چمراسر ناول: ایک تنقیدی محاکمہ ۔۔۔ ڈاکٹر احمد علی جوہر

چمراسر، عہد حاضر کے مشہور فکشن نگار شموئل احمد کا تازہ ترین ناول ہے۔ ناول کا نام ناول کے مرکزی کردار چمراسر کے نام پر رکھا گیا ہے۔ چمراسر، ایک انتہائی حساس، تعلیم یافتہ اور باغی دلت نوجوان کا کردار ہے۔ وہ جے، این، یو، سے سماجیات میں پی،ایچ،ڈی ہے۔ وہ اپنے دلت سماج کے ہزاروں سالہ سیاسی، سماجی، معاشی اور تہذیبی و ثقافتی استحصال پر بہت متفکر ہے۔ اسی فکر نے اس کے اندر احتجاج کا جذبہ پیدا کیا ہے۔ وہ دلتوں اور کمزوروں کے استحصال کے خلاف احتجاج کرنا چاہتا ہے۔ اس کے لئے وہ منصوبہ بند طریقے سے پروگرام بناتا ہے، مہیشاسر سنگھرش واہنی نام کی تحریک کی بنیاد رکھتا ہے، اسروانی نام کا رسالہ جاری کرتا ہے اور دلتوں کو اکٹھا کرنے کی پوری کوشش کرتا ہے۔ اس دلت تحریک کو تقویت دینے میں رکمنی ترپاٹھی جو کہ برہمن ہے، بہت اہم رول ادا کرتی ہے۔ رکمنی ترپاٹھی کا کردار بھی چمراسر کی طرح پورے ناول پر چھایا رہتا ہے۔ رکمنی ترپاٹھی، انسانیت و محبت، سچائی، وفا داری، مساوات غرض تمام خوبیوں کی پیکر ہے۔ وہ برہمن ہوتے ہوئے بھی منووادی نظام کی کڑی تنقید کرتی ہے اور خالص انسانیت و مساوات کی بات کرتی ہے۔ وہ اپنی تحریر و تقریر سے مہیشاسر آندولن کو آگے بڑھانے میں بھرپور رول ادا کرتی ہے۔ اس دلت تحریک سے دھیرے دھیرے سیف اور کاشف جیسے نوجوان بھی جڑتے ہیں کیوں کہ وہ بھی فاسشٹ طاقتوں کے جبروظلم کا شکار ہیں۔ یہ تحریک دلت، مسلم کے اتحاد سے رفتہ رفتہ زور پکڑتی چلی جاتی ہے۔ سورنوں کی چھوٹی چھوٹی تحریک جیسے اجگر ٹولی وغیرہ اسے کچلنے کی ہرممکن کوشش کرتی ہے لیکن جب نہیں کچل پاتی ہے تو پھر سورن چھل کپٹ اور فریب کا سہارا لیتے ہیں جس کے ذریعے بھیشم پتامہ، کرن اور درونہ اچاریہ کا قتل ہوا۔ رکمنی جو دلت آندولن کی سب سے وفادار ممبر ہے اور جو انسانیت و محبت سے سرشار ہے، اسے سجاتا کے ذریعے جن کلیان سمیتی کے جلسہ میں چیف گیسٹ بناکر بلایا جاتا ہے اور پھر پروگرام کے بعد منصوبہ بند طریقہ سے امبیڈکر گیسٹ ہاؤس میں اس کا ریپ پھر قتل کیا جاتا ہے۔ یہ سب کام وزیر لکشمی کانت اور اس کے غنڈے مل کر کرتے ہیں۔ وزیر کا اثرورسوخ دیکھئے کہ وہ انتظامیہ کو ہاتھ میں لے کر سارے ثبوت مٹادیتا ہے اور بڑی چالاکی سے یہ خبر اخبار میں شائع کروا دیتا ہے کہ رکمنی کی موت حرکت قلب بند ہونے کی وجہ سے ہوئی ہے۔ اسی طرح فریب کا جال پھنساکر چمراسر کو بھی قتل کیا جاتا ہے۔ یہ کام بھی وزیر لکشمی کانت کے اشارے پر ہوتا ہے۔ وزیر کی بھانجی جو چمراسر کی بدولت مجسٹریٹ بنتی ہے، وہی چمراسر کی جان لیتی ہے۔ بھانجی کئی سالوں سے امتحان دیتی ہے مگر پاس نہیں ہوپاتی ہے۔ بالآخر وزیر لکشمی کانت بڑی چالاکی سے ایڈمٹ کارڈ پہ فوٹو بدل کر بھانجی کی جگہ چمراسر کو امتحان دینے بٹھادیتا ہے اور بھانجی پاس ہو کر مجسٹریٹ بن جاتی ہے۔ اس راز کے شواہد چمراسر کے پاس ہیں۔ اسی لئے وہ راز کو عیاں کر دینے کا خوف دلا دلا کر اپنی تحریک کو مضبوط کرنے میں مجسٹریٹ اور وزیر سے بہت کام لیتا ہے۔ وزیر لکشمی کانت جب براہ راست اسے کچھ نہیں کرپاتا ہے تو وہ اپنی بھانجی کے ذریعے فریب کا سہارا لے کر چمراسر کا قتل کروا دیتا ہے اور لاش پانی میں بہادی جاتی ہے۔ چمراسر اگرچہ مر جاتا ہے لیکن فوراً گاماسر اس کی جگہ لے کر تحریک کے جاری رکھنے کا اعلان کرتا ہے۔

یہ ناول عہد حاضر کے ظلم و بربریت کا بیانیہ ہے۔ حالیہ چند برسوں میں دلتوں اور مسلموں پر جو بے انتہا مظالم ڈھائے گئے اور ڈھائے جا رہے ہیں، اس کی عکاسی اس ناول میں بہت ہی موثر طریقے سے کی گئی ہے۔ گؤ رکشا کے نام پر ماب لنچنگ، دلتوں کے ساتھ بہیمانہ رویے، ان کی لڑکیوں اور عورتوں کے ساتھ زنابالجبر اور ان کو دبائے رکھنے کی سورنوں کی تمام حرکتوں اور چالبازیوں کی تصویرکشی بھی بڑے جاندار انداز میں کی گئی ہے۔ ناول شروع سے آخر تک احتجاج اور بغاوت کی آگ سے بھرا ہوا ہے۔ دلت سماج میں جو احتجاج اور بغاوت کی آگ پائی جاتی ہے، اس کی قیادت چمراسر جیسا انقلابی نوجوان قائد تو کرتا ہے لیکن وہ فریب کے ذریعے قتل کروا دیا جاتا ہے۔ اس لئے دلت آندولن، ایک بڑا سماجی آندولن کا روپ لینے سے پہلے ہی دم توڑنے لگتا ہے۔ ناول کے آخری جملہ "یہ جنگ جاری رہے گی” سے امید کی کرن پھوٹتی ہے کہ آگے چل کر یہ آندولن دلت اور کمزور لوگوں کو ضرور انصاف دلانے میں کامیاب ہو گا۔

یہ ناول، کئی اعتبار سے قاری کی توجہ اپنی جانب مبذول کرانے میں کامیاب ہے۔ ناول میں موثر کردار نگاری کی گئی ہے۔ چمراسر کا کردار مرکزی کردار ہے، اس کے علاوہ سجاتا، وزیر لکشمی کانت، مجسٹریٹ اور دیگر کردار بھی اپنی حرکات و سکنات اور بات چیت سے قاری کو متاثر کرتے ہیں۔ ناول میں منظرکشی کم ہے مگر دلچسپ ہے۔ ناول کا بیانیہ انتہائی شفاف، روشن اور رواں ہے۔ کہیں کوئی رکاوٹ محسوس نہیں ہوتی۔ یہ ناول سیاسی اور تاریخی موضوع پر ہوتے ہوئے بھی اشتہاریت، نعرہ زنی، پروپیگنڈہ اور صحافت جیسے عیوب سے محفوظ ہے۔ ناول میں قاری کو متوجہ کرنے اور پوری طرح اپنی گرفت میں رکھنے کی طاقت موجود ہے۔ ایک بہتر ناول کی خوبی "چمراسر” میں بدرجہ اتم موجود ہے جو اسے اردو ناولوں میں معیار و وقار بخشتی ہے۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے