نظمیںٕ ۔۔۔۔ سریش جوشی / اعجاز عبید

(گجراتی)

 

تمہارا اندھیرا

___________________

 

آج میں تمہارے اندھیرے سے بات کروں گا

تمہارے ہونٹ کی نرم پنکھڑیوں کے بیچ کا ہلکا نرم اندھیرا

اور گھنی زلفوں کا معطر اندھیرا

 

تمہارے رخسار پر ابھرے تل میں اندھیرے کا فل سٹاپ

تمہاری نسوں کے جنگل میں چھپے اندھیرے کو

میں مست سیار کی ہنکار سے للکاروں گا

تمہارے دل کے سنسان پاتال میں واقع سوکھے اندھیرے کو

میں الو کی آنکھوں میں آزاد کروں گا

 

تمہاری آنکھ میں جم گئے اندھیرے کو

میں اپنی خاموشی کے مقناطیسی پتھروں سے گھس کر جلا دوں گا

پیڑ کی ڈال پر بھرپور اندھیرے کے ناچ کی مدرائیں

سکھاؤں گا تمہارے پیروں کو

آج میں اندھیرا بن کر تمہیں ستاؤں گا

٭٭٭

 

 

 

 

ایک شاعر کی وصیت

___________________

 

شاید کل میں نہ رہوں

کل اگر سورج طلوع ہو تو کہنا

کہ میری بند آنکھوں میں

ایک آنسو سوکھنا باقی ہے

 

کل اگر ہوائیں چلیں تو کہنا

جوانی میں ایک نوجوان لڑکی سے

چوری کی ہوئی مسکراہٹ کا پکا پھل

اب بھی میری ڈال سے گرنا باقی ہے

 

اگر کل سمندر چھلکے تو کہنا

کہ میرے دل میں پتھر ہو گئے سیاہ دیوتا کو

چور چور کرنا باقی ہے

 

کل اگر چاند روشن ہو تو کہنا

کہ اسے آغوش میں لے کر بھاگ جانے کے لیے

ایک مچھلی اب بھی مجھ میں تڑپ رہی ہے

 

کل اگر آگ نظر آئے تو کہنا

میری برہن پرچھائیں کی چتا

اب بھی جلنی باقی ہے

شاید کل میں نہ رہوں

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے