گرہ کشائی ۔۔۔ صالحہ رشید

’’ذیشان بیٹے۔۔۔ جلدی کیجئے۔۔۔ لیٹ ہو جائیں گے آپ‘‘

’’رحیم چاچا۔۔‘‘

’’جی۔۔۔ سلام بیگم صاحبہ‘‘

’’گاڑی نکالئے‘‘

ثروت بیگم کی آواز پر رحیم چاچا نے جلدی سے کار کی چابی سنبھالی اور ایک بار پھر۔۔۔

’’جی بیگم صاحبہ‘‘ کہتے ہوئے صدر دروازے کی طرف ہو لئے۔

ثروت بیگم نے ذیشان کی ٹائی ٹھیک کی۔ سر پر ہاتھ پھیرا۔ درود شریف پڑھ کر دم کیا اور بیٹے کی انگلی پکڑ کر صدر دروازے کی جانب چل پڑیں۔ انھیں آتا دیکھ رحیم چاچا نے چمچماتی مرسیڈیز پھاٹک کے سامنے لا کر لگا دی۔ ثروت بیگم نے دوبارہ دعا پڑھ کر ذیشان کے سر پر ہاتھ پھیرا اور گاڑی میں بٹھا دیا۔ رحیم چاچا معمول کے مطابق ذیشان کو اسکول چھوڑنے چلے گئے۔

آج ثروت بیگم کی طبیعت کچھ مضمحل تھی۔ نواب عمران کل رات اپنے باغات کی طرف چلے گئے تھے۔ آموں کی فصل تیار تھی۔ اس لئے ان کا وہاں ہونا ضروری تھا۔ ثروت بیگم رات دیر سے سوئی تھیں لہٰذا ان کی طبیعت کچھ بوجھل سی ہو رہی تھی۔ فجر کی نماز کے لئے علی الصبح اٹھی تھیں۔ نماز پڑھی، قرآن پاک کی تلاوت کی پھر ذیشان کو جگایا۔ انھیں تیار کر کے اسکول روانہ کر دیا۔ نواب عمران بھی گھر پر نہیں تھے لہٰذا نقن میاں کو چند ہدایات دے کر وہ اپنے کمرے میں چلی گئیں۔ اس وقت انھوں نے آرام کرنا بہتر سمجھا۔ بستر پر لیٹی ہی تھیں کہ ذرا دیر میں ان کی آنکھ لگ گئی۔

چھ برس قبل ثروت بیگم اس حویلی کی بہو بیگم بن کر آئی تھیں۔ خاندان میں ہی شادی ہوئی تھی لہٰذا پرایا پن نہیں تھا۔ شادی کے پہلے بھی وہ اس حویلی میں آتی رہتی تھیں۔ شاکرہ بیگم، یعنی اس حویلی کی مالکن اور ثروت بیگم کی خالہ جانی کو اللہ نے بیٹی جیسی نعمت سے نہیں نوازا تو کیا عمران جیسے نیک اور فرمانبردار بیٹے کی ماں ہونے کی سعادت تو بخشی تھی۔ نواب عمران نے اعلیٰ تعلیم انگلینڈ سے حاصل کی تھی مگر اپنی والدہ سے دور رہنا ان کے بس کا نہیں تھا۔ وہ اپنے قصبے جہانگیر پور کی سوندھی مٹی کی مہک انگلینڈ میں نہ پا سکے۔ مینیجمنٹ کا امتحان پاس کرتے ہی ان کے دل میں ایک برق سی لپکی اور انھوں نے تہیہ کر لیا کہ وہ وطن واپس جا کر اپنے گاؤں، اپنے کھیت پر نئے تجربے کریں گے۔ اس خیال کے ذہن میں آتے ہی انھوں نے وطن واپسی کے لئے رخت سفر باندھ لیا۔ شاید یہ ان کی والدہ شاکرہ بیگم کی رات دن کی دعاؤں کا اثر تھا کہ نواب عمران اپنی ماں اور خاک وطن کو ایک پل کے لئے فراموش نہیں کر سکے تھے۔ جہانگیر پور کی مٹی کی سوندھی مہک نے انھیں دیوانہ بنا رکھا تھا۔ پورے دو سال کے بعد ان کے قدم حویلی میں پڑنے والے تھے۔ شاکرہ بیگم نے حویلی کو دلہن کی طرح آراستہ کروایا تھا۔ ان کا دل خوشی سے جھوم رہا تھا۔ اپنے لخت جگر کے استقبال میں انھوں نے قریبی رشتے داروں کو مدعو کر لیا تھا۔ شام ڈھلنے کو تھی۔ رات کی سیاہی نے جیوں ہی اپنے پاؤں پسارنے شروع کئے، حویلی زرق برق قمقموں سے جگمگا اٹھی۔ رحیم چاچا نواب عمران کو چمچماتی مرسیڈیز میں اسٹیشن سے لے کر آ گئے۔ شاکرہ بیگم نے بڑھ کر اپنے لاڈلے کی پیشانی چومی۔ بلائیں لیں۔ صدقے اتارے گئے۔ خوش آمدید کی صدائیں بلند ہوئیں اور چھوٹے نواب سب کو سلام کرتے ہوئے حویلی کے اندر داخل ہوئے۔ ہر طرف گہما گہمی تھی۔ سب کے چہرے خوشی سے کھلے ہوئے تھے۔ وہ بڑی گرم جوشی سے سب سے مل رہے تھے اور احوال پرسی کر رہے تھے۔ ان کے کزنس کی ایک لمبی قطار موجود تھی جو انھیں اپنے غول میں لے جانے کو بیتاب تھی تاکہ وہ سب اپنا تجسس دور کر سکیں۔ تھوڑی ہی دیر میں عشاء کی اذان ہو گئی۔ سب نے حویلی سے ملحق مسجد میں نماز ادا کی اور اس کے فوراً بعد کھانے کا اہتمام کیا گیا۔ سارے مہمان کھانے کی میز پر آ چکے تھے۔ بزرگ ایک جانب اور نوجوان گروپ دوسری جانب عمران میاں کو گھیر کر بیٹھ گیا۔ ٹیبل پر مختلف انواع و اقسام کے کھانے چنے ہوئے تھے۔ ان سے اٹھنے والی عمدہ خوشبو نے پورے ماحول کو اپنی گرفت میں لے رکھا تھا۔ چند لمحوں کے توقف کے بعد شاکرہ بیگم اپنے کمرے سے اپنی چھوٹی بہن ہاجرہ بیگم کے ساتھ تشریف لائیں۔ نقن میاں نے جلدی سے ان کے بیٹھنے کے لئے کرسی ٹیبل کے نیچے سے باہر نکالی۔ اس سے قبل کہ شاکرہ بیگم بیٹھتیں، انھوں نے اپنی با رعب آواز میں سب کو مخاطب کیا۔۔۔

’’میرے عزیزو! آج کی اس پر مسرت گھڑی میں میں آپ سب کو ایک خوش خبری دینا چاہتی ہوں۔ میں نے اور ہاجرہ بیگم نے یہ طے کیا ہے کہ نواب عمران اور ثروت بیگم کو ازدواجی رشتے میں منسلک کر دیا جائے۔‘‘

اتنا کہہ کر انھوں نے ہاجرہ بیگم کو گلے لگا لیا۔ عمران اور ثروت اس اچانک انکشاف سے حیران سے رہ گئے۔ اس اعلان کو سن کر ثروت کی نگاہیں جو جھکیں تو اٹھنے کا نام ہی نہ لیتی تھیں۔ رخسار شرم سے سرخ ہونے لگے۔ اسے اپنا سراپا پسینے میں نہایا سا محسوس ہونے لگا۔ سامنے ہی نواب عمران بیٹھے تھے۔ اگر نگاہ اٹھی تو انھیں پر پڑنی ہے۔ اس خیال سے وہ عجب کشمکش میں مبتلا تھی۔ لمحہ بھر پہلے تو ایسا کچھ نہیں تھا۔ سارے کزنس کے ساتھ وہ بھی چہک چہک کر باتیں کر رہی تھی۔ خالہ جانی کے اشاروں پر سارا انتظام اسی نے کروایا تھا۔ شاکرہ بیگم نے اسے ایک ہفتہ پہلے ہی بلوا لیا تھا۔ پوری حویلی کی صفائی ستھرائی سجاوٹ سب اسی کے ذمے تھی۔ پورے انہماک سے اس نے سارا کام اپنی نگرانی میں کروایا تھا۔ نواب عمران کے کمرے کو خاص طور سے ڈیکوریٹ کیا تھا۔ خالہ جانی کو اس نے بیٹی کی کمی کا احساس نہیں ہونے دیا تھا۔ اس دوران ان کے دل و دماغ میں کیا چل رہا تھا، اسے گمان بھی نہیں تھا۔ آج کے اس اچانک انکشاف سے وہ ششدر رہ گئی تھی۔ اگلے ماہ ہی وہ اس حویلی کی بہو بیگم بن کر آ گئی تھی۔

فون کی گھنٹی بجی تو ثروت بیگم کی آنکھ کھلی۔ کال رسیو کی۔۔

ہیلو!!!

دوسری جانب نواب عمران تھے۔

ثروت بیگم نے بھی جواب میں ہیلو کہا تو نواب عمران کچھ پریشان سے ہو گئے۔

’’ارے بیگم آپ خیریت سے تو ہیں؟ آپ کی آواز کچھ بدلی بدلی سی ہے۔ نصیب دشمناں آپ کی طبیعت تو ناساز نہیں؟‘‘

نواب عمران نے ایک سانس میں اتنی تفتیش کر ڈالی۔

’’ارے نہیں عمران صاحب، ذیشان اسکول چلے گئے تو میں ذرا آرام کر رہی تھی اور میری آنکھ لگ گئی۔ ابھی آپ کی کال پر آنکھ کھلی۔ میں ٹھیک ہوں۔ آپ پریشان بالکل نہ ہوں۔‘‘

’’اللہ تیرا شکر‘‘ عمران نے اطمینان کا سانس لیا۔

’’ذیشان میاں وقت پر اٹھ گئے تھے؟ آپ کو تنگ تو نہیں کیا؟‘‘

’’نہیں قطعی نہیں۔ آپ فکر نہ کیجئے۔ میں اور ذیشان بالکل ٹھیک ہیں۔ بس آپ جلدی آ جائیے۔‘‘

’’جو حکم آپ کا ثروت بیگم۔ کہئے تو ابھی چلا آؤں‘‘ نواب عمران شرارت بھرے لہجے میں گویا ہوئے۔

’’اللہ!! عمران آپ کی شرارتی حس ہر دم بیدار رہتی ہے۔ کبھی تو سیریس ہو جایا کیجئے۔‘‘

’’بیگم آپ سیریس ہونے ہی نہیں دیتیں۔ اس میں بھی قصور آپ کا ہی ہے۔‘‘ اتنا کہہ کر نواب عمران کا ایک بھرپور قہقہہ ابھرا اور خدا حافظ کہہ کر انھوں نے رخصت لی۔

شاکرہ بیگم کے انتقال کے بعد سے پوری حویلی پر ثروت بیگم کی حکمرانی تھی۔ لق و دق حویلی نوکروں چاکروں سے بھری تھی۔ آسائش کا بھرپور سامان تھا۔ نواب عمران بے انتہا سلجھے مزاج کے انسان تھے۔ بیوی سے بیحد محبت کرتے۔ ان کے گلشن میں ذیشان کی شکل میں خوبصورت سا پھول کھلا تھا۔ ثروت بیگم خود بھی بہت سمجھ دار اور خوش مزاج خاتون تھیں۔ لہٰذا حویلی ہمیشہ مہمانوں سے بھری رہتی تھی۔ ان کی خاطر مدارات میں وہ کوئی کمی نہیں ہونے دیتی تھیں۔ ملازموں سے شفقت سے پیش آتیں۔ ہر ایک ان کے حسن اخلاق کا گرویدہ تھا۔ نواب عمران نے انگلینڈ سے واپس آ کر اپنے کھیت اور باغات پر خصوصی توجہ دی تو وہاں کی مٹی بھی ہیرے موتی اگلنے لگی تھی۔ گویا قدرت نے ہر چہار سو ان کے لئے خوش حالی رقم کر دی تھی۔ ثروت بیگم اللہ کا شکر ادا کرتے نہ تھکتیں کہ اس معبود بر حق نے ان کا دامن خوشیوں سے بھر دیا تھا۔

نواب عمران سے بات کر لینے کے بعد ثروت بیگم نے اللہ کا شکر ادا کیا۔ اپنی پر سکون زندگی کے بارے میں سوچ کر ان کے چہرے پر بشاشت کے رنگ بکھر گئے۔ ابھی ذیشان کے اسکول سے واپس لوٹنے میں وقت تھا۔ اس دوران وہ دوسری ذمہ داریوں سے سبکدوش ہونے کے منصوبے بنانے لگیں کہ فون کی گھنٹی پھر بج اٹھی۔ ثروت بیگم نے رسیور کو کان سے لگایا تو دوسری طرف سے کسی کی سسکیوں کے ساتھ بمشکل ہیلو کی آواز آئی ۔۔۔۔

’’ہیلو۔۔۔ ثروت میں حنا ۔۔۔‘‘

اتنا کہنے کے بعد پھر ہچکیوں کے ساتھ رونے کی آوازیں ابھریں۔ وہ ثروت بیگم کی دوست حنا تھی۔ دونوں کے گھر آس پاس ہی تھے۔ ایک ہی اسکول میں تعلیم حاصل کی۔ ایک ساتھ آنا، جانا، گھومنا پھرنا، ساتھ مل کر پڑھائی کرنا ان کا شغل ہوا کرتا تھا۔ ابھی چھ ماہ قبل اس کی شادی نواب عمران کے دور کے عزیزوں میں ہوئی تھی۔ نوابی آن بان کے مالک وہ لوگ بھی تھے۔ سب کچھ تو ٹھیک ہی تھا۔ اس ایک لمحے میں ثروت بیگم کو نا جانے کتنے وسوسوں نے آ گھیرا۔

’’ہیلو۔۔۔ حنا!!! کیا ہو گیا ہے تمھیں؟ کچھ بتاؤ تو!!!! حنا ۔۔۔۔‘‘

حنا اپنی سسکیوں کے درمیان بس اتنا ہی کہہ پائی ۔۔۔۔

’’ثروت بس تم جلدی سے میرے پاس آ جاؤ‘‘

ثروت بیگم نے کچھ نہ جانتے اور نہ سمجھتے ہوئے بھی پریشانی کے عالم میں حنا سے ایک گھنٹے کے اندر پہنچنے کا وعدہ کر لیا۔

انھوں نے گھڑی پر نگاہ ڈالی۔ ذیشان کے اسکول سے واپس آنے میں ابھی کافی وقت تھا۔ نواب عمران بھی باغات کی جانب گئے ہوئے تھے۔ انھیں دو دن کے بعد لوٹنا تھا۔ ثروت بیگم نے تیاری کی۔ ملازموں کو ضروری ہدایات دیں اور رحیم چاچا کو گاڑی نکالنے کو کہا۔ کچھ ہی دیر میں وہ ذیشان کو اسکول سے لے کر اپنی والدہ کے گھر پہنچ گئیں۔ اپنا سامان اور ذیشان کو امی کے سپرد کر کے انھوں نے تیزی سے حنا کے گھر کا رخ کیا۔

ثروت حنا کے گھر پہنچی تو بڑے دالان میں ان کی امی شرف النسا بیگم نظر آ گئیں۔ ثروت نے جلدی سے انھیں سلام کیا اور ہمیشہ کی طرح گلے لگ گئی۔ ان کی آنکھیں سوجی ہوئی تھیں۔ صاف ظاہر تھا کہ وہ روتی رہی تھیں۔ اس کے بعد وہ تقریباً دوڑتی ہوئی حنا کے کمرے میں پہنچی تو اسے بستر پر تکئے میں منہ چھپائے سسکتے پایا۔ اس نے محبت بھرا ہاتھ اس کے سر پر پھیرا اور ہولے سے آواز دی۔۔۔

’’حنا۔۔۔!!! دیکھو میں آ گئی‘‘

حنا نے تکیہ ایک طرف رکھا اور ایک دم سے چیخ مار کر ثروت سے لپٹ گئی۔ آنکھیں تو پہلے سے نم تھیں، اب تو جیسے اشکوں کا سیلاب ہی آ گیا۔ ثروت نے اسے سینے سے لگا لیا۔ کمرے میں ایک عجیب سی خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ بس حنا کی سسکیاں ہی اس خاموشی کو رہ رہ کر توڑتی تھیں۔ اس کا بدن بری طرح تپ رہا تھا۔ یہ تیز بخار کی تپش تھی۔ حنا کو اس کا اندازہ بالکل نہیں تھا۔ ثروت نے حنا کے اشکوں کے سیلاب کو بہہ جانے دیا۔ اس وقت انھیں کسی بند کی ضرورت نہیں تھی۔ کافی دیر کی اشکباری کے بعد گھٹائیں کچھ تھمیں تو ثروت نے حنا کو واش روم میں لے جا کر کھڑا کیا اور اسے سمجھا بجھا کر فریش ہونے کو کہا۔ پھر اس نے ملازم کو چائے لانے کی ہدایت دی۔ حنا بوجھل قدموں سے واش روم سے باہر آئی تو ثروت نے لپک کر اسے سہارا دیا۔ بستر پر لا کر بٹھایا۔ بہلا پھسلا کر اسے چائے اور سنیکس کھلائے۔ بخار کی دوا دی پھر حنا کو لٹایا اور خود اس کے سر کو ہلکے ہلکے دباتے ہوئے بولی ۔۔۔۔

’’حنا جان۔۔۔ جلدی بتاؤ معاملہ کیا ہے؟‘‘

حنا نے خالی خالی نگاہوں سے اسے دیکھا اور بالکل سپاٹ لہجہ میں گویا ہوئی ۔۔۔۔

’’ثروت۔۔۔ وجاہت حسین اور میرے درمیان کوئی رشتہ نہیں رہا۔۔۔ انھوں نے مجھے طلاق دے دی!!!‘‘

’’کیا۔۔۔ حنا تم کیا کہہ رہی ہو؟‘‘ ثروت کا منہ حیرت سے کھلا کا کھلا رہ گیا۔ آنکھوں میں استعجاب اتر آیا۔ اس وقت ایسا لگ رہا تھا کہ حنا سے زیادہ وہ بے چین ہو گئی ہے۔

’’یا اللہ!! یہ میں کیا سن رہی ہوں۔۔۔؟‘‘

آن کی آن میں ثروت کے دل میں نواب وجاہت حسین کے خلاف نفرت کا ایک بڑا سا دائرہ تشکیل پا گیا۔ وہ غصے سے بے قابو ہونے لگی۔ اس کا چہرہ تمتما اٹھا۔ غنیمت تھا کہ نواب وجاہت حسین اس کے سامنے نہیں تھے ورنہ وہ اپنے غصے کو نہ جانے کس روپ میں پورا کا پورا ان پر انڈیل دیتی۔ اسے ان سے ایسی توقع قطعی نہیں تھی۔ وہ تو انتہائی وجیہہ، پر وقار، مہذب اور با تمیز انسان تھے۔ دولت و ثروت کا غرور دور دور تک انھیں چھو نہیں گیا تھا۔ خوش اخلاقی کا پیکر، نرم گفتار ایسے کہ کبھی ملازموں سے بھی اونچی آواز میں بات نہیں کی۔ بیحد نفیس اور اعلیٰ ذوق کے مالک ہیں۔ ان کی ایک شاندار لائبریری بھی ہے کیونکہ انھیں اچھی کتابیں پڑھنے کا شوق ہے۔ وہ اتنی ذلیل حرکت کیسے کر سکتے ہیں؟ ابھی چھ ماہ قبل ہی تو دونوں کی شادی ہوئی تھی۔ الٰہی!!کسی مرد کو پرکھنا کتنا مشکل ہے؟ بہروپئے۔۔۔!! اور نا جانے کیا کیا ۔۔۔۔ غصے سے اس کی گرفت حنا کی کلائی پر کستی جا رہی تھی۔ حنا نے آہستہ سے اپنا ہاتھ ثروت کے ہاتھ سے چھڑایا اور اٹھ کر بیٹھ گئی۔ اسے اٹھتا دیکھ ثروت ایک دم سے بپھر پڑی۔۔۔

’’حنا میں ابھی عمران کو فون کرتی ہوں اور انھیں وجاہت حسین کی ذلیل حرکت سے آگاہ کرتی ہوں۔ شادی نہ ہوئی تماشا ہو گیا۔ میرا تو دل چاہ رہا ہے کہ وجاہت حسین کو ان کے کئے کی بھر پور سزا دلواؤں۔‘‘

حنا اب تک خود کو سنبھال چکی تھی۔ اس نے ثروت کے غصے کی زیادتی بھی بھانپ لی تھی۔ اس کے منہ سے جیسے ہی سزا کی بات نکلی، حنا نے ایک دکھ بھری نگاہ اس پر ڈالی اور اپنا ہاتھ اس کے دہانے پر رکھ دیا۔ پھر تڑپ کر بولی ۔۔۔۔

’’نہیں ثروت!!!! نہیں!!!! قطعی نہیں!!!! تم ایسا کچھ بھی نہیں کرو گی!!!!‘‘

ثروت نے خشمگین نگاہیں حنا پر ڈالیں۔ اسے لگا غم کی شدت سے حنا کچھ سوچنے سمجھنے سے قاصر ہے۔ آخر وجاہت حسین نے ایک اچھی خاصی لڑکی کے وجود سے کھلواڑ کیا ہے۔ اپنے غصے اور نفرت کو مزید تقویت دینے کے لئے اس نے حنا کو جھنجھوڑتے ہوئے کہا ۔۔۔۔

’’حنا!! مجھے وجاہت حسین کی اس نازیبا حرکت کے بارے میں تفصیل سے بتاؤ‘‘۔

’’ثروت!! میری پیاری دوست!!! تم سچ مچ بہت پیاری ہو۔۔۔ میری ایک آواز پر میرے دکھ میں پوری شدت سے شریک ہو گئیں۔۔۔

ہاں۔۔۔ یہ سچ ہے کہ مجھ پر دکھوں کا پہاڑ ٹوٹ پڑا ہے۔۔۔ یہ بھی سچ ہے کہ وجاہت حسین نے مجھے طلاق دی ہے ۔۔۔۔ لیکن۔۔۔‘‘

’’لیکن کیا ۔۔۔۔؟‘‘ ثروت نے بیچینی کے عالم میں حنا کو بیچ میں ہی ٹوک دیا۔

’’ثروت!! ہر لڑکی کی طرح میرے بھی ارمان تھے۔ تم تو جانتی ہی ہو ہم دونوں مل کر سپنے بنا کرتے تھے۔ تمھاری شادی نواب عمران سے ہوئی۔ وہ ایک اچھے شوہر ثابت ہوئے۔ بھری پری حویلی کی تم مالکن بن گئیں۔ ایک چاند سے بیٹے کی ماں بھی بنیں۔ گھر میں خوشیاں ہی خوشیاں، ہر طرف چہل پہل، ذیشان کی ہر حرکت پر تم اور نواب عمران فدا ہوئے جاتے ہو۔ بچے تو گھر کی رونق ہوتے ہیں۔ تمھیں اللہ نے ان سب نعمتوں سے نوازا ہے۔ مجھے بھی نواب وجاہت حسین کی شکل میں ایک پر وقار شوہر ملے۔ بڑی سی حویلی، ملازموں کی لمبی چوڑی قطار، دولت کی فراوانی، آسائش کی ہر شے مہیا۔ وہاں کسی چیز کی کمی تو نہیں تھی۔‘‘

’’تو پھر کیا ہو گیا۔۔۔؟‘‘ ثروت کی قوت برداشت جواب دے رہی تھی۔ اس سے رہا نہیں جا رہا تھا۔ وہ پھر بیچ میں بول پڑی ۔۔۔۔

’’ثروت!! وہاں بچوں کی کلکاریاں نہیں گونج سکتی تھیں ۔۔۔۔۔‘‘ اتنا کہتے کہتے حنا کی آواز ڈوبتی سی محسوس ہوئی۔

’’کیا کہہ رہی ہو۔۔۔ حنا تم؟‘‘

’’ہاں ثروت!! یہی سچ ہے!!!!‘‘

ثروت کے چہرے پر نفرت اور غصے کے ساتھ اب غم کے سائے بھی لہرانے لگے۔ وہ جلد از جلد ساری حقیقت جاننے کو بیتاب تھی۔ اس کے منہ سے اتنا ہی نکلا ۔۔۔۔ ’’پھر۔۔۔‘‘

’’وجاہت حسین نے اس تلخ حقیقت کے کرب کو اکیلے جھیلنے کا مصمم ارادہ کر لیا۔ میں ان کی منکوحہ بن چکی تھی۔ اس لئے ان کے کرب کی بھی حصے دار بن کر رہنا چاہتی تھی۔ میں نے ضد پکڑ لی تھی کہ کچھ بھی ہو میں ان کے ساتھ رہوں گی۔ گذر جاؤں گی اس سخت امتحان سے۔ اس نیک انسان کے نکاح میں آنے کے بعد اسے اس طرح اپنے ہی درد کی ٹیس کے درمیان چھوڑ دینے کے خیال سے ہی میں کانپ جاتی تھی۔ میں احساس گناہ کی شکار رہنے لگی۔ میرا اترا چہرا ان سے چھپا نہ رہتا۔ میں اکثر دیکھتی کہ وہ بڈ روم کی کھڑکی سے باغ کے تالاب میں تیرتی بطخیں دیکھ رہے ہوتے جو پانی کی اوپری سطح پر خاموشی سے تیرا کرتیں۔ پھر غم کے سائے ان کے چہرے پر اتر آتے۔ مگر ایک پل میں وہ اس کرب کو اپنے سینے میں اتار لیتے اور چہرے پر مصنوعی بشاشت بکھیرنے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے میری دلجوئی و دلداری میں لگ جاتے۔ میں اپنی ضد پر بدستور قائم تھی۔ ان کی شرافت و نجابت کسی طور مجھے ان سے علحٰدہ ہونے نہیں دے رہی تھی۔ انھوں نے مجھے میری عمر کا واسطہ دیا۔ بولے۔۔۔

’’حنا بیگم۔۔ آپ ابھی اپنی زندگی کی فقط تیسری دہائی میں ہیں۔ زندگی کتنی لمبی ہے، کوئی نہیں جانتا۔‘‘

وہ مجھے زندگی کی اونچ نیچ سمجھاتے رہے۔ مجھے چند کتابیں بھی پڑھنے کو دیں۔ ایک کتاب پڑھ لینے کے بعد وہ مجھ سے میری رائے پوچھتے۔ جب میں انھیں اپنی پہلی رائے پر قائم ملتی تو میرے ایثار کے جذبے سے ان کا کرب مزید بڑھ جاتا۔ وہ مجھے سمجھاتے۔۔۔

’’ اس بات کی سزا آپ کیوں بھگتیں گی حنا بیگم، جس میں آپ کا کوئی قصور ہی نہیں‘‘۔

انھوں نے اپنی کوشش جاری رکھی۔ ذرا بھی ہار نہیں مانی۔ آخر ایک دن وہ مجھے سمجھا نے میں کامیاب ہو گئے۔ میں جیسے ہی تھوڑی نرم پڑی، انھوں نے کلام پاک کی طلاق سے متعلق آیات مجھے پڑھ کر سنانی شروع کیں اور ان کے معنی و تفسیر بتائی۔ ہر دن ہم فجر کی نماز کے بعد طلاق کی باریکیاں قرآن کی رو سے سیکھنے اور سمجھنے لگے۔ انھوں نے سورہ بقرہ کی آیت ۲۳۶ اور ۲۳۷ کو بار بار پڑھ کر اس کا مطلب واضح کیاجس میں متعہ طلاق کا ذکر ہے اور اگلی آیت کہتی ہے کہ آپس کی فضیلت اور بزرگی کو فراموش نہ کرو۔ متعہ طلاق یعنی اپنی حیثیت کے مطابق عورت کو تحائف دے کر رخصت کرنا۔ اس عمل کی حکمت اور فائدے بیشمار ہیں اسی لئے آیت ۲۴۱ میں پھر اس کی تاکید کی گئی ہے۔ اکثر تلخی، کشیدگی اور اختلاف ہی طلاق کا سبب بنتے ہیں۔ عورت کی دلجوئی، دلداری اور احسان کرنے سے آئندہ دشمنی کا سد باب ہوتا ہے۔ مگر ہم معاشرے میں طلاق کے موقع پر اس کے بر عکس دیکھتے ہیں۔ مطلقہ کو احسان و سلوک کے بجائے اتنے برے طریقے سے رخصت کیا جاتا ہے کہ دونوں خاندانوں کے آپسی تعلقات ہمیشہ کے لئے منقطع ہو جاتے ہیں۔ ثروت ۔۔۔۔!!ہم نے قرآن کو پڑھا ضرور پر سمجھا نہیں۔‘‘

’’تم سچ کہہ رہی ہو حنا۔ رشتہ ٹوٹنے کے بعد بھی دو خاندانوں کا آپسی وقار قائم رہے، قرآن نے اس کی تاکید کے ساتھ ساتھ تدبیر بھی بتا دی۔ تحفے دینے سے آپسی محبت تو بڑھتی ہی ہے۔‘‘

’’ثروت ۔۔۔۔!! اس سے ایک بات تو بالکل صاف ہو جاتی ہے کہ ہم آپسی تعلقات کو برقرار رکھنے کی کوشش کریں چاہے معاملہ طلاق کا ہی کیوں نا ہو۔ وجاہت حسین کی وجاہت کا راز اب میری سمجھ میں آ گیا۔ وہ زندگی کو قرآن و سنت کی روشنی میں دیکھتے ہیں۔ اس کا با قاعدہ مطالعہ کرتے ہیں۔ خود بھی عمل کرتے ہیں اور بہت نرمی سے دوسروں کو بھی اس پر عمل کرنے کی تلقین کرتے ہیں۔ اس کی ایک مثال میں تمھارے سامنے موجود ہوں۔‘‘

ثروت۔۔۔ جس نے تھوڑی دیر پہلے وجاہت حسین کی ایک ظالم و جابر مرد کی شبیہ اپنے ذہن میں بنا ڈالی تھی، اب سراپا حیرت بنی ہوئی تھی۔ پہلے وہ بنا سانس لئے بولے جا رہی تھی، وجاہت حسین کو کیفر کردار تک پہچانے کی بات کر رہی تھی، اب وہ حنا کی زبان سے نکلنے والے الفاظ کا انتظار کر رہی تھی۔ اس کے لئے طلاق کے تعلق سے یہ تمام باتیں بالکل نئی تھیں۔ بھلا طلاق کے معاملے میں بھی آپسی پیار اور خاندانی وقار کی گنجائش ہوتی ہے؟؟؟؟ اس وقت حیرت اس کی نفرت پر غالب آ رہی تھی۔ حنا جو مظلوم و مغموم تھی، جس کی سسکیوں نے اسے لرزا دیا تھا، اب وہ قدرے سنبھل چکی تھی۔ اس کے اندر کا تضاد اب الفاظ کی شکل میں باہر نکل رہا تھا۔ جس سے اس کے دل کا بوجھ کچھ کم ہو رہا تھا۔ وہ اپنی زندگی کے گذشتہ چھ ماہ کا ایک ایک پل ثروت کے ساتھ شئیر کرنا چاہ رہی تھی۔ آخر وہ اس کی سب سے عزیز دوست تھی۔ ثروت کی بیچینی بڑھتی جا رہی تھی۔ وہ سمجھ نہیں پا رہی تھی کہ جہاں اتنا سمجھدار شوہر موجود تھا ۔۔۔۔ اس کی زبان سے لفظ طلاق آخر کیسے ادا ہوا۔۔۔؟ وہ مزید واقعات جاننے کو بیتاب تھی۔ اسے لگ رہا تھا کہ آگے بھی کچھ ایسا ہی ہوا ہو گا جس کا وہ تصور نہیں کر سکتی۔ اس نے پھر بے صبری کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ آخر جلدی بتاؤ یہ سب کیسے ہوا ۔۔۔۔؟

حنا نے آگے بتانا شروع کیا۔۔۔

’’ثروت ۔۔۔۔ کچھ دنوں کے بعد وجاہت حسین نے اپنے والدین کو بھی اس مسئلہ میں شریک کر لیا۔ حالانکہ میں اس خاندان میں حال ہی میں شامل ہوئی تھی مگر ان لوگوں کے پیار اور خلوص کی ڈور میں پوری طرح بندھ چکی تھی۔ میں بار بار ان سے یہی کہتی کہ میں آپ لوگوں کو چھوڑ کر کہیں نہیں جاؤں گی۔ اپنی زندگی آپ لوگوں کی شفقت کے سائے میں گذار لوں گی۔ اب میں آپ لوگوں کی زندگی کا حصہ ہوں۔ مجھے اپنے سے الگ مت کیجئے۔ آپ لوگوں سے دور ہو جاؤں، ایسا میں سوچ بھی نہیں سکتی۔ مجھے احساس گناہ میں مبتلا مت کیجئے۔ مگر محبت، شفقت اور خلوص کی ایک بار پھر فتح ہوئی۔ مجھے ان کے آگے سر تسلیم خم کرنا ہی پڑا۔ جمعہ کا دن مقرر ہوا۔ میرے امی ابو کو بھی بلایا گیا اور فریقین کی موجودگی میں وجاہت حسین نے میرے مہر کی رقم ادا کی اور ان کی والدہ نے ایک خوبصورت جویلری باکس امی کو تھمایا یہ کہتے ہوئے کہ ہماری پیاری بیٹی حنا کے لئے۔ اس کے بعد وجاہت حسین نے مجھے طلاق دے کر نکاح کی گرہ تو کھول دی مگر اس خاندان کے ساتھ خلوص اور محبت کی گرہ پہلے سے کہیں زیادہ مضبوطی کے ساتھ بندھ گئی۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے