ہوا صفحے الٹتی ہے ۔۔۔ فاطمہ حسن

 

ہوا صفحے الٹتی ہے، ستمبر گرد سے نکلی

سواری ہے، زمیں بِسرے ہوئے خوابوں کو/پہلو میں سجاتی ہے

جو شب کی گود میں لیٹے ہیں ان پر نیند

بھاری ہے، مقفل دل پہ ان کے دستخط

تاخیر سے ہیں

شہر کی آب و ہوا آلودگی سے منفعل ہے

اور حجاب و شرم کے مابین اپنی زندگی کو

ملتوی رکھنے پہ ہم مجبور ہیں

جب ان گلی کوچوں کی آوازیں

شکستہ ہوکے پھر ہرزہ سرائی کی طرف مڑتی ہیں

اور پھر المیے کے سوزمیں تبدیل ہوتی ہیں

یہ لمحہ وہ رفاقت ہے جو گر یہ ہے کساؤ ہے

سخن کی آزمائش ہے مگر پھر

وقت کی قلت ہے کیسے روٹھ کر دامن لپیٹیں

اور پلٹ جائیں، یہی دنیا دوا ہے اور یہی دارو

یہ ایسی نیند ہے، سو کر اٹھیں اور تازہ دم ہوں

سانس سے ساری کدورت کھینچ کر باہر نکالیں

اس بدلتی رت کو اپنے ہوش سے مہمیز دیں

اس کے جتنے نام ہیں ان کو سنواریں

بس ذرا سی یہ خرابی ہے

بدن پر یاد کا دھبہ ہے اور جو پھیلتا ہے

نظم میں بکھرے ہوئے وہ حادثے وہ المیے

ذائقہ ہیں مست آنکھوں کے لیے

کتنا ٹٹولیں بند کمروں کی حرارت

بند کمروں کی گھٹن کے آس پاس

احساس کے وہ ڈولتے دھاگے /سرے جو ان بنی روئیدگی کا بیج ہیں ارمان ہیں

فنا پھولوں کا ما تھا چومتی ہے اور مصرعوں کی

سیاہی میں کہیں روپوش ہے، ویسے بھی اتنی رات ہے

جو بے سکونی ہے وہی حرکت میں رکھتی ہے

جو دریا بہہ گئے وہ بہہ گئے اور ان کے پیندے میں

جہاں پر آبیاری کا کوئی موقع تھا وہ بھی کھو گیا

اب جا بجا بکھرے ظروف اور ان کے ابھرے خال و خد کی ممکنہ تحریر ہے

یا رات کی چوکھٹ کے کچھ قصے

برائے نام جن کے ذکر سے کچھ اور بھی الجھن بڑھے

اور روبرو جو آئینہ ہے، اور خیال و خواب کی /جو دھند ہے اس کے عقب میں

کچھ نہ کچھ قسموں کی حدت میں اگر کچھ جان باقی ہے

اگر کچھ سانس پس انداز ہیں

جن میں رمق جیسی کوئی شے ہے

اٹھیں اور ہمنوا کو ساتھ لیں اور دھول کو جھاڑیں

یہاں پھر آرزو کے بعد جو کچھ بچ رہا

اپنے لیے اک نیم مردہ اعتبار

اپنے لیے اک درد کی بے پردگی اور اس کا حُزن

اور وہ سپنے جنہیں سنتے رہے دہلیز سے دیوار تک

وہ سپنے دفن ہو جانے سے پہلے آخری کروٹ بدل کر جس حقارت سے ہمیں تکتے ہیں

ہم ہی جانتے ہیں۔

٭٭٭

(ظفر اقبال کے کالم ’دال دلیہ‘ سے ماخوذ)