چلو بھر پانی، چلو بھر خون ۔۔۔ نا۔ گا۔ گورے/ اعجاز عبید

(مراٹھی)

 

آسمان میں کہیں چھوٹا سا بادل بھی نظر نہیں آ رہا تھا۔ اوپر سے جیسے آگ برس رہی تھی۔ باہر پیلی، نم دھوپ تھی۔ ہماری گاڑی دھیمی رفتار سے الہ آباد کی طرف بڑھ رہی تھی جیسے مکھی گڑ کی بھیلی پر رینگتی ہے۔ گاڑی میں کھچاکھچ بھیڑ تھی اور اگر کوئی ٹائیلیٹ تک بھی جانا چاہتا تو لوگوں کے ہاتھ پاؤوں کو دبا کر یا ان کا سامان روندتے ہوئے ہی جا سکتا تھا۔ الہ آباد پہنچتے ہی بھیڑ کا طوفان آ جائے گا اور دلی تک پہنچتے پہنچتے یہ سکھ بھی کسی کو نصیب نہیں ہوگا، یہ بات ہر کوئی جانتا تھا۔ جیسے ہی گاڑی نے اپنی سمت بدلی اور پہیوں کی کھڑکھڑاہٹ سنائی دی تب تک ڈبے کا ہر مسافر اس قدر سنور کے بیٹھ گیا جیسے کسی جنگ کا مورچہ باندھ رہا ہو۔ کھڑکی کے پاس بیٹھے ہوئے مسافروں نے کھڑکیوں کے شٹرس گرا دئیے اور جنگی سپاہیوں کی طرح وہ تن کے بیٹھ گئے۔ اس ایک پل میں پورے ڈبے کے مسافروں میں ایک برادری کا سا لگاؤ ہو گیا۔

گاڑی الہ آباد اسٹیشن کے پلیٹ فارم پر آ گئی تھی۔ اس سے پہلے کہ وہ کھڑی ہو، ہری وردی پہلے فوجیوں نے ہمارا ڈبہ گھیر لیا۔ یوں تو جہاں دیکھو وہیں پورے پلیٹ فارم پر فوجی سپاہی ہی نظر آ رہے تھے۔ مغل سرائے سے ایک مارواڑی اپنا بھاری بھرکم بستر لگائے بیٹھا تھا۔ کسی نے باہر سے دروازہ کھولا تو بیچارہ مارواڑی جال میں پھنسے چوہے کی طرح چلاّنے لگا۔ ہم سب بھی چلا کر کر بولنے لگے، ’’کہاں گھسے آ رہے ہو؟ یہاں جگہ نہیں ہے۔‘‘ لیکن کوئی سنے تب نا! داڑھی مونچھ والے سکھ، کیپس لگائے ہوئے پنجابی اور جاٹ فوجی دیکھتے دیکھتے اندر گھس آئے۔ آتے ہی انہوں نے ساری کھڑکیاں کھول کر وہاں سے اپنا اور اپنے ساتھیوں کا سامان اندر لینا شروع کر دیا۔ بندوقیں، کٹ بیگز، بستر، بڑے بڑے پٹارے ۔۔۔ پوچھو مت۔ ایک طرف کھڑکی سے سامان اندر آ رہا تھا دوسری طرف دروازے سے فوجی جوان۔ ہم پہلے سے بیٹھے مسافر تنگ آ گئے۔ ہمارے کپڑوں سے پسینے کی بو آ رہی تھی، سارا جسم میلا کچیلا ہو گیا تھا، تین چار دن کا سفر ۔۔۔ اور اوپر سے یہ بلا!

جھلا کر میں نے کہا، ’’پتہ نہیں یہ بلا ہمارے ہی سر پر کیوں آئی! اپنے ہی ڈبوں میں کیوں نہیں چلے گئے یہ لوگ!‘‘

’’بھائی، فوجی ہیں۔ انہیں کون روک سکتا ہے؟ شکر ہے انہوں نے ہمیں ہی اٹھا کر باہر نہیں پٹک دیا۔‘‘ سامنے والی سیٹ پر بیٹھا ایک بوڑھا مسلمان بولا، جو کب سے تمباکو چبا رہا تھا۔

ایک ادھیڑ عمر کی عورت سر پر کھنچے گھونگھٹ میں سے بولی، ’’آپ نے ٹھیک کہا بابا۔ ان فوجیوں کو نہ کسی کی شرم ہے نہ حیا۔ ان میں انسانیت نام کی چیز نہیں ہوتی۔‘‘

ہم پہلے مسافر آپس میں ان کے بارے میں یوں ہی باتیں کر رہے تھے مگر انہوں نے ہماری طرف قطعی دھیان نہیں دیا۔ وہ اپنا اپنا سامان ٹھیک کرنے میں مصروف تھے۔ اپنے بڑے پٹاروں پر باقی سامان رکھ کر انہوں نے پیر دھرنے کی جگہ بنا لی تھی۔ ان کے بدن پسینے سے تر تھے اور جگہ جگہ ان کی وردیاں بھیگ گئی تھیں۔ حالانکہ ہمارا حال بھی ٹوکرے میں بند مرغیوں سے بہتر نہیں تھا۔ ایسے میں کہیں سے کھڑے ہو کر ایک سردار جی نے اپنی بھاری آواز میں پوچھا، ’’ہو گیا سارا معاملہ ٹھیک ٹھاک؟‘‘

’’جی، ہاں جی سردار جی۔‘‘

’’بوت اچھا! ہن آرام کرو بیٹے۔‘‘ کہہ کر انہوں نے اپنی بیلٹ ڈھیلی کر دی اور بیٹھتے بیٹھتے اپنے آپ سے ہی بولے، ’’جنگ ختم ہوئی۔ چلو، پانچ سالوں بعد گھر کے درشن ہوں گے۔‘‘

داڑھی مونچھوں کے جنگل سے پوری طرح سے جملہ بولا بھی نہیں گیا۔ آنکھیں نم ہو گئیں۔ تھوڑا سا آگے جھکے اور چپ ہو گئے۔ پاس میں بیٹھے مسلمان سپاہی نے کہا، ’’فکر نہ کرو یار۔ جہنم سے زندہ لوٹے ہو، خدا کے فضل سے۔ اب سب ٹھیک ہو جائے گا۔‘‘

سردار جی کچھ نہیں بولے۔ داڑھی میں ہاتھ پھیرتے ہوئے ان کے منھ سے نکلا، ’’واہے گرو، واہے گرو۔‘‘

بنچ کے پیچھے سے ایک چھوٹی سی گوری بانہہ سردار جی کا کندھا چھو گئی۔ بچہ کے پیار بھرے تتلے الفاظ سنائی دیے: ’’چاچا جی، چاچا جی!‘‘

ہم سب اسی طرف دیکھنے لگے۔ بھٹے جیسے ملائم سنہرے لال بال، شرارتی آنکھیں، گورا چٹا بچہ اپنی خرگوش کے پنجے جیسی ہتھیلیاں سردار جی کے کندھوں پر رکھ کر بلا رہا تھا : ’’چاچا جی، چاچا جی۔‘‘

سردار جی نے مڑ کر اس کی ہتھیلیاں اپنے مضبوط ہاتھوں میں تھام لیں اور اسے دیکھتے ہی رہ گئے۔ بچہ بھی ڈھیٹ تھا۔ اس نے بھی نظر نہیں ہٹائی۔ پہاڑ نما وہ فوجی سپاہی اس ملائم لمس سے برف کی طرح اندر ہی اندر پگھل رہا تھا۔ وہ کچھ بھی بولنے کے نا قابل ہو گیا تھا۔ شروعات میں بچہ وردی کو، داڑھی مونچھوں کے گھنے جنگل کو سہما سا دیکھ رہا تھا۔ اب اس کا ڈر دور ہو گیا۔ سردار جی کی داڑھی میں اپنی انگلیاں پھنساتے ہوئے وہ بولا، ’’ماں، دیکھو یہ شیر۔‘‘

برقعہ اوڑھے بیٹھی اس کی ماں نے ڈانٹتے ہوئے کہا، ’’انور! بد تمیز کہیں کا!‘‘

لیکن سردار جی بہت خوش ہوئے۔ ہنستے ہنستے انہوں نے پوچھا، ’’اچھا! میں شیر ہوں۔ پھر تم کون ہو؟ خرگوش۔‘‘

یہ پیار دلار کا منظر ہم سب دیکھ رہے تھے۔ لیکن میں من ہی من میں سوچ رہا تھا، کہ یہ ماں بچہ ڈبے میں کب آئے۔ الہ آباد سے پہلے تو یہ ہمارے سنگ نہیں تھے۔ تو اتنی بھیڑ میں کیسے آئے ہوں گے؟ شاید فوجی باڑھ کے دھکے سے بغیر کوشش کئے اندر آ گئے۔ خرگوش جیسے گدبدے بدن والے اس باتونی لڑکے کو ہم ۔۔۔۔۔؟؟؟ سے دیکھ رہے تھے۔ وہ سردار جی پر سوالوں کی بوچھار کر رہا تھا : ’’ہماری گاڑی کب چھوٹے گی؟‘‘

’’بس، اب چھوٹنے ہی والی ہے۔‘‘

’’یہ لباس کیوں پہنا آپ نے؟‘‘

’’فوجی لوگ ایسا ہی لباس پہنتے ہیں۔‘‘

’’یہ بندوق ہے نا، کیا کرتے ہیں اس سے؟‘‘

’’بندوق سے کیا کرتے ہیں؟ گولی چلاتے ہیں— ٹھا کر کے۔‘‘

’’کس پر چلاتے ہو؟‘‘

’’آدمیوں پر‘‘

’’ہاں، مگر کیوں؟‘‘

’’تنگ کرتے ہیں نا! اس لئے ‘‘

انور کی ماں جانتی تھی کہ اس کے سوال کبھی ختم نہ ہوں گے۔ اس نے کہا، ’’دیکھو انور، بک بک بند کرو، ورنہ سردار جی کہیں گے کہ یہ بچہ بہت ہی شرارتی ہے۔ تنگ کرتا ہے۔‘‘

وہ ڈرنے والا تھوڑے ہی تھا۔ اپنے دونوں ہاتھ سردار جی کے ہاتھوں میں رکھے وہ ماں کی طرف جھک کر چڑھاتے ہوئے بولا، ’’تب چاچا جی مجھے گولی سے اڑا دیں گے؟‘‘ وہ ہنس رہا تھا اور اس کے بال مرغے کی کلغی کی طرح لہرا رہے تھے۔

سردار جی نے اچانک اسے اپنے بازو سے بھینچ لیا اور اس کا گال سہلاتے ہوئے وہ بولے، ’’پاگل کہیں کا۔ بلبل جیسے چہکنے والے بچہ کو کوئی گولی مارا ہے بھائی!‘‘

پھر اس کا دھیان دوسری طرف لگانے کے لیے انہوں نے پوچھا، ’’بولو، کیا کھاؤ گے؟‘‘

’’کچھ نہیں‘‘ انور بولا۔

تب اسے لگا جیسے پیاس لگی ہو۔ وہ ماں کی گود میں چلا گیا اور ضد کرنے لگا، ’’امی مجھے پانی دو۔ مجھے پیاس لگی ہے۔‘‘

ماں نے اسے خالی لوٹا دکھاتے ہوئے کہا، ’’جانتے نہیں ہو کہ بھیڑ میں پانی بکھر گیا۔ اب پانی کے لیے ضد نہیں کرو بیٹے۔ لکھنؤ پہنچیں گے نا، تب ملے گا، ہاں۔ میرا اچھا بیٹا۔‘‘

سردار جی جھٹ کھڑے ہو کر کہنے لگے، ’’بہن جی، مجھے دیجیے لوٹا۔ میں ابھی بھر لاتا ہوں۔‘‘

لوٹا لے کر وہ کھڑکی سے باہر کی طرف جھکے ہی تھے کہ ان کا دوست بولا، ’’ادھم سنگھ، گاڑی کے چلنے کا وقت ہو رہا ہے۔ میرے پاس واٹر بوٹل میں پانی ہے۔ میں دیتا ہوں۔ جاؤ نہیں ۔۔۔‘‘

لیکن تب تک وہ باہر کو کود چکا تھا اور نل کی طرف تیزی سے دوڑ رہا تھا۔

تھوڑی ہی دیر میں گاڑی سیٹی دے کر دھیمے دھیمے چلنے لگی۔ کھڑکی کی طرف بیٹھے مسافر دیکھ رہے تھے کہ گاڑی پکڑنے کے لیے اودھم سنگھ دوڑ رہا تھا۔ اس کے کچھ دوست اسے چلا کر اگلے اسٹیشن پر آنے کو کہہ رہے تھے، تو کوئی اور زور سے دوڑنے کی صلاح دے رہے تھے۔

اس سب میں انور کچھ سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ اس میں اس کا کوئی قصور ہے یا چاچا جی گاڑی سے گر گئے ہیں؟ اس کی آنکھوں کی شرارت بجھ گئی تھی۔ اسے پیاس خوب لگی تھی۔ گرمی کے سبب گال اور لال ہو رہے تھے۔ گاڑی نے اب رفتار پکڑ لی تھی۔ نزدیک بیٹھا پنجابی مسلمان کہہ رہا تھا، ’’اب نہیں آ سکتا وہ۔‘‘ کہتے ہوئے اس نے اپنی واٹر بوٹل انور کے سامنے کر دی۔ اس نے وہ منھ کو لگائی ہی تھی کہ دروازے سے سردار جی کی آواز آئی، ’’انور بیٹا، یہ لو پانی۔‘‘

الفاظ سنتے ہی اس نے واٹر بوٹل اپنے منھ سے ہٹائی اور سردار جی کا لایا ہوا لوٹا ہاتھوں میں پکڑ کر پانی پینے لگا۔ سردار جی کی موٹی انگلیاں اس کے بالوں کا ریشم سہلا رہی تھیں۔

اس منظر کی قدر کرتے ہوئے دوسرے سپاہی نے اپنی واٹر بوٹل ہٹا لی۔ دیکھنے والوں میں سے ایک جاٹ نے ہنس کر کہا، ’’محبت بھی کیسی چیز ہوتی یار۔‘‘

انور کے ہونٹوں سے گرنے والی پانی کی بوند سردار جی نے یوں پونچھی کہ وہ گلاب کی پنکھڑیوں سے اوس کی بوند سکھا رہے ہوں۔ بولے، ’’میرا لچھمن بھی تو اتنا ہی بڑا ہوگا۔‘‘ ان کی آنکھیں بھر آئی تھیں، گلا رندھ گیا تھا۔

 

اس بات کو دو اڑھائی سال ہوئے۔ دو دنوں کے بعد یومِ آزادی۔ بھارت کا پہلا یوم آزادی۔ قرول باغ میں جامعہ ملیہ کے اسکول میں تیاری ہو رہی تھی۔ ساری کلاسیں رنگ برنگی جھنڈیوں سے سجی تھیں۔ بچوں میں امنگ بھری تھی۔ ہم نے ان کے بنائی تصویریں،نقشے۔ کھلونے وغیرہ دیکھے۔ وہاں کے ٹفن سنٹر کی دیکھ بھال بھی بچے ہی کرتے تھے۔ بھارت کے شہری وہاں تیار کیے جاتے تھے۔ وہ صرف اسکول نہیں تھا بلکہ ڈاکٹر ذاکر حسین اور ان کے دوسرے مدد گاروں کا خواب تھا۔ گھنٹی بجی اور ہم سب اسکول کی جلسہ گاہ میں اکٹھے ہو گئے۔ بچے دوسرے دن کے پروگرام کی رہرسل کر رہے تھے۔

سب سے پہلے جامعہ ملیہ کا جھنڈا گیت ہوا۔ بعد میں ہر اسکول میں ہونے والے وہی پروگرام۔ میں اٹھنے والا ہی تھا کہ اقبال کے مصرعے سنائی دئے اور میں پھر کرسی پر بیٹھ گیا۔ سفید گلاب جیسا تر و تازہ چہرہ اور جو کے پھول جیسی سنہری آنکھیں۔ وہ گا رہا تھا :

ہم بلبلیں ہیں اس کی یہ گلستاں ہمارا۔

بلبل۔ گورا چہرہ اور سنہری آنکھیں۔ مجھے کچھ کچھ یاد آ رہا تھا۔ وہ گا رہا تھا :

اے آب رود گنگا وہ دن ہے یاد مجھ کو

اترا تیرے کنارے جب کارواں ہمارا۔

تو مجھے کیوں نہیں یاد آتی؟ میں نے اسے کہاں دیکھا ہے؟

ہندی ہیں ہم وطن ہے ہندوستاں ہمارا۔

ترانہ ختم ہوا تھا۔ میں نے اپنے نزدیک بیٹھے استاد سے پوچھا، ’’کون ہے یہ لڑکا‘‘

’’یہ انور حسین ہے۔ کافی ہوشیار ہے۔‘‘ جواب ملا۔

’’لکھنؤ کا ہے کیا؟‘‘ میں نے پوچھا۔

’’جی ہاں۔ آپ جانتے ہیں اسے؟‘‘

’’نہیں، جانتا نہیں۔ یوں ہی۔‘‘ میں نے کہا۔

انور۔ اب یاد آ رہا تھا۔ گھر کی طرف چلتے وقت مجھے لگ رہا تھا کہ بہت دنوں سے کھوئی ہوئی کوئی چیز مل گئی ہو۔ دل جیسے ہلکا ہو گیا تھا۔ وہ گرمی کی دو پہر، گاڑی میں امڈی پڑی بھیڑ، گھر جانے کے لیے بے چین فوجی، وہ سکھ اور انور۔ مجھے لگ رہا تھا کہ اب بھی میں گاڑی میں ہوں۔

میں اپنے خیالوں میں اتنا کھویا ہوا تھا کہ بارا کھمبھے کی اور جانے والے بس ڈرائیور نے مجھے ہارن بجا کر جو اشارہ دیا، وہ میں نے سنا ہی نہیں۔ بریک لگا اور میں بال بال بچ گیا۔ نکڑ کی دوکان کا سکھ ’’بابو جی، بابو جی‘‘ کہتے ہوئے دوڑ کر میرے پاس آیا۔ ڈرائیور نے ایک بار میری طرف دیکھا، پھر میرے کھادی کے لباس کو اور زبان پر آئی گالی نگل کر وہ چلا گیا۔ اس سردار نے میری بانہہ پکڑ لی اور ہنستے ہوئے پوچھا، ’’کیوں، خود کشی کرنے کا ارادہ تھا کیا؟‘‘

’’نہیں‘‘ میں نے ہنستے ہوئے جواب دیا۔

’’بال بال بچے۔ ایسا کون سا سپنا دیکھ رہے تھے آپ؟‘‘ اس نے پوچھا۔

میں نے یکایک پوچھا، ’’ادھم سنگھ جی، آپ یہاں کیسے؟‘‘ جیسے ہی میں نے اس کا نام لیا وہ بھونچکا رہ گیا۔ اپنی دوکان کی اور لے جاتے ہوئے وہ خود سے ہی بات کرتا جا رہا تھا :

’’عجیب بات ہے۔ مجھے یاد ہی نہیں آ رہی کہ میں نے آپ کو کہیں دیکھا ہے۔ آئیے بابو جی، چلئے دوکان میں۔ بیٹھیے‘‘

بیٹھتے ہی میں نے پوچھا، ’’آپ کا لچھمن کیسا ہے؟ اب تو وہ اسکول جاتا ہوگا؟‘‘

ادھم سنگھ اور ہکا بکا ہو گیا۔ آنے والا اس سے اتنا واقف ہے اور وہ خود کچھ بھی نہیں جانتا۔ اسے لگ رہا تھا جیسے اس نے میرے تئیں کوئی بڑا جرم کیا ہے۔

’’لچھمن پنڈی میں ہے۔‘‘ کہ کر وہ پھر سے اپنی یاد ٹٹولنے لگا۔ اب میں نے اسے اور پریشان میں رکھنا ٹھیک نہیں سمجھا۔ اسے سفر کی یاد دلائی اور پوچھا، ’’آپ کو یاد ہے اس انور کی؟ وہ یہیں پر ہے جامعہ میں۔ آج ہی میں نے اسے دیکھا۔‘‘

’’اچھا، وہ مسلمان بچہ؟ جامعہ میں ہی ہوگا وہ اور ہو کہاں سکتا ہے؟‘‘ ادھم سنگھ نے جواب دیا۔ میں اس کی طرف دیکھ رہا تھا مگر وہ پیار ممتا جو گاڑی میں انور کے تئیں امڈا پڑ رہا تھا، کہیں نظر نہیں آ رہا تھا۔ مجھے لگا کہ یہ فوجی لوگ اور ہماری دکھن کی ندیاں ایک جیسی ہی ہیں۔ برسات کے دنوں میں باڑھ، ورنہ بالو۔ میں نے اسے اور کریدا، کہا، ’’بہت پیارا بچہ تھا، نہیں؟‘‘

میری اور چائے کی پیالی بڑھاتے ہوئے اس نے جواب دیا، ’’پیارا تو تھا ہی، لیکن سانپ کا بچہ تھا۔‘‘

پیالی نیچے رکھ کر میں نے پوچھا، ’’مطلب؟‘‘

’’مطلب صاف ہے بابو جی۔ مسلمان کی اولاد ہے نہ۔ کبھی نہ بھولیے۔‘‘ اس کی آنکھیں کرپان کی طرح چمک اٹھیں۔

آزادی کا نشہ فوراً اتر گیا تھا۔ اب تصویر یوں لگ رہی تھی کہ جیسے پہلے آم کا پیڑ بور سے بھرکر پھلوں کی آس دکھائے اور اچانک اوس گر کر اس پر پانی پھیر جائے۔ آزادی اور دیش کی جے مالا ہو ہی رہی تھی کہ منڈپ ٹوٹ پڑا۔ امرتسر، سیالکوٹ، لاہور، گاؤں گاؤں، بستی بستی آگ میں جھلسنے لگے، جل کر راکھ ہونے لگے۔ سب کچھ برباد کر ڈالنے والا طوفان اٹھا ہوا تھا اور اس کا پاؤں کبھی یہاں کبھی وہاں پڑ رہا تھا۔ اس کے ڈمرو کی گمبھیر آواز دلی کے چاروں میناروں کو کپکپا رہی تھی۔ اس کی اٹھان ہماری سوچنے کی قوت  کو پنگو بنا رہی تھی۔ ہمارے چہرے سے انسانیت کا مکھوٹا پگھل رہا تھا اور اندر سیار کی آنکھیں اگ آئی تھیں۔ انگلیوں پر شیر کے ناخون، جنگلی سور کے دانت اور بکرے کا لنگ۔ آج تک آدمی نے کون سی چیز بہت پیاری مانی ہے؟ محبوبہ کی محبت۔ کون سی چیز پاک جانی ہے؟ ماں کے آنسو۔ کون سی چیز اسے شیریں لگتی ہے؟ بچے کی ہنسی۔ تب پھر کیوں ہم ان سب کو پاؤں تلے روند کر ان کے خون میں نہا کر دنیا کے سامنے بے شرمی نے ننگ دھڑنگ ناچتے ہیں؟ کیوں ہم ایک دوسرے کی ماؤں کی چھاتیوں کو، بیویوں کی جانگھوں کو اور بچوں کے گلے دبا کر دکھ پہنچاتے ہیں؟

اب تک دلی سلگ رہی تھی، جھلس نہیں گئی تھی۔ پنجاب سے آتی خبروں سے وہ اندر ہی اندر رو رہی تھی۔ ہندو اور سکھوں کی آنکھیں اس سے سرخ ہو رہی تھیں۔ تو مسلمانوں کی خوف کی دہشت سے۔ دھیرے دھیرے خبر آنے لگیں کہ کہیں مسجد گرائی گئی تو سبزی منڈی میں کسی کو چھرا بھونکا گیا۔ کبھی کسی مسلمان کے گھر پر پتھراؤ ہی ہو گیا۔ آندھی کے یہ واضح نشانات تھے، گھنگھور برسات کی پہلی بوندیں۔ اور جیسے ہی پچھمی پنجاب سے آئے پناہ گزینوں کی باڑھ سونی پت سے ہو کر دلی میں اتری تب ان کی لائی ہوئی کہانیوں سے پہلے تو یہاں کے لوگوں کے من جل کر راکھ ہوئے، پھر اس کے انگارے بنے۔ پناہ گزینوں کی کہانیوں کا ایک ایک لفظ سننے والوں کو بے چین بنا رہا تھا۔ ماحول میں الفاظ گونجنے لگے تھے : ’’بدلا، خون کا بدلا۔‘‘

ہر کونے میں، ہر نکڑ پر لوگوں کے گروہ اکٹھے ہونے لگے۔ پل بھر کو چرچا کرتے اور پھر غائب ہو جاتے۔ ایسا لگ رہا تھا کہ دلی میں اجنبی لوگ کافی تعداد میں آ گئے ہیں یا تو جانے پہچانے لوگ ہی اجنبی سے لگ رہے ہیں۔ لوگ یا تو چپ رہتے یا گھر میں پڑے رہتے یا پھر گالی گلوچ ہی کرنے لگتے۔ سڑک پر عورتوں کا اور بچوں کا چلنا پھرنا لگ بھگ بند ہو گیا تھا۔

پھر بھی ادھم سنگھ کی دوکان پر لوگوں کا آنا جانا بڑھ گیا تھا۔ وہ گاہک نہیں تھے۔ ایک بار میں نے وہاں کافی لوگ اکٹھا ہوئے دیکھے۔ اس دن اس سے پھر سے ملاقات ہونے کے بعد میں کبھی کبھار اس سے ملنے چلا جاتا تھا۔ اس لئے میں نے دیکھا ادھم سنگھ ایک پتھر کی طرح چپ بیٹھا تھا، اور باقی سب اس کے ارد گرد کھڑے تھے۔ کوئی کچھ نہیں بولتا تھا۔ پر کچھ کالی سی چیز ان کے من میں تھی، یہ تو میں بھانپ گیا، جیسے ایک جانور دوسرے جانور کو سونگھ کر اس کے دل کی باتیں جان لیتا ہے۔ شاید میں بھی ان دنوں میں بدل گیا تھا۔ میں نے اسے بلایا ’’سردار جی، ادھم سنگھ۔‘‘

ایک دوسرے میں بندھے ہاتھ ویسے ہی رکھ کر اس نے میری طرف اپنی برف جیسی جمی نگاہ ڈالی۔ میں نے پوچھا، ’’کیا ہوا؟‘‘

”جو ہونا تھا سو ہو گیا،” کڑواہٹ سے ہنستے ہوئے اس نے جواب دیا۔ آگے بولا، ’’پنڈی میں، سیالکوٹ میں جو ہو رہا ہے وہی ہو گیا بابو جی۔‘‘

’’مطلب؟‘‘

’’میرا پورا ستیا ناس ہو چکا ہے بابو جی‘‘ اپنی فولادی بانہیں میرے کندھوں پر رکھتے ہوئے اس نے کہا۔ اور پھر مجھے ہی نہیں بلکہ دلی کے سب باشندوں کو مخاطب کر کے بولا  ’’کل دلی میں قیامت آئے گی۔ سارے سانپ کچل دیے جائیں گے۔‘‘

اور سچ ہی دوسرے دن دلی میں قیامت آ گئی۔ مسلمان اپنے بال بچے، بیویوں کو لے کر چھپنے کے ارادے سے جانے لگے۔ راستوں میں ان پر حملے ہونے لگے، گھروں کو جلایا جانے لگا، شہر بھر میں یہی چل رہا تھا۔ اور میں ۔۔۔ میں کہاں تھا؟ کیا کر رہا تھا؟ کیا اس سب پر مجھے کچھ اعتراض تھا؟ سچ پوچھو تو نہیں۔ خود میں نے تو نہ کسی کو لوٹا، نہ کسی کو چھرا بھونکا، نہ کسی مسلم لڑکی کو بھگایا۔ وجہ یہی تھی کہ دل میں کمزور تھا میں — نا مرد۔ اوروں کے ذریعے کیے جانے والے یہ ظلم و ستم دیکھ کر میں بہت خوش ہوتا تھا۔ اسی لئے تو میں شہر بھر میں گھوم رہا تھا۔ جیسے ونگ میں بیٹھ کر ناٹک دیکھ رہا تھا۔ جیسے چیتے کا یا ہرن کا شکار دیکھنے والے کا خون کھولتا ہے، اور جانوروں کا جنسی عمل سے نسوں میں ابال آ جاتا ہے — ٹھیک ویسا ہی میرا حال تھا۔ میرے اندر اس دوپہر کو ایک ناظر چھپا تھا۔ دوسروں کے بھونکے ہوئے چھرے سے ٹپکے خون میں ہاتھ ڈبونے والا، ان سے بے لباس کی گئی لڑکیوں کی چھاتیاں دبانے والا ۔۔۔۔ میں سب جگہ اپنے دل و دماغ سے حصے دار تھا۔

دوپہر دو بجے سنا جامعہ ملیہ کے پاس کچھ گڑبڑ ہوئی۔ لگا پیٹ میں آنتیں کھنچنے لگیں۔ میں اس طرف ہو لیا۔ دیکھا اسکول کی عمارت سے شعلے اٹھ رہے تھے۔ نزدیک کے پیڑ کے پتے سڑ گئے تھے، ہوا سے اڑ رہے تھے۔ کچھ کاغذ بھی ان کا ساتھ دے رہے تھے۔ کوئے کبوتر ڈر کر ادھر اُدھر اڑ رہے تھے۔ لوگوں کی آوازیں آ رہی تھیں۔ دو تین سو مسلمان عورتیں، بچے اور مرد ہماری ہی سمت بڑھ رہے تھے ۔۔۔ گھسٹ رہے تھے۔ چلنے کے لیے ان کے پاؤں کمزور تھے۔ راستے کے دونوں طرف لوگ قطاروں میں کھڑے ان بد قسمت لوگوں کو دیکھ کر گالیاں بک رہے تھے۔ ہنس رہے تھے۔ اب تک انہوں نے ہاتھ نہیں اٹھایا تھا۔

نکڑ پر ادھم سنگھ کی دکان تھی۔ وہاں پہنچتے ہی سارا منظر پلٹ گیا۔ دکان سے پچاس ساٹھ آدمی اس جتھے پر ٹوٹ پڑے۔ لاٹھیاں، چھرے، برچھے، طرح طرح کے ہتھیار چلنے شروع ہو گئے۔ آدمی بھاگ کھڑے ہوئے۔ عورتیں بچوں کو سینہ سے لگا کر چیخنے لگیں۔ لڑھکے ہوئے برتنوں سے جیسے پانی گرتا ہے، ویسے ہی خون بہنے لگا۔ لاشوں کا ڈھیر لگنے لگا۔

اس میں اچانک ایک چیخ میں نے سنی۔ دیکھا تو ادھم سنگھ نے فولادی شکنجے میں ایک بچے کے بال جکڑے تھے۔ دوسرے ہاتھ میں خون سے رنگا کرپان بچے کے سینے میں ٹکا دیا تھا۔ اس لڑکے کی آنکھیں بجھی بجھی لگ رہی تھیں۔ ہونٹ سفید پڑ گئے تھے۔ اور سمٹ گئے تھے۔ وہ کچھ کہنا چاہتا تھا مگر الفاظ ہی نکل نہیں رہے تھے ۔۔۔

میں نے اسے پہچانا۔ وہ انور ہی تھا۔ گلے ڈیولا کا پھول جیسا، بلبل جیسا انور۔ اسے بچانا ہی چاہیئے۔ میں چلانا چاہتا تھا کہ ادھم سنگھ، ہاتھ ہٹاؤ۔ یہ انور ہے۔ اپنا انور۔

لیکن میں کچھ بولوں اس سے پہلے ہی ادھم سنگھ کے کرپان نے انور کا سینہ چاک کر دیا تھا۔ وہی انور کے ریشم جیسے بال کبھی ادھم سنگھ نے سہلایے تھے، جسے پانی پلایا تھا وہی انور اب چلو بھر خون گرا کر اسی کے پاس سویا پڑا تھا۔ اس کے ہونٹ پھر سے لال ہوئے تھے اور گال نرم۔ بال چمک رہے تھے۔ لگ رہا تھا کہ اب وہ اٹھے گا اور اپنی بانہیں ادھم سنگھ کے کندھے پر رکھ کر کہے گا، ’’چاچا جی ۔۔۔!‘‘

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے