کتھا پہلے جنم کی ۔۔۔ستیہ پال آنند

 

(ستیہ پال آنند کی ’چار جنموں کی کتھا‘ سے مقتبس) ۔۔۔ستیہ پال آنند’چار نموں کی کتھا‘ سے مقتبس)

 

۱۹۳۶ء

________________________________________

 

میں اپنے گھر کی ڈیوڑھی سے نکلتا ہوں۔ میری عمر پانچ برس ہے۔ میرے ہاتھوں میں بڑھئی کا بنایا ہوا ایک نیا ڈنڈا ہے اور بے حد پتلی، ہلکی پھلکی گلی ہے جسے بڑی محنت سے تراشا گیا ہے۔ صحن میں کھیلتے ہوئے میری گٍلی دالان میں چرخہ کاتتی ہوئی دادی ماں ’’بے بے ‘‘ کو لگتے لگتے بچ گئی تھی، اس لیے مجھے ڈانٹ پلائی گئی تھی کہ اگر مجھے گلی ڈنڈا کھیلنا ہے تو باہر گلی میں جا کر کھیلوں۔

ڈیوڑھی سے باہر نکلتے ہی میں دیکھتا ہوں کہ تنگ پتھریلی گلی کے ایک کونے پر پھلوؔ لکھّے ( تیلی) کے گھر کے سامنے اپنے گھر کی ڈیوڑھی سے جھانکتا ہوا ڈّبا کھڑا ہے اور دوسرے کونے پر رام چند بھسین کے گھر کے دروازے کی اوٹ میں، بظاہر اس سے بے پروا کالوؔ کھڑا ہے۔ میرا جی چاہتا ہے کہ ان کو للکاروں کیونکہ مجھے علم ہے وہ مجھ سے گلی ڈنڈا چھیننے کی تاک میں ہیں۔ وہ دونوں مجھ سے دو تین برس بڑے ہیں اور انہیں للکارنے کے ارادے کے باوجود مجھ میں اتنی ہمت نہیں ہے۔ روہانسا سا ہو کر میں اندرواپس آ جاتا ہوں، اور گلی ڈنڈے کو صحن میں پھینک کر خود سے تین برس بڑی بہن کی طرف لاچاری سے دیکھتا ہوں اور بے اختیار میرے منہ سے نکلتا ہے :

کتھّے ونجاں ڈاڈھیاربّا     اندر کالو، باہر ڈبّا

میری بہن چونک کر میری طرف دیکھتی ہے اور کہتی ہے :

واہ او ست پا لیا          توں تاں ہک بیت بنا لیا

گاؤں کی اکھڑ زبان میں بیت بازی کی یہ شروعات ہے !

٭٭

 

۱۹۳۷ء

________________________________________

 

مجھے چاچا بیلی رام اسکول داخل کروانے کے لیے لے جا رہے ہیں۔ میں نے سفید قمیض اور خاکی رنگ کا نیکر پہنے ہوئے ہیں۔ ایک ہاتھ میں پُچی ہوئی تختی ہے، دوسرے میں ایک پیسے میں خریدا ہوا نیا اردو کا قاعدہ ہے۔ سلیٹ کی پڑھائی دوسری جماعت سے شروع ہوتی ہے، اس لیے مجھے سلیٹ اٹھانے کی زحمت گوارا نہیں کرنی پڑی۔ مجھے شاید زکام ہے، کیونکہ میں بار بار رو مال سے اپنی ناک پونچھ رہا ہوں۔

چاچا بیلی رام کے پیچھے پیچھے چلتے ہوئے میں ان منے دل سے یاد کر رہا ہوں کہ اگر مجھے اس دن اسکول نہ جانا ہوتا تو میں گلی ڈنڈا کھیل رہا ہوتا۔

چاچا بیلی رام کی کریانے کی دکان ہے۔ وہ در اصل میرے مرحوم دادا کے بھائی ہیں۔ لیکن گاؤں میں سبھی ان کو چاچا بیلیؔ ہی کہہ کر پکارتے ہیں۔ نکھٹو سمجھ کر کوئی بھی اپنی لڑکی ان کے ساتھ بیاہنے کو تیار نہیں ہوا۔ اب پچاس کے پیٹے میں ہیں۔ ساری عمر اسی طرح گذار دی۔ دو بار راولپنڈی جا کر خدا جانے کس جات کی یا کس مذہب کی’ ادھ کھڑ ‘ عورتیں خرید لائے، شاید دو دو سو روپے میں۔ لیکن دونوں کچھ دن ان کے ساتھ رہنے کے بعد بھاگ گئیں۔ ایک تو ان کے کان میں ڈالی ہوئی سونے کی مُرکی بھی کھینچ کر اتار لے گئی۔ کہا جاتا تھا کہ وہ مونچھوں والے ہٹے کٹے نورےؔ  نائی کے ساتھ بھاگی تھی۔ نورا تو کچھ دن کے بعد گاؤں لوٹ آیا لیکن اس عورت کا کچھ پتہ نہ چلا۔ اس کے بعد چاچا بیلی رام نے شادی کے نام سے توبہ کر لی۔ کہا جاتا تھا کہ پنڈی گھیب میں کوئی چمارن ہے جو ایک روپے کے عوض اپنے ساتھ رات گذارنے دیتی ہے۔ ایسا کچھ ساتھی لڑکوں سے سنا تھا کہ چاچا بیلی رام بھی مہینے میں ایک آدھ بار وہاں جاتے ہیں۔ تب میں نے ایک بیت بھی موزوں کیا تھا، جو گھر والوں یا چاچا بیلی رام کو تو نہیں، لیکن اپنے کھیل کے سب ساتھیوں کو سنایا تھا۔

۰؎ خرچیا ہک روپّیہ سارا : چاچا بیلی ہجے کنوارا

(ایک روپیہ، پورے کا پورا خرچ بھی کر لیا : چاچا بیلی پھر بھی کنوارے کا کنوارا ہی رہا)

 

میں نے اسکول میں نے پہلی بار منشی رستم خان صاحب کو چمڑے کی منڈھی ہوئی کرسی پر بیٹھے دیکھا۔ ان کے بارے میں باتیں ضرور سنی تھیں کہ جب لڑکوں کو بید سے مارتے ہیں تو ہاتھ سوج جاتے ہیں۔ مرنجان مرنج آدمی تھے اور ڈھلتی عمر نے انہیں کچھ اور بھی ضعیف بنا دیا تھا، لیکن اس لاغرالجسہ شخص کے سامنے میز پر ایک ڈنڈا رکھا ہوا تھا، جو اس کی طاقت کا اصلی مظہر تھا۔ میں اسکول جانے والے ساتھی لڑکوں سے سن چکا تھا کہ اس ڈنڈے کا نام مولا بخش ہے۔ یہ بھی افواہ تھی کہ رستم خان صاحب نہ بھی دیکھیں تو ڈنڈا خود بخود ہلنے لگتا ہے۔ یعنی ڈنڈے کی ایک آنکھ ہمیشہ کھلی رہتی تھی اور وہ منشی صاحب کو بتا دیتا تھا کہ کس لڑکے نے شرارت کی ہے۔ میں نے ایک بیت مولا بخش کی کارکردگی پر بھی موزوں کیا تھا۔

۰ڈنڈا ویکھے اکھ اگھروڑ: دل کردا ے، جاواں دوڑ۔ (اگر ڈنڈا ذرا سی بھی آنکھ کھول کر دیکھے : تو جی چاہتا ہے میں بھاگ جاؤں )

 

اسکول کی پڑھائی چلتی رہی۔ مجھے ابجد سیکھنے میں تو دو دن لگے کیونکہ میں پہلے ہی گھر میں اپنی ماں سے نہ صرف اردو ابجد سیکھ چکا تھا بلکہ تختی پوچ کر خوشخط لکھ بھی سکتا تھا۔ میری ماتا جی اردو پڑھ لکھ لیتی تھیں اور نوشہرہ چھاؤنی میں میرے بابو جی اور کوٹ سارنگ میں میری ماتا جی کے درمیان خط و کتابت اردو میں ہی ہوتی تھی۔ منشی رستم علی خاں خوش تو بہت ہوئے لیکن جب ’’پہاڑے ‘‘ سیکھنے کا وقت آیا تو جیسے مجھے سانپ سونگھ گیا۔ میں تختی پر یا سلیٹ پر بغیر کسی تردد کے پہاڑے لکھ سکتا تھا لیکن دوسرے لڑکوں کے ساتھ سر میں سر ملا کر گا نہیں سکتا تھا۔ اس لیے جب دوسرے لڑکے ایک ساتھ آواز ملا کر اونچی آواز میں کہتے : ’’دو دُونے چار‘‘ تو میں چپکا بیٹھا رہتا۔ منشی جی تو اونگھ رہے ہوتے لیکن مجھے لگتا جیسے مولا بخش میری جانب ایک ٹک دیکھ رہا ہے اور ہل رہا ہے، تب میں بھی ہونٹوں ہونٹوں میں ہی بدبدانے لگتا، ’ دو دوُنے چار، تین دُونے چھ، چار دوُنے اٹّھ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘

پڑھائی چلتی رہی۔ مجھے وہ دن اچھی طرح یاد ہے، جب تختی پر صحیح املا لکھنے اور ایک بھی غلطی نہ کرنے پر منشی صاحب نے میری پیٹھ ٹھونکی تھی۔ لیکن جب حساب کے سیدھے سادے، یعنی جمع، تفریق، ضرب اور تقسیم کے سوالوں کا وقت آتا تو سارے پہاڑے یاد ہونے کے باوجود میں غلطیاں کرتا اور شرمندگی سے میری آنکھوں میں آنسو آ جاتے، میں حساب میں کبھی اچھے نمبر نہ لے سکا اور کورے کا کورا ہی رہا۔ ساری جماعت میں ایک میں ہی تھا جو اردو کی دوسری، تیسری، حتیٰ کہ چوتھی جماعت کی اردو کتاب بھی روانی سے پڑھ سکتا تھا، لیکن حساب کے مضمون میں کوئی ایسی گانٹھ تھی جو میری سمجھ اور لیاقت کی رسی پر بندھی ہوئی تھی، یعنی سمجھ آ جانے کے باوجود سوال حل کرتے ہوئے میں غلطی کر جاتا تھا۔

چھُٹّی ہونے پر سارے لڑکے اپنے اپنے بستے باندھ کر دوڑتے ہوئے گھروں کو روانہ ہو جاتے۔ کچھ لڑکے گاؤں کی ساتھ والی ڈھوک سے آتے تھے، لیکن زیادہ کوٹ سارنگ کے ہی ہوتے تھے۔ میں بھی بستہ باندھ کر دوڑتا لیکن سیدھا گھر جانے کے بجائے سناروں کی دکانوں کے ساتھ والی گلی میں مڑ جاتا۔ وہاں میری پھوپی بخت بی کا گھر تھا۔ گھر کے اندر داخل ہوتے ہی میں بستہ چارپائی پر پھینکتا اور ایسے زور زور سے سانس لیتا جیسے دوڑ دوڑ کر تھک گیا ہوں۔ میری پھوپی چھاچھ کا بھرا ہوا پیتل کا گلاس، جس میں مکھن کی ڈلی تیر رہی ہوتی، میرے ہاتھ میں پکڑاتی اور کہتی، ’’لے پُتر، لسّی پی لے، تھوڑا دم لے، پھر گھر چلے جانا!‘‘ گھر کا ہے کا؟ میں لسّی کا گلاس ختم کرتے ہی گلی ڈنڈا اٹھاتا اور اکیلے ہی صحن میں کھیلنے لگ جاتا۔ کئی بار پڑوس کا ایک ہم عمر لڑکا فضلوؔ بھی میرے ساتھ کھیلنے آ جاتا۔

گھنٹہ، دو گھنٹے۔ ۔ ۔ ۔ جب شام ڈھلنے لگتی، تو میری پھوپی جو اندر کمرے میں دوپہر کی نیند پوری کر رہی ہوتی، آنکھیں ملتی ہوئی باہر نکلتی۔ ’’اللہ کی مار اس گلی ڈنڈے پر!‘‘ وہ کوسنے دیتی۔ ’’اوئے نا مراد، تو ابھی تک اپنے گھر نہیں گیا؟ تیری ماں تیرا راستہ دیکھتی ہو گی، جا جلدی سے، نہیں تو مجھے گلے گلامے ملیں گے کہ میں راستے میں تم کو روک لیتی ہوں۔ تیرے بابو جی بھی گھر نہیں ہیں۔ تو ہی تو بڑا بیٹا ہے۔ ماں کا خیال رکھا کر۔ قرآن مجید میں آیا ہے کہ جو ماں کا کہنا نہیں مانتا، وہ نہ اس جہان کا نہ اگلے جہان کا!‘‘ اور وہ جلدی سے مجھے میرا بستہ پکڑا کر دروازے سے باہر کر دیتی۔ سن سن کر میرے کان پک گئے۔ قرآن شریف میں یہ آیا ہے، وہ آیا ہے۔ ایک دن میں نے اپنی ماتا جی سے پوچھا،  ’’ماں، یہ قرآن کیا ہے ؟‘‘ ماتا جی نے دلار سے کہا، ’’ارے ست پال۔ تو نہیں جانتا ہے، جیسے سکھوں کی متبرک کتاب گُرو گرنتھ صاحب ہے، یا ہم ہندوؤں کی بھگوت گیتا ہے، ویسے ہی مسلمانوں کی قرآن ہے، جس میں بہت اچھی اچھی باتیں لکھی ہوئی ہیں۔ ‘‘ میں پھر بھی نہ سمجھ سکا، اور میں نے پوچھا، ’’ہندو کیا ہوتا ہے ؟‘‘ ماں نے کہا، ’’جیسے کہ ہم ہیں۔ ہم ہندو ہیں، اور تیرے ننھیال سکھ ہیں، جو بال نہیں کاٹتے اور داڑھی بھی رکھتے ہیں اور پگڑی باندھتے ہیں۔ ‘‘ ’’اور مسلمان کون ہیں ؟‘‘ میں نے پھر پوچھا۔ ’’جیسے تیری پھوپی بخت بی ہے۔ ‘‘ میری ماں نے کہا۔ میرے ذہن میں منطق نے جیسے پہلی بار انگڑائی لی، میں نے ماں سے پوچھا، ’’اچھا، اگر پھوپی مسلمان ہے، تو وہ میری پھوپی کیسے ہوئی؟ ‘‘ ماں نے دلار سے میرا ما تھا چوما، ’’وہ اس لیے کہ وہ تیرے بابو جی کی منہ بولی بہن ہے۔ بابو جی تو اکیلے ہیں نا؟ ان کا بھائی بہن کوئی نہیں ہے، اس لیے انہوں نے بخت بی بی کو اپنی بہن مانا ہوا ہے، اس سے راکھی بھی بندھواتے ہیں۔ یوں بھی ہماری زمینوں کی کاشت ان کا خاندان ہی کرتا ہے۔ دیکھتے نہیں تم، جب وہ نوشہرہ سے آتے ہیں تو تیری پھوپی کے لیے کتنے تحفے لاتے ہیں !‘‘

مجھ آٹھ برس کے بچے کے ذہن میں ہندو، مسلمان، سکھ کا خیال اس سے پہلے کبھی نہیں آیا تھا، لیکن میں نے اس بات کا ذکر بخت بی پھوپی سے کرنا مناسب نہیں سمجھا۔ البتہ یہ بات میرے ذہن میں کھلبلی مچاتی رہی کہ میرے گھر میں بھگوت گیتا بھی ہے، گرو گرنتھ صاحب بھی میں ماں کے ساتھ گوردوارے میں جا کر دیکھ چکا ہوں، لیکن میں نے قرآن نہیں دیکھا۔ تو قرآن، جس میں اتنی اچھی باتیں لکھی گئی ہیں، دیکھنا اور پڑھنا بے حد ضروری ہے۔ اور میں تو اردو بخوبی پڑھ لیتا ہوں، قرآن پڑھنا کون سا مشکل ہو گا؟

٭٭

 

۱۹۳۹ء

________________________________________

 

گاؤں کے باہر مائی مولے والی بنھ (پانی کے باندھ کا پنجابی لفظ)۔ ایک جھیل سی، جس میں آبی پرندے تیرتے ہیں۔ میں کنارے کے ایک پتھر پر پانی میں پاؤں لٹکائے بیٹھا ہوں۔ مرغابیاں بولتی ہیں، تو میں ان کی آواز کے ساتھ اپنی آواز ملاتا ہوں۔ گاؤں کی عورتیں بڑے بڑے پتھروں پر اپنے میلے کپڑے قینچی مارکہ صابن سے رگڑ رگڑ کر دھو رہی ہیں۔ یہ سبھی اس کی موسیاں، چاچیاں، بھابھیاں، پھوپھیاں اور تائیاں ہیں۔ کچھ ہندو یا سکھ ہیں، لیکن مذہب کے حوالے سے انہیں کوئی نہیں پہچانتا، کیونکہ سبھی گوردوارے میں بھی جاتی ہیں اور جو گیوں کی درگاہ میں بھی شو لنگ پر جل اور پرشاد چڑھانے کے لیے حاضری دیتی ہیں۔ ۔ ۔ میری کتابوں کا بستہ ایک طرف رکھا ہوا ہے۔ گاؤں کے باقی سب لڑکے اس وقت اسکول میں ہیں، مگر میں اسکول سے بھاگا ہوا ہوں۔ بھائی کے ساتھ جاتے جاتے میں اس کی نظر بچا کر بخت بی پھوپی کے گھر کی طرف مڑ گیا تھا جیسے ماں کا کوئی پیغام اسے دینا ہو، اور پھر گلی کا موڑ مڑتے ہی مولے والی بنھ کی طرف کو ہو لیا تھا۔

 

مولے والی بنھ پر ایک معجزہ

________________________________________

 

دوب، کائی

سرسراتی جھاڑیاں

چڑیاں پھدکتیں، چہچہاتیں

تتلیاں رنگین، کالے ڈنک والی مکھیاں، پیلے مکوڑے

سوکھتے کیچڑ پہ بھینسوں کے کھُروں کے نقش، گوبر کی غلاظت

دھول، مٹّی سے اٹی پگڈنڈیاں۔ ۔ ۔ ۔

چیونٹے، قطار اندر قطار آتے ہوئے اک بل کی جانب

ماہیا گاتا ہوا لڑکا، گڈریا

آگے آگے بکریاں کچھ مینگنی کرتی ہوئیں

کچھ منمناتیں

پیچھے پیچھے بھیڑیے جیسا بڑا، خونخوار کتّا

 

کیسا بے ہنگم سا، بے ترتیب بکھراؤ

سرکتی، رینگتی، اڑتی، ہمکتی زندگی، جو

جھیل کے پانی کی ٹھنڈک سے، ہوا سے

سانس کا وردان لینا جانتی ہے !

 

باندھ کے اک بھُربھرے ٹیلے پہ بیٹھا

آٹھ سالہ نوجوان، وہ بھی ہمکتی زندگی کا ایک حصّہ

دور جاتے ماہیے کے دھیمے پڑتے بول کی سنگت میں اڑتا تتلیوں کی رنگ ریزی کی دھنک سے کھیلتا۔ ..۔

چڑیوں کی چوں چوں کے سُروں میں سُر ملاتا

مکھّیوں کے ڈنک سے بچتا بچاتا

اور سطح آب پر ٹھنڈی ہوا کے

ہلکے ہلکوروں پہ اڑتا

جھیل کے پانی کے چکنے جسم کو چھوتا، پھسلتا

جاتے جاتے اس جگہ پر رک گیا ہے

جس جگہ مرغابیاں اک جھنڈ کی صورت میں بیٹھی تیرتی ہیں

(لمبے رستوں کے مسافر، یہ پرندے

کچھ دنوں کے واسطے ہی یہ پڑاؤ ڈھونڈتے ہیں !)

 

یہ پرندے، اپنی لمبی گردنیں پانی میں ڈالے

غوطہ زن ہو کر ابھرتے ہیں

تو اس کو ایسے لگتا ہے کہ جیسے

جھیل کے پانی سے چاندی کے کٹورے اُگ رہے ہوں

دودھ کے ہلکے پھوارے پھوٹتے ہوں

سیم تن پریاں ’’چھُوا چھُو‘‘ کھیلتی ہوں

 

کاش اس برکاۃ کے لمحے میں، مولا

معجزہ اک رونما ہو

کاش میں چولا بدل کر (اس نے سوچا)

جھیل کے پانی میں اپنی لمبی گردن کو ڈبو دوں

اور جب ابھروں

تو میرے جسم پر سیمیں پر پرواز ہوں

برّاق برفوں کی چمک پہنے ہوئے

بے تاب اڑنے کو، مرے مولا

مرا مرغاب دل یہ چاہتا ہے !!

 

کہا تھا منشی رستم خان صاحب نے، یہ بچہ غبی الذہن ہے۔ کچھ نہیں آتا اسے۔ صرف اردو اچھی لکھ سکتا ہے۔ صرف خوشخط ہے، لیکن حساب میں نا لائق ہے۔ ڈرل کے پیریڈ سے ہمیشہ بھاگا رہتا ہے۔ کچھ نہیں بن سکے گا یہ! اپنے باپ داد اکا نام روشن نہیں کرے گا۔ اس کا دادا کابل تک تجارت کرتا تھا۔ اس کا باپ وکیل بن کر نوشہرہ میں اپنا خاص سماجی مقام بنائے ہوئے ہے۔ اس کا نانا ’’سرداربہادر‘‘ کہلاتا ہے، جو خان بہادر یا رائے صاحب کے برابر خطاب ہے۔ اس کی والدہ بھی پڑھی لکھی ہے اور جاٹ عورتیں میدان جنگ سے اپنے شوہروں کے آئے ہوئے خطوط اس سے پڑھوانے آتی ہیں۔ کچھ نہیں بن سکے گا یہ! باپ دادا کے نام کی لٹیا ڈبو دے گا۔ بس ایک آوارہ گردی ہی اس کا مشغلہ ہے۔ کاش میرا مولا بخش اسے سیدھی راہ پر لا سکتا۔ لیکن ہتھیلیوں پر ڈنڈے کھا کھا کر بھی ویسے کا ویسا بدھو ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

 

یہ غبی الذہن بچہ

________________________________________

 

اس غبی الذہن بچے کو تو میں پہچانتا ہوں

ناک سوں سوں، آنکھ روں روں

جب یہ پہلے بار مدرسے گیا تھا

کپکپاتے ہاتھ میں بستہ اٹھائے

دوسرے میں سوکھتی، آدھی پُچی تختی کو تھامے

صاف کپڑوں میں سجے سنورے ہوئے وہ

چاچا بیلی رام کی انگلی پکڑ کر

ڈرتے ڈرتے، ان منے قدموں سے یوں چلتا دکھائی دے رہا تھا

جیسے بکرے کو کوئی بے درد بوچڑ کھینچ کر لے جا رہا ہو

پانچ سالہ، اچھے اونچے قد کا، گورے رنگ کا لڑکا تھا یہ

لیکن پڑھائی سے اسے کچھ دشمنی تھی

یہ غبی الذہن بچہ کس قدر حسّاس تھا

کوئی نہیں یہ جانتا تھا

یہ نہیں سمجھا تھا اس کے باپ نے

بہنوں نے، ماں نے

یا مدّرس مُنشی رستم خان صاحب نے

کہ یہ بچہ

مدرسے کے دوسرے بچوں سے آخر مختلف کیوں ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔

اسے سولہہ تلک سارے پہاڑے یاد تو رہتے ہیں، لیکن

کیوں نہیں پڑھتا بلند آواز میں

سب دوسرے لڑکوں کی لے میں لے ملا کر؟

کیوں یہ بچہ نیلگوں آکاش پر اک ٹک نظر گاڑے ہوئے

گھنٹوں تلک بادل کے ٹکڑوں کی شبیہیں دیکھتا ہے ؟

باجرے کے کھیت میں

آزاد ہرنوں کی طرح کیوں دوڑتا ہے ؟

جھاڑیوں میں اُڑ رہے رنگین ’’بھمبھیروں ‘‘ کے پیچھے

ننگے پاؤں بھاگنے کو کیوں مچلتا ہے ؟ اسے کیوں

دیووں، پریوں، ڈاکوؤں کے کارناموں کی کتابیں

ممٹیوں کی اوٹ میں چھپ چھپ کے پڑھنے کا جنوں ہے ؟

کیوں یہ پہروں باندھ کے عقبی کنارے کے سلیٹی پتھروں پر

جھیل کے پانی میں اپنے پاؤں لٹکائے ہوئے

مبہوت بیٹھا

تیرتے آبی پرندوں کی زباں میں بولتا ہے

اور کمہاروں کے گھر سے

چکنی مٹی مانگ کر

شہزادیوں، پریوں، پڑوسی لڑکیوں کی

کیسی کیسی مورتیں گھڑتا ہے ۔ جیسے جی اٹھیں گی!

آٹھ نو سالہ یہ بچہ

مختلف تھا گاؤں کے بچوں سے، لیکن

کیا غبی الذہن تھا؟

میں خود سے مڑ کر پوچھتا ہوں !

٭٭

 

۱۹۴۰ء

________________________________________

 

پانچویں جماعت کا امتحان نہ جانے کیسے پاس ہوا۔ مجھے یاد تک نہیں ہے کہ میرے School Leaving Certificate پر کیا لکھا ہوا تھا۔ بس اتنا یاد ہے کہ میرے بابو جی نوشہرہ چھاؤنی سے کچھ دنوں کے لیے آئے اور سب کو تیار ہونے کے لیے کہا۔ ماں، دادی اور اس سے دو برس بڑی بہن ساتھ لے جانے والا سامان باندھنے لگ گئیں۔ میں بد حواس سا کبھی ادھر دیکھتا، کبھی اُدھر دیکھتا کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے۔

ہم کوٹ سارنگ چھوڑ کر کیوں جائیں ؟

’’آگے پڑھنا نہیں ہے کیا؟ یہ اسکول تو صرف پانچویں جماعت تک ہے۔ ‘‘ میری بہن نے کہا۔

’’ہاں، پڑھنا ہے، ‘‘ میں نے کہا تھا، ’’ لیکن، کیا ہم یہاں اب کبھی واپس نہیں آئیں گے ؟‘‘

’’کیوں نہیں آئیں گے ؟ ہر برس گرمیوں کی چھٹیوں میں آیا کریں گے ‘‘ میری ماں نے کہا۔

امیں نے دائیں بائیں دیکھا۔ مجھے لگا جیسے میرا کنچوں سے بھرا ہوا چھوٹا سا کپڑے کا تھیلا اچک اچک کر مجھ سے کہہ رہا ہو، ’’مجھے ساتھ لے جانا نہ بھولنا۔ وہاں بھی سنگ سنگ کھیلیں گے ‘‘۔ گلی ڈنڈا دالان میں اکٹھے پڑے تھے۔ گلی جیسے تلملا رہی تھی، میری آنکھوں کو شاید دھوکہ ہوا ہو، لیکن مجھے لگا کہ ڈنڈا تو چُپکا پڑا رہا، لیکن گلی اچھل کر میرے پاؤں کے پاس آ گری۔ بولی، ’’ہونھ، ہونھ، میں بھی ساتھ چلوں گی۔ ڈنڈے تو ہر جگہ مل جاتے ہیں، وہاں کوئی ترکھان کہاں ہو گا، جو نئی گلی بنا دے گا۔ مجھے ابھی سے اپنی کتابوں میں یا کپڑوں میں چھپا دو۔ ماں نے دیکھ لیا، تو نہیں لے جانے دے گی۔ ‘‘ میں نے دیوار پر نظر دوڑائی۔ میرے پتنگ کی مانجھا لگی ڈور کی چرخڑی دیوار پر ایک کیل کے ساتھ ٹنگی ہوئی تھی۔ پتنگ نیچے زمین پر پڑا تھا۔ مجھے لگا جیسے پتنگ کو شاید ہوا کے ایک نا دیدہ جھونکے نے اڑا دیا ہو اور وہ میرے پاؤں کے پاس آ گرا ہو۔ لیکن نہیں، پتنگ تو وہیں پڑا تھا، ہوا کے جھونکے نے اسے ہلا دیا تھا اور وہ پھڑپھڑا کر کچھ کہہ رہا تھا۔ پتنگ کی بولی صرف میں ہی سمجھ سکتا تھا، کوئی اور نہیں۔ وہ کہہ رہا تھا، ’’وہاں بھی تو میں نے ہی دوسرے پتنگ بازوں کے بو کاٹے کرنے ہیں۔ مجھے کیسے نہیں لے جاؤ گے۔ نہیں لے جاؤ گے، تو میں خود اُڑ کر آ جاؤں گا۔ ‘‘

میں نے اتنی ہوشیاری ضرور کی تھی کہ گلی کو اور آدھے درجن بنٹوں کو اپنے کپڑوں والے بکس میں چھپا دیا تھا، لیکن ڈور کی چرخڑی بہت بڑی تھی اور جب مجھے اس کے لیے کوئی جگہ نہ ملی تو میں نے دادی کی منت سماجت کی، لیکن دادی۔ جس نے زندگی میں کبھی غصہ نہیں کیا تھا، کبھی اونچی بولی تک نہیں تھی، کہنے لگی، ’’مجھے یہیں چھوڑ جاؤ بیٹے، اور میری جگہ اپنی اس ڈور کو لے جاؤ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں، قسمت کی ماری بدھوا، آج تک میں نے کوٹ سارنگ سے پاؤں باہر نہیں نکالا۔ صرف ایک بار کلر کہار کے کٹاس راج میلے پر گئی تھی، گھوڑی پر بیٹھ کر، پر تب تمہارے دادا زندہ تھے، پٹھان ڈاکوؤں نے انہیں گولی سے نہیں مارا تھا۔ اب میری مٹی کیوں خراب کر رہا ہے تمہارا باپ؟ اس سے پوچھو، مجھے نوشہرہ ساتھ لے جانے کی کیا ضرورت ہے ؟ مجھے یہیں چھوڑ جاؤ۔ گھر ہے، اناج ہے، گائے ہے، ان سب کی نگہبانی کون کرے گا۔ ‘‘

اور میں نے واقعی ہمت کر کے ماں سے بات کی۔ بابو جی سے بات کرنے کی جرأ ماں نے کہا۔   jnowN ny s ki faul fraom ki

عجاز عبیدت مجھ میں نہیں تھی۔ ماں اور بابو جی کے بیچ کچھ کہا سنی بھی ہوئی، لیکن آخر یہی طے ہوا، کہ بے بے یعنی دادی ماں کو کوٹ سارنگ میں ہی رہنے دیا جائے۔ ان کی ست سنگنی دوسری عورتیں بھی ہیں، روز آ جایا کریں گی اور چرخوں کا ’’بھنڈار‘‘ لگایا کریں گی۔ یعنی مل جل کر پانچ چھہ عورتیں اپنے اپنے چرخوں پر سوت کاتیں گی اور بعد میں دیکھیں گی، کس نے زیادہ سوت کاتا ہے۔

دوسرے دن انہیں لاری پر لد کر پنڈی گھیب کے لیے روانہ ہونا تھا۔ مجھے بتایا گیا تھا کہ وہ پنڈی گھیب سے بس بدل کربسال جائیں گے، اور وہاں سے ریل گاڑی پکڑیں گے جو انہیں نوشہرہ تک لے جائے گی۔ میں نے ریل گاڑی کبھی دیکھی نہیں تھی، تو بھی اس کی تصویریں ضرور دیکھی تھیں۔ میں جانتا تھا کہ بھاپ سے چلتی ہے اور کوئلہ انجن میں رکھے ہوئے پانی کے ایک ٹینک کو لگاتار ابالتا رہتا ہے، جس سے بھاپ بنتی ہے۔

 

کہاں جا رہے ہو؟

________________________________________

 

’’کہاں جا رہے ہو؟‘‘

یہ آواز کس کی ہے ؟ کس نے کہا ہے ؟

وہ چاروں طرف دیکھتا ہے کہ کوئی تو ہو گا

مگر اک گھڑی دو گھڑی کے لیے وہ اکیلا ہے گھر میں

سبھی لوگ گاؤں میں سب سے بدا ئی کی خاطر گئے ہیں

’’کہاں جا رہے ہو مجھے چھوڑ کر یوں اکیلا؟‘‘

کوئی تو مخاطب ہے اس سے !

سراسیمہ، تنہا، ذرا سہما سہما، اسے اپنی گونگی زباں جیسے پھر مل گئی ہو

وہ کہتا ہے، ’’جو کوئی بھی ہو نظر آؤ، میں بھی تو دیکھوں !‘‘

’’میں چاروں طرف ہوں تمہارے

مرے دل کے ٹکڑے، مری آل اولاد، بیٹے !

تمہیں کیا مرے دل کی دھڑکن

مرے سانس کا دھیما، کومل سا سرگم

مرے جسم کی عطر آگیں مہک

جیسے صندل کی لکڑی میں بٹنا گھسا ہو۔ ۔ ۔ ۔

مرا کچھ بھی کیا تیرے احساس کو جگمگاتا نہیں، اے مرے دل کے ٹکڑے ؟

میں گھر ہوں، مکاں ہی نہیں، تیرا مسکن ہوں، بیٹے !

مری چھت کے نیچے ہی پیدا ہوا تھا

یہیں تیری نشاۃ اولیٰ نے تجھ کو جگا کر کہا تھا

ذرا آنکھ کھولو، تمہاری ولادت ہوئی ہے !

مگر آج توُ، یوں بدا ہو رہا ہے

کہ جیسے ترا مجھ سے کوئی تعلق نہیں، میرے بچے ؟ ‘‘

سنا اس نے، دیکھا کہ دیوار و در بولتے ہیں

سنا اس نے، دیکھا کہ کمرے کی چھت بولتی ہے

سنا اس نے، دیکھا ہوا سنسناتی ہوئی بولتی ہے

سنا اس نے، دیکھا کہ زینہ اترتی ہوئی دھوپ بھی بولتی ہے

سنا اس نے، دیکھا کہ پنجرے کی مینا پھدکتی ہوئی چیختی ہے، کہاں جا رہے ہو؟

سنا اس نے، دیکھا کہ آنگن کی بیری کی شاخوں میں بیٹھے پرندے

چہکتے نہیں، بس خموشی سے اس کی طرف دیکھتے ہیں !

 

میں نے اپنے کان بند کر لیے۔ میں گھر سے باتیں نہیں کرنا چاہتا تھا۔ مجھے پتہ تھا کہ اگر میں اپنی بہن کو بتاؤں گا کہ میں نے گھر سے باتیں کی ہیں، یا دروازے، دیواروں نے میرے جانے پر اپنا غم ظاہر کیا ہے، یا ہوا نے، دھوپ نے، پنجرے کی مینا نے، پرندوں نے مجھے کوسنے دیے ہیں، تو وہ ہنسے گی، کہے گی، ’’جا، پاگل جھلّے، یہ سب تیرا وہم ہے۔ تُو ہے ہی جھلّا، بیت باز!‘‘۔ لیکن کان بند کرنے کے باوجود میں یہ باتیں اپنے دل میں سنتا رہا۔ گھر مجھ سے بولتا رہا، کبھی پیار سے، کبھی غم سے اور کبھی غصے سے، یہاں تک کہ جب ہم بے بے دادی کو گھر میں چھوڑ کر لاری کے اڈے پر پہنچے تو بھی مجھے مکان کی آوازیں آتی رہیں۔ اب ان آوازوں میں گلی کی آواز بھی شامل ہو گئی تھی، گلی میں جس میں گلی ڈنڈا کھیلتا تھا، گلی جس کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک ’’چور سپاہی بھاگم بھاگ ۔ نپا گیا اے کالا ناگ‘‘ میں اپنے دوستوں کے ساتھ شام کے جھٹپٹے میں کھیلتا تھا اور ایسی ایسی چھپنے کی جگہیں تاڑ رکھی تھی کہ بہت کوشش کے بعد جب پکڑنے والا مجھے نہ پکڑ پاتا اور کہتا، ’’نکل آ چور ۔ میں نے دیا چھوڑ!‘‘ تب میں ایک فاتح کی طرح کھلکھلاتا ہوا اپنی چھپنے کی جگہ سے باہر آتا تھا۔ اس گلی کی آواز بھی اب مکان کے دروازوں، دیواروں، سیڑھیوں کی آوازوں میں شامل ہو گئی تھی۔

دوسرے دن ہم سب لاری پر لد کر پنڈی گھیب کے لیے روانہ ہوئے۔ سارا سامان بابو جی کے جان پہچان کے لوگوں نے لاری کی چھت پر اطمینان سے باندھ دیا تھا۔ پنڈی گھیب سے بس بدل کر ہمیں بسال جانا تھا، اور وہاں سے ریل گاڑی پکڑنی تھی جس میں ہمیں نوشہرہ تک جانا تھا۔ لاری چلی۔ کچی سڑک پر جھک جھک جھکولے کھاتی ہوئی لاری گھیبا بس سروس والوں کی تھی، جو دن میں ایک بار کوٹ سارنگ سے گذرتی تھی۔

بسال سے چلی ہوئی یہ ریل گاڑی راولپنڈی تک جاتی تھی، لیکن راستے میں ہی گاڑی بدل کر نوشہرہ اور پشاور تک جایا جا سکتا تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جوں جوں بس پنڈی گھیب کی جانب بڑھتی گئی، گھر اور گلی کی آوازیں مدھم پڑتی گئیں۔ میں بھی لاری سے باہر کے نظاروں میں کھو گیا، یہاں تک کہ آوازیں بالکل بند ہو گئیں۔ جیسے کسی نے گراموفون کے ریکارڈ سے سوئی اٹھا لی ہو۔ لگ بھگ ایک گھنٹے میں ہی لاری پنڈی گھیب پہنچ گئی اور ہم بسال جانے والی لاری کا انتظار کرنے لگے۔

تب پہلی بار دس برس کے بچے یعنی مجھے یہ غیر مرئی طور پر محسوس ہوا کہ یہ سفر ہجرتوں کے ایک لمبے سلسلے کی ابتدا ہے۔ میں کوٹ سارنگ آتا جاتا رہوں گا، لیکن اب میں پردیسی ہو چکا ہوں۔ اس گھر تک، اس گلی تک اور کوٹ سارنگ تک میرا رشتہ ایک ڈور سے بندھا ہوا ہے، جس کے آگے گانٹھ پڑی ہوئی ہے۔ اب میں کوٹ سارنگ نہیں رہ سکتا۔ مجھے آگے پڑھنا ہے۔ دسویں جماعت سے آگے کیا ہوتا ہے، اس کا مجھے علم تھا کیوں کہ میرے بابو جی بی اے، ایل ایل بی، پڑھ کر پلیڈر یعنی وکیل بن چکے تھے۔ میرے دو ماموں جان بھی وکیل تھے، اور حالانکہ میرے نانا صرف میٹرک تک پڑھے ہوئے تھے تو بھی وہ نائب تحصیلدار تھے۔ پڑھنا میرا مستقبل ہے، گلی ڈنڈا، بنٹے، پتنگ بازی، چور سپاہی کا کھیل میرا ماضی ہے۔ مستقبل، ماضی وغیرہ جبڑا توڑ لفظوں کا تو مجھے پہلے ہی پتہ تھا، کیونکہ پانچویں جماعت تک ہی میں نے گھر میں پڑی ہوئی کتابیں، جن میں کچھ ناول بھی تھے اور افقؔ لکھنوی کی راماین بھی شامل تھی، پڑھ لئے تھے اور اردو میں تو میں اپنی جماعت میں ہمیشہ اوّل آیا کرتا تھا۔ گھر چھوڑ کر دور دراز کے شہروں میں ’’کھٹّیاں کمائیاں ‘‘ کرنے کے لیے جانے والے مردوں کے فراق میں ان کی بیویوں یا محبوباؤں کے لوک گیت بھی سن رکھے تھے جو مراثی عورتیں گایا کرتی تھیں۔

’’کتھے گیوں پردیسیا، وے !‘‘ (میرے پردیسی ساجن، تم کہاں چلے گئے ہو؟‘‘)

’’چن پردیسی، ترکھی ترکھی آویں۔ ساڈی جند ڑی نا ترساویں !‘‘ (میرے پردیسی چاند، جلدی لوٹ آنا، میری جان نہ تڑپانا!‘‘)

’’چن ماہی، توں جے گیوں پشور۔ ساڈا بلدا اے ہوٹا ہور‘‘ (چن ماہی، تو اگر پشاور جائے تو میرا دل (ہجر میں )کچھ زیادہ جلتا ہے )

’’چن ماہی، توں جے گیوں کوہاٹ۔ ساڈی بلدی اے جند دی لاٹ(چن ماہی، تو اگر کوہاٹ جائے تو میری جان مشعل کی طرح جلتی ہے )

’’چن ماہی، توں جے گیوں لورا لائی۔ ساڈی جان عذابیں آئی۔ ( چن ماہی، تو اگر لورا لائی جائے تو میری جان عذاب میں آ جاتی ہے )

٭٭

 

۱۹۴۷ء تک

________________________________________

 

نوشہرہ ایک برس، پھر دو برس راولپنڈی، پھر ایک برس نوشہرہ اور پھر آخری دو برس راولپنڈی۔ ۔ ۔ ۔ اس طرح یہ ہجرتوں کا سلسلہ جاری رہا۔ تین برسوں کے اس عرصے کے دوران وہ کوٹ سارنگ وہ صرف دو بار جا سکا، ایک بار بابو جی کے ساتھ بے بے کو نوشہرہ لانے کے لیے، کیوں کہ اکیلی وہ بیمار پڑ گئی تھی اور دوسری بار پوری گرمیوں کی چھٹیاں گذارنے کے لیے۔ میرے دل میں ارمان تو بہت تھے کہ میں اپنے پرانے دنوں کی یاد تازہ کروں گا، گلی ڈنڈی کھیلوں گا، پتنگ اڑاؤں گا، جھیل کے کنارے پر بیٹھ کر مرغابیوں کو دیکھوں گا، اور ان کی آواز کے ساتھ اپنی آواز ملاؤں گا، لیکن کیا ہو گیا تھا مجھے ؟ میں ان میں سے کچھ بھی نہ کر سکا۔ ان تین چار برسوں میں شاید میں چالیس برس بڑا ہو گیا تھا۔ میں نے نوشہرہ اور راولپنڈی میں کئی نئے روگ پال لیے تھے۔ ایک تو ڈاک کی پرانی ٹکٹیں اور پرانے سکے جمع کرنے کا تھا، اور دوسرا اردو کے قسم قسم کے رسالے اور ناول پڑھنے کا۔ ایم اسلم کے رومانی اور دیگر ناول نگاروں کے سماجی ناولوں سے لے کر تیرتھ رام فیروز پوری کے جاسوسی ناولوں تک، اور رسالوں میں ’’لطف شباب‘‘، ’’مست قلندر‘‘، مستانہ جو گی‘‘ وغیرہ میرے محبوب وقت کاٹنے کے ذریعے تھے۔ ، میں خود بھی شعر کہنے لگا تھا، مختصرافسانے لکھنے لگا تھا اور کئی رسالوں میں میری نگارشات چھپنے لگی تھیں۔ میرے دوسرے پرانے دوست اسی طرح ہی گاؤں چھوڑ کر دور دراز کے شہروں میں منتقل ہو گئے تھے۔ اور مجھے اب گاؤں میں زیادہ دلچسپی اپنے آپ میں تھی۔ کئی بار بوڑھے فلسفیوں کی طرح گھنٹوں بیٹھ کر انسان کے وجود، جسم اور روح کے باہمی تعلق، پیدائش سے پہلے اور موت کے بعد کیا ہوتا ہے، آوا گون اور شہود الاصل کے ہندو فلسفے، اسلام کی وحدانیت اور ایرانی تصوف اور ہندو بھگتی تحریک میں موافقت کے پہلوؤں پر غور کرتا۔ میرے بابو جی اکثر کہتے، یہ جتنی دیر پڑھتا ہے اس کے بعد اس سے دگنی دیر بیٹھ کر ’ذہنی جگالی‘ کرتا ہے۔ میرا ایک اور مرغوب ترین مشغلہ بے بے کے پاس بیٹھ کر اس سے اپنے بزرگوں، باپ، دادا، پردادا، اور ان کے باپ دادا، پردادا کے بارے میں، جتنا مجھے یاد تھا، پوچھنا اور پھر اپنی ڈائری میں اسے نوٹ کرنے کا تھا۔ یہ کام میں بہت دلچسپی اور سائینسی ڈھنگ سے کرتا تھا، یعنی چارٹ اور گراف بنا کر سلسلہ در سلسلہ شجرہ نسب بناتا تھا۔ مجھے کچھ باتوں کا علم چاچا بیلی سے بھی ہوا، جو اس سے اخبار پڑھوا کر سنتا تھا۔ یہ اخبار لاہور یا شاید راولپنڈی سے چھپتا تھا اور گاؤں پہنچتے پہنچتے اسے پندرہ دن لگ جاتے تھے۔

چاچا بیلی کی پنساری کی دکان کے تھڑے پر بیٹھ کر اخبار میں سے دوسری جنگ عظیم کی خبریں آس پاس بیٹھے ہوئے سودا سلف خریدنے آئے ہوئے جاٹوں اور دیگر دکانداروں کو سناتا، تو سارے اس سے پوچھتے یہ فرانس کہاں ہے، نار منڈی میں کیا ناریوں کی منڈیاں لگتی ہیں، چرچل اور ہٹلر دو اچھے انسانوں کی طرح بیٹھ کر فیصلہ ہی کیوں نہیں کر لیتے۔ جنگ کی آخر نوبت ہی کیوں آئے، جیسے گاؤں میں بھی چار بزرگ اکٹھے بیٹھ کر جھگڑوں کا فیصلہ کر دیتے ہیں، جو سب کو قابل قبول ہوتا ہے۔ کیوں نہیں وہ مہاتما گاندھی سے کہتے کہ آ کر ہمارا آپس کا جھگڑا نپٹا دے۔ ۔ ۔

چاچا بیلی اپنے خاندان کے بارے میں بہت کچھ جانتا تھا، کیسے ہمارے ہی قبیلے کے پرکھوں میں ایک راجہ پورس ہوا کرتا تھا جس نے سکندر اعظم کا مقابلہ کیا تھا۔ چاچا بیلی نے ہی مجھے بتایا تھا کہ ان کے قبیلے کا نام ہندوؤں میں ’’کھُکھرائن‘‘ ہے اور مسلمانوں میں ’’ کھوکھر‘‘ ہے۔ پہلے سبھی ہندو تھے، جنہوں نے دین اسلام قبول کر لیا وہ تو کھوکھر ہی کہلاتے رہے لیکن ایک شاخ جس نے اسلام نہیں قبول کیا تھا، وہ کھُکھرائن کہلائی۔ ۔ ۔ میں بیٹھ کر اپنی میٹرک کی تاریخ کی کتابوں کو پھر کھنگالتا۔ تو میرے پرکھوں میں ہی وہ بہادر راجہ پورس تھا جس نے سکندر کو للکارا تھا اور حالانکہ شکست کھائی تھی تو بھی جب زخمی حالت میں سکندر کے سامنے پا بجولاں اس کو پیش کیا گیا تھا، تو سکندرنے اس سے پوچھا تھا، ’’بول راجہ، تیرے ساتھ کیا سلوک کیا جائے ؟‘‘ مورخ لکھتے ہیں کہ ایک کٹے ہوئے ہاتھ اور پھوٹی ہوئی ایک آنکھ جو بہہ کر اس کے گال تک آ گئی تھی، اور لا تعداد زخموں کے باوجود اس نے سر اٹھا کر بلند آواز میں کہا تھا، ’’وہی جو ایک بادشاہ دوسرے بادشاہ کے ساتھ کرتا ہے !‘‘ کہاوت ہے کہ سکندر کو یہ جواب اور پورس کی بہادری اتنی پسند آئی تھی کہ اس نے دریائے سندھ کے جنوبی علاقے کو ایک بار پھر پورس کے حوالے کر دیا تھا۔ یونانی مورخ بوتنوسؔ لکھتا ہے، کہ اس بیچ میں سکندر کے فوجیوں نے دریائے سندھ سے آگے جانے سے انکار کر دیا تھا اور یہ بھی ایک وجہ پورس کو اس کا علاقہ لوٹانے کی تھی کہ وہ واپس بحیرہ عرب تک سندھ کے راستے نئی بنائی گئی کشتیوں میں سوار ہو کر جانے میں اس کی امداد کرے۔

مجھے گھر میں ہی پڑی ہوئی دادا جی کے وقت کے کچھ بہی کھاتے لال رنگ کے کپڑے میں مڑھے ہوئے مل گئے جن میں میرے دادا جی نے اپنے خاندان کی پوری تاریخ تا حال یعنی انیسویں صدی کے آخر تک لکھ رکھی تھی۔ ان بہی کھاتوں میں لکھا ہوا تھا کہ سکندر کے بیس ہزار فوجی تین سال تک یہ کشتیاں گھڑتے گھڑتے راجہ پورسؔ اور راجہ امبھیؔ کی سلطنتوں میں رہتے ہوئے کھوکھر قبیلے کی کئی عورتوں سے گھل مل گئے تھے اور ان میں سے نصف کی تعداد نے سکندر کے ساتھ واپس جانے سے انکار کر دیا کیونکہ اس بیچ میں وہ بچوں کے باپ بن چکے تھے اور روزانہ کی جنگ، خونریزی اور لوٹ مار سے تنگ آ کر اپنی زندگی ہندوستان میں ہی رہ کر کاٹنا چاہتے تھے۔ اس کے دادا جی نے لکھا تھا، ’’کسے علم ہے، ہم کھوکھروں یا کھُکھرائینوں کی رگوں میں کتنا خون ان یونانی فوجیوں کا ہے۔ ‘‘ ان بہی کھاتوں کے خزانے سے مجھے کئی اور باتوں کا پتہ چلا کہ سکھوں کے راج کے زمانے میں ہمارے ہی پرکھوں نے کابل تک فوج کشی کرتے ہوئے سکھوں کے فوجی دستے کی رسد کا انتظام اپنے ذمّے لیا تھا جس سے انہیں ’’امیر رسد‘‘ کا خطاب ملا تھا۔ میں بیٹھا بیٹھا اس قسم کی ذہنی جگالی کرتا رہتا۔ اور اپنے پرکھوں کے بارے میں سوچتا رہتا۔ پھر مجھے خیال آیا کہ میں گاؤں کے ایک اور بزرگ منشی تیرتھ رام سبھروال سے پوچھوں، جو خود نوّے برس کا تھا اور اپنے وقتوں میں تحصیلدار تلہ گنگ کا منشی مال رہ چکا تھا۔ تیرتھ رام نے مجھے کچھ اور واقفیت دی کہ کھُکھرائن قبیلے کی ہندو ذاتوں میں آنند، سیٹھی، ساہنی، سبھروال، چڈھا، کھنہ(اس نے صحیح تلفظ ’’خناح‘‘ بتایا جو کہ ایک یونانی لفظ ہے ) پیش پیش تھیں، یہی ذاتیں مسلم کھوکھروں میں آج تک موجود ہیں۔ ایک بہی میں کوٹ سارنگ کے آس پاس کے گاؤں اور ان میں بسے ہوئے قبیلوں کی تفصیل بھی دی گئی تھی۔ ملکوال گاؤں کے بارے میں لکھا تھا کہ وہاں بسنے والے سارے کھوکھر آنند تھے لیکن جب اورنگ زیب کے زمانے میں انہوں نے مجموعی طور پر اسلام قبول کیا تو انہیں جاگیر کے طور پر آس پاس کی زمین دی گئی اور انہوں نے خود کو ’ملک‘ کہلانا پسند کیا۔ تبھی کئی ہندو’ آنند‘ بھی خود کو’ ملک‘ لکھنا زیادہ پسند کرتے ہیں۔ یہ چودہ پندرہ برس کے بچے کے لیے ایک تازیانہ تھا کہ وہ خود سے پوچھے کہ وہ کون ہے ؟ اس میں کتنا خون خالصتاً ہندوستانی ہے، کتنا یونانی ہے اور کتنا ان پٹھان حملہ آوروں کا ہے، جو فوج کشی کرنے کے بعد پہلا کام عورتوں کی عزت لوٹنے کا کیا کرتے تھے۔ میں کئی سوال خود سے ہی کرتا رہتا اور ان کے جواب سوچتا رہتا۔ بقول میرے بابو جی یعنی والد صاحبؔ ؔست پال کا کام ذہنی جگالی‘ کا ہے ‘‘، یہ درست بھی تھا کہ میری ذہنی جگالی نے مجھے شاعری، مختصر افسانہ نگاری، ناولوں، رسالوں اور متفرق کتابوں کے مطالعہ میں چار پانچ برسوں تک الجھائے رکھا۔

 

سیلف پورٹریٹ

________________________________________

 

پچاس سے ساٹھ تک؟ ذرا اس سے کم، زیادہ؟

نہیں، غلط ہے

کہ عمر تو داخلی تصّور ہے۔ ۔ ۔ ۔ اور برسوں میں ناپنا تو

حساب دانی ہے۔ ۔ ۔ ۔ اور وہ دیکھنے میں اب بھی

جوان لگتا ہے، صرف چالیس کا یا اس سے

ذرا زیادہ!

 

کبھی کبھی جب وہ اپنے چہرے کو آئینے کی

صبیح نظروں سے دیکھتا ہے

تو اس کو لگتا ہے، اس کی آنکھیں

تو اس کی ماں کی ہیں، ہاں، وہی ہیں

بڑی بڑی سی، سیہ حلقے سے، رت جگوں کی

تھکاوٹوں کے دبیز پردوں

کی دھند میں نیم وا خمیدہ نظر کی خفگی

جو ڈھلتی جاتی ہے گرم اشکوں

کی شفقتوں سے کھلے گلوں میں !

 

کشادہ، روشن جبیں اسے باپ سے ملی ہے

مدبّرانہ، تعقل و ہوش کی علامت

عمیق، دانشوری کی برّاق جھیل جیسی

سیاہ، کچھ کچھ سپید، روکھے

بریدہ بالوں کا ایک گچھا

جو سر جھٹکنے سے صاف، روشن جبیں کو اپنے

بکھرتے بادل کے ایک جھرمٹ سے ڈھانپ دیتا ہے۔ ۔ ۔

تیز نظریں

دبیز شیشوں کو چیر کر جیسے پار ہوتی ہوئی نگاہیں

 

وہ اپنے چہرے کے خال و خد میں

ہزاروں چہروں کی بنتی مٹتی ہوئی شبیہوں کو دیکھتا ہے

وہ نقش جو سالہا سال سے وراثت کی بوریوں میں بندھے ہوئے تھے

جو پشتہا پشت اس کا ورثہ رہے ہیں، اس کے

وجود میں جذب ہو گئے ہیں

وہ کچھ نیا ہے، تو کچھ پرانا!

 

پچاس سے ساٹھ ؟ اور آگے ؟

نہیں، غلط ہے، وہ دیکھنے میں

جوان لگتا ہے، صرف چالیس کا، یا اس سے

ذرا زیادہ!

٭٭٭

 

 

 

 

۴۷۔ ۱۹۴۵ء

________________________________________

 

راولپنڈی۔ چوک روز سنیما کا۔ ایک سڑک راجہ بازار بنتی ہے۔ ایک سڑک ریلوے اسٹیشن کی طرف کو الٹا رخ کیے ہوئے ہے۔ تیسری سڑک سول اسپتال کی چار دیواری کے ساتھ ساتھ رینگتی ہوئی نیچے لئی نالہ کے پل کو پار کر کے ڈھوک رتّہ تک جاتی ہے، لیکن راستے میں یہ دو ہندو محلوں، نانک پورہ اور موہن پورہ کے ساتھ ساتھ گذرتی ہے۔ اس بات سے یہاں یہ مطلب نہیں کہ میں رہتا موہن پورہ میں ہوں، بلکہ اس بات سے ہے کہ میں پڑھتا مشن ہائی اسکول میں ہوں، جو چوتھی سڑک کے کنارے پر واقع ہے یہ سڑک باغ کے ساتھ ساتھ ہوتی ہوئی گورڈن کالج تک جاتی ہے۔

 

گورڈن کالج؟

________________________________________

 

جی ہاں، گورڈن کالج، جس میں دو برسوں کے بعد میں داخلے کے خواب دیکھتا ہوں۔ گورڈن کالج جس میں منشی تلوک چند محروم اسی برس اپنی ہیڈ ماسٹر کی نوکری سے ریٹائر ہو کر اردو کے پروفیسر کے طور پر تعینات ہوئے ہیں، اور جن سے ملنے کے لیے میں کئی بار وہاں جا چکا ہوں۔ مجھے یاد ہے کہ میں ڈی اے وی کالج کے ایک مشاعرے میں نیچے دریوں پر بیٹھے ہوئے سامعین کے ساتھ شعرا کا کلام سن رہا تھا، کہ ساتھ بیٹھے ہوئے ایک کالج طالبعلم نے کہا وہ سامنے کلاہ اور لنگی پہنے ہوئے جو صاحب صدر کی کرسی پر بیٹھے ہیں، وہ تلوک چند محروم ہیں، یعنی وہی تلوک چند محروم، جن کی نظم ’’نور جہان کے مزار پر‘‘ ہمارے نصاب کی کتاب ’’مرقع ادب‘‘ میں شامل ہے۔

مجھے یہ بھی یاد ہے کہ جب کرتا شلوار اور واسکٹ پہنے ہوئے ایک نوجوان شاعر مائکروفون پر آئے تو اسی کالج طالبعلم نے کہا، ’’یہ جگن ناتھ آزاد ہیں، محروم صاحب کے بیٹے۔ ‘‘

مجھے یہ بھی یاد ہے کہ جگن ناتھ آزاد کے سرائیکی لہجے کی وجہ سے مجھے بدقت ان کا کلام ہضم کرنا پڑا، یعنی نویں کلاس کا طالبعلم ہونے کے باوجود مجھے اس بات کا خاص خیال تھا کہ شاعر کے لیے اردو کا لب و لہجہ ہونا ضروری ہے۔ بہر حال میں نے اس بات کی پروا نہیں کی کہ جب میں کسی شعر پر داد دیتا تو لوگ میری کچی بلوغت کی آواز سن کر مڑ کر میری طرف دیکھتے۔

تو گورڈن کالج؟

لیکن گورڈن کالج کی بات کچھ بعد میں۔ پہلے مشن ہائی اسکول کی یادوں کا بستہ کھول لیا جائے، تا کہ راستہ ہموار ہو جائے۔

نویں کلاس کے دو سیکشن تھے اور میں سیکشن اے میں تھا۔ بنچ پرانے تھے لیکن ہر سال نئے لڑکے ان پر بیٹھتے تھے۔ کچھ پر چاقوؤں کی نوکوں سے الم غلم کھدا ہوا تھا، ایسے لگتا تھا جیسے ہر سال لڑکے بودھ غاروں میں بھکشوؤں کی طرح اپنی یادیں کندہ کر کے یہ یقینی بناتے تھے کہ آنے والے برسوں میں نئے لڑکے ان سے مستفید ہوں۔

ایک لڑکا اور تھا۔ خلیل، جسے سب خلیلا بلاتے تھے۔ خلیل اور میں دونوں دوست اس لیے بن گئے کہ دونوں کو فارسی میں بات چیت کرنے کا ہنر آتا تھا، اور یہ ہر کسی کے بس کی بات نہیں تھی۔

’’کجا می روی؟‘‘

’’مدرسہ می روم‘‘

یہ سوال و جواب اس لیے ضروری تھے کہ سالانہ جلسۂ انعامات میں ان دو لڑکوں کو، یعنی مجھے اور خلیل کو اسٹیج پر کھڑا کر کے سوال و جواب کا تماشہ دہرایا جاتا تھا اور لڑکوں کے والدین جو خاص طور پر مدعو کیے جاتے تھے یہ دیکھ کر دانتوں میں انگلی دبا لیتے تھے کہ تیرہ چودہ برس کے دو لڑکے فارسی میں گفتگو کر رہے ہیں۔ انہیں یہ علم نہیں تھا کہ دس بارہ سوالات اور ان کے جوابات کو حفظ کر کے یہ ڈرامہ کرنا کوئی مشکل امر نہیں تھا۔

لیکن جہاں خلیل صرف اپنے حافظے کی وجہ سے اس ڈرامے میں شریک تھا، وہاں میں خود واقعی فارسی میں مہارت رکھتا تھا۔ میں نے یہ صلاحیت ان کتابوں کی وجہ سے پائی تھی جو میرے گھر میں موجود تھیں۔ میرے ایک چچا ایران میں خشک میوے کا بیوپار کرتے تھے اور جب بھی وہ واپس آتے اپنے ساتھ فارسی کی دسیوں کتابیں لے آتے، جو میری چچی سنبھال کر رکھ لیتی۔ میں نے یہ کتابیں کھنگال لی تھیں اور کئی بار جب میں اپنے فارسی کے ماسٹر نذیر احمد صاحب سے سعدی یا رومی یا شمس تبریز کے بارے میں کچھ پوچھتا تو وہ بھی حیران رہ جاتے۔

طبیعت میں روانی کا یہ عالم تھا کہ اردو میں تو عموماً ہی، لیکن فارسی میں بھی فی البدیہہ اشعار موزوں کرنے میں مجھے کوئی دشواری پیش نہیں آتی تھی۔ اس کا فائدہ خود ماسٹر نذیر احمد اٹھاتے، یعنی انسپکٹر کے آنے پر وہ مجھے کھڑا کر دیتے اور فارسی کا ایک مصرع دے کر اس پر گرہ لگانے کے لیے کہتے۔

مجھے اب تک اپنی لگائی ہوئی ایک گرہ یاد ہے۔ ماسٹر صاحب نے فارسی کا مشہور زبان زد عام مصرع دیا تھا۔ ’’عشق اول در دل معشوق پیدا می شود‘‘، اور میں نے گرہ لگائی تھی، ’’عاشقاں را بر سبیل تذکرہ رسوا مکن!‘‘، یعنی گرہ، قاعدے کے بر عکس شعر کے مصرع اولیٰ کے طور پر لگائی گئی تھی جو کہ ایک جدت تھی۔

تو مشن اسکول اور اس کی جغرافیائی قربت کی وجہ سے گورڈن کالج اور منشی تلوک چند محروم سے ملاقاتیں اور ان کی شفقت۔ ۔ ۔ ۔ ۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے