غزلیں ۔۔۔ ابرار احمد

اور کیا رہ گیا ہے ہونے کو

ایک آنسو نہیں ہے رونے کو

 

خواب اچھے رہیں گے ان دیکھے

خاک اچھی رہے گی سونے کو

 

یہ مہ و سال چند باقی ہیں

اور کچھ بھی نہیں ہے کھونے کو

 

نارسائی کا رنج لائے ہیں

تیرے دل میں کہیں سمونے کو

 

چشم نم چار اشک اور ادھر

داغ اک رہ گیا ہے دھونے کو

 

بیٹھنے کو جگہ نہیں ملتی

کیا کریں اوڑھنے بچھونے کو

 

تو کہیں بیٹھ اور حکم چلا

ہم جو ہیں تیرا بوجھ ڈھونے کو

 

یاد بھی تیری مٹ گی دل سے

اور کیا رہ گیا ہے ہونے کو

٭٭٭

 

 

اک فراموش کہانی میں رہا

میں جو اس آنکھ کے پانی میں رہا

 

رخ سے اڑتا ہوا وہ رنگ بہار

ایک تصویر پرانی میں رہا

 

میں کہ معدوم رہا صورت خواب

پھر کسی یاد دہانی میں رہا

 

ڈھنگ کے ایک ٹھکانے کے لیے

گھر کا گھر نقل مکانی میں رہا

 

میں ٹھہرتا گیا رفتہ رفتہ

اور یہ دل اپنی روانی میں رہا

 

وہ مرا نقش کف پائے طلب

عہد رفتہ کی نشانی میں رہا

 

میں کہ ہنگامۂ یک خواب لیے

کوئی دن عالم فانی میں رہا

٭‎٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے