ٹھنڈی دیواریں ۔۔۔ گرمکھ سنگھ جیت/ اعجاز عبید

(پنجابی)

 

ایشور داس نے ایک گھٹن سی محسوس کی۔ مئی کا مہینہ ، بیحد تیز گرمی اور لو۔ اس کا دل گھبرا گیا ۔ اس نے بائیں ہاتھ کے انگوٹھے سے ماتھے پر بہتا ہوا پسینہ پونچھا۔ پھر ہاتھ سے پیٹھ کھجلانے لگا۔ جب اس طرح بھی چین نہ ملا تو بنیان اتار کر اس سے پیٹھ رگڑنے لگا۔ پر اس کو اندر کی گھبراہٹ باہر کی گھبراہٹ سے زیادہ تنگ کر رہی تھی۔ وہ اپنے دل میں کئی فیصلے کر رہا تھا۔ ساتھ ساتھ ہی وہ اس سودے کو، نفع نقصان کا بھی اندازہ لگا رہا تھا۔ اس کا دماغ اس واقعے کے ہر پہلو پر غور کر رہا تھا۔ اس کا سر بھاری ہونے لگا۔

تب پاکستان بنے مشکل سے آٹھ سال ہی ہوئے تھے۔ کوچہ نبی کریم میں ان کے پڑوسی موہن لال کے گھر سے ہر وقت آہیں سنائی دیتی رہتی تھی۔ موہن لال کے گھر سے مایاونتی کی آہیں کبھی کبھی اونچے اونچے رونے میں بدل جاتی تھیں۔ پاکستان بننے پر مصیبت تو سب پر ہی آئی تھی، پر ان کی مصیبت کچھ الگ اور زیادہ ہی تھی۔ پنڈی بھٹیاں میں سب کچھ کھو کر وہ سکھے کی منڈی سے گاڑی پر چڑھنے لگے تھے۔ ان کی جانیں ڈر سے سکڑی ہوئی تھیں اور چہرے روئی جیسے سفید دکھائی دیتے تھے۔ سکھے کی منڈی کا پلیٹ فارم وہی تھا جہاں سے وہ کئی بار گاڑی پر چڑھ کر حافظ آباد، سانگلا ہل یا جڑانوالے گئے تھے۔ موہن لال ہمیشہ پلیٹ فارم پر لگے پیپل کے نیچے بنچ پر بیٹھنا پسند کرتا تھا۔ اس پلیٹ فارم کے چپے چپے کو وہ اچھی طرح پہچانتا تھا۔ پر اس دن تو ایسا لگتا تھا مانو یہ کسی اندھیری گھاٹی کا پھسلنے والا دروازہ ہے۔ ان کے دلوں پر ڈر کا کچھ ایسا ہی دبدبہ تھا۔

اور آخر وہ بات ہو کر ہی رہی۔ شام کا اندھیرا گھرنے لگا۔ موہن لال اور مایاونتی کا خاندان اور بھی سکڑ گیا۔ باقی دوسرے بہت سے خاندان اپنی گٹھریاں وغیرہ سنبھال کر ان پر بیٹھ گئے۔ ان کے دل دھک دھک کر رہے تھے۔ گاڑی آ گئی۔ وہ سب اس میں کسی طرح گھس گئے۔ بیٹھنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ بس ذرا پیر ٹکنے کی جگہ چاہیئے تھی۔ پر گاڑی جیسے وہیں جم گئی ہو، چلنے کا نام ہی نہیں لیتی تھی۔ ڈبوں میں بیٹھے مرد، عورتیں اور بچے گھبرانے لگے۔ کلبلاہٹ کی جیسے پہلی آواز اٹھی ہو۔ اتنے میں اسٹیشن سے تھوڑی دور پر ڈھول بجنے جیسی آواز پاس آتی گئی اور اس میں کئی دوسری بھیانک اور ڈراؤنی چیخیں ملتی گئیں۔

گاڑی میں بیٹھے لوگوں میں کھلبلی مچ گئی۔ ماؤں نے اپنے بچے چھاتیوں سے لگا لئے۔ مردوں نے اپنا سامان اور پاس کھینچ لیا۔ ہر طرف چیخ پکار ہونے لگی۔ پلیٹ فارم پر اب بھالے اور بلم بھی دکھائی دینے لگے۔ مشعلیں ادھر ادھر گھومنے لگیں۔ چار سو ایک بےچینی سی پھیل گئی۔

جاٹوں نے ساری گاڑی لوٹ لی۔ جو ان کے سامنے آیا اسے کاٹ کر پھینک دیا۔ ڈبے لاشوں سے بھر گئے۔ لہو بہہ بہہ کر فرش پر جم گیا۔ کسی کو کچھ پتہ نہیں کون مرا اور بچا۔ جو کوئی بچ بھی گیا، اس نے خود کو مردوں میں گن لیا اور سانس روک کر چپ چاپ لیٹا رہا۔

جب اگلے دن گاڑی امرتسر پہنچی، اسٹیشن پر کئی سوسائٹیوں کے کارکن روٹی پانی لے کر پہنچ گئے۔ جب انہوں نے گاڑی پر ہوئے قتل عام کو دیکھا تو ایک کہرام مچ گیا۔ موہن لال بھی گھائل ہو گیا تھا، مگر ہوش میں تھا۔ مایاونتی ایک کونے میں گھبرائی بیٹھی تھی۔ انہوں نے پہلی بار ایک دوسرے کو دیکھا۔ رو روکر ان کے آنسو آنکھوں میں ہی سوکھ گئے تھے۔ بچوں کو سنبھالا۔ چھوٹے کرشن کا سر الگ پڑا تھا اور دھڑ الگ۔ سوہن لال بنچ کے نیچے دبک کر لیٹا ہوا تھا۔ مایاونتی نے اسے چھاتی سے لگا لیا۔ اب کانتا کی کھوج شروع ہوئی۔ سوہن لال کے پیر فرش پر جمے خون سے سن گئے۔ انہوں نے ایک ایک لاش کو دھیان سے دیکھا۔ وہ کہیں دکھائی نہ دی۔

مایاونتی جیسے زندہ ہی مر گئی۔ ظاہر تھا کہ کانتا کو ظالم اٹھا کر لے گئے تھے۔ اس وقت وہ صرف بارہ تیرہ سال کی تھی۔ زندگی کا اتنا بڑا گھاؤ وہ کیسے بھرے گی؟ موہن لال نے کرشن کے سر کو اٹھا کر چوم لیا۔ مایاونتی نے آنکھوں میں برابر مکے مارے، پر ان میں سے ایک آنسو بھی نہ نکلا۔ کتنا بڑا زخم تھا یہ!

اندھیرے میں اڑتے تنکوں کی طرح وہ دلی پہنچ گئے۔ دھیرے دھیرے زندگی کے سر تھرکنے لگے۔ موہن لال نے چاندنی چوک میں گھڑیوں کی دکان کھول لی۔ اس کا کام اچھا چلنے لگا۔ سوہن لال اب بی۔اے۔ کر چکا تھا اور کچھ عرصے  سے ڈپٹی کمشنر کے دفتر میں اچھے عہدے پر تھا۔ مگر آٹھ سال میں بھی چندرکانتا والے گھاؤ پر پپڑی نہ جم سکی۔ اس میں سے گندا خون رستا رہا اور مایاونتی کو غش آتے رہے۔ کوئی ایسا ذریعہ نہ تھا جس کا سہارا موہن لال نے اپنی چندر کانتا کو ڈھونڈنے کے لیے نہ لیا ہو۔ وہ ہوم منسٹر سے ملا۔ اس سے پاکستان کے ہوم منسٹر کو خصوصی خط لکھوایا کہ وہ اپنے رکوری سٹاف کی مدد سے کانتا کو ڈھونڈھیں۔ پھر سوہن لال نے ڈپٹی کمشنر کی مدد سے پاکستان کے ہائی کمشنر کو کہلوایا کہ اس کی بہن کو ڈھونڈنے کی ہر ممکن کوشش کی جائے۔ ہائی کمشنر نے اپنی سرکار سے کہہ کر پاکستان کے اخباروں میں انعام کے اشتہار بھی دئیے۔ ان آٹھ سال میں ان کے ضلعے کی اٹھائی ہوئی لڑکیاں برآمد ہو گئی تھیں۔ ایک دو سے مایاونتی کو چندر کانتا کے بارے میں یہ بھی پتہ لگا کہ اسے ایک چودھری نے گھر بٹھایا ہوا ہے۔ یہ سن کر انہوں نے کوششیں اور تیز کر دیں پر کوئی کامیابی نہ ملی۔ مایاونتی اپنا سر پیٹ پیٹ کر روتی، ’’اس سے تو اچھا تھا کہ کانتا مر ہی جاتی، گاڑی میں ہی کاٹ دی جاتی۔‘‘ پھر ایشور سے دعائیں کرتی، ’’بھگوان، مجھے اس کے مرنے کی خبر سنا! اس کی بہلول پور کے چودھری نثار احمد کے گھر بیٹھنے کی خبر بالکل بے بنیاد ہو۔‘‘ پر وہ دل کا کیا کرتی جو ہر وقت چندرکانتا کا نام جپتا رہتا۔ چندر کانتا اسے اپنے دونوں بیٹوں سے بھی زیادہ پیاری تھی۔ کانتا کو اس نے ہتھیلی پر ہوئے چھالے کی طرح پالا تھا اور اسے گرم ہوا لگنے کی بات وہ کبھی سپنے میں بھی سوچ نہیں سکتی تھی۔ ’’کانتو کی بچی! اس سے تو اچھا تھا کہ تو پیدا ہوتے ہی مر جاتی یا میں ہی تجھے جنم دے کر مار دیتی۔ یہ دکھ نہ دیکھتی۔‘‘ یہ کہہ کر وہ پھر سسکنے لگی۔ اس کا لڑکا سوہن لال جو ابھی دفتر سے لوٹا ہی تھا، اس کو تسلی دینے لگا۔

 

جیسے کسی مچھر نے ایشور داس کو کاٹ کھایا ہو، وہ انجانے ہی ہوشیار ہو گیا۔ اسے پتہ ہی نہ لگا کہ کب اس کی آنکھ لگ گئی تھی۔ جاگ کر وہ پھر پسینہ پونچھنے لگا اور ایک بار پھر اس پر نیند کی مستی چھانے لگی۔

’’چاچا جی، آپ کو پتاجی بلاتے ہیں‘‘ ابھی وہ کچہری سے لوٹا ہی تھا کہ موہن لال کا لڑکا اسے بلانے آیا، ’’ذرا جلدی آؤ، ماتا جی بیہوش ہو گئی ہیں۔‘‘

آگے جو کچھ اس نے دیکھا، وہ اس کی امید کے پوری طرح سے خلاف تو نہیں تھا پر اسے ایک دھکا سا ضرور لگا تھا۔ مایاونتی کافی دیر سے بیہوش پڑی تھی۔ موہن لال اس کے دانتوں میں چمچ سے پانی ڈالنے کی کوشش کر رہا تھا، پر اس کے دانت کھل ہی نہیں رہے تھے۔

آج صبح سے ہی مایاونتی چندر کانتا کو یاد کر کے آہیں بھر رہی تھیں۔ ڈاکٹر آیا، اس نے مایاونتی کو انجیکشن لگایا۔ ابھی وہ اس کا اثر دیکھ ہی رہا تھا کہ باہر ایک لاری آ کر رکی۔ ایشور داس جلدی جلدی اٹھ کر باہر گیا۔ اس نے دیکھا، لاری پولس کی تھی اور اس میں سے ایک تھانیدار نے باہر نکل کر اس سے پوچھا، ’’موہن لال جی کا گھر یہی ہے؟‘‘

ایشور داس نے جواب میں صرف سر ہلا دیا۔

اس کے بعد اس نے کسی کو باہر آنے کا اشارہ کیا۔ لاری میں سے ایک لڑکی باہر نکلی اور ایشور داس کے منہ کی طرف دیکھنے لگی۔ اتنے میں موہن لال بھی باہر نکل آیا۔ اس نے جب اس لڑکی کے روپ میں چندر کانتا کو اپنے سامنے دیکھا تو اسے اپنی آنکھوں پر وشواس نہ ہوا۔ پھر اس نے آگے بڑھ کر بیٹی کو گلے لگا لیا اور اس کا منہ اور سر چومنے لگا۔

ادھر چندر کانتا کے اداس چہرے پر کوئی جذباتی طوفان نظر نہ آیا۔ وہ ویسے ہی بوکھلائی سی ماحول کو پہچاننے کی کوشش کر رہی تھی۔ موہن لال اسے اندر لے گیا۔ مایاونتی تھوڑا تھوڑا ہوش میں آنے لگی تھی۔ جب موہن لال نے کہا، ’’دیکھ مایا، کانتا آ گئی ہے‘‘ تو اسے اپنے کانوں پر یقین نہیں آیا۔ اس نے پلکیں جھپکا کر آنکھیں کھولیں۔ سامنے سچ ہی چندر کانتا کھڑی تھی۔ وہی کانتا جسے وہ خود سے بھی زیادہ پیار کرتی تھی، وہی کانتا جس کی جدائی میں پچھلے آٹھ سالوں میں وہ اپنی صحت کھو بیٹھی تھی۔ ہاں، یہ وہی چندر کانتا تھی جس کے دکھ کو اس کی ماں نہیں بھول سکی، چاہے وہ اپنے بیٹے کرشن کی وفات کو قسمت کی بات مان چکی تھی۔

چندر کانتا ماں کی طرف خالی آنکھوں سے دیکھنے لگی۔ آخر ماں نے اٹھ کر اسے چھاتی سے لگا لیا۔ آج کئی سال کے بعد اسی آنکھوں میں آنسوؤں کی باڑھ آئی تھی۔ مایاونتی کی آنکھوں کے جھرنے، جو بالکل سوکھ چکے تھے، اب پھر بھرنے لگے اور ان میں سے آنسوؤں کی دو نہریں بہنے لگیں۔ پر کانتا تو ٹھنڈی راکھ تھی، جیسے اس نے گھر کے کسی آدمی کو نہ پہچانا ہو۔ اپنے بھائی سوہن لال سے بھی وہ اچھی طرح نہ ملی۔ ماں نے اسے پیار سے اپنے پاس بٹھا لیا۔

اتنے میں کسی کو دھیان آیا کہ تھانیدار ابھی کھڑا ہے۔ موہن لال نے اسے اور اس کے ساتھ کے تین آدمیوں کو عزت سے بیٹھایا۔ روشن کپور رکوری سٹاف میں تھا اور اس نے خود چندر کانتا برآمد کرنے کے لیے چھاپہ مارا تھا۔ وہ دھیرے دھیرے ساری بات سنانے لگا۔ اتنے میں چائے بن گئی اور سب نے خوشی خوشی ان کو چائے پلائی۔ باتوں کا سلسلہ کافی دیر تک چلتا رہا۔ اس بیچ چندر کانتا گم سم بیٹھی رہی، جیسے وہ اپنے گھر آ کر کہیں اور آئی ہو۔ نہ اس کے چہرے پر خوشی کی کوئی کرن آئی اور نہ ہی اس کی آنکھوں میں پانی چھلکا۔ جتنی دیر تھانیدار باتیں کرتا رہا، وہ سر نیچا کیے بیٹھی رہی۔ بیچ بیچ میں مایاونتی اس کے سر کو تھپتھپا دیتی۔

برامدے میں کسی کے قدموں کی آواز آئی تو ایشور داس کا خوابوں کا جال ٹوٹ گیا۔ گرمی اسے ابھی بے حال کر رہی تھی۔ وہ بنیان کا پنکھا بنا کر منہ پر ہوا کرنے لگا۔ ڈھلتی دوپہر کی تیز گرمی سے اسے اونگھ محسوس ہونے لگی۔

کچھ دنوں میں ہی مایاونتی کا جوش دھیما پڑ گیا۔ اب وہ چندر کانتا کو بلا کر اس سے بولنے کی بجائے کچھ کھنچی کھنچی سی رہنے لگی۔ کانتا نے سالوں کی دکھ بھری گاتھا پلوں میں سنا دی تھی پر اپنا دل نہیں کھولا تھا ۔۔۔

’’جب وہ ڈبے میں بھالے چمکاتے اور ‘اللہ اکبر’ کہتے چڑھے تو میری چیخیں نکل گئیں۔ کرشن میرے پاس بیٹھا تھا۔ ایک شیطان نے اسے ہاتھ سے اپنی طرف گھسیٹا اور گنڈاسے سے اس کا سر الگ کر دیا۔ میں چیخ پڑی۔ کسی نے مجھے پکڑ کر ڈبے سے باہر گھسیٹنا شروع کر دیا۔ میں چیختی چلاتی بیہوش ہو گئی۔‘‘

اور جب مجھے ہوش آیا، میں نے خود کو ایک گھر میں چارپائی پر لیٹی پایا۔ میرے پاس ایک اور عورت بیٹھی تھی۔ اس نے مجھے پانی پینے کے لیے دیا۔ اسے دیکھ کر میں پھر چیخ پڑی اور میں نے پھر آنکھیں بند کر لیں، جیسے اس کے وجود اور اپنے آس پاس کے ماحول کو قبول نہ کر پا رہی ہوؤں۔ وہ عورت مجھے پنکھا کرتی رہی۔ کچھ دن اسی طرح انمنے، بنا کھائے پیے سے بیت گئے۔ کبھی کبھی کوئی نوجوان سا لڑکا بھی میری طرف نگاہ مار جاتا۔ میں گھٹنوں میں سر چھپا لیتی۔ میرے آنسو پتہ نہیں کس ویرانے میں کھو گئے تھے۔ میں دھیرے دھیرے پگھلتی گئی اور آخر میں مجھے خود سے سمجھوتا کرنا پڑا۔ مجھے پتہ لگ چکا تھا کہ سکھے کی منڈی سے اٹھا کر مجھے بہلول پور لایا گیا تھا اور میں وہاں کے ذیلدار چودھری غلام قادر کے گھر ہوں۔ چودھری صاحب کی بیگم ہی اتنے دن میرے پاس بیٹھی رہی تھی۔ اس کی آنکھوں میں ہمدردی جھانکتی تھی۔ پر میں تو اپنے خاندان، تاریخ اور تہذیب سے توڑی گئی تھی۔ اس پر خود مجھے آسانی سےیقین ہی نہیں ہو رہا تھا۔

دھیرے دھیرے مجھ پر سارا راز کھل گیا۔ اور یہ بھی پتہ لگا کہ میں کبھی بچ کر اپنے ماں باپ کے پاس نہیں جا سکتی۔ میری پھڑپھڑاہٹ میں سے جوش اور قوت کم ہوتی گئی۔ رحمت بی بی نے میرے ساتھ پیار بھرا سلوک کیا اور میرے دکھ کو بھلانے کا جتن کیا۔ بڑے چودھری صاحب نے بھی میرے سر پر شفقت بھرا ہاتھ رکھا اور اس طرح سال پر سال بیتتے گئے۔

 

ہوا کا ایک تیز جھونکا آیا اور کھڑکی کے پٹ ایک دوسرے سے ٹکرائے۔ جلتی لکڑی سا لو کا جھونکا ایشور داس کے بدن کو جلا سا گیا اور وہ ‘ہائے رام’ کہتا، پسینہ پونچھتا پھر اونگھنے لگا۔

ایشور داس کی لڑکی سنتوش نے اسے کئی بار بتایا تھا کہ کانتا ہر وقت بڑی اداس سی رہتی ہے اور کسی سے بات چیت تک نہیں کرتی۔ اس کی آنکھیں ہر سمے پتھرائی رہتی ہیں اور اس کے چہرے پر بے بسی کی ایک موٹی تہہ جمی ہوتی ہے۔

ایک دن سنتوش نے کانتا کو گھیر لیا، ’’اری کانتا، تو تو کبھی باہر ہی نہیں نکلتی۔ اس طرح کب تک چلے گا؟‘‘

آگے ایک سونی چپ اور سنتوش کے پھر پوچھنے پر یہ نپا تلا سا جواب ’’کیا کروں! دل نہیں مانتا۔ اس دل کا کیا کروں؟ پھر لوگ میری طرف دیکھ کر دبی زبان میں کھسر پھسر کرنے لگ جاتے ہیں۔ اس لمحے میرا جی چاہتا ہے کہ میں فوراً مر جاؤں۔‘‘

سنتوش نے اسے تسلی دیتے ہوئے کہا، ’’کبھی ہمارے گھر آ جایا کر، دل لگ جائے گا۔‘‘

اس طرح وہ دونوں لڑکیاں ایک دوسرے کے قریب آ گئیں۔

ایک دن سنتوش نے کانتا سے اداسی کا سبب پوچھ ہی لیا۔ وہ موڈ میں تھی، کہنے لگی، ’’بس ایک شرط پر، توشی، کہ کسی کو نہ بتانا۔ دو تین سال میں چودھری غلام قادر کے گھر آرام سے ہی رہی۔ انہوں نے مجھے کبھی تنگ نہیں کیا۔ میرا نام بدل کر انہوں نے سیدہ خاتون رکھ لیا۔ اس بات کی مجھے پوری سوجھ آ گئی تھی کہ مجھے اب یہاں کی مٹی میں ہی ملنا ہے۔ رحمت بی بی میرے ساتھ پیار بھرا سلوک کرتی تھیں۔ ان کا لڑکا چودھری نثار احمد لاہور میں پڑھتا تھا۔ وہ جب کبھی بہلول پور آتا، میرے ساتھ بڑی میٹھی میٹھی باتیں کرتا اور عورتوں پر کیے گئے ظلم و ستم کی برائی کرتا۔ میرے دل کے کسی کونے میں اس کی باتیں سننے کی تمنا جاگ اٹھی۔ کبھی کبھی وہ مجھے شام کو چناب کے کنارے سیر کے لیے لے جاتا جو کہ ہمارے گاؤں سے کوس بھر ہی دور تھا۔‘‘

تجھے کیا بتاؤں، سنتوش، چناب میں کتنی کشش ہے۔ ہم دونوں شام کے تانبا رنگے سورج کو اس میں ڈوبتے ہوئے دیکھتے اور پھر جب چاند کی ٹکڑی دوسری طرف سے اس کی لہروں میں ناچنے لگتی، ’’ہماری باتیں ختم ہو جاتیں اور ہم اس کی طرف دیکھتے ہی رہتے۔ چناب کے کنارے چاندنی رات کے جادو کا میں بیان نہیں کر سکتی۔‘‘ اور یہ کہہ کر کانتا نے ایک لمبی آہ بھری، جیسے اس کے اندر سے کچھ دھواں سا باہر نکلا ہو۔ اس نے اپنے ہونٹوں کو زبان سے تر کیا۔

سنتوش کی آنکھیں کانتا کے چہرے پر گڑ گئیں جس میں اس نے پہلی بار خوشی کی تھوڑی سی چمک دیکھی تھی۔ وہ چپ چاپ بیٹھی کانتا کی بات سنتی رہی۔

’’چناب کو تو بارش میں دیکھنا چاہیئے جب اس کا دوسرا کنارا ہی نہیں دکھائی پڑتا۔ گڑ گڑ کرتی، مٹیالے پانی کی پھنکارتی لہریں اور ان پر تیرتے جھاگ کے گولے ۔۔۔اس منظر کا صرف دیکھنے والا حظ اٹھا سکتا ہے۔ چھوٹی ہوتے ہوئے بھی میں تہواروں اور بیشاکھی  کے موقع پر چناب پر جایا کرتی تھی پر تب میری سوجھ بوجھ بچوں جیسی تھی۔ اب چناب کی لہروں کے ساتھ میری چھاتی میں بھی جذبات اچھل اٹھتے اور میں ان میں بندھی ہوئی کئی بار یہاں پہنچ جاتی۔ پھر جب نثار احمد میرے ساتھ ہوتا، ان پلوں کا تو کہنا ہی کیا!‘‘

کانتا نے چنری سے پلکیں پونچھ لیں، ان کے کونوں میں نمی سی ابھر آئی تھی۔ سنتوش کے لیے یہ بھی تعجب خیز تھا کہ کانتا کا پتھریلا چہرہ رو سکنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔

’’ایک دن رحمت بی بی نے جسے میں بھی اماں کہنے لگی تھی، مجھے اپنے پاس بٹھا کر بڑے پیار سے کہا، ’’اب میں ہی تیری اماں ہوں۔ پہلی ماں کی تو سمجھ، وفات ہو چکی ہے۔ تیرے لیے میرا بھی کچھ فرض ہے۔ اب میں تجھے اس طرح اور نہیں رکھ سکتی۔‘‘

میں کیا کہتی! چپ رہی۔ اماں اس بیچ میری طرف دھیان سے دیکھتی رہی۔ میری آنکھوں کے آگے کئی پرانی اور نئی فلمیں چل رہی تھیں۔ اماں نے ہی میری چپی کو توڑا ’’اگر تجھے اعتراض نہ ہو ۔۔۔‘‘ اس نے سوالیہ نظریں مجھ پر پھینکییں۔ میری چھاتی دھک دھک کرتی رہی۔

’’میں تجھے اپنے سے الگ نہیں کر سکتی۔ یہ خدا نے موہ بھی کیا چیز بنائی ہے؟ تیرا نکاح میں نثار احمد کے ساتھ کرنا چاہتی ہوں۔ تجھے قبول ہے؟‘‘

’’میں خدا سے اور کیا مانگ سکتی تھی! چپ رہی۔ مگر میری آنکھوں سے اماں کو جواب مل گیا۔ اور، سنتوش، تو نے یہ بھی کبھی نہیں دیکھا ہوگا کہ ایک ہی عورت ایک سمے ماں بھی ہو سکتی ہے اور ساس بھی، ایک ہی آدمی ابا بھی ہو سکتا ہے اور سسر بھی۔ میرا نکاح جس دھوم دھام سے انہوں نے کیا، وہ میں تجھے کیا بتاؤں۔ شاید ہی بیان کر سکوں۔‘‘

سنتوش کو کانتا کے چہرے پر ایک روشنی سی بکھری دکھائی دی۔

 

ایشور داس ایک دم چونک کر اٹھا۔ باہر دروازے کو کسی نے زور سے کھٹکھٹایا تھا۔ پر اسے کوئی بھی دکھائی نہ دیا۔ سائے گہرے ہونے لگے پر گرمی ابھی بھی کم نہ ہوئی تھی۔ اس کی آنکھوں سے نیند بھی نہیں گئی تھی۔

موہن لال ایک دن اس سے کہنے لگا، ’’بھائی صاحب، آپ سے ایک صلاح لینی ہے۔ کانتا کا کیا کریں؟ وہ ہر سمے اداس رہتی ہے، کسی سے بولتی نہیں۔ اس کی ماں ہر وقت پریشان رہتی ہے۔‘‘

ایشور داس ان کے گھر جا کر بیٹھا ہی تھا کہ پاس کھڑی مایاونتی بلک پڑی، ’’بھائی صاحب، پرماتما سے ہم نے مانگا تو یہی کچھ تھا پر اسے ہماری مانگ ہی ٹھیک سمجھ نہیں آئی۔ ہے بھگوان! کہیں یہ لڑکی مر ہی جاتی۔ نہیں تو یہ برآمد ہی نہ ہوتی اور ہمیں بتا دیتے کہ کانتا فسادوں میں ہی مر گئی ہے!‘‘ اتنا کہہ کر وہ پھر رونے لگی۔

اسے تسلی دیتے ہوئے ایشور داس نے کہا، ’’بہن، بھگوان کے کام کے آگے کس کا زور ہے؟ اس میں ہی بھلا ہوگا۔ ہاں آپ کہیں، بھائی صاحب، کیا پوچھنے لگے تھے؟‘‘ اس نے موہن لال کی اور مڑتے ہوئے کہا۔

’’میں نے سوچا تھا کہ اس کو کہیں بیاہ کر اس کا جیون نئے سرے سے شروع کیا جائے پر کوئی اس سے شادی کرنے کو تیار ہی نہیں ہوتا۔ جس کو ایک بار پتہ لگتا ہے کہ اسے پاکستان سے آٹھ سال بعد برآمد کیا ہے، وہ دوبارہ اس طرف کان بھی نہیں کرتا۔ کسی کو اس بات پر ذرا بھی لحاظ نہیں آتا کہ اس کی شادی پر ہم بہت کچھ دینے کو تیار ہیں۔ آپ ہی کوئی گھر بتائیں۔‘‘ موہن لال نے اداس لہجے میں کہا۔

’’آپ صحیح کہتے ہیں۔ میں آپ کے دکھ کو سمجھتا ہوں‘‘ ایشور داس نے بات بدلتے ہوئے کہا، ’’کیا کیا جائے! ہمارا سارا سماج بیشک داغی پڑا ہو پر کسی عورت کی چنری پر نشان بھی پڑا ہو تو کوئی اسے قبول کرنے کو تیار نہیں۔ آپ کہیں گے تو سہی کہ ایشور داس کیسی پاگلوں جیسی باتیں کرتا ہے پر میں کہوں گا کہ اگر ہمیں انہیں قبول ہی نہیں کرنا تھا، تو کس منہ سے ہم سرکار کو ادھر رہی عورتوں اور لڑکیوں کو برآمد کرنے کو کہتے ہیں۔ ہم نے ان کو وہاں وہاں سے تو اکھاڑ لیا جہاں وہ کئی سالوں میں جیسے تیسے اپنی جڑیں جمانے میں کامیاب ہو پائی تھیں پر ہم ان کو ادھر لگانے کو تیار نہیں۔‘‘

موہن لال نے ایشور داس کی بات کی حامی بھری اور اس کے منہ سے ایک ٹھنڈی سانس نکل گئی۔

مایاونتی کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے اور وہ انہیں دوپٹے سے سکھا کر کہنے لگی، ’’پر اگر یہ کہیں اب مر ہی جائے تو میں سکھی ہو جاؤں۔ ہے بھگوان، میں تو جل گئی ہوں۔ میرا کلیجہ کوئلہ ہو گیا ہے۔ پیدا ہی نہ ہوتی کانتا کی بچی۔ کس جنم کا بدلا لیا ہے ہم سے؟‘‘

ایشور داس ان کو دھیرج بندھاتا ہوا اٹھ کھڑا ہوا اور چلتے چلتے کہنے لگا، ’’مگر بہن، یہ بات بھول کر بھی کانتا کے سامنے نہ کہنا۔ بتا، اس میں اس کی کیا غلطی ہے؟ میں بھی کوئی لڑکا ڈھونڈھوں گا، آپ بھی ڈھونڈھو، مل جل کر کوئی نہ کوئی تو مل ہی جائے گا پر بھگوان کے نام پر چندر کانتا کا دل نہ توڑنا۔ آپ کو کیا پتہ، اس پر کیا بیت رہی ہے! کبھی اس کے دل کی گہرائیوں میں بھی جھانک کر دیکھا ہے؟‘‘

اور وہ جب کمرے سے باہر نکلنے لگا، کانتا اسے سامنے سے آتی ہوئی ملی۔ اسے اس کے پتھرائے ہوئے چہرے پر ترس آ گیا اور اس نے ہمدردی سے پوچھا ’’کیا بات ہے، بیٹی؟ کیا کر رہی ہو؟‘‘

کانتا کا چہرہ اور روکھا ہو گیا۔ وہ کچھ نہ بولی۔ ایشور داس کو اس کی آنکھوں میں کئی سوکھے ہوئے آنسو لٹکتے نظر آئے جیسے کہ اس نے ان کی ساری بات چیت سن لی ہو۔

جب ایشور داس کی آنکھ کھلی، شام کے سائے گہرے ہونے لگے تھے اور گرمی کا زور گھٹ گیا تھا۔ اس نے اٹھ کر کمرے کا ایک چکر لگایا اور پھر اپنی جگہ آ کر بیٹھ گیا۔ آج اس کا دماغ کچھ اور نہیں سوچ پا رہا تھا۔ وہ پھر وہیں بہاؤ میں بہہ گیا۔

چندر کانتا کی زبان سے تبھی تالا کھلتا جب وہ سنتوش کے پاس آتی۔ ایشور داس کی ہمدردی نے اس کا من جیت لیا تھا۔ وہ اپنے دکھ ان کے سامنے کہہ دیتی اور جو بات اس سے نہ کر سکتی، وہ سنتوش سے کر لیتی۔

ایک دن وہ سنتوش کے پاس بیٹھی اپنے گھاووں سے پپڑی اکھاڑ بیٹھی اور ان کا اصلی روپ اسے دکھانے لگی۔

’’پچھلے دو سال میں جب سے میں یہاں آئی ہوں، ایک رات بھی میں آرام سے نہیں سو سکی۔ دن میں ہر وقت اداسی کے پردے کی اوٹ میں نثار احمد کھڑا مجھ سے باتیں کرتا رہتا ہے، جسے صرف میں ہی سن سکتی ہوں۔ رات کو سپنوں میں وہ میری بانہیں پکڑ کر مجھے اپنے ساتھ لے جاتا ہے اور چناب کے کنارے کی یاد دلاتا ہے۔ اس سے بھی بڑھ کر میرے نعیم اور سلمہ رو رو کر مجھے آوازیں دیتے رہتے ہیں۔ ان کے اترے ہوئے چہروں کو میں دیکھ نہیں سکتی۔ میں ماں ہوں، چاہے چندر کانتا ہوؤں یا سیدہ خاتون۔ اس سے مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ممتا میری چھاتی میں کھینچا تانی کرتی ہے، ممتا میری آنکھوں کو نم کر دیتی ہے، مگر اسے کسی نے توڑ کر رکھ دیا ہے۔ بتا، تو میرے لیے کچھ نہیں کر سکتی؟‘‘

سنتوش نے چنری منہ میں ڈال لی اور ٹھنڈی سانس کو اندر روک کر اس کی بات سنتی رہی۔

’’یہ بات آج میں تجھے بتانے لگی ہوں، یہ مان کر کہ دنیا میں تجھے چھوڑ کر اس کا کبھی کسی کو پتہ نہیں لگے گا۔ میرے خاوند نثار احمد نے جو پیار مجھے دیا، اسے اس زندگی میں تو میں کبھی بھول ہی نہیں سکتی۔ ہماری شادی کے ایک سال بعد ہمارے گھر نعیم کی پیدائش ہوئی اور اس کے ڈیڑھ سال بعد سلمہ میری بیٹی کی۔ ہائے، اگر کبھی میں تجھے اپنا جوڑا دکھا سکتی! پھر تو کہتی، ’’سیدہ، ظالم! تو ایسے خوبصورت اور پیارے بچے چھوڑ ادھر کیسے آ گئی؟” ویسے تو اس سوال کا جواب میرے پاس بھی نہیں پر میں تجھے بتانے کا جتن ضرور کروں گی۔

سلمہ ہونے کے بعد میرے ابا کی، خدا ان کو جنت نصیب کرے، وفات ہو گئی تھی۔ اس لئے نثار احمد ذیلدار بن گیا۔ ہماری زمین کافی تھی۔ ہمارے سارے علاقے میں بڑا رسوخ تھا اور چودھری نثار احمد کا نام ہر طرف عزت سے لیا جاتا تھا۔ آسانی سے کوئی بڑے سے بڑا افسر بھی انہیں ناراض نہیں کر سکتا تھا۔ اپنے علاقے کی وہ عزت آبرو تھے۔ یہی وجہ ہے کہ جب کبھی پاکستان کی پولس لڑکیاں برآمد کرنے کے لیے چھاپے مارتی، وہ ہمارے گھر کی طرف منہ کرنے کی ہمت بھی نہ کرتی۔ انہوں نے مجھے خود کئی بار بتایا کہ ‘سول اینڈ ملٹری گزٹ’ اور ‘نوائے وقت’ میں میری برامدی میں مدد کرنے والے کو پاکستان گورنمنٹ نے ایک ہزار روپیہ انعام دینے کا اعلان کیا ہے۔ انہوں نے مجھے کئی بار بڑے پیار سے بھی پوچھا کہ کیا میں ہندوستان میں اپنے ماں باپ کے پاس جانا چاہتی ہوں؟ اگر میں چاہتی تو وہ خود ہی سرحد تک مجھے چھوڑ جاتے۔ جب کبھی وہ ایسی بات کہنے لگتے، میں ان کے منہ کے آگے ہاتھ رکھ کر بلکنے لگتی اور کہتی، ’’اب شاید میں آپ پر بار ہو گئی ہوں۔ آپ مجھے رکھنے کو راضی نہیں۔ کیا آپ مجھے نعیم اور سلمہ کی خاطر بھی نہیں رکھ سکتے؟‘‘ وہ مجھے سینہ سے لگا لیتے اور ہم ایک لمبے بوسے میں یہ ساری بات بھول جاتے۔

پر ایک دن صاف آسمان میں ایک کالی سیاہ اندھیری آئی۔ گاؤں میں شور مچ گیا کہ پولس کی بہت سی گارد آئی ہے اور ساتھ میں پولس کپتان بھی ہے۔ اس کے ساتھ ہندستانی پولس افسر بھی ہیں۔ یہ پارٹی ہمارے گھر کے آگے پہنچی۔ انہوں نے پوچھا، ’’چودھری صاحب کہاں ہیں؟ یہ بات ابھی ان کے منہ میں ہی تھی کہ نثار احمد بھی باہر سے آ گیا۔ بس، سنتوش، باقی کی بات تو بتانا بھی میرے لیے ناممکن ہے۔ میرے خاوند کی ایک بات نہ مانی گئی۔ میں نے منت کی کہ ’میں نہیں جانا چاہتی، مجھے نہ لے جاؤ۔‘  میں نے کہا، ’’میرے تو ماں باپ مر چکے ہیں۔ یہ میرے دو بچے ہیں۔ ان کی طرف دیکھو۔‘‘ میں نے التجا کی، ’’میں چودھری صاحب کی بیوی ہوں اور اپنی مرضی سے ان سے نکاح کروایا ہے۔‘‘ میں روئی، ’’چندر کانتا مر چکی ہے اور اس میں سے میں نے، سیدہ خاتون نے، جنم لیا ہے۔ آپ بھولتے ہیں۔‘‘ میں نے نعیم کو آگے کیا، ’’آپ اس کی شکل کو میرے سے ملا کر دیکھئے۔ کیا یہ آپ کو میرا لخت جگر نہیں لگتا؟‘‘ لیکن وہاں تو صرف ایک جواب تھا، ’’ہم قانون کے ہاتھوں مجبور ہیں۔ ہمیں پاکستان گورنمنٹ کی سخت ہدایت ہے کہ آپ کو واپس ہندوستان پہنچایا جائے۔‘‘

اس وقت سورج ڈوب نہیں رہا تھا، میں سچ کہتی ہوں، سنتوش، اس کا انسانیت کے قاتل خون کر رہے تھے۔ وہی لال کالا خون سارے ماحول میں بکھر گیا تھا۔ جس سمے نثار احمد نے مجبور ہو کر مجھے جیپ پر چڑھنے میں مدد کی، وہ آپ بیہوش ہو کر گر پڑا۔ رحمت اماں نے میری بلائیں لیں۔ نعیم اور سلمہ رو رہے تھے۔ انہیں پولس کے سپاہی پیچھے ہٹا رہے تھے اور اماں انہیں تسلی دے رہی تھی کہ ان کی والدہ کہیں باہر جا رہی ہے اور جلد ہی واپس آ جائے گی۔ پر ان معصوموں کے دل کو سچائی کا احساس ہو چکا تھا۔ میں خود اڑ اڑ کر باہر گر رہی تھی۔ اچانک جیپ چلی اور میرے آگے قیامت کا اندھیرا چھا گیا۔ اس کے بعد مجھے کچھ یاد نہیں۔

اتنے میں ایشور داس کی روٹی آ گئی تھی۔ وہ چپ چاپ کھانے لگا۔ پر ایک نوالہ بھی اس کے منہ میں نہیں جا پا رہا تھا۔ اس کا ہاتھ وہیں رک گیا اور وہ خیالوں کے سمندر میں بہہ چلا۔

’’پتا جی!‘‘ ایک دن سنتوش نے اس سے کہا، ’’کیا آپ اپنے ہاتھ سے میرا گلا دبا کر مجھے مار سکیں گے؟‘‘

وہ کہنے لگا، ’’پاگل تو نہیں ہو گئی بیٹی! بھلا ایسا کون پتا کر سکتا ہے! صاف صاف کہہ، کیا کہنا چاہتی ہے؟‘‘

’’ایسے ماں باپ بھی ہیں جن کے ہاتھ اپنی اولادوں کے گلے گھونٹ دیتے ہیں۔ کانتا کے دکھ کے ہر پہلو کے آپ جانکار ہیں، میں اس کے لیے آپ سے رحم کی بھیک مانگتی ہوں۔ میری التجا ہے، انکار نہ کرنا۔ وہ مر تو پہلے ہی رہی ہے، اب آپ سے ’نہ‘ کرا کر مرے گی۔‘‘

’’کچھ بتائے گی بھی، توشی؟‘‘

’’آپ سے ایک آدمی ملنا چاہتا ہے، ملاؤں گی میں۔‘‘

’’کون؟‘‘

’’نثار احمد! نہیں، نہیں، عبد الحمید۔‘‘

’’نثار احمد ۔۔۔وہ کس طرح یہاں آ گیا؟ اسے کانتا کا سندیس کس نے بھیجا؟‘‘ ایک ہی سانس میں کئی سوال پوچھ لیے ایشور داس نے۔

’’ان سارے سوالوں کی کوئی ضرورت نہیں۔ میں اس کی بہن ہوں، سمجھ لو، میں ہی اس کے لیے ذمے دار ہوں۔‘‘

اچانک ایشور داس کا ہاتھ گھٹنے سے پھسل کر سامنے تھالی سے جا ٹکرایا اور اس کا کنارا اسے چبھ گیا۔ اس نے دھیرے سے ہاتھ کو ملا اور سر کو جھٹک کر پھر کھانا کھانے لگا۔ آج وہ کیسے ان خیالوں میں گھرا ہوا تھا، وہ خود پر حیران ہو گیا۔

 

ایشور داس کو مجسٹریٹ کی کچہری میں پیش کیا گیا۔ اسے ہتھکڑی لگی ہوئی تھی اور پولس نے اس پر فوجداری کا مقدمہ دائر کیا تھا۔ اسے اس کا جرم بڑھ کر سنایا گیا، جس کا خلاصہ یہ تھا کہ اس نے کوچہ نبی کریم کی چندر کانتا نام کی ایک لڑکی کو وکیل ہونے کی حیثیت سے ضلع گجرات کی سیدہ خاتون ہونے کی تصدیق کی ہے اور اس طرح اسے دھوکے سے پرمٹ دلوایا ہے۔ اس طرح چندر کانتا کے پاکستان بھاگ جانے کی سازش میں اس کا ہاتھ ہے۔

اس نے دیکھا کہ سامنے موہن لال، مایاونتی اور سوہن لال کھڑے تھے۔ اور بھی بہت سے لوگ مقدمہ سننے آئے ہوئے تھے۔ موہن لال کہہ رہا تھا، ’’دیکھو یارو، اس طرح کا پڑوسی تو بھگوان دشمن کو بھی نہ دے۔ ہماری لڑکی کو اس نے پاکستان بھگا دیا ہے۔ یہ ہندستانی ہے یا وطن کا غدار؟‘‘

مایاونتی منہ ڈھک کر سبک رہی تھی۔ اس کی آنکھوں سے آنسوؤں کی دھار رکنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔

موہن لال چپ تھا اور اس کے چہرے پر چنتا کے نشان ابھرے ہوئے تھے۔

سنتوش بڑے سکون سے کھڑی ساری کارروائی سن رہی تھی۔

ایشور داس نے اپنے حق میں کچھ بھی نہ کہا۔ مجسٹریٹ نے اس کو دو سال کی قید کی سزا سنا دی۔

اور اب ایشور داس کی آنکھ تب ہی کھلی جب وارڈن روٹی کے برتن اٹھانے آیا۔ اس کے ذہن میں کوئی فکر نہ تھی، کوئی افسوس نہ تھا۔ جیل کی کوٹھری کی گرمی، یہ بے مزا روٹی، یہ سلاخوں والی کھڑکی جس کے پیچھے وہ بند تھا ۔۔۔سب کہیں پیچھے رہ گئے تھے۔ اسے پھر نثار احمد کا کھلا ہوا چہرہ دکھائی دیا جس کے پیار کے آنگن میں سیدہ خاتون کی خوشی کا پودا پھر سے لگ گیا تھا۔ وارڈن کو برتن پکڑاتے ہوئے وہ اٹھ کھڑا ہوا اور اس نے سکون سے ایک ڈکار لی۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے