غزلیں ۔۔۔ تنویر قاضی

خواب جب اُتر آئے ساحلی علاقے میں

ماہی گیر گھر آئے ساحلی علاقے میں

 

آنکھ اشک بھر آئے ساحلی علاقے میں

دل کو خالی کر آئے ساحلی علاقے میں

 

سُرخ پینگوئن ایسے منظروں سے دُھتکارے

پھر نہ عمر بھر آئے ساحلی علاقے میں

 

میتیں دِکھانے کا اہتمام کیا کرتے

سب بغیر سَر آئے ساحلی علاقے میں

 

اونٹ کینہ پرور اور چھاگلیں بھی چھلنی تھیں

ریت کے سفر آئے ساحلی علاقے میں

 

سانسین اور منقاریں کٹ چکیں پرندوں کی

صرف بال و پر آئے ساحلی علاقے میں

 

بھاگتے ہوئے بچے پیچھے چاند کے تھر کے

عکسِ آب پر آئے ساحلی علاقے میں

 

اک رُوپہلی ساعت کا کائی سے گلے ملنا

کچھ ثبوت در آئے ساحلی علاقے میں

٭٭٭

 

 

 

عشق کے کاروبار میں دیکھا

اک خسارہ شمار میں دیکھا

 

اُس نے کل شہر کی نمائش میں

خود کو تصویرِ یار میں دیکھا

 

سُرخیِ سیب اُٹھان میں اُتری

ہونٹ کا رَس انار میں دیکھا

 

اُنگلیاں خواب خواب اُٹھنے لگیں

میں نے اُس کو ستار میں دیکھا

 

جاں فزا حُسن کو سمٹتے ہوئے

بسترِ بے کنار میں دیکھا

 

اَن کہی اَن سُنی مہک اُتری

ایک چڑھتے غُبار میں دیکھا

 

پَرتوِ حُزن مسکراہٹ پر

قحط اک سبزہ زار میں دیکھا

 

بار بار اپنا سامنا کرتے

آئینوں کی قطار میں دیکھا

٭٭٭

 

 

 

جب وہ بستی میں آئے

ٹُوٹی کشتی میں آئے

 

کاندھوں پر بارش لے کر

کالی آندھی میں آئے

 

کہنہ خوابوں کے ہمراہ

نئی آبادی میں آئے

 

ایک چراغ لئے کوئی

دل کی کھڑکی میں آئے

 

نقرئی پریاں اور جن

بند حویلی میں آئے

 

بچوں کی خواہش کے رنگ

اُڑتی تتلی میں آئے

 

قصہ قصہ کالے سانپ

رات کی رانی میں آئے

 

ہم دونوں کا ذکر کبھی

ایک کہانی میں آئے

 

چِڑیا گھر سے لوٹ چلیں

ہاتھی بستی میں آئے

 

سب ٹھہرے لمحے تنویر

بہتی ندی میں آئے

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے