اسلامی تلمیح کی منفرد کہانی ’سامری‘۔۔۔ غلام نبی کمار

ایک فنکار اپنے عہد کا نہ صرف راوی ہوتا ہے، بلکہ فلسفی بھی اور اس کے فلسفہ میں تاریخ کے صفحات در صفحات سموئے ہوتے ہیں۔ مورخین سے تخلیق کار بایں معنی بھی ممتاز ہوتا ہے کہ وہ سب کچھ کہتا بھی ہے اور سب کچھ چھپاتا بھی ہے، تاہم مورخین سب کچھ کہہ جاتے ہیں۔ اس لیے تخلیق کار بیک وقت مورخ ہوتا ہے اور فلسفی بھی۔ ان چند تمہیدی جملوں کی روشنی میں وحشی سعید کے افسانہ ’’سامری‘‘ کا تجزیہ کریں تو معلوم ہو گا کہ وہ متوازی طور پر ماضی کو حال بنا کر مستقبل کی طرف معنی خیز اشارہ کر رہے ہیں۔ کیوں کہ ان کی یہ کہانی ایک طرف علامت کے طور پر سامنے آ رہی ہے تو دوسری طرف تلمیحی تناظرات میں اپنی مثال آپ بن رہی ہے۔ اس کے علاوہ ان کی اس کہانی کا ایک سراتاریخی رویوں سے ہمکنار ہو رہا ہے، دوسری طرف رجائیت اور اصلاح کی قندیلیں بھی روشن کر رہا ہے۔ اِن تمام جزئیات پر ذیل کی سطور میں ہم ترتیب وار گفتگو کریں گے، تاکہ کہانی کا ہر ایک پہلو ہمارے سامنے واضح ہو کر آ سکے۔

وحشی سعید کے افسانوں کا مطالعہ ہمیں اس نتیجے پر پہنچاتا ہے کہ وہ تہہ داری اور ایمائیت کے گاڑوں پر اپنے تخلیقی جملوں کی عمارت کھڑی کرتے ہیں۔ ان کا یہی افسانوی رویہ انھیں ذو معنی، بلکہ سہ معنی افسانہ نگار قرار دیتا ہے۔ پیش نظر افسانہ سے بھی ہم کئی معنی اخذ کر سکتے ہیں۔ اس لیے انھیں سہ معنی افسانہ نگار کہنا بجا ہو گا۔ پہلی بات یہ کہ لفظ ’’سامری‘‘ اس کہانی میں ایک علامت بن گیا ہے۔ کیوں کہ جس انداز سے افسانہ نگار نے سامری کے کردار کو پیش کیا، اس سے معلوم ہو جاتا ہے کہ وہ چالبازی کا ایک نمونہ ہے۔ اس کے اندر ڈینگیں ہانکنے کی صلاحیت موجود ہے۔ گویا تخلیق کار نے سامری کے علامتی رنگ میں اس قدر جزئیات نگاری کی کہ وہ مکمل علامت بن گیا ہے۔ وحشی سعید کی اس کہانی کا پہلا معنی یہ ہے کہ انھوں نے سامری کے کردار میں علامت کا گہرا رنگ پیش کر دیا ہے۔ جب کہ دوسرا معنی لفظ سامری میں ’’تلمیح‘‘ کا ہے۔ وہ اس طرح ہے کہ یہ لفظ ہمیں حضرت موسیٰ اور فرعون کے عہد میں پہنچا دیتا ہے۔ تلمیح در اصل یہی ہے کہ ایک لفظ کی نقاب کشائی کریں تو ماضی کے ایک عہد کی پوری داستان سامنے آ جائے۔ سامری کا لفظ بولتے ہی اسلامی تاریخ سے ذرا بھی واقفیت رکھنے والوں کا ذہن حضرت موسیٰ کے عہد میں پہنچ جائے گا۔ جب ہم تاریخی پہلوؤں سے جوڑ کر اس کہانی کا تجزیہ کرتے ہیں تو تلمیحی منظر نامہ سامنے آتا ہے، مگر تاریخی حوالوں سے الگ ہوتے ہیں تو لفظ سامری، عیاری، چالبازی اور مکاری کی علامت بن جاتا ہے۔ کہانی کا تیسرا پہلو یہ ہے کہ وحشی سعید نے علامت اور تلمیح کے ساتھ اس کہانی میں تاریخی حوالوں کو بھی پیش کیا ہے۔ وہ، یوں کہ انھوں نے اس میں ہیلری اور دنیا کی اونچی چوٹی پر امن کا پرچم لہرانے کا تاریخی اشاریہ دیا ہے۔ اس لیے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ وحشی سعید نے اس کہانی میں ایمائیت اور تہہ داری کی عمدہ مثال پیش کرتے ہوئے اسے ’سہ معنی‘ بنا دیا ہے۔

علامت و تہہ داری کی وضاحت کے بعد ہم تلمیح کو تاریخی پس منظر میں واضح کر رہے ہیں، تاکہ اس کہانی کا تجزیہ بہتر طریقے سے ہو سکے۔ حضرت موسیٰ اور فرعون کے تاریخی پس منظر میں متعدد واقعات ایسے ہیں، جن کی روشنی میں ہم موجودہ عہد کے مسائل کا تجزیہ کر سکتے ہیں۔ ساتھ ہی کئی ایسے واقعات ہیں، جن کے برعکس آج کئی منظر نامے ہمارے سامنے آتے ہیں۔ مثلاً کہنے والوں نے کہا کہ ’فرعون کو کالج کی نہیں سوجھی‘، گویا فرعون نے ایک ایسے بچے کی پیدائش کے خوف سے علاقے کے تمام بچوں کے قتل کا حکم دے دیا، جس سے اس کی حکومت کو خطرہ لاحق تھا۔ اس کے اس حکم پر ہزاروں بچوں کو قتل کر دیا گیا۔ یعنی اس نے خدشے کی بنیاد پر ایک نسل کو تہہ و بالا کر کے رکھ دیا۔ اگر فرعون کو کالج کی سوجھ جاتی تو بچوں کے قتل کا حکم نہیں دیتا۔ بچوں کے قتل سے اپنا دامن داغدار نہیں کرتا، بلکہ کالج میں بچوں کی ایسی تربیت کا انتظام کیا جاتا کہ بچوں کے اندر فرعون مخالف ذہنیت نہ پنپے۔ ہندوستان کے پس منظر میں دیکھیں تو یہاں کی حکومتوں کو کالج کی سوجھ گئی ہے کہ اس لیے وہ بچوں کو قتل نہیں کرواتی، بلکہ کالج میں ایسے مواد فراہم کرتی ہیں، جن سے بچوں کے اندر بلند ہمتی کا جذبہ پیدا نہ ہو سکے۔ حکومت کے خلاف ذہن تیار نہ ہو سکے۔ گویا فرعون کے اس معاملہ سے برعکس رویہ آج ہمارے ملک کا ہے۔ اس نے قتل عام کروایا اور ہماری حکومتیں کالجوں پر نظر رکھ رہی ہیں۔ لیکن سامری کے پس منظر میں عہد فرعون اور ہمارے عہد میں کوئی فرق نہیں ہے۔ کیوں کہ اس عہد میں سامری نے لوگوں کو راہِ راست سے بھٹکایا اور آج اُسی سامری کا کردار ادا کرتے ہوئے ہمارے ملک کے معزز اور عظیم ترین سیاستداں لوگوں کو راہ راست سے بھٹکا رہے ہیں۔ گویا ہمارے ملک کا سربراہ سامری کا کردار ادا کر رہا ہے۔

سامری کا واقعہ کچھ اس طرح رو نما ہوا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنے بھائی ہارون ؑ کو اپنی قوم کی نیابت سونپ دی اور وہ خدائے تعالیٰ سے احکامات لینے چلے گئے۔ تقریباً چالیس دن تک اپنی قوم بنی اسرائیل سے دور رہے، مگر ان کی جب واپسی ہوئی تو اپنی قوم کو بچھڑے کی عبادت میں مشغول پایا۔ انھوں نے حضرت ہارون کی لعن طعن کی۔ بہتر طریقے سے نیابت کا فریضہ نہ ادا کرنے کا گلہ کیا تو انھوں نے سامری کا پورا واقعہ سنایا۔ اس کا واقعہ یہ تھا کہ اس نے قوم کو ورغلایا۔ قوم کے لوگوں سے تمام تر زیورات جمع کرنے کی درخواست کی۔ بھولے بھالے عوام نے سامری کے بہکاوے میں اپنے بیش قیمت جواہرات اس کے حوالے کر دیے۔ سامری نے سونے جواہرات کو تپایا اور کارستانی کا نمونہ پیش کرتے ہوئے ایک بچھڑا ان کے سامنے رکھا اور انھیں اس کی عبادت میں غرق کر دیا ہے۔ قرآن میں سامری کا واقعہ بھی کچھ اسی طرح مذکور ہے۔

وحشی سعید نے اسی تاریخی پہلو کو سامنے رکھتے ہوئے یہ کہانی ’’سامری‘‘ تخلیق کی ہے۔ کہانی کی ہرسطر تلمیحی پس منظر میں سامری کی کرشمہ سازی بنا کرتی ہے:

’’پھر ایک دن خود کو اُس نے لوگوں کے ایک بڑے ہجوم سے خطاب کرتے ہوئے پایا۔ اُس نے تقریر کرتے ہوئے اپنی نئی قوم کی شان و شوکت اور وحدت کے قصیدے پڑھے۔ لوگوں کا وہ ہجوم اس قدر اُس کا گرویدہ ہو گیا کہ سب ایک ساتھ بول پڑے۔۔

’’قوم کا لیڈر کیسا ہو؟ سامری جیسا ہو،۔۔ سامری۔۔ سامری۔۔ سامری‘‘

وحشی سعید نے اپنی کہانی میں موجودہ سامری کی پوری زندگی کا خاکہ پیش کیا ہے۔ پیدائش کے وقت اس کا کیسا رویہ تھا۔ نوجوانی کے عالم میں اس کے کیا کردار تھے۔ پھر اشاروں میں انھوں نے موجودہ سامری کے کردار اور اس کے بدلتے رنگ کو پیش کر دیا کہ ’پھر اُس نے اپنے کندھے سے اپنا زعفرانی گچھا اُس کے کندھوں پر سجایا۔ ‘اس جملے سے وضاحت ہو جاتی ہے کہ سامری نے کیسے چالبازی کا سہارے لیتے ہوئے ملک کی با وقار کرسی کو اپنی گرفت میں لے لیا۔

کہانی کا یہ نکتہ اپنی گرفت لیتا ہے کہ سامری در اصل چالبازی کے سہارے ہی اپنے منصوبے میں کامیاب ہوتا ہے۔ فرعون کے عہد کا سامری بھی قوم کو ورغلاتا تھا اور ان کے بیش قیمت جواہرات اپنے قبضے میں کرتا تھا۔ اگر موجودہ عہد کے سامری کو سامنے رکھیں تو یہ کہنا پڑے گا کہ ان کے جواہرات آج ووٹ میں بدل گئے ہیں۔ اُس عہد کے سامری نے جواہرات جمع کروائے اور آج کا سامری ووٹ جمع کرنے کے لیے کرشمہ سازی کر رہا ہے۔ اسی طرح کہانی کا یہ معاملہ بھی پرکشش بن گیا ہے کہ اس عہد کے عوام نے کالج کا منہ نہیں دیکھا تھا، اس لیے سامری کے بہکاوے میں آ گئے۔ انھیں کالج کی نہیں سوجھی تھی، اس لیے وہ سامری کے کرشمہ میں پھنس گئے، مگر آج کے سامری کا کرشمہ روز بروز بڑھتا جا رہا ہے، حالانکہ آج کالج بھی ہے۔ بھولا پن ویسا نہیں ہے، جیسا کہ فرعون کے عہد میں تھا۔ گویا وحشی سعید نے اس کہانی میں نہ صرف سامری کو نشانہ بنایا، بلکہ ترقی یافتہ دور کے عقل مندوں کو بھی مہمیز کیا ہے کہ وہ عقل رکھتے ہیں، مگر سامری کا سایہ اُن پر دن بہ دن گھنا ہوتا جا رہا ہے۔ اس طرح یہ بھی کہنا پڑے گا کہ وحشی سعید نے ایک ہی واقعہ کو تخلیقی عمل میں اس قدر متعدد معاملات سے آمیزہ کیا ہے کہ دو عہد کی پوری داستان ہمارے سامنے آ جاتی ہے۔ دونوں عہد کا بھولا پن سامنے آ جاتا ہے، بلکہ یہ کہنا مناسب ہو گا کہ قدیم عہد کا بھولا پن واضح ہوتا ہے اور موجودہ عہد کی مصلحت کوشی اور خوف کی فضا ابھرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اُس عہد میں سامری اس لیے پھلتا پھولتا رہا کہ بھولے بھالے عوام تھے، لیکن آج کا سامری اس لیے ترقی کے منازل طے کر رہا ہے کہ اہل دانش و بینش خاموش ہیں۔ مصلحت کے دبیر پردے ان پر پڑے ہیں۔ اس لیے وہ کچھ بولتے نہیں اور سامری دن بدن پھیلتا جا رہا ہے۔ وحشی سعید نے ایک منجھے ہوئے فنکار کا حق ادا کرتے ہوئے موجودہ عہد پر خاصا طنز کیا ہے۔ اس کے علاوہ یہ پہلو بھی قابل التفات ہے کہ سامری سے چھٹکارا دلانے کے لیے اس عہد میں موسیٰؑ تھے، مگر آج ان کا مماثل کوئی سامنے نہیں آ رہا ہے۔ اس لیے سامری کی کرشمہ سازی اور بھی پر کشش ہوتی جا رہی ہے۔ گویا آج سامری کے چھٹکارے کے لیے ’ موسیٰ‘ کی ضرورت ہے۔

وحشی سعید نے ایک طرف جہاں سامری کے واقعہ کو مد نظر رکھا، وہیں کہ چوٹی پر امن کا پھریرا لہرانے کا منظر پیش کیا ہے۔ امن کے اس پھریرے میں جہاں تاریخی پہلو چھپا ہوا ہے، وہیں رجائیت کا معاملہ بھی پنہاں ہے:

’’ہم میں چند اب بھی اس انتظار میں ہیں کہ کوئی تو ہو گا جو ہمالیہ کی اونچی چوٹی پر امن کا جھنڈا لہرائے گا اور سفید کبوتروں کا جھُنڈ اس سفید جھنڈے کو چھوتے ہوئے فضاؤں میں اُڑان بھرے گا۔‘‘

کہانی کے یہ اختتامی جملے ہیں، جن میں وحشی سعید نے رجائی پہلوؤں کو شامل کیا ہے۔ اگر وہ چاہتے تو فقط سامری کے واقعہ پر اکتفا کرتے ہوئے کہانی بُنتے، مگر انھوں نے تاریخی حوالے کا بھی اضافہ کیا ہے، جس کی روشنی میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ وحشی سعید ناول کی تخلیق کی طرح ایوینٹس زیادہ رکھتے ہیں، مگر ارتکاز کا معاملہ ان کے یہاں ایسا ہوتا ہے کہ بے شمار جزئیات ایک لڑی میں جڑ جاتی ہیں اور پورا افسانہ کسی ایک نکتہ پر مربوط ہو جاتا ہے۔ اگر وہ اس افسانہ میں ہمالیہ کی چوٹی کی طرف اشارہ نہیں کرتے، تب بھی کہانی مکمل ہوتی، مگر رجائیت کا کوئی معاملہ ہمارے سامنے نہیں ہوتا۔ اس کے علاوہ یہ بھی ہوتا کہ ان کی کہانی ’’سہ معانی‘‘ جیسے معاملات سے ہمکنار نہیں ہوتی۔ ساتھ ہی ساتھ وحشی سعید نے رجائی معاملوں کے ساتھ اس کہانی کا آغاز کیا ہے اور رجائیت کے ساتھ ہی اس کا اختتام بھی۔ یہی وجہ ہے کہ قاری افسانہ کی قرأت کے درمیان امید و بیم کی کیفیات سے دوچار ہوتا ہے۔

جدیدیت کے سنہری دور سے قطع نظر آج بھی بے شمار فکشن نگار علامت کی تلاش میں اتنی دور نکل جاتے ہیں کہ ترسیلی معاملات کا سرا ہاتھ سے چھوٹ جاتا ہے اور ہر ہر سطر میں علامت کے ساتھ ناقابل تفہیم کا فلسفہ بھی سامنے آتا ہے۔ ظاہر ہے اس رویہ سے نہ فکشن کا لطف آ سکتا ہے۔ نہ تخیلاتی گدگداہٹ کا احساس ہو گا اور نہ ہی فنی ارتکاز کا کوئی پہلو سامنے آ پائے گا، مگر وحشی سعید ایمائیت اور تہہ داری کی کائنات میں تخیلات کی ڈور اتنی ڈھیلی نہیں چھوڑتے کہ ترسیل کی صحرا میں ان کی کہانی بھٹک جائے۔ یہی وہ فنکاری ہے، جس کی بنیاد پر کسی بھی تخلیق کار کو انفرادی رویوں کی خلعت ملتی ہے۔ پیش نظر کہانی کی ایک یہ بھی خصوصیت ہے کہ وحشی سعید نے اسلامی تاریخ کے پس منظر میں اسے بُنا ہے۔ ورنہ تو آج اسلامی تناظرات سے تنفر ایک فیشن کی شکل اختیار کرتا جا رہا ہے، اس لیے قرآنی تلمیح کی طرف التفات خوش کن ہے۔ اگر ہم ذرا گہرائی سے دیکھیں تو قرآن کا ہر واقعہ جہاں پیغام کے تناظر میں ہمیں ملتفت کر سکتا ہے، وہیں تحیر و تجسس کا بھی لطف دے سکتا ہے۔ اس بات کے اعتراف میں کوئی جھجھک نہیں کہ اگر وحشی سعید قرآنی تلمیحات کو پیش نظر نہیں رکھتے تو حکومت کے رویوں کو وہ بآسانی نشانۂ تنقید نہیں بناسکتے تھے بلکہ کہانی کی قرات کے دوران کبھی ایسا محسوس ہوتا کہ تخلیق کار بغاوتی تیور اپنا رہا ہے تو کبھی ایسا لگتا کہ کوئی فرد کوئی افسانہ تخلیق نہیں کر رہا ہے، بلکہ صحافتی پس منظر کو آب دار بنا رہا ہے، مگر وحشی سعید نے قرآنی تلمیحات کو مد نظر رکھتے ہوئے بڑی آسانی سے اشاروں میں بڑی بات کہہ دی ہے۔

لب لباب کے طور پر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ وحشی سعید کہانیوں میں ایسی تہہ داری پیدا کرتے ہیں کہ بیک وقت ہم کئی معنی اخذ کر سکتے ہیں، کیوں کہ معانی کی ہرسطح پر تفہیم کا معاملہ بھی ان کے یہاں آسان ہوتا ہے۔ تخلیق کار کے لیے یہ باعثِ عار ہے کہ وہ تہہ داری کے پھندوں میں پھنس کر ترسیل کے معاملات کو مکمل طور پر نظر انداز کر دے۔ وحشی سعید معنی کی تہہ داری اور تلمیحی تناظرات میں ترسیل کے رویوں کو فراموش نہیں کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ایک کہانی میں کئی پہلوؤں کو روشن رکھتے ہیں۔ ورنہ دور از کار علامتوں سے نہ صرف تفہیم متاثر ہوتی ہے، بلکہ ایک معمہ کی کیفیت بھی سامنے آتی ہے، مگر وحشی سعید کا رویہ ذرا مختلف ہے۔ اس لیے ہمیں یہ کہنا پڑتا ہے کہ ترسیل کے پانی میں وہ تہہ داری کا گارا تیار کرتے ہیں اور اسی گارے سے فکر و نظر کی اینٹیں جوڑتے چلے جاتے ہیں۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے