غزلیں ۔۔۔ قمر صدیقی

سوتے سے وہ جاگ پڑا ہے

خوابوں کا نقصان ہوا ہے

 

ہم بھی گھر میں آ بیٹھے ہیں

رستہ بھی سنسان پڑا ہے

 

بچے پب جی کھیل رہے ہیں

بوڑھا برگد دیکھ رہا ہے

 

پارک کی سونی بینچوں پر

شام کا سایہ پھیل رہا ہے

 

تنہائی کی گہری دھوپ میں

تیری یاد کا پھول کھلا ہے

 

اندر آ کر دیکھ کبھی تو

یاں پورا اک شہر بسا ہے

 

جیون یعنی کھیل تماشا

جتنا دیکھا اتنا بچا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

رشتے ناتے کھو گئے سب گاؤں کا گھر کھو گیا

ریل کی سیٹی بجی اور سارا منظر کھو گیا

 

چلتے پھرتے لوگ سڑکیں زندگی آوارگی

ہر نظارہ ایک دن دل سے نکل کر کھو گیا

 

رات میں نے خواب دیکھا، خواب کی تعبیر بھی

اک پرندہ چھت پہ بیٹھا اور اڑ کر کھو گیا

 

کچھ نہیں اب آئینے میں صاف دھندلا کچھ نہیں

عکس کی آنکھوں میں جو ہوتا تھا تیور کھو گیا

 

اُن سبھی حیران بچوں کی طرح ہیں ہم قمر

وقت کے اس میلے میں جن کا مقدر کھو گیا

 

کھو گئے اس بار میرے خواب سارے دھند میں

اور اب کے ریت میں یہ میرا بستر کھو گیا

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے