آخری خواہش ۔۔۔ نجمہ ثاقب

خادم کو گانا گانے کی عادت تھی۔ مگر خالی خولی عادت سے کہاں کام چلتا ہے۔ گلے میں اگر سر نہ ہو۔ آواز کی لہروں میں محض سیٹیاں بجاتی ہوا بھری ہو تو گانا الٹا گانے والے کے گلے پڑ جاتا ہے۔ مگر خادم کو قدرت نے ایسی آواز بخشی تھی کہ جو ایک مرتبہ اس کا گانا سنتا، دوبارہ سننے کی خواہش کرتا۔ اور جو بار بار سنتا وہ دیر تک اس کی آواز پہ جھومتا اور عش عش کرتا رہتا۔

مگر خادم کو نہ کسی کے جھومنے کی پروا تھی۔ نہ داد لینے ہی میں کوئی دلچسپی ۔۔۔۔۔۔وہ کسی تعریف کے طمع میں گاتا ہی نہیں تھا۔ وہ تو محض اس لیے گاتا تھا کہ اسے اس کے علاوہ کچھ آتا نہ تھا۔ اس نکمے پن کی وجہ سے اس کی ماں نے کئی مرتبہ اسے آڑے ہاتھوں لیا۔

تمہاری عمر کے لڑکے صبح گھر سے نکلتے ہیں تو شام کو مٹھی بھر روپے لے کر واپس آتے ہیں۔ مائیں بلائیں لیتی ہیں۔ باپ فخر سے سینہ پھلا کے چلتے ہیں اور بہن بھائی خوشامد کی پھرکیاں چڑھاتے ہیں۔ مفت میں تو کوئی روٹی کا سوکھا ٹکڑا بھی نہیں دیتا۔ وقت پڑے پہ اپنے پرائے سب منہ موڑ جاتے ہیں۔ مگر تمہیں اس سے کیا غرض ۔۔۔۔۔۔۔۔ تم بیٹھے گاتے رہو یا میرا جی جلاتے رہو۔

خادم کب ماں کو تکلیف دینا چاہتا تھا؟ مگر اسے کچھ آتا بھی تو ہو۔ کوئی ہنر ۔۔۔۔۔۔ہاتھ کی صفائی ۔۔۔۔۔۔۔ کوئی مہارت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سو وہ گانے کے سوا کسی شے میں نہ تھی۔

گھر سے نکل کر گلی میں آیا تو گورنمنٹ سکول کے بچے صبح کی اسمبلی میں دعا کہہ رہے تھے۔ صحن کی چار دیواروں میں سے ایک پچھلی برسات میں ڈھہ گئی تھی اور کچا احاطہ گلی سے بغل گیر ہو رہا تھا۔ وہ ایک ٹوٹی اینٹ پہ پاؤں رکھ کے کھڑا ہو گیا اور لڑکوں کی آواز میں آواز ملانے لگا۔

لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری

ماسٹر جی نے مانوس آوازوں میں اجنبی آواز کی گرہ لگتے دیکھی تو اس کی جانب متوجہ ہوئے اور ہاتھ کے اشارے سے اسے اندر بلا لیا۔

چلو جی! آج دعا تم کہلواؤ۔

خادم نے دست بستہ کھڑے ہو کر دعا کہلوائی۔

ماسٹر صاحب بولے۔

تم روزانہ صبح آیا کرو اور بچوں کو دعا کہلوایا کرو۔ یہ سب آہستہ آہستہ تم سے سیکھ جائیں گے۔

یوں خادم کام سے لگ گیا۔ مگر اس کام کا معاوضہ کچھ نہ تھا۔ لہذا اس کی ماں مطمئن نہ ہو سکی۔ البتہ صبح کے اوقات میں وہ اس کی نگاہوں سے غائب ہو جاتا تو چپ رہنے لگی۔ عصر کے بعد لڑکے چراگاہوں میں بھیڑ بکریوں کو چرتا چھوڑ کر پرانے پیپل کے نیچے منڈلی جماتے۔ تاجا اور ہیرا دونوں سیلی سیلی زمین پر بارہ گوٹ کی لکیریں کھینچ کر نیم کی گنڈولیاں رکھتے۔ رامو نچلے ہونٹ میں انگوٹھا گھسیڑ کے گھڑی گھڑی سیٹیاں بجاتا۔ راجو اور علیا ایک طرف بیٹھ کے بولیاں گاتے۔ خام آتا تو سارے لڑکے اپنا اپنا دھندہ چھوڑ کر اس کے گرد جمع ہو جاتے۔

خادم بائیں کان پہ ہتھیلی دھر کے تان لگاتا۔

آری اتے آری اے

اک دم یوسف دا

سارا مصر بپاری اے

آواز سر ساگر میں تیرتی لمبا سفر طے کرتی، اور ٹیوب ویل کی ہودی پہ جا کر بیٹھ جاتی۔ وہاں گاؤں بھر کی لڑکیاں بالیاں میلے کپڑوں کے گٹھڑ کھولے انہیں ڈنڈے سے دھنک رہی ہوتی تھیں۔۔ جونہی آواز ان کے کانوں سے ٹکراتی۔ یہاں بھی ایک لمحے کے لیے دھندہ رک جاتا۔

عذرا کان کے پیچھے چنی اڑس کر کہتی۔

اشکے بھئی اشکے۔ آواز ہے یا انار کے شربت کا رسیلا گھونٹ، جو ایک ہی ڈیک میں حلق سے گزر جائے۔

پروین جمن کمہار کی نک چڑھی بیٹی ۔۔۔۔۔۔ناک پہ مکھی نہ بیٹھنے دیتی تھی۔ ہونہہ کہہ کے پٹڑا نیچے پٹختی۔ پہلو میں ہاتھ ٹکا کے تنتنا کے کہتی۔۔

سوائے سوہلے گانے کے اسے آتا ہی کیا ہے؟ نوٹنکی کہیں کا ۔۔۔۔۔۔بھانڈ ۔۔۔۔۔۔۔۔ مراثی ۔۔۔۔۔

 

عذرا پلو کی گرہ کھولتی۔ اور معنی خیز مسکراہٹ پھینک کے کہتی۔ تو کیوں کلیجہ ساڑتی ہے میری سہیلی؟ لے یہ باجری کھا ۔۔۔۔۔۔گڑ کے شیرے میں گوندھ کے پکائی ہے۔ سب کی سب دوپٹے منہ میں ٹھونس کر کھی کھی کرنے لگتیں۔

ایک روز خادم چائے والے کے بانکڑے پہ بیٹھا تنکے سے دانت کرید رہا تھا۔ کہ گلی سے مرزا کے لڑکے کی بارات گزری، دس دس، بارہ بارہ سال کے لڑکے ہجوم کے سامنے ناچتے، گاتے، جاتے تھے۔ خادم کے دل میں کیا آئی کہ وہیں بیٹھے بیٹھے ایک ماہیے کا بول اٹھایا۔ دولہا کے یار نے اسے گھسیٹ کر مجمعے کے اندر کر لیا۔ دولہا کے ماموں نے جوش میں آ کر لال اور سبز نوٹ وارنا شروع کیے۔ جن پہ ہاتھ صاف کرتے ہوئے ایسا گھمسان کا رن پڑا کہ محلے کے دوچار بچے، اگر ہشیاری سے کام نہ لیتے تو لوگوں کے پاؤں تلے روندے جاتے۔ علیا بھی اسی بارات کے پیچھے روپے چنتے چنتے دور نکل گیا۔ اور اسی شام چراگاہ کے قریب ایک جھنڈیا میں مردہ پایا گیا۔ اس کی گردن پہ گلا گھونٹنے کا نشان تھا اور آنکھیں باہر کو ابل آئی تھیں۔

بے چارہ علیا، بھولا بھالا، ناک کی سیدھ پہ چلنے والا پندرہ، سولہ سال کا لڑکا تھا جس کی اٹھان بلا کی تھی۔ دیکھنے میں اپنی عمر سے دو چار سال زیادہ کا ہی لگتا تھا۔ جب سہ پہر کو لڑکے پرانے پیپل کے نیچے جمع ہوتے تو علیا بھی اپنی بھیڑیں گھاس پہ پھیلائے درخت کے سائے میں کاڑا کیڑا کھیلتا۔ سب سے پہلے اسے نسیم اور تاجور نے دیکھا۔ یہ دونوں خادم کے چچا زاد اور جوڑی دار تھے۔ دونوں محکمۂ جنگلات میں سرکاری مزدور تھے اور چراگاہوں سے ادھر درختوں کی چھنگائی کے کام پہ لگے ہوئے تھے۔ انہوں نے ایک اور مزدور کو اطلاع کے لیے گاؤں کی طرف دوڑایا۔ اور خود شہتوت کی ہری چھمک سے لاش پہ آتی مکھیاں اڑانے لگے۔

علیے کی ماں سینے پہ دو ہتڑ جماتی، کرلاتے بین کرتی آئی۔ اس کے پیچھے پیچھے گاؤں کی بہت سی عورتیں اور مرد تھے۔ وہ سب جھنڈیا کے پاس آئے اور لاش کے گرد گھیرا ڈال کر بیٹھ گئے۔

پولیس آئی۔ اس نے لاش اٹھوائی، اور ساتھ ہی خادم کو پکڑ کے حوالات میں بند کر دیا۔ پہلے روز جب وہ حوالاتی ہوا تو ایک سپاہی نے اسے ٹکٹکی پہ لٹکا کے ادھیڑ ڈالا۔۔ پہلے وہ چیخا، چلایا۔ اونچی آواز میں رویا، کر لایا۔ پھر نڈھال ہو کر جو سسکا۔ تو چرمیلے ہنٹر کی شائیں شائیں میں اس کی آواز پہلے دو اور پھر تین شاخی ہو کر حوالات میں پھیل گئی۔ جیل کے گیٹ پہ اس کے باپ نے دھرنا دے رکھا تھا۔ ایک دو مرتبہ اس نے اندر گھسنے کی کوشش کی۔ تو پہرے پہ کھڑے سنتری بادشاہ نے اسے دھکیل کر پیچھے کھڑی ریڑھی میں ٹھونک دیا۔

میرا بیٹا بے گناہ ہے سرکار۔ وہ سپاہی کے قدموں میں گر گیا۔

ایک مرتبہ مجھے اندر جانے دو۔ میں تھانیدار سے آپ بات کر لوں گا۔ اس کی عمر قتل کرنے کی نہیں ہے۔ ابھی پچھلے سال تو وہ انیس کا ہوا ہے۔ اس نے کبھی کتے کا پلا تک نہیں مارا۔ وہ بندہ کیسے مار سکتا ہے۔ سپاہی نے ٹھڈا مار کر اسے پرے کیا۔

جوان اولاد کے منہ میں لگام نہیں دے سکتے تو پیدا کیوں کرتے ہو؟ اس کی مارنے کی عمر نہ تھی تو مرنے والے کی کیا مرنے کی عمر تھی؟ ۔۔۔۔۔۔۔ ہیں ۔۔۔۔۔۔؟ بتاؤ تو ۔۔۔۔۔۔۔۔؟ کیوں جی ۔۔۔۔۔۔۔۔؟

سپاہی نے مونچھیں مروڑ کر قریب کھڑے ریڑھی بان اور فالودہ بیچنے والے سے پوچھا۔ دونوں نے کدو کے سے سر تائید میں ہلا دیے۔

پھر ملزم اور موقعے کے گواہان وغیرہ کے بیانات قلمبند ہوئے۔ کٹہرے میں کھڑے خادم نے اپنا بیان پڑھا۔

میں اور علیا پکے یار تھے۔ سہ پہر کو وہ بھیڑیں لے کر چراگاہ میں جاتا تو ہم دوسرے لڑکوں کے ساتھ وہاں محفل جماتے۔ وقوعہ کے روز مرزا کے لڑکے کی بارات میں وہ میرے ساتھ رہا۔ اس نے تقریباً ہزار روپیہ لوٹ لیا۔ اور ارادہ باندھا کہ شام کو دوستوں کے ساتھ دودھ جلیبیاں اڑائے گا۔ مجھے بھی اس نے جلدی چراگاہ میں آنے کو کہا تھا مگر ایسا نہ ہو سکا اور شام سے پہلے اس کی سناؤنی آ گئی۔

تم اس وقت کہاں تھے؟ جرح کے وکیل نے پوچھا

میں بارات کا کھانا کھا کر گھر آ گیا تھا۔ گھنٹہ، ڈیڑھ گھنٹہ سویا رہا۔ پھر چراگاہ کی طرف نکلا تو تھوڑی دیر کے لیے ٹیوب ویل کے قریب رک گیا۔ وہیں کھڑے کھڑے میں نے جھنڈیا کی طرف سے شور کی آواز سنی۔ تو ادھر کو دوڑا۔ وہاں علیا زمین پر گرا پڑا تھا۔ اور میرے چچا کے لڑکے اس کے گرد کھڑے تھے۔

خادم کے چچیرے بھائیوں نے گواہی میں کہا۔

ہم چراگاہ کے پچھلی جانب درختوں کے جھانکڑ گرا رہے تھے۔ جب یہ دونوں آ کر ایک درخت کے نیچے بیٹھ گئے

چرواہے لڑکے ابھی بھیڑیں لے کر نہیں پہنچے تھے۔

چراگاہ میں سناٹا تھا۔ خادم سٹھنیاں گانے لگا۔ پھر اچانک آوازیں آنا بند ہو گئیں ۔۔۔۔۔۔تھوڑی دیر کے بعد ہم نے گھٹی گھٹی چیخوں کی آوازیں سنیں۔ شاخوں کے اندر سے جھانک کے دیکھا تو علیا زمین پر گرا پڑا تھا۔ اور خادم اس کے سینے پر سوار تھا۔ ہمارے نیچے اتر کر وہاں پہنچنے تک یہ گھاس الانگتا ٹیوب ویل کی طرف بھاگ گیا۔ ہم پہنچے تو علیا کی گردن ڈھلکی ہوئی تھی اور اس کا منکا ٹوٹ چکا تھا اس بیان کو سنتے ہوئے خادم کی آنکھیں حیرت کی شدت سے کئی مرتبہ پھیلیں، کئی مرتبہ سکڑیں، اس کے ہونٹ بارہا کپکپا کر کھلے اور بند ہوئے۔ اور بہت سی رندھی ہوئی بے معنی آوازیں اس کے حلق میں پھنس کے رہ گئیں۔ خادم کے باپ نے اپنی حیثیت کے مطابق وکیل کیا۔ دس بیگھے زمین کے بدلے میں بھتیجوں سے صلح کی بات کی۔ جسے انہوں نے یہ کہہ کے رد کر دیا۔ کہ خادم کے بعد دس بیگھے کیا، ساری اراضی ہماری ہے۔ یوں چند پیشیوں کے بعد عدالت نے مضبوط گواہیوں کو بنیاد بنا کر خادم کو سزائے موت سنا دی ۔۔۔۔۔۔۔ بستی میں جس نے بھی سنا۔ انگلی دانت تلے داب کے رہ گیا اس شام تاجا اور ہیرا پیپل تلے آئے ہی نہیں۔ رامو بکریاں ہانک کر شام سے بہت پہلے گاؤں چلا گیا۔ جمن کمہار کی لڑکی اس روز نہ سکھیوں سے لڑی۔ نہ بات، بے بات ناک بھوں چڑھائی ۔۔۔۔۔۔پہلے تو ٹیوب ویل پہ کھڑے کھڑے بورائی آنکھوں سے جھنڈیا کی جانب تکتی رہی۔ پھر سرکنڈوں سے دھلے کپڑے اتار کر انہیں پٹڑے پہ پٹخ پٹخ کر دوبارہ کوٹنے اور دھونے میں لگ گئی۔

ادھر خادم کال کوٹھڑی میں راتیں کالی کرنے لگا۔

شروع دنوں میں جب وہ نیا نیا احاطے میں آیا۔ تو مشقتی چکی کے انچارج نے اس سے پوچھا۔

کوئی کام دھام آتا ہے تجھے؟ کوئی ہنر ۔۔۔۔۔۔۔۔؟کسی کام میں مہارت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟ جس کے برتے پہ تجھے بغیر سکھلائی کے ادھر کھپا دیا جائے۔

اس نے کہنا چاہا۔ کہ مجھے تو بس گانا آتا ہے۔ خوشی کا گیت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔غمگین گانے ۔۔۔۔۔۔معمول کے نغمے ۔۔۔۔۔۔۔۔ لوک گیت ۔۔۔۔۔۔ماہیے، ٹپے اور بولیاں۔

مگر وہ کچھ بھی نہ کہہ پایا اور نفی میں سر ہلا کے رہ گیا۔ انچارج نے اسے سوت کی کتائی، بنائی کے سیکشن میں بھجوا دیا جہاں اس نے تھوڑے ہی عرصے میں چرخے پر کتائی، تانے پیٹے پہ دھاگا کسنا، رسیاں بٹنا اور چھوٹی موٹی دریاں بننا سیکھ لیا۔ البتہ اپنا ازلی مشغلہ یعنی سر اٹھانا اور گیت گنگنانا یکسر بھلا دیا۔

وہ دن کا بڑا حصہ مشقتی چکی میں گزارتا۔ اور رات کو کوٹھڑی میں لیٹ کر چھت پہ رینگتی مرگھلی چھپکلیوں کو دیکھتا رہتا۔ کبھی کبھی جی میں کیا آتا کہ کوئلے سے دیوار پہ پنجابی ماہیے لکھنے بیٹھ جاتا۔

ساڈے بوہے اگے شاہ دولہ

دنے سانوں غم رہندے

راتیں آن کے مل ڈھولا

لکھتا جاتا، مٹاتا جاتا

مگر انہیں گانے کی کبھی خواہش کرتا نہ کوشش۔

عصر کے بعد ماشکی احاطے میں پانی کا چھڑکاؤ کرتا تو سنتری لوگوں کی نگرانی میں قیدی لاک اپ سے باہر نکلتے۔ ہتھکڑیاں بجتیں، بیڑیاں آپس میں ٹکراتیں، قیدی اک دوجے کو نگاہوں ہی نگاہوں میں سلام کرتے۔ موقعہ دیکھ کر آپس میں کچھ کہہ سن لیتے، کوئی چھوٹی سی بات کوئی مدھم سرگوشی، سیلی سیلی فضا میں تحلیل ہوتی رہتی۔ ٹہلتے ٹہلتے ایک دوسرے سے سگریٹ کا تبادلہ بھی ہو جاتا۔ آنے والے دنوں کے حوالے سے کسی خود ساختہ خوش گمانی کا باہمی تذکرہ ہوتا، گھر سے آئے خطوط کے مندرجات بار بار دہرائے جاتے۔ اور کسی متوقع ملاقات کے لیے دن گنے جاتے۔

وقت پورا ہوتا تو سب دوبارہ کوٹھڑیوں میں بند ہو جاتے۔ اور دیواریں بجا بجا کر ایک دوسرے کو اپنی موجودگی کا احساس دلاتے رہتے ۔۔۔۔۔۔کوئی اونچی آواز میں درود پڑھتا۔ کوئی بھولے بسرے نغمے چھیڑ لیتا۔۔ اور بعض تو ٹھنڈی آہیں بھر بھر کر ہوا کے سپرد کرتے رہتے۔

خادم زیادہ تر خاموش رہتا۔

ہانڈیوال اسے دیکھ کر دور سے نعرہ لگاتا۔

بولا کرو لڑکے۔ کہنے سننے سے آدھا دکھ دور ہو جاتا ہے۔

پانچ نمبر کوٹھڑی کا اندھا قیدی کہتا۔

ہم تو یہ جانتے ہیں کہ بندہ بندے کی خوراک ہے۔۔ اکیلا رہ جائے تو جی نہیں پاتا۔ جتنی دیر زندہ ہو ہنستے، بولتے رہا کرو۔ اگلی دنیا میں جانے کیا ہو۔ منہ سے بھاپ نکالنے کو بھی کوئی ملے یا نہ ملے۔

خادم سب کی سنتا اور سن کر کبھی کبھی مسکرا بھی دیتا۔ البتہ اس کی چپ نہ ٹوٹی۔ یہاں تک کہ بیٹھے بٹھائے ایک روز اس کے سیاہ وارنٹ آ گئے۔ اور اسے موت کے تختے پہ لٹکائے جانے کی پکی خبر سنا دی گئی۔ ایک مدت کے بعد احاطے میں ایسا واقعہ ہونے کو تھا۔ سو سبھی کا سوگوار ہونا بنتا تھا۔ ماحول نے یکدم پلٹا کھایا۔ قیدی آتے جاتے کن انکھیوں سے اسے تکتے اور اس کی اٹھتی جوانی کے رل جانے پہ چچ چچ کرتے۔ اندھے قیدی نے البتہ اب اسے نصیحت کرنا چھوڑ دی۔ ہانڈیوال نے اس کے پیالے میں آدھا چمچ دال زائد ڈالنی شروع کر دیا۔ کسی بھی ملاقات کی آمد پر اس کے لیے فروٹ اور سوغاتوں کا تگڑا حصہ علیحدہ کر کے پہلے اسے بھجوایا جاتا۔ رات کو سوتے میں اچانک کسی قیدی کی آنکھ کھل جاتی تو اسے فوراً ہی خادم کا خیال آتا۔ اور وہ اونگھتے اونگھتے بھی افسردہ ہو جاتا۔

گھر والے آخری ملاقات کو آئے۔ ماں دیر تک اس کا چہرہ ہاتھوں میں لے کر روتی رہی۔ باپ بنا کسی بہانے کے کندھے سے انگوچھا اٹھا اٹھا کر اپنی آنکھیں پونچھتا رہا۔ اور ادھر جمن کمہار کی لڑکی اس روز اماؤس کی رات بچھنے تک ان کے گھر کی دہلیز پہ بیٹھی ملاقاتیوں کے لوٹ کر آنے کا انتظار کرتی رہی۔

جیلر نے خادم سے اس کی آخری خواہش کے بارے میں پوچھا اور اس کا جواب سن کر پہلے تو بھچک سا گیا۔ پھر ٹھٹھا مار کر بولا۔

یہ بھی کوئی خواہش ہے بھلا؟ تیرا در فٹے منہ لڑکے! تجھے تو خواہش پالنا بھی نہ آئی۔ پھر اس نے دفتر میں آ کر ہیڈ محرر کو بلایا۔ دونوں نے اپنے اپنے خیالات کو باہم گتھم گتھا کیا۔ پھر ماشکی کو بلا کر مناسب ہدایت نامہ جاری کرنے کے بعد محرر بولا۔

سرکار معافی دے دیتی۔ ایسے اچھے ریکارڈ پہ تو کم عمر مجرموں کو رعایت مل جاتی ہے۔

معافی کیسی؟ اس کی تو اپیل بھی خارج ہو گئی۔

بیبا بچہ ہے سرکار۔ جب آیا تھا تو بالکل بھیڑ کا مینڈھا معلوم ہوتا تھا۔ جیل کے ماحول میں ایسے رہا جیسے پانی میں مچھلی رہتی ہے۔ دو سالوں میں کیسا بھرپور جوان بن گیا ہے۔ بدن اب بھی منحنی سا ہے تو کیا ہوا کڑیالے جیسا منہ تو نکال لیا ہے۔

مگر کل نہ مچھلی پانی میں رہے گی نہ کڑیالے جیسا منہ گردن پہ کھڑا رہے گا۔ قتل کا جرم چھوٹا نہیں ہے۔ جتنا بڑا گناہ، اتنی بڑی سزا۔

اللہ کی اللہ ہی جانے۔ وہ تو اب تک اپنے آپ کو بے گناہ کہتا آیا ہے۔

الزام لگا ۔۔۔۔ حوالاتی ہوا ۔۔۔۔۔۔مقدمہ چلا ۔۔۔۔۔۔۔۔ سزا سنائی گئی اور تم کہتے ہو کہ وہ بے گناہ ہے۔

خیر ادھر ادھر کی ہانکنا چھوڑو اور شام کی تیاری پکڑو۔ اس کے بعد صبح کا انتظام بھی ایک نظر دیکھ لینا۔

انتظام تو خیر پہلے سے مکمل تھے۔۔ البتہ اس شام ماشکی نے احاطے میں چھڑکاؤ کے بعد معمول سے ہٹ کر کرسیاں اور سٹول رکھے۔ سیلی سیلی زمین پر کٹی پھٹی بد رنگی دری بچھائی۔ اور عشاء کی نماز کے بعد تمام قیدیوں کو بحکم سرکار احاطے میں جمع ہونے کا فرمان سنایا۔

سنتری اپنی اپنی پوزیشنون پر چوکس کھڑے تھے۔ ایمرجنسی میں بج اٹھنے والے ہنگامی سائرنوں کی کار کردگی تسلی بخش تھی۔ بیرونی دیواروں سے لٹکی تاروں میں تیز برقی رو جاری و ساری تھی۔ اور احاطے کے گردا گرد پھیلی بارکوں کو درمیان سے کاٹتی پتلی گلیوں میں قیدیوں کے پاؤں گھسیٹ کر چلنے کی آوازیں پھیلی ہوئی تھیں۔

سب سے پہلے تمام قیدیوں کو قطار اندر قطار بٹھایا گیا۔ پھر چھوٹا موٹا عملہ آیا اور پیچھے دیوار کے ساتھ لگ کے کھڑا ہو گیا۔ کچھ لوگ سٹولوں پہ ٹک گئے۔ سب سے آخر میں جیل وارڈن پہنچا۔ اس نے آتے کی ہیڈ محرر کو اٹھنے کا اشارہ کیا۔ اور دونوں احاطے کے داہنی کونے یں جا کھڑے ہوئے

سب ٹھیک ہے ناں سمندر خان؟

سب فٹ ہے سرکار۔

جلاد؟

حاضر ہو جائے گا حضور۔

ڈاکٹر ۔۔۔۔۔ سرکاری ایمبولینس؟

دونوں جھوٹی صبح کے ہوتے ہی پہنچ جائیں گے۔

پھر وہ دونوں آگے پیچھے چلتے خادم کی کوٹھڑی تک آئے۔ سنتری نے لاک کھولا۔ دروازہ ہلکی آواز میں چرچرایا۔ وارڈن خوامخواہ مونچھوں پہ تاؤ دینے لگا۔ خادم بیڑیاں بجاتا باہر نکلا۔ اس کا چہرہ معمول کی طرح سپاٹ تھا۔ وہ نپے تلے قدموں سے چلتا ہوا مجمعے کے قریب آیا۔ اور ہیڈ محرر کا اشارہ پا کر ایک خالی سٹول پر بیٹھ گیا۔

محرر کھنکارا۔ اس نے نگاہوں ہی نگاہوں میں وارڈن سے اجازت طلب کی۔ اور کہنے لگا۔

تم سب جانتے ہو کہ آج خادم کی زندگی کی آخری رات ہے۔ صبح پو پھٹنے سے پہلے اسے پھانسی کے تختے پہ لٹکا دیا جائے گا یہ کہہ کر وہ ایک لمحے کو رکا۔ وہ ایک لمحہ پتھریلے سناٹے میں تبدیل ہوا، یکا یک اچھلا اور ٹھک کر کے مجمعے کے بیچ جا گرا۔

محرر پھر بولا۔

آج ہم سب یہاں خادم کی آخری خواہش کے احترام میں جمع ہوئے ہیں۔ خادم ہم سب کے سامنے آج کے دن اپنی زندگی کا آخری گیت گانا چاہتا یے۔ یہی اس کی آخری خواہش ہے۔ آپ سب سے گزارش ہے کہ خاموشی اور توجہ سے اسے سنیں۔ امید ہے کہ آپ تعاون فرمائیں گے۔

یہ کہہ کر محرر خاموش ہو گیا اور منتظر نگاہوں سے خادم کو تکنے لگا ۔۔۔۔۔۔۔۔ دیگر مجمعے کی نگاہیں بھی اس وقت خادم پہ جمی ہوئی تھیں۔ خادم نے سرسری نگاہ ان سب پہ ڈالی۔ پھر سر پہ تنے نیم تاریک گدلے شامیانے جیسے آسمان کو تکا۔ چاند مکمل طور پر غائب تھا۔ کہیں کہیں اکا دکا تارے ٹمٹما رہے تھے۔ جن کی دھندلی چھاؤں احاطے کے طول و عرض نے باہم بانٹ رکھی تھی۔ مجمعے کے سر کے عین اوپر ایک زرد رنگ کا مدقوق بلب جل رہا تھا۔ جس کی روشنی بیرک کی دیواروں پہ کسی صحرائی بیتال کی طرح لرز رہی تھی۔ اور اس نے رات کے مہیب منظر کو مزید وحشتناک بنا دیا تھا۔

خادم نے کھنکار کر گلا صاف کیا اور بولا۔

میں آپ سب سے معافی کا طلب گار ہوں

پھر وہ ایک لمحے کے لیے رکا، اور دوبارہ بولا۔

ایک ہی کھرلی پہ کھاتے، چرتے، سو باتیں دل آزاری کی ہو جاتی ہیں۔ مجھ سے بھی ہزار غلطیاں ہوئی ہوں گی۔ میں نے بھی کسی کا دل دکھایا ہو گا۔ میری وجہ سے کوئی پریشان ہوا ہو گا۔ مگر میری آپ سے التجاء ہے کہ اللہ رسول کے واسطے میرا کہا سنا معاف کر دیں۔

مجمعے میں بیٹھے قیدیوں میں سے کسی ایک کی سسکی نکل گئی۔ بہت سے دوسرے، ساتھیوں سے نگاہیں بچا کر آستینوں سے آنکھیں پونچھنے لگے۔ یکدم خادم کی سریلی آواز ماحول میں جگہ بناتی ابھری اور دیکھتے ہی دیکھتے فضا میں اداسی کی لہریں بناتی چار سو پھیل گئی۔ خادم آنکھیں موندے ہوئے گا رہا تھا۔

چھپ جاؤ تاریو! کر دیو ہنیر وے

اساں نئیں ویکھنی اج دی سویروے

اداسی بھرا سکوت ایک چھناکے سے ٹوٹا۔ اور درد کا آبلہ یوں پھوٹ کے بہا کہ سر ساگر کو اپنے اندر بہا لے گیا۔ روتے روتے قیدیوں کی ہچکیاں بندھ گئیں۔ خادم گائے چلا جاتا تھا۔

گائے چلا جاتا تھا۔

اور قیدیوں کو یوں لگ رہا تھا کہ جیسے آنے والی صبح کو پھانسی اسے نہیں، ان سب کو ہونے والی ہے۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے