عشق کرنے کا مزہ ہی کچھ ہے ۔۔۔ انور شمیم

(گلزار کے لیے ایک نظم)

 

سہل ہوتے ہوئے، پنہاں،

وہ عیاں ہے جتنا

کرۂ ارض و سماں گھیرتا ہے

اور نقطے میں سمٹتا ہے

تو کھو جاتا ہے

اپنی ہی کاہکشاں وسعت میں

خوب صورت

کہ جو آنکھوں کو بھلی لگتی ہے

جیسے وہ خواب ہمارے ہوں میاں!

خوب صورت سی زمیں

آسماں تاروں بھرا

سانس بھر امن و سکوں

باغ بھر چین و اماں

عشق کرنے کا مزہ ہی کچھ ہے

دشت لیلیٰ ہو

کہ مٹی کا گھڑا

یا کہ ٹھہری سی کسی رات میں

ٹھہرا سا سمے

یا بہت گہرے جمی

اپنی جڑوں کے غم سے

عشق کرنے کا مزہ ہی کچھ ہے

بات کہنے کا سلیقہ کیا ہے

کسی فٹ پاتھ سے چنتا ہے لہو کے قطرے

ساحلی ریت سے سیپی چن کر

نظم کی سانس بنا دیتا ہے

آئینہ توڑ کے تصویریں نکل آتی ہیں!!

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے