غزلیں ۔۔۔ محمد صابر

چراغ سے کٹا رہا چراغ پا رہا

میں دیر تک بجھا رہا چراغ پا رہا

 

مجھے مرے سوال کا جواب مل گیا

میں اپنی ضد اڑا رہا چراغ پا رہا

 

مثال دے کے اٹھ گیا میں چاند کی اسے

وہ دیر تک جلا رہا چراغ پا رہا

 

مجھے بھی اس کے درمیاں بٹھا لیا گیا

وہ مجھ کو دیکھتا رہا چراغ پا رہا

 

میں کام کا نہیں رہا بتا دیا گیا

کہیں مرا پڑا رہا چراغ پا رہا

 

کمک میں دیر تھی مگر یقین تھا مجھے

جہاں بھی تھا کھڑا رہا چراغ پا رہا

 

بہار میں نے کاٹ لی لباس پھینک کر

بہار میں جھڑا رہا چراغ پا رہا

 

غبارسے نکل گیا الگ تھلگ رہا

الگ تھلگ سجا رہا چراغ پا رہا

 

مجھے تو کچھ ملا نہیں بدن کی ریت سے

جہاں تھا کچھ ترا رہا چراغ پا رہا

 

جسے بڑا غرور تھا وہ بے نشاں مرا

وہ جو کھبی دیا رہا چراغ پا رہا

 

کہاں کہاں سے مل گئی مجھے مری خبر

میں کس قدر بٹا رہا چراغ پا رہا

٭٭٭

 

 

 

 

بدن کی نوک کی ٹھوکر سے در نکلتے ہیں

اسی لئے تو شجر ننگے سر نکلتے ہیں

 

مجھے یقین حرارت سے بچ نکلنے کا

مجھے پتہ ہے پتنگوں کے پر نکلتے ہیں

 

پکڑ لو ہاتھ مرا اور پھر دلاسہ دو

فقط یوں دیکھنے سے تھوڑی ڈر نکلتے ہیں

 

یہ میری رات کی چغلی کہاں پہ کرتے ہیں

پتہ کرو یہ کبوتر کدھر نکلتے ہیں

 

پلٹ کے وقت پہ جانا جناب بہتر ہے

ٹہل لیا ہے تو دنیا سے گھر نکلتے ہیں

 

تمہارے شہر کے سارے مکان خالی ہیں

تمہارے شہر کے دن کس قدر نکلتے ہیں

 

جہاں پہ شام کے سائے تمام ہوتے ہیں

وہیں سے یاد کے ہجرے کے در نکلتے ہیں

 

ہلا کے ڈال سمندر کو میری آنکھوں پر

ابھی نکال یہ کنکر اگر نکلتے ہیں

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے