خوشبو ۔۔۔ نسترن احسن فتیحی

 

جمنی نے کھانستے کھانستے اپنا سینہ دبا لیا – پھر کھانسی کے زور پر مشکل سے قابو پاتے ہوئے اس نے اپنی دھندلی نظروں کو ادھر ادھر گھماتے ہوئے بے حد نحیف آواز میں بیٹی کو پکارا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ للیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ارے او للیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘

للیا اس ایک کمرے کے کچّے مکان کے دروازے پر اپنے پیر پھیلائے یوں بیٹھی تھی جیسے کسی محل کی راج کماری ہو۔ اس کے سانولے تندرست چہرے پر بھولے پن کے ساتھ ساتھ ایک قِسم کا غرور بھی جھلکتا تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ماں کی پکار پر اس نے ناگواری سے اندر ایک جھلنگی چارپائی پر سمٹی ہوئی ماں کے کمزور و جود کی طرف دیکھا اور پھر اسی لاپرواہی سے چپ چاپ بیٹھی رہی۔

جمنی کو ایک بار پھر زور کی کھانسی اٹھی اور وہ کھانستے کھانستے رکی تو اس کی سانسیں تیز چل رہی تھیں۔ ۔ ۔ اس نے اپنی آنکھوں میں آئے ہوئے پانی کو پوچھتے ہوئے ایک بار پھر بیٹی کو پکارا تو وہ پیر پٹکتی ہوئی اندر آئی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور قدرے جھنجھلائے ہوئے لہجے میں کہا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سمجھ گئی۔ ۔ ۔ سمجھ گئی۔ تیرے پیٹ میں پھر آگ لگی ہے۔ اس لئے میں برتن دھونے جاؤں اور روٹی لا کر تیرے پیٹ کا دوزخ بھروں۔ ‘‘

’’ ارے سن تو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ذرا پانی دے دے۔ اپنے آپ ہی تو سب سمجھ لیتی ہے اپنے لئے نہیں۔ ۔ ۔ اگر جانے کو کہتی ہوں تو تیرے لئے، نہیں گئی تو کھائے گی کیا۔ ‘‘ جمنی ذرا سانس لینے کے لئے رُکی، پھر بولی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کھانسی سے گلا سوکھ گیا ہے۔ ذرا لوٹے میں پانی دے اور جا کام پر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تو۔ ۔ ۔ اوشا بہن جی ناراض ہوں گی۔ روز نیا کام کہاں سے ڈھونڈھے گی۔ پگلی۔ ‘‘

’’۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں آج کام پر نہیں جاؤں گی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ للیا نے سرکشی سے کہاں اور لوٹا اٹھا کر جھپاک سے کمرے سے باہر نکل گئی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘

جمنی کو للیا کا یہ غصّہ بھی پیارا لگا اور اس کا دل ترس سے بھر گیا۔ سولہ سترہ کی عمر ہی کیا ہوتی ہے۔ کھیلنے اور کھانے کے دن۔ مگر اس کا باپ تو دو وقت کی روٹی کا انتظام کرنے کے قابل بھی نہیں۔ ۔ ۔ جمنی نے ایک ٹھنڈی سانس لی اور اس کی آنکھیں ڈبڈبا آئیں۔ جب وہ خود اس عمر کی تھی کتنی بے فکر، خوش اور مطمئن تھی اس کی زندگی۔ دیکھنے میں جیسی للیا ہے ویسی ہی وہ بھی تھی ۱۶۔ ۱۷ برس کی عمر میں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس نے اپنے سوکھے سوکھے ہاتھ پیروں کو دیکھا۔ ان پچیس سالوں میں اس کا جسم غریبی، جد و جہد اور بھوک کی تپش میں پگھل کر ختم ہو چکا تھا۔ شادی کے بعد اس نے کچھ دن بھی تو سکھ کے نہیں دیکھے جبکہ شادی کے پہلے انیس برس ایسے گذارے تھے کہ غم اور فکر جیسے الفاظ سے بھی وہ نا آشنا تھی۔

للیا پانی لے کر آئی تو جمنی کے خیالوں کا تسلسل ٹوٹا، پانی لیتے ہوئے اس نے ممتا بھری نظروں سے للیا کو دیکھا۔ ۔ ۔ ‘‘ بیٹی۔ ۔ ۔ جا ضد مت کر آج نہیں گئی تو سارا دن بھوکی رہے گی۔ ، ،

‘‘ تجھے بھوک نہیں ؟ ’’۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ للیا نے سوجے ہوئے چہرے کے ساتھ پوچھا ’’نہیں رے مجھے اب بھوک نہیں لگتی۔ ‘‘ وہ تو زندہ ہوں اس لئے ایک روٹی حلق سے اتارنی پڑتی ہے ’’ جمنی نے ایک ٹھنڈی سانس لے کر کہا۔

‘‘ ہاں تجھے بھوک کیوں لگے گی۔ تجھے پوریاں ملیں تبھی کھائے گی۔ ’’ للیا کی بات سن کر جمنی چپ رہی تو للیا نے کہا۔ ۔ ۔ ‘‘ میں جا رہی ہوں۔ اب سانجھ کو ہی لوٹوں گی تیری روٹی لے کر۔ ۔ ۔ ’’

‘‘ اری سن۔ ۔ ۔ جاتی ہوئی للیا کو اس نے جلدی سے پکارا۔ ۔ ۔ ‘‘ تو بہن جی سے کہنا تھوڑا آٹا ہی دے دیں۔ روٹی مت لینا۔ گھر میں سانجھ کو چولھا جلتا ہے تو بہت اچھا لگتا ہے۔ ‘‘

ماں کی بات سن کر للیا کا پارہ پھر ساتویں آسمان پر چڑھ گیا۔ ۔ ۔ ‘‘ بس تجھے ہری ہری سوجھنے لگی۔ ۔ ۔ ایک تو میں سارا دن ادھر مر کر آؤں۔ پھر یہاں تیرے لئے گرم روٹی پکاؤں دم نکلنے کو ہے اور شوقینی میں کمی نہیں آئی۔ ‘‘ للیا بڑبڑاتی ہوئی کمرے سے باہر نکل گئی۔

تو جمنی اپنے آپ سے ہی بولی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تو نہیں سمجھے گی رے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مجھے روٹی کی بھوک نہیں۔ مجھے تو سانجھ کو پکتی ہوئی روٹی کی خوشبو چاہئے۔ میرا پیٹ اسی سے بھر جائے گا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ روٹی کی خوشبو تو کیا جانے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جمنی ڈوبنے لگی اپنے ماضی میں جہاں مٹھاس ہی مٹھاس تھی۔ ۔ ۔ یادوں کی مٹھاس یادوں کی کسک، پر نہ جانے یہ کون سا درد ہے جو اسے اچھا لگتا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آنسو کی لڑی اس کی آنکھوں سے ڈھلک کر اس کی میلی کچیلی ساڑی کے پلو میں جذب ہو گئی۔ اور آنکھوں کے سامنے اسے اپنا بچپن اور لڑکپن ڈولتا ہوا محسوس ہوا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کھانسی کے ایک اور زور دار دورے کے بعد وہ بالکل نڈھال ہو گئی۔ مگر یادوں نے پیچھا نہ چھوڑا۔ ..

اسے یاد آیا کہ جہاں اس نے ہوش سنبھالا تھا۔ ۔ ۔ وہ ایک بہت ہی کھاتا پیتا گھرانا تھا۔ ۔ ۔ جہاں اس کی ماں کام کرتی تھی اور اس بڑے سے گھر کے شاندار باورچی خانے کے پاس اس کی ماں کا کمرہ تھا۔ ۔ ۔ دونوں ماں بیٹی اسی کمرے میں رہتی تھیں۔ اس گھر کا ہر کام اور خاص کر باورچی خانہ اس کی ماں کے سپرد تھا۔ ۔ ۔ وہ خود تو وہاں کے بچوں کے ساتھ ہر وقت کھیلتی رہتی تھی۔ اس گھر کے ہر فرد کے ساتھ رہ کر اس نے ہر ہنر اور پڑھنا لکھنا سیکھ لیا تھا حالانکہ وہ یہاں کے دوسرے بچوں کی طرح اسکول نہیں جاتی تھی اور ان کے جوٹھے کھانے اور اتارے کپڑے بھی اس کے حصّہ میں آتے تھے مگر اسے یہ سب کچھ برا نہیں لگتا تھا کیونکہ وہ اپنی حیثیت سے واقف تھی اور ساتھ ہی ان لوگوں کے خلوص اور محبت سے شاکی بھی نہیں تھی۔ اس نے اسی گھر میں ہوش سنبھالا اور یہیں اپنے شوق اور ان لوگوں کی کوششوں سے بہت کچھ سیکھ گئی۔ اس طرح گذرتے ہوئے وقت نے اس کے لاشعور میں اس ماحول کو اس طرح اتار دیا تھا کہ اسے کسی آہٹ کا گمان تک نہ ہوا۔ ۔ ۔ وہ بہت خوش اور مطمئن زندگی وہاں گذار رہی تھی۔ اسے اچھی طرح یاد تھا کہ بچپن سے ہی شام کو پکنے والی روٹی کی خوشبو اسے اتنی اچھی لگتی تھی وہ اس وقت چاہے کتنا بھی دلچسپ کھیل کھیل رہی ہو۔ ۔ ۔ روٹی کی اس مہک سے کھنچی چلی آتی اور للچائی ہوئی نظروں سے ماں کو دیکھتی جب کہ ماں کو اس کی اس عادت سے چڑ تھی اس لئے جمنی کو دیکھتے ہی وہ جھلا جاتی۔

بس دو چار روٹیاں بھی نکلنے نہیں دیتی اور موئی بلّی کی طرح سونگھتی ہوئی پہنچ جاتی ہے، اور بھی تو بچے ہیں اس گھر میں مگر کسی کو تیری طرح بھوک نہیں لگتی۔ اپنی اس جھنجھلاہٹ کے ساتھ وہ ایک روٹی اس کے ہاتھ میں اس طرح پکڑا دیتی جیسے کہ رہی ہو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جا مر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میرا پیچھا چھوڑ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘

جمنی نہ جانے کب سے اسی طرح ماں کی جھڑکیوں کے ساتھ شام میں پکنے والی روٹی کھاتی آ رہی تھی۔ ۔ ۔ اور اس وقت کی یہ ایک روٹی اسے دنیا کی ہر نعمت سے بڑھ کر اچھی لگتی مگر ایک وقت ایسا آیا کہ اسے اس طرح روٹی لے کر کھانے میں شرم آنے لگی۔ لیکن شام میں پکنے والی روٹی کی خوشبو سے اس کا وہی لگاؤ رہا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس کی کشش اس کے لئے اب بھی اسی طرح باقی تھی۔ ۔ ۔ وہ کہیں بھی رہتی، کچھ بھی کرتی رہتی۔ ۔ ۔ اس وقت کی یہ خوشبو وہ اپنی سانسوں میں بھر لیتی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ روح میں اتار لیتی۔

اسے اس تلخ حقیقت کا احساس تک نہیں ہوا کہ وقت کتنی تیزی سے گذر گیا اور جب وقت کے گھومتے ہوئے پہئے کے نیچے اس کا اپنا وجود آیا تو وہ کرچی کرچی ہو کر بکھر گئی۔ تب اسے اس حقیقت کا احساس ہوا کہ وقت کے ایک ہی سردادر ظالم جھونکے نے گھر کے ہر فرد کو سوکھے پتوں کی طرح بکھیر دیا ہے۔ نہ جانے کب چپکے سے اس گھر کی بزرگ ہستی دادی امّاں نے اجل کی گود میں پناہ لے لی۔ ماں وقت سے پہلے کچھ ہی دن کی بیماری میں چل بسی، اور روحی آپا پیا کے دیش سدھاریں۔ پھر گھر میں اس کی شادی کی بات ہونے لگی۔ ۔ اب وہ خود کو بہت اکیلا محسوس کرتی کیونکہ اس گھر میں جس جس کے بے حد قریب تھی وہ سب جا چکے تھے اب اسے سب سے زیادہ جس سے لگاؤ تھا وہ دادا ابّا تھے لیکن ان کے رعب اور دبدبے کے آگے ان کے سامنے نظر اٹھانے کی بھی ہمت اس میں نہیں تھی بس دور دور سے ہی ان کا ہر خیال رکھتی۔ ان کے سفید ریشم سے بالوں والا سران کے سفید کمزور پیرا سے اتنے بلند اتنے عظیم لگتے کہ اس کا دل چاہتا کہ وہ ان کے قدموں میں اپنا چہرہ چھپا کر خوب روئے اور کہے دادا ابّا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مجھے اس گھر سے الگ مت کیجئے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مجھے یہیں ایک کونے میں پڑا رہنے دیجئے۔ میں ماں کی طرح پورا گھر سنبھال لوں گی۔ لیکن میری شادی مت کیجئے۔ وہ جب جب سنتی کہ اس کے لئے کوئی رکشہ والا، کوئی مزدور یا کوئی درزی دیکھا جا رہا ہے تو وہ لرز جاتی۔ ۔ ۔ وہ جسے پچپن سے اس ستھرے ماحول کو اپنا سمجھا ہے وہ کیسے ایک جاہل شخص کی اجڈ باتوں، گالیوں اور اوچھی حرکتوں کے ساتھ زندگی گذارسکے گی۔ وہ جانتی تھی کہ وہ خود ایک کم ذات، غریب اور بے سہارا لڑکی ہے۔ ایک سبزی بیچنے والی کی بیٹی جس نے بعد میں اپنا پیشہ چھوڑ کر اس گھر میں پناہ لے لی تھی۔ اسی لئے کبھی اس نے سنہرے سپنے نہیں سجائے تھے۔ پھر بھی وہ جانتی تھی کہ اس باغ کا پھول نہ ہونے کے باوجود اگر اسے یہاں سے اکھاڑ کر کہیں اور لگایا گیا تو وہ پھر سے کھل نہیں پائے گی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مرجھا جائے گی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیونکہ وہ یہاں کی آب و ہوا کی عادی ہو چکی تھی۔

مگر وہ اپنی قسمت کی لکیر نہیں بدل سکتی تھی۔ انیسواں سال پورا ہوتے ہی اس کی شادی ایک ٹیکسی ڈرائیور کے ساتھ کر دی گئی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ گھر والے یہ سوچ کر مطمئن تھے کہ روز پچاس روپے کمانے والے شخص کے ساتھ جمنی خوش رہے گی۔ ۔ ۔ جمنی نے بھی نکاح کے بول کے ساتھ خود کو اس ڈرائیور کے ساتھ بندھا پایا کہ کبھی اس بندھن سے بھاگنے کی کوشش نہیں کی۔ ۔ ۔ خود کو اس ماحول میں ڈھالنے کی پوری پوری کوشش کی اور کسی طرح غربت اور تنگدستی میں شب و روز گذرتے رہے۔ شادی کے ساتھ آٹھ سال بعد بیٹی ہوئی مگر اس وقت تک حالات اور بھی بد سے بدتر ہو چکے تھے۔ اس کے شوہر کے پینے کی لت بڑھ گئی تھی اور کام کرنے کی عادت کم ہو گئی اس لئے جمنی ہی ادھر ادھر کام کر کے گذارے کا انتظام کرتی۔ ۔ ۔ مگر اسے احساس تھا کہ وہ بیٹی کی اچھی پرورش تو کیا کرتی اسے پورا کھانا کپڑا بھی نہیں دے پاتی تھی اسے اپنا بچپن یاد آتا۔ ۔ ۔ اور للیا کو دیکھتی تو گھٹن اور دکھ کے احساس سے بھر جاتی دکھ کا یہ احساس اسے اندر ہی اندر دیمک کی طرح چاٹ گیا۔ ۔ ۔ اور بیالیس برس کی عمر میں ہی وہ معذور ہو کر چار پائی پر لیٹ گئی۔ اب اس کی ذمہ داریاں دو سال سے للیا ڈھو رہی تھی۔ ۔ ۔ جب سے اس نے کھاٹ پکڑی تھی شاید ہی کبھی گھر میں چو لہا جلتا ہو۔

جمنی نے چونک کر ادھر اُدھر دیکھا تو اسے لگا کہ ماضی میں ڈوبتے ابھرتے اس کا پورا دن نکل گیا تھا اور شام اتر آئی تھی۔ اس نے اپنے سینے میں تیز جلن محسوس کی۔ ۔ ۔ بڑی مشکل سے ہاتھ بڑھا کر لوٹا اٹھایا اور پانی کا گھونٹ لیا تو لوٹا اس کے ہاتھ سے پھسل گیا اور وہ سر چار پائی کی پٹی پر ڈال کر ہانپنے لگی۔ جیسے ایک لمبا سفر کرتے کرتے اب تھک گئی تھی، ہار گئی تھی۔ تبھی للیا کو ٹھری میں داخل ہوئی۔ ۔ ۔ اس کے ہاتھ میں دو چار لکڑیاں اور ایک پوٹلی تھی۔ اس وقت اس کے چہرے پر خوشی کی دمک تھی۔

ماں دیکھ میں تیرے لئے آٹا لے آئی۔ تجھے بھوک لگی ہو گی نا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ؟ ابھی گرم گرم روٹی پکاتی ہوں۔ ’’ للیا نے چہکتے ہوئے کہا تو جمنی نے اپنی دھندلی آنکھیں کھولیں۔ ۔ ۔

کیا بات ہے رے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آج بڑی خوش ہے۔ ‘‘

’’ ماں ! اوشا دیدی نے آج مجھے اپنا ایک سوٹ اور پانچ روپے دئے ہیں اور دیکھ تیرے لئے آٹا بھی۔ ۔ ۔ ‘‘

اس نے جلدی جلدی آٹا گوندھتے ہوئے کہا تو جمنی کے نحیف چہرے پر مسکراہٹ کی پرچھائیں آئی۔

للیا روٹی پکا رہی تھی اور جمنی کی نظریں پکتی ہوئی روٹی سے اٹھتی ہوئی بھاپ پر تھیں۔ جو ماحول میں رچ بس کر اس کے روح میں اتر تی جا رہی تھی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سیراب کرتی جا رہی تھی۔ للیا دو روٹی تھالی میں ڈال کر ماں کے قریب آئی اور اسے اٹھانے کے لئے سہارا دینے کی کوشش کی تو جمنی نے ہاتھ کے اشارے سے اسے منع کیا اور اپنی کمزور آواز میں کہا۔ ۔ ۔ یہ تو کھا لے بیٹی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میرا پیٹ تو اس خوشبو سے ہی بھر گیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘

للیا نے کچھ نہ سمجھتے ہوئے ماں کی طرف دیکھا۔ ۔ ۔ مگر اس وقت جمنی کے چہرے پر ایک ایسی تسلی تھی جیسے اس کے نحیف وجود میں روٹی کی خوشبو کی پیاس باقی نہ ہو جیسے اس کی زرد آنکھوں سے اس کے بچپن، لڑکپن اور جوانی کی تسکین جھانک رہی ہو۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے