نیرو کا روم ۔۔۔ وشنو ناگر/ اسنیٰ بدر

(ہندی)

 

جب روم جل رہا تھا

نیرو کے ہاتھ میں تھی

اک بانسری سریلی

 

میں نے بھی تان دی تھی،

’’کیا بات میرے آقا!‘‘

 

جب روم جل رہا تھا

 

نیرو جلا رہا  تھا

چُن کر غریب رومن

جسموں کی مشعلوں سے

کرتا تھا شہر روشن

آہ و فغاں  بھلا کر

اور بھول کر تعفن

 

میزیں لگی ہوئی تھیں

کھانا چنا ہوا تھا

مَیں تھا

جو لطف اس کا

بڑھ چڑھ کے لوٹتا تھا

وہ میں ہی تھا جواباً

جو اس سے کہہ رہا تھا،

’’کیا بات میرے آقا!‘‘

 

سالوں گزر چکے ہیں

کچھ دو ہزار شاید

بھولا نہیں ہوں کچھ بھی

میں سن رہا ہوں اب بھی

نیرو کی بانسری کو

ویسی ہی پلیٹ چمچے

ویسی ہی روشنی ہے

ہر سُو ہماہمی   ہے

حاکم بھی پوچھتا ہے،

’’کیسا ہے جشن یاراں؟

سب ٹھیک ٹھاک ہے نا؟؟

کچھ اور کھائیے گا…

کچھ اور پیجيئے گا…‘‘

 

نیرو کی زندگی میں

مرنا نہیں ہے یارو

اور لوگ وہ بھی دائم

شامل ہیں جشن میں جو

 

پورا نہیں جلا ہے

کچھ روم بچ گیا ہے

میرا بھی گھر ہے باقی

تھوڑی کسر ہے باقی

 

لوگ اور آ رہے ہیں

تن کو بنائے  مشعل

بجھنے کو اور چہرے

سجنے کو اور مقتل

 

قائم رہے گی یونہی

تقریب دوسری بھی

محفل کو رنگ دے گی

نیرو کی بانسری بھی

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے