فٹ بال ۔۔۔ پدما سچدیو / عامر صدیقی

 

(ڈوگری)

 

 

کوئی دس برس ہوئے ہوں گے۔ جب میرا تبادلہ سرینگر ہوا تھا۔ جموں کے اسکولوں میں موسمِ گرما کی تعطیلات چل رہی تھیں۔ میری بیوی اور میرے دونوں بیٹے بھی، میرے ساتھ ہی سرینگر آئے ہوئے تھے۔ انہی دنوں میرے بیٹے کی، جو کہ چھٹی جماعت کا طالب علم تھا، سالگرہ آ گئی۔ ایک دن پہلے میں نے اس سے پوچھا۔

’’تمہیں اس سالگرہ پر کیا چاہئے؟‘‘

اس نے پٹ سے کہا، ’’پاپا بیٹ اور بال۔‘‘

یہ سنتے ہی چوتھی جماعت کے طالب علم، میرے چھوٹے بیٹے نے کہا، ’’مجھے بھی بیٹ اور بال چاہئے۔‘‘

’’اچھا اچھا، کل شام تم دونوں کو بازار لے چلوں گا۔‘‘ میں نے وعدہ کیا۔

سرینگر میں یہ میری پہلی پوسٹنگ تھی۔ میں دکانوں اور بازاروں کے بارے میں زیادہ نہ جانتا تھا۔ دوسرے دن میں نے، اپنے بچپن کے دوست مدن سے، کھیل کے سامان والی دکانوں کے بارے میں معلومات لیں۔

اس نے کہا، ’’اس کی تو بالکل پاس میں ہی دکان ہے۔ بڈشاہ چوک سے مایسوما بازار میں گھستے ہی دائیں ہاتھ کی دوسری گلی میں، امین کی کھیلوں کے سامان کی دکان ہے۔ تم نے کون سا ٹیسٹ میچ کے لئے سامان لینا ہے۔ بچوں کیلئے وہاں سب کچھ مل جاتا ہے۔‘‘

پھر وہ تھوڑا سا رکا اور ہنستے ہوئے کہنے لگا، ’’تمہیں یاد ہے وہ محمد امین، جب ہم نویں یا دسویں جماعت کے طالب علم تھے، تو پریڈ گراؤنڈ میں اس کا کوئی بھی میچ نہیں چھوڑتے تھے۔‘‘

میں یاد کرنے لگا، وہ پھر بولا، ’’یار تم تو فٹ بال کھیلتے تھے۔ تم کہتے نہیں تھے کہ ایک دن میں بھی امین کی طرح صرف جموں و کشمیر کا ہی نہیں، بلکہ سارے ہندوستان کا ٹاپ کا کھلاڑی بن کر دکھاؤں گا، کچھ یاد آیا؟‘‘

مجھے اب سب کچھ یاد آ گیا۔ میں آج بھی فٹ بال کو اور امین کو، اپنے خیالوں سے الگ نہیں کر پایا تھا۔

اوسط قد کا چوڑا چکلا، بھاری سا امین، لیفٹ آؤٹ پوزیشن پر کھیلتے ہوئے، جب گیند کے پیچھے بھاگتا تھا تو، تمام حاضرین میں شور کی ایک لہر اٹھ جاتی تھی۔ سب میں ایک جوش کی، ایک امید کی لہر ابھرتی تھی کہ اب ضرور کچھ نہ کچھ ہو گا۔ وہ جب فٹ بال کو لے کر دوسری جانب کے کھلاڑیوں کو چکما دے کر، ان کے درمیان سے تیر کی طرح نکلتا تھا تو، میرے اپنے رونگٹے کھڑے ہو جاتے تھے۔ دل تیزی سے دھڑکنے لگتا، سینے میں چھلانگیں لگانے لگتا تھا اور سانس رکتی ہوئی سی معلوم ہوتی تھی۔ اور کبھی جو وہ گول کر دیتا، تو صرف میں ہی نہیں، بلکہ تمام لوگ ہی زور زور سے چلانے لگتے تھے اور پھر مسلسل شور اور تالیاں ۔۔۔ ہماری ٹیم کے باقی کھلاڑی کبھی اسے گلے لگاتے، تو کبھی کندھوں پر اٹھا لیتے۔ اسکول میں، میں لیفٹ آؤٹ کی پوزیشن پر کھیلا کرتا تھا اور صرف سوتے میں ہی نہیں، بلکہ جاگتے ہوئے بھی خواب دیکھتا رہتا تھا کہ میں بڑا ہو کر امین کی طرح فٹ بال کو پاؤں سے دھکیلتے دھکیلتے، اس کوساتھ لئے دوڑتے دوڑتے، لوگوں کے شور اور تحسین بھری آوازوں کے بیچ، دوسری ٹیم کے کھلاڑیوں کے چنگل سے فٹ بال کو نکال کر، ایک آخری زور دار کک مار کر، فٹ بال کو گول کے اندر اندر ڈال دیتا ہوں۔

پھر گیارہویں کلاس میں آتے آتے پڑھائی کی وجہ سے فٹ بال کھیلنا چھوٹ گیا۔ انجینئرنگ کی سیٹ پر نظر تھی، وہ مل بھی گئی۔ انجینئرنگ کالج میں بھی فٹ بال کھیلا، مگر پھر دوبارہ کبھی، وہ نویں دسویں کلاس میں آنے والا فٹ بال کا نشہ میرے دماغ میں نہیں آیا۔ اب تو فٹ بال کو کک لگائے بھی پتہ نہیں کتنے برس گزر گئے ہیں۔

’’ارے کچھ یاد آیا کہ نہیں؟‘‘ مدن امین کے بارے میں پوچھ رہا تھا، ’’کیا سوچ رہا ہے؟‘‘ اس نے مجھے دیکھ کر کہا۔

میں نے کہا، ’’کیا امین بھی کوئی بھولنے کی چیز ہے۔‘‘ یہ جواب دے کر میرے ذہن میں ایک لہر سی اٹھی اور میرے دل و دماغ پر ایک بڑی مسحور کن کک سی لگا گئی۔

دوسرے دن میں اپنے دونوں بچوں کو لئے، مایسوما بازار کی گلی میں گھسا، امین کی دکان تلاش کر رہا تھا۔ گلی تو یہی بتائی تھی مدن نے، کہیں میں غلط گلی میں تو نہیں آ گیا، سوچتا ہوا میں گلی کے سرے سے واپس ہو لیا۔ جب میں گلی کے وسط میں پہنچا، تو میری نظر ایک دکان کے باہر لٹکے ہوئے دو پھسپھسے اور پچکے ہوئے فٹ بالوں اور ایک بیٹ پر پڑی۔ وہ میلے سے فٹ بال اور چھوٹا سا بیٹ وہاں یوں لٹک رہے تھے، جیسے ان کا اس کی دکان کے ساتھ کوئی تعلق ہی نہ ہو۔ یا جیسے کسی نے کئی سال پہلے، انہیں لوگوں کی پہنچ سے دور ٹانگ دیا ہو اور پھر بھول گیا ہو یا پھر کہیں مر کھپ گیا ہو ۔۔۔

یہ امین کی دکان تو نہیں ہو سکتی، یہی سوچ کر میں آگے بڑھتا چلا گیا۔ دکان کے پاس پہنچ کر میں نے ایک بار پھر سرسری اندازسے اس کا جائزہ لیا۔ باہر کئی موسموں اور برسوں کی مار کھائے، پرانے مٹ میلے بورڈ پر پھیکے سے لال رنگ کے لفظوں میں لکھا ہوا تھا۔

’’امین اسپورٹس اسٹور‘‘

میرا دل عجیب سا بوجھ لئے، بھر آیا۔

’’پاپا چلئے نہ، دیر ہو رہی ہے۔ یہاں کتنا گندا ہے؟‘‘ میرا چھوٹا بیٹا میرا بازو پکڑ کر، ہلاتا ہوا کہہ رہا تھا۔ میں بھی دیکھا، کالے سیاہ کیچڑ سے بھری، گلی کی نالیوں میں سے گندا پانی نکل کر، عجیب سی بدبو پھیلا رہا تھا۔

میں نے ایک بار پھر دکان کی طرف دیکھا۔ سامنے ایک طرف میلے چپچپے پلائی کے کاؤنٹر پر پلاسٹک کے مرتبانوں میں ٹوپیاں، سستے چاکلیٹ، چیونگم وغیرہ رکھے تھے۔ اندر نظر گئی، تو مجھے شیلفوں پر سجے کچھ کھلونے بھی نظر آئے۔ کاؤنٹر کے پیچھے کوئی شخص اخبار پڑھ رہا تھا۔

’’آؤ بچو، یہاں دیکھ لیتے ہیں، نہیں تو پھر کسی اور دکان پر چلیں گے۔‘‘ یہ کہتے ہوئے میں نے دکان کی سیڑھیوں پر قدم بڑھائے۔ میرے پیچھے پیچھے میرے بچے بھی بے دلی سے اندر آ گئے۔ دکاندار اخبار پیچھے پھینک کر کھڑا ہو گیا۔ مجھ سے نظر ملا کر کہنے لگا۔ ’’آئیے جی، بتائیے کیا خدمت کروں؟‘‘

’’بیٹ بال۔‘‘ میرا چھوٹا بیٹا تپاک سے بولا۔

’’ابھی دکھاتا ہوں ۔۔۔ آج کل تو سبھی کو کرکٹ کا شوق ہے۔‘‘ یہ کہہ کر وہ دکان کے پچھلے حصے میں چلا گیا، جہاں ایک کونے میں بہت سارے بیٹ دیوار کے سہارے ٹکے ہوئے تھے۔ دکاندار نے خاکی رنگ کا پرانا سا، پر صاف خان سوٹ پہنا ہوا تھا۔ اس کے پاؤں میں نائلون کی چپلیں تھیں۔ یوں لگتا تھا، جیسے اس نے چار پانچ دن سے شیو نہیں بنایا تھا۔ داڑھی کے کافی بال سفید تھے۔ اس کا آدھا سر گنجا تھا۔ میں دل میں سوچ رہا تھا کہ کیا یہی امین ہے۔ نہیں، یہ نہیں ہو سکتا۔ وقت بھی آدمی کو اتنا نہیں بدل سکتا۔

وہ جس زمانے میں میچ کھیلا کرتا تھا، تو میں میچ کے بعد اس کے آگے پیچھے گھومتا رہتا تھا اور اسے کتنی ہی بار دیکھا تھا، بالکل قریب سے۔ پر اب تو اسے دیکھے بھی چوبیس پچیس سال ہو گئے ہیں۔ قد کاٹھی تو وہی ہے، ہو سکتا ہے اس کا بھائی ہو۔ میں سوچتا چلا جا رہا تھا۔

’’یہ لیجئے، سائز دیکھ لیجئے۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے تین چار بیٹ کاؤنٹر پر رکھ دئے۔ دونوں بچے بیٹ پر جھپٹ پڑے اور ایک ایک بیٹ کو پکڑ پکڑ کر آپس میں کھسر پھسر کرنے لگے۔

میں نے پوچھ ہی لیا، ’’معاف کیجیے، کیا آپ پرانے فٹبالر امین صاحب تو نہیں ہیں؟‘‘

’’میں ہی امین ہوں، فرمائیے؟‘‘

مجھے کوئی دھچکا نہیں لگا۔ اب میں ہر صدمے کے لئے تیار تھا۔ میں نے کہا۔‘‘ در اصل آپ مجھے نہیں جانتے، پر اسکول کے دنوں میں، میں آپ کا ہر میچ دیکھتا تھا۔ ۱۹۷۵ء میں ریلویز کے ساتھ جموں و کشمیر کا جو میچ ہوا تھا، وہ تو میں کبھی بھول ہی نہیں سکتا۔‘‘

امین کا چہرہ دمکنے لگا، ’’میں نے اس میچ میں تین گول کئے تھے، تینوں فیلڈ سے، پہلے ہاف میں، ہم دو گول پیچھے تھے۔ واللہ کیا میچ تھا۔۔‘‘ کہتے کہتے وہ رک گیا۔

’’آپ بیٹھیے نہ، وہ آپ کے پیچھے اسٹول پڑا ہے۔‘‘ اس نے اسٹول کی طرف اشارہ کیا۔ میں نے دیکھا، میرے بیٹے اب خود ہی پچھلے کونے میں جا کر، بیٹ والے حصے میں، بیٹ منتخب کر رہے تھے۔

’’امین انکل، ایک ڈیڑھ روپے والی کاپی اور دو پنسلیں دیجئے۔‘‘ ایک کشمیری بچہ دکان پر چڑھ کر چیزیں مانگ رہا تھا۔

میں نے دیکھا، کاؤنٹر کے پیچھے شیلف پر، کاپیاں، پنسلیں اور ایک مرتبان میں سستے سے بال پین رکھے ہوئے تھے۔ بچے نے چار روپے دیے۔ امین نے چیزیں اس کو دے کر پوچھا، ’’کچھ اور چاہئے؟‘‘

’’بچے ہوئے پیسوں سے چاکلیٹ اور ٹافیاں دے دیں۔‘‘

’’اچھا۔‘‘ کہتے ہوئے امین نے ایک مرتبان میں سے ٹافیاں نکال کر کاؤنٹر پر رکھیں، پھر انہیں گننے لگا۔

’’یہ لو، تین اور دو، پانچ۔‘‘

بچہ چیزیں لے کر چلا گیا۔ گلی میں جاتے ہوئے، میں اسے دیکھتا رہا۔

پھر امین نے مجھ سے نظریں ملائیں۔ وہ تھوڑا سا شش و پنج میں تھا۔ مجھے دیکھ کر کہنے لگا، ’’صرف کھیل کا سامان، اس گلی میں بیچ کر، گھر نہیں چل سکتا، کیا کریں، گھرکا خرچہ چلانے کے لئے یہ سب کچھ رکھنا پڑتا ہے۔‘‘

مجھے بڑا عجیب سا لگ رہا تھا۔ وہ امین جس کے ساتھ کتنے ہی لوگ اور لڑکے ہاتھ ملانے کے لئے آپس میں مقابلہ لگاتے تھے، آج وہ انہی ہاتھوں سے کچھ پیسوں کی ٹافیاں گن رہا تھا۔

میں اب دکان کے پچھلے حصے میں، جہاں میرے دونوں بیٹے بیٹ دیکھ کر منتخب کر رہے تھے، پہنچ گیا اور ان کی مدد کرنے لگا۔ پھر دو بیٹ پسند کر کے میں کاؤنٹر پر گیا اور پوچھا، ’’یہ دونوں ٹھیک ہیں نا؟‘‘

اس نے بچوں سے پوچھا، ’’بچو! بال کرمچ کا چاہیے یا کارک کا؟‘‘

جواب میں نے دیا، ’’کرمچ کے بال ہی ٹھیک رہیں گے۔ یہ وکٹیں بھی لیں گے۔ لہذا ایک سیٹ وکٹوں کا بھی دے دیں۔‘‘

میرے چھوٹے بیٹے نے کہا، ’’میں وکٹ کیپر والے دستانے بھی لوں گا۔‘‘

’’چلو ٹھیک ہے، آپ اس کے علاوہ دو جوڑی بیٹنگ والے دستانے اور دو جوڑی لیگ پیڈ بھی دے دیں۔ دونوں کے پاس پورا پورا سیٹ ہو جائے گا۔‘‘ میں نے امین سے کہا۔

دونوں بچے خوشی سے جھوم اٹھے، ’’یہ بالکل ٹھیک ہے پاپا۔‘‘

’’ہمارے بچوں میں کرکٹ کا کتنا شوق ہے، فٹ بال میں تو بچوں کی دلچسپی ہی ختم ہوتی جا رہی ہے۔‘‘ یہ کہتا ہوا امین پیچھے سامان لینے چلا گیا۔

اب تک امین کا وہ بلند مقام، جو میری سوچ میں تھا، کافی نیچے آ چکا تھا۔ میں اب اُسے گزرے وقت کا ایک کھلاڑی، جو اب ایک چھوٹا سا دکاندار تھا، اسی طرح دیکھ رہا تھا۔ پرانے کپڑوں میں ملبوس، پاؤں میں نائلون کی چپلیں پہنے، بیٹ، کاپیاں، ٹافیاں بیچتا ہوا امین ۔۔۔ شکر ہے میں امین ہونے سے بچ گیا۔ اب امین ہمارا سارا سامان پیک کر رہا تھا۔ میں نے وقت گزارنے کے لئے اس سے پوچھا، ’’میں نے تو سنا تھا کہ آپ بنگال کی کسی ٹیم میں چلے گئے ہیں؟‘‘

’’ہاں، دو تین سال میں کلب میں بھی کھیلا۔ ایک پرائیویٹ فرم میں ملازمت بھی مل گئی تھی۔ میں صرف فرم کی ٹیم میں کھیلتا تھا اور کچھ نہ کرتا تھا۔ پھر ہمیشہ کی طرح نئے لڑکے، نئے زور شور کے ساتھ پرانے کھلاڑیوں کو، پیچھے دھکیلتے ہوئے آگے آ جاتے ہیں۔ اب ہم پرانے ہو گئے تھے۔ پھر ہم بھی اپنے آپ باہر ہو گئے۔ نوکری کے ساتھ اور جو بہت پیارا تھا، وہ بھی جاتا رہا۔ کھیل گیا، نوکری گئی، پیسے گئے، شہرت بھی چلی گئی ۔۔۔‘‘ وہ بولتے بولتے اداس سا ہو گیا۔ پھر کہنے لگا، ’’شکر ہے یہ بزرگوں کی پرانی دکان تھی، تو گزارا بھر ہو جاتا ہے۔ دو بیٹیاں ہیں، ایک بیٹا ہے۔ چلو، جیسی اللہ کی مرضی۔‘‘

اس نے میرا سامان پیک کیا، پھر بو لا، ’’آپ ذرا رکنا، میں ابھی آیا۔‘‘ یہ کہہ کر وہ اندر ہی اندر کہیں چلا گیا۔ جب وہ باہر آیا تو اس کے ہاتھ میں ایک فٹ بال تھا۔ اس نے اس میں ہوا بھری اور پھر ہاتھ سے اسے فرش پر اچھال کر، اسے جانچنے لگا۔ ایک دو تین۔ مجھے لگا وہ ہمیں بھول کر اکیلے میں فٹ بال کھیلنے لگا ہے۔ پھر اس نے فٹ بال کو اوپر اچھال کر کیچ کیا اور ہاتھ میں پکڑ لیا، پھر ہنس کر بولا۔ ’’یہ اب بالکل ٹھیک ہے۔‘‘ اب وہ فٹ بال کو ہاتھ میں لے کر صاف کر رہا تھا۔ پھر بھی تسلی نہ ہوئی تو وہ اپنی قمیض کے دامن کے ساتھ بڑے پیار سے فٹ بال کو رگڑنے لگا، جیسے پالش کر رہا ہو۔

جب وہ صاف کر چکا، تب اس کے ہاتھ میں سیاہ سفید رنگ کا فٹ بال واقعی بڑا چمک رہا تھا۔

’’یہ فٹ بال بچوں کے لئے میری طرف سے۔۔‘‘ کہتے ہوئے اس نے فٹ بال میرے ہاتھ میں پکڑا دیا۔

وہ کہہ رہا تھا، ’’آپ کے گھر میں پڑا رہے گا، تو بچے کبھی کبھار اس کے ساتھ بھی ضرور کھیلیں گے۔‘‘

میں نے کہا، ’’آپ مہربانی کر کے اس کے بھی پیسے لگائیے۔‘‘

’’میں نے کہا نا، یہ میری طرف سے ہے۔ باقی سامان کے پورے پیسے لوں گا۔‘‘ یہ کہہ کر وہ سامان کا بل بنانے لگا۔ پر بیچ بیچ میں بولتا جا رہا تھا۔

’’آج کل فٹ بال کوئی چھوٹا کھیل نہیں ہے صاحب۔ کھلاڑی اچھا ہو تو سب کچھ ہے، پیسہ ہے، عزت ہے، شہرت ہے، نام ہے۔‘‘ کہتے کہتے وہ تھوڑی دیر کے لئے خاموش ہو گیا۔ پھر کہنے لگا۔ ’’آپ میری طرف نہ دیکھیں۔ ہماری بات الگ تھی۔ ہمارا وقت دوسرا تھا۔ اس وقت اس کھیل میں پیسے نہ تھے۔ ہم وہ ہیں، جنہیں وقت اور حالات نے ایک ہی کک کے ساتھ یہاں پہنچا دیا۔ یہ لیجئے آپ کا بل۔۔‘‘ اس نے بل میرے آگے کر دیا۔ میں نے پیسے دیتے ہوئے یوں ہی اس سے پوچھا، ’’آپ اکیلے ہی اسٹور پر بیٹھتے ہیں، مشکل تو نہیں پیش آتی، آپ کا بیٹا کیا کر رہا ہے؟‘‘

اس کے منہ پر ایک رونق سی آ گئی، کہنے لگا، ’’آپ نے فٹ بال میں شوکت کا نام تو سنا ہی ہو گا، کلکتہ کے اسپورٹس کلب کی جانب سے کھیلتا ہے۔ وہ میرا بیٹا ہے۔ سارے ہی کلب اسے اپنی طرف کھینچنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اسے پیسے کا لالچ بھی دیتے ہیں، پر وہ اپنے ہی کلب میں ٹکا ہوا ہے۔ مجھے پورا یقین ہے کہ وہ ہندوستان کی اگلی لائن میں اسٹرائیکر ہو گا۔ جرمنی کے کوچ اسے چھ ماہ کے لئے اپنے ساتھ جرمنی لے گیا ہے۔ وہ گزشتہ ہی مہینے گیا ہے۔ وہ بھی میری طرح فارورڈ لائن میں لیفٹ آؤٹ کی پوزیشن پر کھیلا کرتا ہے۔‘‘

میرے بچوں نے جیسے تیسے اپنا سامان اٹھا لیا تھا۔ پیسے دے کر بچا ہوا ایک لفافے میں نے بھی اٹھا لیا اور اسے الوداع کہا۔

ہم دونوں کی آنکھیں آپس میں مل کر، ایک دوسرے کے اندر جھانک رہی تھیں۔ شاید اسی وقت ہم دونوں مسکرا بھی رہے تھے۔ میں نے اپنے آپ اپنا دایاں ہاتھ سامان سے خالی کر کے، اس کی طرف بڑھا۔ اس نے بڑی گرم جوشی سے اپنا مضبوط مگر نرم ہاتھ آگے کر کے ملاتے ہوئے کہا۔

’’اچھا خدا حافظ۔‘‘

***

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے