رائیگانی ۔۔۔ نجیبہ عارف

سہ پہر کا وقت تھا اور میں گھر میں اکیلی تھی۔ اچانک گھنٹی بجی۔ میں نے سیڑھیاں اتر کر دروازہ کھولا تو وہ سامنے کھڑی تھی۔ ناٹا قد، چھوٹا سا خوب صورت چہرہ، غیر ملکیوں کا سا۔ اس نے گہرے نیلے رنگ کا سکرٹ پہن رکھا تھا اور سفید چھوٹی قمیض۔ سر پر سیاہ سکارف لپیٹا ہوا تھا۔ چہرے پر بلا کی نرمی تھی۔۔ ۔ مگر نہیں! نرمی کے ساتھ بلا کا جوڑ ٹھیک نہیں بیٹھتا۔ اس کے چہرے پر نرماہٹ اور مہر و محبت کی تابانی تھی۔ ایسی محبت جو کسی ایک کے لیے مخصوص نہ ہو، بس عادتاً سر زد ہوتی رہے۔ بغیر کسی ارادے، کوشش یا مقصد کے۔ محبت اور نرماہٹ سے دمکتے ہوئے ایسے چہرے مجھے اپنی طرف کھینچتے ہیں۔ مگر میں اسے پہچانتی نہیں تھی۔ شاید غلطی سے اس نے میرے گھر کی گھنٹی بجا دی تھی۔

میں نے سوالیہ نظروں سے اس کی جانب دیکھا۔ اس نے جواباً قاضی صاحب کا کارڈ دکھایا۔ ساتھ ایک چھوٹی سی چٹ جس پر انھوں نے میرے نام ایک پیغام لکھا تھا۔ پیغام کا لب لباب یہ تھا کہ یہ خاتون ہومیوپیتھی میں دلچسپی رکھتی ہیں میں ان کی کوئی مدد کر سکوں تو کر دوں۔ مجھے ذرا سا تعجب ہوا کہ ہومیو پیتھی کے متعلق میں ان سے زیادہ تو نہیں جانتی تھی۔ پھر انھوں نے اسے میری طرف کیوں بھیجا۔ مگر میں نے اس تعجب کی دیا سلائی سے کوئی موم بتی روشن نہیں کی اور اسے چپ چاپ بجھ جانے دیا۔ بالکل ویسے ہی جیسے ہم بڑے بڑے روشن اشاروں کو اپنے سامنے سے گزرتا دیکھتے ہیں اور کوئی پیغام وصول نہیں کرتے۔ بارش برستی رہتی ہے اور ہم اپنے پیالوں کو الٹا پڑے رہنے دیتے ہیں۔

وہ اندر آ گئی۔ میں نے بیٹھک کی طرف اشارا کیا۔ وہ ایک صوفے کے کنارے پر بیٹھ گئی اور فرش پر نظریں جما دیں۔ پھر آہستہ آہستہ انگریزی میں کہنے لگی:

’’تمہیں روحانیت سے دلچسپی ہے؟‘‘

میں نے تعجب سے اس کی جانب دیکھ اور ابھی کوئی جواب دینے کا سوچ ہی رہی تھی کہ وہ پھر بولی:

’’میں اس گھر میں کسی کی موجودگی محسوس کر رہی ہوں۔ شاید کوئی روحانی طور پر تمہاری رہنمائی کرتا ہے؟‘‘

میرے سامنے ایک بڑا سا سوالیہ نشان آن کھڑا ہوا اور ایک ایک کر کے کئی نام میرے ذہن کے پردوں سے ٹکرائے۔ مگر میں نے اپنے آپ کو اس موجودگی سے یکسر لا علم پایا۔

’’تم نماز پڑھتی ہو؟ ظاہری نہیں، باطنی؟‘‘

’’آں۔۔ ۔ میں۔۔ ۔ ‘‘ میری سمجھ میں نہیں آیا کہ کرب و اضطراب کے وہ لمحے، جب دل کسی نادیدہ ہستی سے مخاطب ہو، نماز کہلاتے ہیں یا نہیں۔ اور یہ باطنی نماز کیا ہوتی ہے؟ کیا یہ اسی حشر کا نام ہے جو اکثر بے سبب برپا ہوتا ہے یا کچھ اور ہے؟

’’تمہیں کچھ کرنا ہے۔ لوگوں کی مدد کرنا ہے، دوسروں کے لیے جینا ہے۔ ایک لمبا سفر ہے تمہارے سامنے۔ ٹھہرو! ٹھہرو! اب وہ پھر میرے سامنے آ گیا ہے۔ مجھے دیکھنے دو۔ یہ تو کوئی تمہارے گھر کا ہی آدمی ہے۔ عمر رسیدہ، چھوٹے چھوٹے بال، ہاتھ میں ایک لمبی سی چھڑی نما چیز ہے۔ میں سمجھ نہیں پا رہی کہ یہ کیا ہے؟ اتنی لمبی ۔۔۔۔‘‘

اس نے ہاتھ سے اشارا کیا۔

’’حقّے کی نال؟‘‘ میں نے یونہی ہانکی۔ اباجی اکثر قلندرانہ باتیں کرتے رہتے ہیں اور حقہ بھی پیتے ہیں۔ ان کے سوا کون بلا وجہ میری نگرانی کر سکتا ہے۔

’’ہاں ہاں! شاید حقہ ہی ہو،‘‘ وہ خوش ہو کر بولی۔

’’اسے تمہاری بہت فکر ہے۔ بہت خیال رکھتا ہے وہ تمہارا۔ کون ہے وہ؟ کوئی ہے تمہارے خاندان میں ایسا؟‘‘ اس نے آنکھیں کھول کر مجھے دیکھا۔

’’میرے ابا جی ہیں‘‘ میں نے بظاہر بڑے اعتماد سے کہا۔

’’اچھا‘‘ وہ چپ ہو گئی۔

پھر وہ اپنے بارے میں بتانے لگی۔

’’میں نے لندن یونی ورسٹی سے پولیٹیکل سائنس میں ایم۔ اے۔ کیا ہے۔ میں پارسی ہوں اور اپنے مذہب کے بارے میں پی۔ ایچ۔ ڈی کر رہی ہوں۔ میں شادی نہیں کرنا چاہتی تھی۔ لیکن جب اس شخص سے ملی تو جانے کیسے یہ فیصلہ ہو گیا۔ وہ مسلمان ہے۔ افغان ہے۔ آکسفورڈ سے تعلیم یافتہ۔ بہت پڑھا لکھا۔ دانشور۔ پہلے ہم سنگا پور میں رہتے تھے۔ پھر یہاں آ گئے۔ اچانک میرے شوہر کا بزنس ٹھپ ہو گیا۔ ہم مسائل میں پھنس گئے۔ میرے بچے ہیں۔ بہت سی ذمہ داریاں ہیں۔ ہم ایک پامسٹ کے پاس گئے۔ وہ مجھے کہنے لگا تمہاری سب مشکلوں کا سبب یہ ہے کہ تم جو کچھ کرنا چاہتی تھیں، کر نہیں پائیں۔ یہ سچ تھا۔ میں ڈاکٹر بننا چاہتی تھی لیکن میں خون، زخم، گھاؤ نہیں دیکھ سکتی تھی اس لیے میں نے اپنا خواب ترک کر دیا۔ پھر اس نے مجھے مشورہ دیا کہ میں ہومیو پیتھ بن جاؤں۔ کسی نے مجھے کہا کہ قاضی صاحب کے پاس جاؤ۔ ان کے پاس گئی تو انھوں نے تمہارے پاس بھیج دیا۔

پھر وہ بتانے لگی، ’’میرے سر پر ذمہ داریوں کا ایک انبار دھرا ہے۔ میں زیادہ وقت نہیں دے سکتی۔ لیکن میں کچھ کرنا چاہتی ہوں۔ دوسروں کی مدد کرنا، ان کے کام آنا، ان سے محبت کرنا۔ ایک اخبار بیچنے والا لڑکا میرا دوست ہے۔ ایک اور لڑکا بھی میرا دوست ہے، جس کا صرف ایک بازو ہے۔ میں صرف ایک بار اس سے ملی تھی۔ اس کے بعد کبھی نہیں ملی مگر ہر روز بلا ناغہ اس کے لیے دعا کرتی ہوں۔ آٹھ سال ہو گئے ہیں۔ ہر روز میں اپنی عبادت کے دوران اس کے لیے دعا مانگتی ہوں۔‘‘

میں چپ چاپ سنتی رہی اور وہ بولتی رہی جیسے حالتِ خواب میں ہو۔

’’یہ بہت لمبا سفر ہے۔ بہت لمبا ۔۔۔۔ بہت کچھ سہنا پڑتا ہے۔ بڑی آزمائشیں آتی ہیں۔ امتحان ہوتے ہیں۔ میں نے بھی بہت دکھ اٹھائے ہیں۔ کئی امتحانوں سے گزری ہوں۔ میں مذاہب میں فرق روا نہیں رکھتی۔ میری نظر میں سب مذہب برابر ہیں۔

میرے گھر میں ایک کمرا ہے۔ صرف میرا کمرا۔ اس کمرے میں صرف ایک کرسی رکھی ہے جس پر بیٹھ کر میں مراقبہ کرتی ہوں۔ مراقبہ ذرا بھاری سا لفظ ہے۔ میں عبادت کرتی ہوں۔ بس یہی وہ جگہ ہے جہاں مجھے سکون ملتا ہے۔ اس کمرے میں کوئی دنیاوی چیز نہیں۔ یہاں ایک صلیب ہے، ایک قرآن ہے، مقدس مریم کا مجسمہ ہے، زرتشت کی کتاب ہے اور بدھا ہے۔ میں آنکھیں بند کر کے کرسی پر بیٹھ جاتی ہوں۔ ساری دنیا کو دل سے نکال کر۔ میرا دل طمانیت سے بھر جاتا ہے۔ تمہیں بھی یہی کرنا ہو گا۔ دنیا کو دل سے نکال کر بیٹھ جانا!!!‘‘

’’مجھے؟؟ مجھے کیوں؟ میں دنیا کو کیسے دل سے نکال دوں؟‘‘

میں گڑبڑا گئی اور ذرا سا اپنے اندر جھانکا تو آرزوؤں کا محشر بپا تھا۔ ’’پہلے میں، پہلے میں‘‘ کا وہ غوغا کہ خدا کی پناہ۔ مقاصد کا انبار مرے سامنے تھا۔ زینوں کی قطاریں دھری تھیں جن پر باری باری مجھے چڑھنا تھا۔ منزلوں کے بلاوے تھے کہ دھاوا مارتے آتے تھے۔ میں دو قدم ایک طرف چلتی تھی اور چار قدم دوسری طرف۔ دل ہر طرف جھکتا تھا۔ اس ساری ہاؤ ہو کو دل سے نکال دوں؟ دل کب مانتا تھا۔ قاضی صاحب نے کہا تھا کہ ہوس زندگی کو آگے بڑھانے کی ذمہ دار ہے۔ شوق مر جائیں تو کاروبارِ دنیا ٹھپ ہو جائے۔

’’نہیں نہیں! احساسِ جرم میں مبتلا نہیں ہونا۔ تمہاری بھی بہت ذمہ داریاں ہیں، بہت سے رشتے ہیں نبھانے والے۔ توازن رکھنا بہت ضروری ہے۔ پہلے اپنوں کو خوش رکھنا سیکھو پھر دوسروں کو۔ لوگوں کو سکون بخشو، ان سے محبت کرو، ان کا خیال رکھو، ان کی خدمت کرو۔ خدا تک پہنچنے کا بس یہی راستہ ہے۔‘‘ اس نے آہستہ آہستہ کہا۔

مجھے یاد آ گیا، مفتی صاحب نے بھی یہی کہا تھا، لوگوں سے محبت کرو، انھیں امید دلاؤ، بے آس نہ کرنا۔ تب میں نے بڑی ضد کی تھی۔

’’میں محبت نہیں کر سکتی مفتی صاحب، مجھے کوئی اور کام دے دیں۔ میرا دل نہیں بھیگتا۔ یہ بے اختیار نہیں ہوتا۔ محبت بڑا مشکل ٹارگٹ ہے مفتی صاحب۔ میں صرف محبت کا دکھاوا کر سکتی ہوں، مگر کوئی کتنی دیر تک دکھاوا کرے۔‘‘

مفتی صاحب کی سمجھ میں میرا مسئلہ قطعی نہ آیا اور وہ اپنی بات پر اڑے رہے۔ مجھے دھمکیاں دیتے رہے کہ ’’نہ مانی تو کوئی بابا پیچھے ڈال دوں گا۔ پھر تو بیٹھ کر روئے گی۔‘‘

اس پر میں ایکسائٹڈ ہو گئی، ’’ہاں ہاں! ضرور بابا پیچھے ڈال دیں۔ مجھے بڑا شوق ہے کہ کوئی بابا میرے حال کا نگراں ہو جائے۔ میں بھی تو ذرا دیکھوں کیسے ہوتے ہیں یہ بابے۔‘‘

پھر مفتی صاحب غچہ دے گئے اور کسی بابے کو ریفر نہیں کیا۔ اب یہ بی بی پھر مجھے محبت پر آمادہ کر رہی ہیں۔

لیکن اس کے لیے شرط کیا ہے، ایک خالی کمرا جس میں صرف ایک کرسی ہو! بھلا کیسا لگے گا۔ کرسی تو جھولنے والی ہونی چاہیے، مجھے کب سے تمنا ہے ایک جھولنے والی کرسی ہو اور میں اس پر بیٹھ کر بلکہ جھول جھول کر فلسفے کی کتاب پڑھتی رہوں! کرسی کین کی ہو یا شیشم کی؟ چنیوٹی کام والی ہو یا سادہ!!!، نئی لوں یا سیکنڈ ہینڈ ۔۔۔۔

’’اپنی خواہشوں پر شرمندہ ہونے کی ضرورت نہیں۔ انھیں دل میں آنے دو اور پھر گزر جانے دو۔ سوچ پر پہرے نہیں بٹھاؤ، اسے روکو نہیں، خیالوں کو دل میں آتے جاتے دیکھا کرو۔ آہستہ آہستہ ان کی رفتار کم ہو تی جائے گی۔ درمیان کا وقفہ بڑھتا جائے گا۔ دو سوچوں کے درمیان کا وقفہ۔۔ ۔ اسی لمحے کا نام مراقبہ ہے۔ جب تم کچھ نہیں سوچتے۔۔ ۔ کچھ نہیں جانتے۔۔ ۔ اس وقت تم کہاں ہوتے ہو؟ کبھی سوچا؟‘‘

میں چوکنی ہو گئی۔

’’مراقبہ؟

Hallucinations؟؟؟

یہ توہم کا کارخانہ ہے!

یک گونہ بیخودی مجھے دن رات چاہیے!

تصوف، تمدن، شریعت، کلام، بتانِ عجم کے پجاری تمام‘‘

نہیں نہیں، میں ان باتوں میں نہیں آؤں گی۔ یہ سائنس اور ٹیکنالوجی کا زمانہ ہے، مراقبے اور مجاہدے کا نہیں۔ علم علم اور بس علم۔۔ ۔ اور کچھ نہیں۔ یہ معلوم کی حد سے آگے کی باتیں وقت کا ضیاع ہیں سب۔ میں اپنی ڈیفنس لائن پر ڈٹ گئی۔

وہ پھر بولی:

’’زندگی کا ہر سانس ایک نئی زندگی ہے۔ زندگی خود کو کبھی نہیں دہراتی۔ تمہیں اپنی تطہیر کرنی ہے۔ اپنی روح کو دھو ڈالنا ہے۔ پھر ایک لطافت میں ڈھل جائے گا تمہارا وجود۔ کب؟؟؟ یہ سوچنا تمہارا کام نہیں۔ وقت کا تعین تم خود نہیں کر سکتیں۔ وقت کوئی اور متعین کرتا ہے۔ تمھیں تو بس کوشش کرتے چلے جانا ہے۔‘‘

میں منہ کھولے اسے دیکھ رہی تھی۔ اس نے ایک لمحے کے لیے غور سے مجھے دیکھا اور پھر آہستہ سے بولی:

’’زرتشت ہر وقت مرے ساتھ ہے، مقدس مریم میرے اندر سما گئی ہے، بدھا میرے دل میں ہے، قرآن میرے دل میں ہے۔‘‘

میں نے بے یقینی سے اسے دیکھا۔ اس نے میرا شکریہ ادا کیا اور خدا حافظ کہہ کر چلی گئی۔ اس کے جانے کے بعد مجھے یاد آیا، ہومیو پیتھی کے بارے میں تو کوئی بات ہی نہیں ہوئی۔ مگر میں نے اس یاد کو زیادہ اہمیت نہ دی بلکہ ہمیشہ کے لیے شعور سے جھٹک دیا۔

اس کی ایک مدھم سی شبیہ میری یاد داشت میں محفوظ ہو گئی۔ وہ بہت خوبصورت تھی۔ اس کی نگاہ بہت گہری تھی۔ دور تک اور اندر تک دیکھتی ہوئی اور اس کا لہجہ بہت میٹھا اور دور رس تھا۔ ایسا لگتا تھا جیسے آواز اس کے منہ سے نہیں دل سے نکل رہی ہو۔ وہ انگریزی بولتی تھی اور اردو سے نابلد تھی۔ اس کی بات میں تاثیر تھی۔

اس ملاقات کو کئی سال گزر گئے۔ میں اس سے پھر کبھی نہیں ملی۔ نہ اس نے کوئی رابطہ کیا۔ ایک بار ریڈیو سٹی پر مجھے گمان ہوا کہ میں نے اسے دیکھا ہے۔ مگر وہ بیگم اختر کی سی ڈی خرید رہی تھی۔ میں نے سوچا، کوئی اور ہو گی۔ اسے تو شاید اردو نہیں آتی تھی۔

ابھی کچھ دن پہلے میں سعید بک بنک سے کتابیں خرید کر باہر نکل رہی تھی۔ میری بیٹی اور میاں بھی میرے ساتھ تھے۔ اچانک میری اس پر نظر پڑی اور میں نے پہلی نظر میں اسے پہچان لیا۔ اس یقین کے ساتھ کہ وہ وہی تھی کوئی اور نہیں۔ حالانکہ وہ تیزی سے میرے قریب سے گزر گئی تھی اور میں نے اس کی صرف ایک جھلک دیکھی تھی۔ پہلے تو میں اسے دیکھ کر باہر آ گئی۔ پھر کسی انجانی طاقت نے مجھے اس کی طرف کھینچا اور میں اس کے پیچھے لپکی۔

در اصل وہ دن ہی بڑا اداس تھا۔ میں صبح سے اپنے میاں سے کہہ رہی تھی، مجھے کہیں لے جائیں، مجھے وحشت ہو رہی ہے۔ وہ مجھے کتابوں کی دکان پر لے آئے تھے۔

میں نے جلد ہی اسے ڈھونڈ لیا۔ اپنا تعارف کروایا۔ اسے کچھ یاد نہ آیا۔ مگر مجھے دیکھتے ہی وہ کہنے لگی، تمہاری تاریخ پیدائش کیا ہے۔

میں نے بتایا۔

کہنے لگی، تمہاری زندگی میں کوئی بڑی تبدیلی آنے والی ہے۔ ایک دور ختم ہو رہا ہے۔ دوسرا دور شروع ہونے والا ہے۔ کیا اس سال کے دوران بھی تمہاری زندگی میں کوئی تبدیلی آئی ہے؟

میں نے سوچ کر کہا ہاں میں نے نئی جاب جوائن کی ہے۔

وہ خوش ہو گئی۔

ٹھیک! اب ایک اور دور شروع ہونے والا ہے۔ تم تیار ہو جاؤ!

ایک اور دور۔۔ ۔ اندر کہ باہر؟؟؟

اس نے میرے سوال کو نظر انداز کر دیا اور بولی:

’’تمہارے کئی امتحان لیے گئے ہیں۔ تمہارے راستے میں بڑی رکاوٹیں ہیں۔ تم بار بار دنیا کی طرف پلٹ آتی ہو۔ ہوس تمھیں کھینچ لیتی ہے۔ تمہیں بار بار موقع دیا جاتا رہا خود کو ثابت کرنے کا۔ آج میری تم سے ملاقات اتفاقیہ نہیں۔ مجھے تمہیں یہ بتانے پر مامور کیا گیا ہے کہ فیصلے کی گھڑی آ گئی ہے۔ تمہیں اپنے لیے ایک راہ چننی ہے۔ اس تذبذب سے باہر نکلنا ہے۔ تمھیں خود سے ملنا ہے، خود کو پہچاننا ہے۔ اپنی ترجیحات کا تعین کرنا ہے۔ اسی دو دلی میں، اسی بے سمتی میں رہنا چاہتی ہو، یا اپنے دل کی آواز پر لبیک کہنا چاہتی ہو۔‘‘

’’نہیں نہیں اس قیامت میں نہیں رہنا چاہتی‘‘، بے اختیار میں نے کہا

’’تو پھر اپنے دل کی آواز سنو! اس سے پوچھو کہ وہ کیا چاہتا ہے؟ کس راہ کا مسافر ہے؟ کیوں اسے بے یار و مددگار چھوڑ رکھا ہے؟‘‘

میں نے ایک بار پھر اپنے دل میں جھانکا۔ ایک بھیانک خلا کا ڈرا دینے والا سناٹا بھائیں بھائیں کر رہا تھا۔ بہت کوشش کی مگر کسی لفظ کی صورت ڈھلی نہ کسی خیال کا نقش بندھ پایا۔ جھنجلا کر میں نے زندگی کی سطح سے دو چار ریڈی میڈ تصویریں اٹھا لیں۔

’’مگر میری ذمہ داریاں۔۔ ۔ میرے فرائض ۔۔۔۔۔‘‘

’’اب تو تمہارے سر پر چھت ہے۔ پیٹ بھرنے کو روٹی میسر ہے!‘‘

’’لیکن میرے بچے!!! میرا گھر!!! میرا باس!!! میری نوکری!!!‘‘

’’تم پریشان بہت جلدی ہو جاتی ہو۔ حساس بہت ہو!! یہ سب بھی چلتا رہے گا۔ مگر دن کا کچھ حصہ تو اپنے لیے بھی رکھو۔ چوبیس میں سے کچھ گھنٹے۔۔ ۔ چلو ایک گھنٹہ سہی۔۔ ۔ ؟‘‘

اس نے سوالیہ نظروں سے مجھے دیکھا۔ میری سمجھ میں کچھ نہ آیا کہ اس ایک گھنٹے میں مجھے کرنا کیا ہو گا۔ خالی کمرے اور جھولنے والی کرسی کا قصہ میں بھول چکی تھی۔

’’دیکھو! محض خواہش کرنے سے منزل نہیں ملتی۔ یہ بھی ایک راستہ ہے۔ اس کے نشیب و فراز سے گزرنا پڑتا ہے۔ تگ و دو کرنی پڑتی ہے، پھر کہیں راہ سے مانوس ہوتا ہے انسان، ورنہ یہ بھی دوسری راہوں کی طرح اجنبی اجنبی سی لگتی رہتی ہے۔ میں تمہیں بار بار کہے دیتی ہوں، تمہاری زندگی کا ایک دور ختم ہونے کو ہے اور ایک نیا دور شروع ہو رہا ہے۔ فیصلہ تمھیں کرنا ہے۔‘‘

پھر ہم نے ایک دوسرے کو خدا حافظ کہا اور اپنی اپنی راہ پر چل پڑے۔

میں گھر واپس آئی تو بہت مضطرب تھی۔ میری زندگی میں کوئی تبدیلی آنے والی ہے۔ مگر نجانے کیسی تبدیلی۔۔ ۔ مثبت کہ منفی ۔۔۔۔

میں نے اس سے پوچھا کیوں نہیں۔۔ ۔

یہ تبدیلی میرے اندر کی دنیا میں ہو گی یا باہر کی دنیا میں۔۔ ۔

سچی بات تو یہ ہے کہ اندر کی تبدیلی میرے لیے کوئی ایسی خاص اہمیت نہیں رکھتی تھی۔ یہ تو بہت دفعہ آئی تھی۔ کبھی کچھ ہوا کبھی کچھ۔ مگر کبھی بھی کچھ ایسا نہیں ہوا کہ لگتا کچھ ہو گیا ہے۔

ہاں باہر کی تبدیلی امید افزا تھی۔ بھلا کیا ہو سکتی ہے یہ تبدیلی۔۔ ۔ ؟

پروموشن، گریڈ، انعامی بانڈ، امیگریشن ۔۔۔۔؟

ایسے کتنے ہی امکانات میرے خیال میں بار بار کوند جانے لگے۔

میں نے بے دھیانی میں کھڑکی کا پردہ ہٹایا۔

باہر بارش ہو رہی تھی اور الٹے پیالے کے پیندے پر بوندوں کی ٹپ ٹپ بڑے زور سے گونج رہی تھی۔

اس گونج کی بازگشت زمان و مکاں میں دیوانہ وار سر ٹکرا رہی تھی۔

میرے دل کا خلا رُکی ہوئی چیخوں سے بھرنے لگا۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے