حالیؔ حال کے آئینے میں ۔۔۔ ستیہ پال آنند

 

الطاف حسین حالیؔ سے ایک اقتباس :

’’شاعری کی کل کس چیز کی بنی ہوئی ہے ؟ الفاظ کے پرزے ایسی چیز ہیں کہ اگر ہومرؔ اور ڈینیؔ جیسے صناع بھی ان کو استعمال کریں تو وہ بھی سامعین کے متخیلہ اور اشیائے خارجی کا ایسا صحیح اور ٹھیک نقشہ نہیں اتارسکتے جیسا موئے قلم اور چھینی کے کام دیکھ کر ہمارے خیال میں اترتا ہے۔ ‘‘ (مقدمہ :ص ۳۵)

آج کا ذہین قاری اگر یہ سطور پڑھے تو اس کے ذہن میں دو باتیں فوری طور پر گھر کر جائیں گی۔ ایک تو یہ کہ حالیؔ تنقید کی زبان کو احتیاط سے استعمال نہیں کرتے، اور دوسری یہ کہ ’’مقدمہ‘‘ میں خواجہ صاحب نے صنف شعر کو عموماً اور غالب کی شاعری کو خصوصاً ’’پڑھی جانے والی صنف ادب‘‘ نہ سمجھ کر ’’سنائی جانے والی اور سنی جانے والی ‘‘ صنف کی سطح پر رکھ کر دیکھا ہے۔ اسی لیے ان کے مقدمہ میں ’’سامعین‘‘ بار بار آتا ہے، ’’قارئین‘‘ کہیں دیکھنے کو نہیں ملتا۔ یعنی اس عمل میں انہیں صرف قاری کا عمل دخل قبول نہیں۔ اس میں مخاطَب اور مخاطِب (یعنی خطاب کرنے والا اور جس سے خطاب کیا جائے ) دونوں کی شرکت لازمی ہے۔ پہلا تاثر (یعنی حالیؔ کا انداز بیان قدرے غیر ناقدانہ ہے، شاید اس لیے صحیح بھی ہے کہ تنقید کی تکنیکی زبانTechnical Parlance of Criticism ابھی معرض وجود میں آئی ہی نہیں تھی) اور زمانۂ حال کے قاری کے ذہن میں یہ تاثر ابھی تک قائم ہے اور محولہ بالا مختصر اقتباس بھی اس کی شہادت دے سکتا ہے۔ دوسرا ردِ عمل یہ ہے کہ اردو کا ہر معتبر اور غیر معتبر شاعر اور ناقد اب تک شاعری کو ’’کلام‘‘، ’’سخن‘‘ وغیرہ کے القابات سے نوازتا چلا جا رہا ہے۔ غزل کے حوالے سے تواس کی معتبر ترین تعریف ہی یہ کی گئی ہے۔ ’’بازی کردن محبوب و حکایت کردن از جوانی و حدیث محبت و عشق زنان‘‘، یعنی چاہے ’’بازی کردن‘‘ ہو یا ’’حکایت کردن‘‘ ہو، بات تو گفتگو، نطق، کلمہ جنبانی تک ہی محدود رہتی ہے، لکھنے پڑھنے کے بکھیڑے میں نہیں پڑتی۔

اب یہ دیکھنا ہے کہ ادیب (بمعنی شاعر) اور سنگتراش اپنے موئے قلم اور چھینی کے استعمال سے جو چیز گھڑتے ہیں، وہ کس حد تک نقل بمطابق اصل ہے۔ ہمارے اپنے زمانے کے مبتدی تنقید نگاروں کی طرح ہی خواجہ حالیؔ انشا پردازی کے سیاق میں اپنے نکتۂ نظر کی منظوری کا پروانہ یعنی intellectual sanction ابن خلدون سے لیتے ہیں، لکھتے ہیں۔

ابن خلدون اسی الفاظ کی بحث کے متعلق کہتے ہیں کہ ’’انشا پردازی کا ہنر نظم میں ہو یا نثر میں، محض الفاظ میں ہے، معانی میں ہرگز نہیں۔ معنی صرف الفاظ کے تابع ہیں، اور اصل الفاظ ہیں۔ ‘‘

جن حضرات کی ابن خلدون کے ارشادات تک رسائی ہے، وہ بھی اس خاکسار کی طرح اس بات پر شک کریں گے کیوں کہ یہ الفاظ ابن خلدون کے فرمودات کا صحیح ترجمہ نہیں ہیں۔ ابن خلدون پر قاضی حسنین کی کتاب نکال کراگران الفاظ کو نشان زد کیا جائے تو یہ دیکھ کر حیرت بھی ہو گی اور افسوس بھی کہ ابن خلدون کی عبارت میں ’’نظم میں ہو یا نثر میں ‘‘ موجود نہیں ہیں اور یہ حالیؔ کی حاشیہ آرائی ہے جو انہوں نے واوین کے استعمال کے بغیر کی ہے۔ دیگر یہ کہ اس فقرے میں ’’معانی میں ہرگز نہیں ‘‘، ’’ہرگز‘‘ یا ’’زنہار‘‘ دونوں میں سے کوئی بھی لفظ ابن خلدون نے استعمال نہیں کیا۔ گویا یہ بھی حالیؔ کے اپنے زور بیان کا حسن ہے۔

اس سے کچھ آگے بڑھیں تو صفحہ ۵۰ ؍ پر خواجہ صاحب رقم طراز ہیں۔ (گویا کہ وہ ابن خلدون کو ہی quote کر رہے ہوں )۔

’’معنی ہر شخص کے ذہن میں موجود ہیں پس ان کے لیے کسی ہنر کے اکتساب کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اگر ضرورت ہے تو اس بات کی کہ ان معانی کو کس طرح الفاظ میں ادا کیا جائے۔ ‘‘ (ص ۵۰)

ابن خلدون کے متن میں ’’معنی ہر شخص کے ذہن میں موجود ہے ‘‘ کہیں نظر نہیں آتا، اگر ہوتا تو بلا تامل یہ بات کہی جا سکتی تھی کہ قاری اساس تنقید کی بنیاد توابن خلدون نے بہت پہلے رکھ دی تھی۔ لیکن ایسا نہیں ہے۔ جو عبارت ابن خلدون نے تحریر کی ہے، اس میں کہیں سے بھی یہ جملہ اختراع نہیں کیا جا سکتا : ’’معنی ہر شخص کے ذہن میں پہلے سے ہی موجود ہیں۔ ‘‘ البتہ اس سے ملتے جلتے البتہ یہ الفاظ موجود ہیں۔ ’’معنی تو ہر شخص جانتا ہے۔ ‘‘

حوالہ جاتی نا درستی کا مسئلہ اس لیے بھی پیدا ہوتا ہے کہ انیسویں صدی کے وسط تک انگریزی میں بھی ’’محولہ بالا‘‘ کی فہرست، نمبر وار شماریہ، فٹ نوٹس، حاشیہ نوشت عبارت، اور کتابیات کا ڈسپلن ابھی طے نہیں ہوا تھا۔ حالی کے سامنے جو ماڈل تھے، وہی ان کی رہنمائی کا باعث تھے اور اس میں لفظ بلفظ اور من وعن، کلمۃ الحق کی طرح(نقل بمطابق اصل) کا چلن ابھی شروع نہیں ہوا تھا۔ مندرجہ ذیل عبارات جو مقدمہ میں موجود ہیں، اپنی مسلمہ صداقت سے، کہیں کم اور کہیں زیادہ، دامن کشاں ہیں۔ ان میں اگر غلط تعبیر نہیں ہے تو غلط تاثر اور بے سلیقگی ضرور ہے۔

کلیم الدین احمد نے کہا ہے کہ ’’حالی کے خیالات ماخوذ، واقفیت محدود، نظر سطحی، فہم و ادراک معمولی، غور و فکر ناکافی، تمیز ادنیٰ، دماغ و شخصیت اوسط تھی۔ ‘‘ اس پر کلیتاً صاد نہیں کیا جا سکتا کیونکہ خود کلیم الدین احمد n’th degree یعنی زیادہ سے زیادہ سخت نوعیت کے الفاظ کا استعمال کرنے کو ہی تنقید کی معراج سمجھتے ہیں چاہے وہ غزل کے بارے میں ان کا تاریخی جملہ ہو کہ ’’ غزل ایک نیم وحشی صنف سخن ہے ‘‘ یا حالی کے بارے میں، ’محدود‘، ’سطحی‘، ’معمولی‘، ’ناکافی‘ ’ادنیٰ‘، ’اوسط‘ وغیرہ صفات کا استعمال ہو۔

بہر حال یہ دیکھ کر افسوس بھی ہوتا ہے کہ حالیؔ جہاں تنقید کی سطح پر بھی غیر معمولی اور گنجلک باتیں سادہ، سلیس اور خوبصورت الفاظ میں کہہ جاتے ہیں، وہاں وہ (بقول شخصے ’اپنی انگریزی دانی کے ثبوت کے طور پر‘)  کچھ ایسے مندرجات انگریزی کے کلاسیکی یا رومانی ادوار کے شعرا کے گلے میں منڈھ دیتے ہیں، جو یا تو ان کے قلم سے رقم ہی نہیں ہوئے، یا اگر ملتے جلتے الفاظ میں کسی انگریز مدبر نے کچھ کہا بھی ہے، تو حالی ؔنے یا تو سرے سے اسے سمجھا ہی نہیں یا کسی اور بزرگ کے قول کو اس کے کھاتے میں ڈال دیتے ہیں۔ زیادہ مثالیں بھی شاید مل جائیں لیکن بہر حال کچھ مثالیں ذیل میں درج ہیں۔

حالی کہتے ہیں کہ بقول ملٹن (Milton: 1608-74) شعر کی خوبی اس بات میں مضمر ہے کہ وہ سادہ ہو، جوش سے بھرا ہوا ہو، اور اصلیت پر مبنی ہو۔ ۔ ۔ ۔ حالانکہ ملٹن کے تنقیدی فرمودات اس کے عیسائی عقیدے کے عکس اور بر عکس سیاسی امور کے بارے میں مضامین میں سے ہی اختراع کیے جا سکتے ہیں، بسیار کوشش کے باوجود مجھے ملٹن کی تحریروں میں یہ جملہ یا اس سے ملتا جلتا جملہ کہیں نہیں مل سکا، (حالانکہ میں نے ملٹن کو جامعات کی سطح پر سالہا سال تک پڑھایا ہے )۔ شاید یہ فروگزاشت خاکسار کی ہی ہو، نہیں جانتا۔

حالی رقم طراز ہیں کہ ’’قوت متخیلہ کوئی شے بغیر مادہ پیدا نہیں کر سکتی بلکہ جو مسالہ اس کو خارج سے ملتا ہے اس میں وہ اپنا تصرف کر کے ایک نئی شکل تراش لیتی ہے اور جب رفتہ رفتہ اسے مطالعے کی عادت ہو جاتی ہے تو ہر ایک چیز کو غور سے دیکھنے کا ملکہ ہو جاتا ہے اور مشاہدوں کے خزانے گنجینہ خیال میں خود بخود جمع ہونے لگتے ہیں۔ ‘‘۔ اس عبارت کو کالریج Coleridge : 1782-1834)) کے خیالات سے  اخذ کرنے کا دعویٰ حق بجانب ہے بھی اور نہیں بھی۔ کالریج کے خیالات کو انگریزی تنقید نگاروں کے علاوہ ماہرین نفسیات نے بھی چھانا اور کھنگالا ہے لیکن کہیں بھی ’’مطالعے کی عادت سے چیزوں کو غور سے دیکھے جانے کا ملکہ حاصل ہو جانا‘‘ کم از کم اس کے خیالات سے ظاہر نہیں ہوتا۔

انہی لغزشوں کی وجہ سے شاید کلیم الدین احمد کو حالی کے بارے میں تضحیک آمیز الفاظ لکھنے کا موقعہ ملا، ان کی رائے میں ’’حالی کے خیالات ماخوذ، واقفیت محدود، نظر سطحی، فہم و ادراک معمولی، غور و فکر ناکافی، تمیز ادنیٰ، دماغ و شخصیت اوسط تھی۔ ‘‘

اس کے برعکس وہ لوگ بھی ہیں، جنہوں نے حالی کی عالی دماغی، فہم شناسی، غور و فکر کے آفاقی ہونے کے گن گائے ہیں۔ عبادت بریلوی نے لکھا تھا، ’’ حالی پہلے نقاد تھے جنہوں نے مادہ اور خیال کے تعلق کو محسوس کیا اور اس کے مقصدی ہونے پر زور دیا۔ ‘‘ لیکن صالحہ عابد حسین نے جو کچھ لکھا ہے، وہ حقیقت کے زیادہ قریب ہے۔ ’’مقدمہ شعرو شاعری حالی کی سب سے زیادہ مشہور، سب سے زیادہ معتوب اور سب سے زیادہ مقبول کتاب ثابت ہوئی۔ ‘‘

ان سطور کو بغور دیکھنے پر عبادت بریلوی کی رائے زیادہ معتبر لگتی ہے۔ مادہ اور خیال کا تعلق کیا ہے، اس کا تجزیہ کرنا کارے دارد والا معاملہ ہے اور اس کے لیے کسی بھی ناقد کو افلاطون سے لے کر بیسویں صدی کے آخری برسوں تک یورپی فلسفے کی تاریخ کھنگالنی پڑے گی، لیکن جس محدود تناظر میں، صرف حالی کے حوالے سے ہی، عبادت بریلوی نے یہ بات لکھی ہے، اسے دیکھنا آسان ہے۔ لیکن ایک اور مضمون کی یہ سطور اس حوالے کے لیے کافی ہیں جن میں عبادت بریلوی صاحب نے فن اور جمادات، مادہ اور خیال کے تعلق کو حالی کے زمانے کی شاعری کے سیاق و سباق میں دیکھا۔ ’’حالی نے اپنے دور کی شاعری کو جھوٹی شاعری کہا ہے۔ اس شاعری میں عاشق کا کام صرف رونا دھونا، شراب پینا، کفر بکنا اور ایک ایسی معشوقہ (امرد معشوق؟) پر جان و دل فدا کرنا تھا جو تیسری جنس کی خوبیوں اور خرابیوں کا ملغوبہ تھی۔ عاشق میاں کی ریڑھ کی ہڈی غائب تھی یا بے حد کمزور تھی اور وہ غم عشق یا عشق غم کا دائمی مریض تھا۔ ما سوا عشق کے اسے زندگی میں اور کوئی کام نہیں تھا۔ ‘‘۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بقول عندلیب شادانی اردو غزل کسی قصائی کی دکان لگتی تھی جو عاشقوں اور شاعروں کے دل و جگر کے ٹکڑوں سے اٹی پڑی تھی۔ حالی نے پہلی بار اردو غزل کو سماجی زندگی کی حقیقتوں کے کیف و کرب سے روشناس کیا اور اس کے لیے تازہ ہواؤں کے در کھول دیے۔ ‘‘

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے