نظمیں ۔۔۔ تنویر قاضی

 

رات کی پہنائی میں گِرتی ہوئی ایک اور رات

_________________________________

 

راتوں میں

اک رات ڈھونڈتے

خود بھی ہو جاتے ہیں رات

بھیگے بال و پر کے ساتھ

سپید کبوتر

اُوپر اُڑتے

کالے ہرن کو دے نہیں سکتے مات

دیکھ نہ پائے

منقاروں پر

چُبھتی چھِلتر

جنت کے اشجار کی

اتنے مہین لکھے تھے نام

پڑھے نہیں جاتے تھے

پتا پتا جھڑتے جاتے تھے پیڑوں سے لوگ

اور ہی کسی زبان کی تختی

آویزاں تھی

منظر کی پیشانی پر

نُوری سالوں کی دُوری کے

باغوں کی پینگوں کے جھُولے

کرتے نیند خراب

ہو گئے آنکھوں سے اوجھل

٭٭٭

 

 

 

سالٹ رینج–1

___________________

 

آتی جاتی

گاڑی پر بھی رکھنا دھیان

اگلی مسافت پر جانا ہے

دن ڈھلنے سے پہلے

سالٹ رینج کو دیکھو

سارا نمک ہے یہ

گِر جانے دیتے ہیں اشکوں کو

جم جائیں گے روحوں کے اندر ورنہ

نیا جہان بنانے کو نمکین

تھوڑی کڑوی اک بستی رستے میں بس جائے گی

گھوڑے جب بیمار پڑیں گے

گھاس گھِرے پتھر چاٹیں گے

دشمن کے ہی کیوں نہ ہوں

استعارہ ہیں خوبصورتی اور جرات کا

ڈائینا سارز اور انسانوں کے فوسلز کی تحقیق میں یکجا ہوں گے ادارے

اور اک بہتے سالٹ رینج پر

شامل ہوتے جائیں آؤ

صدیوں بعد ہمارے بھیتر لوگ کھڑے کہتے ہوں گے

دیکھو صاف نظر آتے ہیں نشان

کبھی یہاں بہتا تھا سمندر

کتھا سناتے آبی پرندے اُڑیں گے اوپر

جانے کتنی آنکھوں نے مل کر آباد کیا پانی گھر

پھر جا کے بن پایا سمندر

مچھلیاں دُور سے آوازے کستی ہیں

ناف نمک کا حصہ ہو جانے سے پیشتر

سہمے ہوئے دل اوٹ میں ہو جاتے ہیں

جیسے کبوتر سو جاتے ہیں

٭٭٭

 

 

 

لوہے کا پرندہ

__________________

 

جہاز جوں جوں اُڑان بھرتا

دل بیٹھتا جاتا

پھر لینڈنگ گیئر نہیں لگا

بال و پر نہیں کھُلے

شام گہری ہو چلی تھی

گنتی کی جاتی

ایک طائر شمار نہیں ہوتا تھا

سمندر کی ہمسائے گی کی دھُواں دھُواں ہوتی گلی کے کہرام میں

99 انسانوں کو اپنے پروں میں سمیٹے

لوہے کا پرندہ گِرا پڑا تھا

جہاز نے پرندے سے اُڑنا سیکھا

وہاں، چیلوں، چڑیوں، ابابیلوں، کبوتروں کا جمع ہونا کوئی اچنبا نہ تھا

دونوں جَل چکے تھے مانسوں سمیت

پرندوں اور انسانوں کے ملاپ کا ایک نوحہ عرش ہلاتا تھا

دونوں کا نقصان ایک پرواز میں نارنجی درد جگاتا تھا

آگ آنسُوؤں سے بھی نہ بُجھائی جا سکی

منطق الطیر والا

عطار

عشق کے سات شہروں کا مسافر

کانفرنس میں بار بار

حاضری لگاتا

پر ایک پکھیرو کی کمی ہو جاتی

منقاریں کانپتی تھیں

سسکیاں اُبھرتی تھیں

اب آھستگی سے سیڑھیاں اُترتی خاموشی کا راج منظر کی کلغی پر تھا

بار بار کے اعلان اور درشتگی پر

پرندوں کی تعداد پُوری کرنے کو

ایک بلیک باکس لا کر رکھ دیا گیا ہے

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے