نظم کا انتخاب، ان اصناف میں ان کی مہارت کی دلیل ہے :

 

تو کیا جانے

 

ڈھل گئی رات پھر دسمبر کی

شیلف میں سو گئیں کتابیں تک

ایک تیرا خیال روشن ہے

 

کیا گئے تم

 

کیا گئے تم کہ پھر نہیں گذرا

میرے ویران گھر کے اوپر سے

قافلہ دودھیا چراغوں کا

 

دنیا

 

قطرۂ آب آب میں خرم

ذرۂ خاک خاک میں رقصاں

آدمی اپنے شہر میں تنہا

 

دل دریا

 

صلح کے زمانے میں

مجھ کو ایسا لگتا ہے

وہ اگر بچھڑ جائے

صرف اتنا دکھ ہو گا

جتنا آنکھ کھلنے پر

خواب ٹوٹ جانے کا

پر عجب تماشا ہے

وہ اگر کبھی مجھ سے

یونہی روٹھ جاتی ہے

کائنات کی ہر شے

ٹوٹ پھوٹ جاتی ہے۔

 

اسلم کولسری کے چند اشعار جن میں انتہائی سادہ زبان استعمال کی گئی ہے مگر اس کمال سے کہ!!!!

 

اب کہاں تک کہو، تمہی کوئی

ٹوٹ کے بنتا، ٹوٹتا بن کر

 

بہت مشکل ہے کچھ کہنا یقیں سے

چمکتے ہیں کہ تارے کانپتے ہیں

 

ذرا سی بات ہے لیکن ذرا نہیں کھلتی

کبھی نہ ساتھ رہا جو کبھی کا چھوڑ گیا

 

نہیں کھلتا پریشانی کا باعث

اسی باعث پریشانی بہت ہے

 

کسی بھی شاعر کے اچھے ہونے کا انحصار اس بات پر نہیں ہوتا کہ وہ میڈیا میں کتنا مقبول ہے۔ میرے نزدیک اچھی شاعری کرنا اس بات سے کہیں زیادہ ضروری ہے کہ آپ مشہور شاعر ہوں۔ اس مضمون کا مقصد کسی کو بڑا یا چھوٹا شاعر ثابت کرنا نہیں ہے بلکہ اسلم کولسری کا قارئین سے تعارف کروانا مقصود تھا۔ ذیل میں دیا گیا انتخاب میری اس بات کی تائید کرے گا کہ کولسری کس پائے کے شاعر ہیں :

 

یوں تو چار قدم پر میری منزل تھی

لیکن چلتے چلتے جیون بیت گیا

ایک انوکھا سپنا دیکھا نیند اڑی

آنکھیں ملتے ملتے جیون بیت گیا

شام ڈھلے اس کو ندیا پر آنا تھا

سورج ڈھلتے ڈھلتے جیون بیت گیا

 

دیوانی سی دیوانی ہے اندھی بڑھیا

زخمی ہاتھ سے کار کا شیشہ صاف کیا ہے

 

بچھڑ گئے ہو تو اے دوست لوح دل سے مجھے

کچھ اس طرح سے مٹانا کمال کر دینا

 

جذبے کی ہر کونپل پر

آگ لگی مجبوری کی

 

شاعری کے مہکتے زخموں پر

ہوشمندوں نے زہر چھڑکا ہے

 

اہل دانش نے جہاں خار بچھائے دن بھر

شام کے بعد وہیں رقص ہے دیوانے کا

 

دل و نگاہ کے سب رابطے ہی توڑ گیا

وہ میرے ہوش کو دیوانگی سے جوڑ گیا

 

سلگنا، مسکرانا، شعر کہنا، راکھ ہونا

بہت معصوم ہوتے ہیں محبت کرنے والے

 

من کی مانگ ہی کیا تھی مولا

پیتم، پیڑ، پرندے، پانی

 

اوراس شعر پر میں اس مضمون کا اختتام کروں گا:

 

روشن یادوں کے جھرمٹ میں دل زندہ ہے اس طرح جیسے

لالٹین کی چمنی میں ہو بند پتنگا جیسے

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے