غزلیں ۔۔۔ سلیمان جاذب

مٹا کر پھر بنایا جا رہا ہے

ہمیں کوزہ بتایا جا رہا ہے

 

وہی کچھ تو کریں گے اپنے بچّے

انہیں جو کچھ سِکھایا جا رہا ہے

 

وہی پانی پہ لکھتے جا رہے ہیں

ہمیں جو کچھ پڑھایا جا رہا ہے

 

ہتھیلی کی لکیریں ہیں کہ جن میں

کوئی دریا بہایا جا رہا ہے

 

ہمیں ڈرنا نہیں آتا ہے جاذب

ہمیں پھر بھی ڈرایا جا رہا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

حقیقت بھی لگنے لگی ہے کہانی

مجھے کھا گئی ہے مری خوش بیانی

 

نہیں یاد مجھ سے ملا تھا کبھی وہ

وگرنہ اُسے یاد ہے ہر کہانی

 

کوئی یار بیلی نہ اپنا اگر ہو

تو یہ زندگی ہے فقط رائیگانی

 

بس اک کال پر ہی چلے آئے ہو تم

’’نوازش کرم شکریہ مہربانی‘‘

 

یہاں دور و نزدیک شہرِ بتاں ہے

کسی کو نہیں دل کی حالت بتانی

 

اُمڈ آیا دل ایسے آنکھوں میں جاذب

کہ یکجا ہوں جیسے کہیں آگ پانی

٭٭٭

 

 

 

 

اب کہاں روگ نئے مجھ سے ہیں پالے جاتے

غم پرانے ہی نہیں مجھ سے سنبھالے جاتے

 

یہ نحیف اور شکستہ سے دل و جاں اپنے

پھر سے دنیا کے کرم پر نہیں ڈالے جاتے

 

یوں ترستے نہ کبھی دھوپ میں اک سائے کو

دل کے صحرا پہ جو اشکوں کی گھٹا لے جاتے

 

یوں تو دیواروں کے بھی کان ہوا کرتے ہیں

اُن تلک کیوں نہیں پھر میرے یہ نالے جاتے

 

اب کہاں ان کو لیے پھرتا رہوں مَیں حیدرؔ

اپنی یادوں کا یہ ساماں تو اُٹھا لے جاتے

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے