غزلیں ۔۔۔ اصغرؔ شمیم

ساتھ میرے کوئی بیٹھا دیر تک

سن رہا تھا میرا قصہ دیر تک

 

گرچہ موجوں میں روانی تھی بہت

میں لبِ ساحل تھا پیاسا دیر تک

 

دھوپ نکلی تھی نہ تھا سورج یہاں

ساتھ تھا پھر کس کا سایہ دیر تک

 

آئینہ جب سامنے رکھا گیا

تک رہا تھا میرا چہرہ دیر تک

 

دیکھ کر خود کو سجا شو کیس میں

ایک بچہ مسکرایا دیر تک

 

شام کی آہٹ سے کچھ سہما ہوا

شاخ پر تھا اک پرندہ دیر تک

 

یاد اصغرؔ اس کی تو آئی نہیں

رات بھر کس نے رلایا دیر تک

٭٭٭

 

 

 

وہ مجھ کو دیکھتا ہو مجھے جانتا بھی ہو

اتنے ہجوم میں کوئی چہرہ مرا بھی ہو

 

کب تک یونہی بھٹکتا رہوں گا میں در بدر

میرے نصیب میں کہیں رستہ لکھا بھی ہو

 

ان تلخیوں کے ساتھ گزاریں گے کب تلک

اس زندگی میں اپنی کبھی کچھ مرا بھی ہو

 

اس کی عنایتوں سے تو ڈرتا ہے میرا دل

میں چاہتا ہوں مجھ سے کبھی وہ خفا بھی ہو

 

کب تک گزاروں ان کے خیالوں میں زندگی

اصغرؔ کبھی تو ان سے مرا سامنا بھی ہو

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے