پروفیسر ڈاکٹر بیگ احساس کے افسانے ’’دخمہ‘‘ پر ایک نظر ۔۔۔ ڈاکٹر غلام شبیر رانا

پارسیوں کے ایک شہر سے متعلق دخمہ (پارسیوں کا قبرستان) ایک المیہ افسانہ ہے جس کا آغاز ہی اس کے مرکزی کردار ایک پارسی شخص ’’سہراب‘‘ کی اچانک موت سے ہوتا ہے۔ اس افسانے میں بے ساختہ انداز میں سامنے آنے والی تکنیک کا تنوع قاری کو حیرت زدہ کر دیتا ہے۔ افسانہ نگار نے قوت حافظہ، جذبات و احساسات اور فکر و خیال کی وادی میں گھوم کر جو مواد سمیٹا ہے اس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ اس شہر سے مصنف کے ماضی کی متعدد یادیں وابستہ ہیں۔ ایام گزشتہ کی کتاب کی ورق گردانی کرتے ہوئے افسانہ نگار نے اس شہر سے وابستہ یادوں کو افسانے میں سمو دیا ہے۔ افسانہ نگار نے تجسس کی فضا برقرار رکھتے ہوئے اِن یادوں کی مشعل تھام کرسفاک ظلمتوں میں روشنی کا سفر جاری رکھتے ہوئے کہانی کو ایک نیا موڑ دیا ہے جس میں اپنی مرحومہ بہن، مرحوم بہنوئی اور اپنی کا ذکر کیا ہے جو اسی شہر نا پرساں میں رہتے تھے۔ افسانہ نگار کی بھانجی بھی اپنے شوہر کے ساتھ اسی شہر میں مقیم تھی۔ سہراب ایک قحبہ خانے کا مالک تھا جسے گردِشِ ایام نے مکمل انہدام کے قریب پہنچا دیا۔ مے کدہ میں آنے والے سب لوگ سہراب کی مہمان نوازی اور اس کی خوش اخلاقی کے معترف تھے۔ افسانے ’’دخمہ‘‘ میں شعور کی رو کو رو بہ عمل لاتے ہوئے جذبات، احساسات، گردشِ ایام اور میزانِ صبح و شام کے ساتھ جو تجربہ کیا گیا ہے اس کا کرشمہ دامنِ دِل کھینچتا ہے۔ اپنے اس مقبول افسانے میں پروفیسر ڈاکٹر بیگ احساس نے ایام گزشتہ کی کتاب کی ورق گردانی کی ہے وہاں لمحۂ موجود کے حالات کو بھی پیش نظر رکھا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ قاری کو آنے والے دور کی دھُندلی سے تصویر بھی دکھائی ہے۔، اس افسانے میں بلا واسطہ دروں بینی کے مظہر تکلم کے سلسلے، بالواسطہ قلبی کیفیات کا اظہار، افسانہ نگار کی وسعت نظر اور اپنے قلب کے ساتھ پیہم جاری رہنے والے افکارِ تازہ کے مظہر معاملات قاری کو جہانِ تازہ میں پہنچا دیتے ہیں۔ افسانے میں بات کو آگے بڑھانے کے لیے افسانہ نگار نے آزاد تلازم کا بر محل استعمال کیا ہے۔ اپنی فنی مہارت سے افسانہ نگار نے نہ صرف شعور کی ہر احتیاج کو ملحوظ رکھا ہے بل کہ آزاد تلازم کے وسیلے سے اِسے رنگ، خوشبو اور حُسن و خوبی کے تمام استعاروں کا مخزن بنا دیا ہے۔

افسانہ نگار نے واحد متکلم کے صیغے میں چٹان پر تعمیر کیے گئے اپنی بہن کے خوب صورت گھر، کچھ فاصلے پر مسجد، اس سے آگے گرجا، اس سے آگے ڈرامہ تھیٹر کی عمارت، انگریزوں کی ریزیڈنسی، مجرد گاہ اور شہر سے کچھ دُور شہر کے رئیس راجا صاحب کی بہت بڑی حویلی کے قریب سہراب کا ’’مے کدہ‘‘ جیسے مقامات کی اس مہارت سے لفظی مرقع نگاری کی ہے کہ قاری چشمِ تصور سے وہ تمام مقامات دیکھ لیتا ہے جن کی جانب اشارہ کیا گیا ہے۔ دخمہ کے بارے میں ایک کردار چاچا نے نو عمر بچوں کو گول عمارت ’’دخمہ‘‘ کے بارے میں بتایا:

’’یہ ’’دخمہ‘‘ اِس کی چھت درمیان سے اُونچی ہوتی ہے اور چھت پر تین دائرے بنے ہیں۔ مرد کی نعش بیرونی دائرے میں، عورت کی درمیانی دائرے میں اور بچوں کی نعش اندرونی دائرے میں رکھی جاتی ہے تا کہ ان پر تیز دھُوپ پڑے اور گِدھوں کو دُور سے نظر آ جائے۔‘‘

اس افسانے میں ’’چاچا‘‘ ایک جہاں دیدہ کردار ہے جو ہر اُلجھن کو سُلجھا دیتا ہے پُر اسرار کتے کے بارے میں چاچا نے بتایا:

’’اِسے ’’سگ دِید‘‘ کہتے ہیں۔ چار آنکھوں والا کتا۔۔ ۔ اِس کی چار آنکھیں نہیں ہیں لیکن آنکھوں پر ایسے نشان ہیں جس سے اس کی چار آنکھیں نظر آتی ہیں۔ یہ ’’سگ دید‘‘ ہی آدمی کے نیک و بد ہونے کا فیصلہ کرتا ہے۔‘‘

چاچا جانتا ہے کہ یہ بچے معاملے کی تہہ تک نہیں پہنچ سکتے۔ معاشرتی زندگی میں انسان شناسی ایک کٹھن مرحلہ ہے اس کے لیے بہت تپسیا درکار ہے۔ کم عمر بچے بہ ظاہر چار آنکھوں والے ایک عجیب الخلقت کتے ’’سگ دِید‘‘ کے بارے میں یہ جان کر حیرت زدہ رہ جاتے ہیں کہ ایک پُر اسرار کتا کسی آدمی کے نیک یا بد ہونے کے بارے میں فیصلہ کرنے کی صلاحیت کیسے رکھتا ہے۔ نو خیز بچوں کے سوال سُن کر چاچا کا جواب حقائق کا آئینہ دار ہے:

’’جب بڑے ہو جاؤ گے تو خود ہی پتا چل جائے گا۔‘‘

سہراب کا مے کدہ بند ہو جانے کے بعد اُس کو جان کے لالے پڑ گئے مگر شہر نا پرساں میں کسی نے اُس کے دِل شکستہ اور چشم تر کی جانب توجہ نہ دی۔ اس کے بعد وہی ہوا جس کی توقع تھی ایک دن چپکے سے سہراب زینۂ ہستی سے اُتر گیا۔

موت کے بارے میں یہی کہا جاتا ہے کہ یہ ہمیشہ زندگی کے تعاقب میں رہتی ہے۔ مے کدہ بند ہو جانے کے بعد سہراب نے اپنی موت کی آہٹ سُن کر بھی زندگی کی حقیقی معنویت کو اُجاگر کرنے کی مقدور بھر سعی کی۔ پروفیسر ڈاکٹر بیگ احساس نے تخلیق فن کے لمحوں میں خون بن کر رگِ سنگ میں اُتر جانے کی تمنا میں سہراب جیسے الم نصیب جگر فگار انسانوں کے رنج و کرب کی جو تصویر پیش کی ہے وہ قاری کو خون کے آ نسو رُلاتی ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر بیگ احساس نے خونِ دِل دے کے گلشنِ ادب کو اس طرح سیراب کیا کہ اس کے معجز نما اثر سے گلشن ادب میں گل ہائے رنگ رنگ سے سماں بندھ گیا اور ان کی عطر بیزی سے قریۂ جاں معطر ہو گیا۔ پروفیسر ڈاکٹر بیگ احساس اس تلخ حقیقت سے آگاہ تھے کہ مشعلِ زیست کے گُل ہونے کے خطرات کو کسی طور بھی ٹالا نہیں جا سکتا لیکن خوف اور اندیشوں کے سم کے مسموم اثرات سے گلو خلاصی ممکن ہے۔ اللہ کریم نے پروفیسر ڈاکٹر بیگ احساس کو مستحکم شخصیت سے نوازا تھا اس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ زندگی کے سفرمیں جب بھی کوئی موہوم ڈر یا اضطراب سد راہ بنتا تو وہ اپنے پاؤں کی ٹھوکر سے اسے دُور کر دیتے اور کبھی دِل میں ملال نہ آنے دیتے۔ پروفیسر ڈاکٹر بیگ احساس نے موت کو کبھی دل دہلا دینے والا لرزہ خیز سانحہ نہیں سمجھابل کہ وہ جانتے تھے کہ رخشِ حیات مسلسل رو میں ہے، انسان کا نہ تو ہاتھ اس کی باگ پر ہے اور نہ ہی پاؤں رکاب میں ہیں۔ کسی بھی وقت اور کسی بھی مقام پر اس کی روانی تھم سکتی ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر بیگ احساس کی تخلیقات کے اسلوبیاتی مطالعہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ یہ واضح کرنا چاہتے تھے کہ ماحول کی سفاکی کے باعث جب آہیں اور دعائیں اپنی تاثیر سے محروم ہو جائیں جائیں تو زندگیاں بھی مختصر ہو جاتی ہیں۔ گلزارِ ہست و بُودمیں سمے کے سم کے ثمر سے ایسی فضا پیدا ہو جاتی ہے کہ نرگس کی حسرت کی صدائے باز گشت کرگس کی کریہہ صورت میں دکھائی دیتی ہے اور بقا کی تمنا اپنی ہر اداسے فنا کے سیکڑوں مناظر سے آشنا کرتی ہے۔ خزاں کے اس نوعیت کے بے شمار تکلیف دہ مناظر کو دیکھنے کے بعد طلوعِ صبحِ بہاراں کی اُمید وہم و گُماں اور سراب سی لگتی ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر بیگ احساس کی تخلیقات میں نُدرت، تنوع اور جدت پر مبنی خیال آفرینی قاری کو حیرت زدہ کر دیتی ہے۔ کورانہ تقلید سے اُنھیں سخت نفرت تھی اس لیے وہ خضر کا سودا چھوڑ کر اظہار و ابلاغ کی نئی راہیں تلاش کرنے میں ہمیشہ انہماک کا مظاہر کرتے تھے۔ پروفیسر ڈاکٹر بیگ احساس کی تخلیقی تحریریں کلیشے کی آلودگی سے پاک ہیں۔ اُن کے دل کش، حسین اور منفرد اسلوب میں ہر لحظہ نیا طُور نئی برق تجلی کی کیفیت یہ ظاہر کرتی ہے کہ تخلیق فن میں اُن کا مرحلۂ شوق پیہم نئی منازل کی جانب رواں دواں رہتا ہے۔ مثال کے طور وہ تاریخ کے پیہم رواں عمل، معاشرتی زندگی کے نشیب و فراز، تہذیب و ثقافت کی کیفیات، پر نئی تراکیب اور الفاظ کے بر محل استعمال سے اپنی تخلیقات کو گنجینۂ معانی کا طلسم بنا دیتے ہیں، بھنور کے بھید، خیال کی جوت، جھرنے کا ساز، کوئل کی کوک، گیت کی لے، وقت کی نے اور خوابوں کے سرابوں جیسا تصور زندگی کی کم مائے گی کا احساس قاری پر فکر و خیال کے متعدد نئے در وا کرتے چلے جاتے ہیں۔ انھیں اچھی طرح معلوم تھا کہ موت کی دیمک ہر فانی انسان کے تن کو چاٹ لیتی ہے۔ وہ چشمِ تصور سے زندگی کی راہوں میں ناچتی، مسکراتی اور ہنستی گاتی موت کی اعصاب شکن صدا سُن کر بھی دِل برداشتہ نہیں ہوتے بل کہ نہایت جرأت کے ساتھ اپنی تخلیقات کو تزکیۂ نفس کا وسیلہ بنانے پر توجہ مرکوز رکھتے تھے۔ حرفِ صداقت سے لبریز پروفیسر ڈاکٹر بیگ احساس کی تخلیقات اُن کے داخلی کرب اور سچے جذبات کی مظہر ہیں۔ موت کی دستک سُن کر وہ موت کے بارے میں جن چشم کشا صداقتوں کا اظہار کرتے ہیں وہ زندگی کی حقیقی معنویت کو سمجھنے میں بے حد معاون ہیں۔ ان کے افسانوں کے مطالعہ کے بعد قاری کے لیے اپنے آنسو ضبط کرنا محال ہو جاتا ہے۔ اس حساس تخلیق کار کی دلی کیفیات کا اندازہ لگانا مشکل نہیں جو موت کی دستک زنی کے دوران بھی اپنے قلبی احساسات کو پیرایۂ اظہار عطا کرنے میں پیہم مصروف رہا۔

سال 1904ء میں قائم ہونے والے سہراب کے مے کدہ میں شاعر اور ادیب اکٹھے ہوتے اور یہاں بیٹھ کر معاشرتی زندگی کے مسائل اور نئی تخلیقات پر اظہار خیال کرتے تھے۔ پروفیسر ڈاکٹر بیگ احساس نے اس افسانے میں پارسی ڈشوں کا بھی ذکر کیا ہے۔ دسترخوانوں پر سجائے جانے والے مختلف طعام کسی قوم یا علاقے کی قدیم تاریخ اور تہذیب کے بارے میں مثبت شعور وآ گہی پیدا کرنے کاسب سے موثر وسیلہ ہیں۔ پروفیسر ڈاکٹر بیگ احساس کو اس بات کا قلق ہے کہ پس نو آبادیاتی دور میں قدیم عمارات اپنی شناخت سے محروم ہو گئیں۔ اس افسانے میں انھوں نے کھیتوں اور کھلیانوں سے سر اُٹھاتی کچی آبادیوں کو پورے علاقے کی تہذیبی اور ثقافتی پہچان کے لیے نقصان دہ قرار دیا ہے۔ پس نو آبادیاتی دور میں حیدر آباد کے وسیع علاقے میں حالات نے جو رُخ اختیار کیا افسانہ نگار نے اس کی صحیح تصویر کشی کی ہے۔ پس نو آبادیاتی دور میں حیدر آباد دکن میں سیاسی رسہ کشی کے نتیجے میں جو عدم استحکام پیدا ہوا اس کے بارے میں پروفیسر ڈاکٹر بیگ احساس نے سچ کہا ہے:

’’پولس ایکشن نے مسلمانوں کو حواس باختہ کر دیا تھا۔ مذہب کے نام پر ملک کی تقسیم سے پوری قوم سنبھلی بھی نہ تھی کہ زبان کی بنیاد پر نئی حد بندیاں کی گئیں۔ ریاست کے تین ٹکڑے کر دئیے گئے۔ برسوں گزر جانے کے بعد بھی یہ ٹکڑے ان کا حصہ نہ بن سکے۔ اپنی مستحکم تہذیب کی بنیاد پر ریاست کے یہ حصے ٹاٹ میں مخمل کے پیوند لگتے تھے۔ مذہب کے نام پر تقسیم کو عوام نے قبول نہیں کیا تو زبان کے نام پر ریاستوں کی نئی حد بندیوں کو بھی ایک ہی زبان بولنے والوں نے قبول نہیں کیا۔ دو مختلف کلچر!! جس شہر کی تاریخ نہیں ہوتی اُس کی تہذیب بھی نہیں ہوتی۔ نئے آنے والوں کی کوئی تاریخ تھی نہ تہذیب۔ ایک مستحکم حکومت کا سیاسی دارالخلافہ سیاسی جبر کی وجہ سے اُن کے ہاتھ آ گیا۔ وہ پاگلوں کی طرح خالی زمینوں پر آباد ہو گئے۔‘‘

اس افسانے میں ادیبوں کے مسائل کا ذکر قاری کو پس نو آبادیاتی دور کی کٹھن زندگی سے روشناس کرتا ہے۔ سہراب کا مے کدہ در اصل ادیبوں کے مِل بیٹھنے کی ایسی جگہ تھی جہاں وہ ایک گونہ بے خودی کی جستجومیں مے سے لطف اندوز ہوتے تھے۔ شہر کے ادیبوں کے مل بیٹھنے کا واحد مرکز ’’مے کدہ‘‘ بند ہوا تو شہر کے ادیب بھی منتشر ہو گئے۔ سیل زماں کے تھپیڑے سب کچھ بہا لے گئے اور کسی کو بھی یہاں کے مکینوں کا اتا پتا معلوم نہ تھا۔ بے حس معاشرے نے قوم کی دیدۂ بینا کو حالات کی سنگینی دیکھنے سے روک دیا تھا۔ تیامت، ابزو اور عوج بن عنق قماش کے لو گوں کی سادیت پسندی کے باعث بے بس انسانوں پر کوہِ ستم ٹوٹا اس کے نتیجے میں ہر طرف بے حسی کا عفریت منڈلا رہا تھا۔ سہراب کے ’’مے کدہ‘‘ کے بند ہونے کے بعد کی دردناک کہانی کے بارے میں پروفیسر ڈاکٹر بیگ احساس نے لکھا ہے:

’’ہمارے دور کو انتشار کا عہد مان لیا گیا تھا، فرد کو مشین قرار دیا گیا تھا اور تنہائی کو ہمارا مقدر!!یہ تسلیم کر لیا گیا تھا کہ تاریخی، تہذیبی، قومی، معاشرتی، جذباتی و ذہنی ہم آہنگی کی ساری روایتیں منہدم ہو چکی ہیں۔ پورا ادب درونِ ذات کے کرب میں مبتلا تھا۔‘‘

پس نو آبادیاتی دور میں حیدر آباد میں تہذیبی و ثقافتی سطح پر شکست و ریخت کا جو سلسلہ شروع ہوا افسانہ ’’دخمہ‘‘ میں اِس سانحہ پر دِلی رنج و کرب کا اظہار کیا گیا ہے۔ سیلِ زماں کی زد میں آنے کے بعد بھی یہاں کے زعما ٹس سے مس نہ ہوئے۔ دیکھتے ہی دیکھتے ہر چیز بدل گئی اور بے حس دنیا دیکھتی کی دیکھتی رہ گئی۔ حیدر آباد کے مکینوں نے نسل در نسل اذہان کی تطہیر و تنویر اور محاسن اخلاق کی تقطیرسے کردار، تصورات اور تعلقات کو اس قدر وسعت اور تنوع سے آشنا کیا کہ یہاں کے باشندے تہذیبی ترفع کے ہمالہ کی بلند ترین چوٹی تک جا پہنچے۔ وہ خطہ جو حریت فکر و عمل کے اعجاز سے صدیوں تک تہذیبی و ثقافتی اقدار کا مر کز رہا پس نو آبادیاتی دور میں وہاں سیاسی انتشار اور افراتفری نے زندگی کی درخشاں روایات کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا۔ جہد و عمل اور صبر و استقامت سے مزین پروفیسر ڈاکٹر بیگ احساس کا اسلوب فروغِ علم و ادب اور معاشرتی اصلاح کا موثر ترین وسیلہ ثابت ہوا ہے۔ ایک با کمال افسانہ نگار کی حیثیت سے افسانے ’’دخمہ‘‘ میں پروفیسر ڈاکٹر بیگ احساس نے تہذیبی و ثقافتی انہدام کو روکنے پر اپنی توجہ مرکوز رکھی ہے۔ انھیں اس بات پر تشویش ہے کہ تہذیبی انحطاط کا یہ مسموم ماحول کہیں اس خطے میں موجود نسل انسانی کی کشت جاں کو ویران اور اُمیدوں کی فصل کو غارت نہ کر دے۔ سہراب جیسے بے بس لوگوں کے الم ناک حالات پر توجہ نہ دے کر اس شہر نا پرساں کے باشندوں نے تہذیبی سطح پر اپنے مفلس و قلاش ہونے کا ثبوت دیا ہے۔ اس افسانے کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ سہراب کا مے کدہ تو بند ہو گیا مگر اس شہر نا پرساں کے باشندے سہراب کو وہ عزت و احترام دینے سے بھی قاصر رہے جس کا وہ مستحق تھا۔ پروفیسر ڈاکٹر بیگ احساس نے اپنے اس افسانے میں کارواں کے دِل سے احساسِ زیاں کے عنقا ہونے پر اپنے رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے لکھا ہے:

’’چند برسوں میں سب کچھ بدل گیا، جو تہذیب کے نمائندے تھے جو تہذیب کو بچا سکتے تھے ان میں سے کچھ اپنی زمینوں کو چھوڑ کر سر حد کے اُس پار جا بسے اور کچھ مغربی ممالک میں آباد ہو گئے۔ ولی عہد نے ایک مغربی ملک کو اپنا مسکن بنا لیا۔ رعایا کی محبت کا یہ حال تھا کہ جب بھی وہ اس شہر کو آتے تو اس طرح خوشی سے پاگل ہونے لگتے جیسے کوئی فاتح اپنی سلطنت کو لوٹا ہو۔ نہ شاہی خاندان کے افراد کو تہذیب کی فکر تھی۔ نہ امرا کو نہ عوام کو۔‘‘

سہراب کی الم ناک موت اور دخمہ کی چھت پر اُس کی نعش پر بڑی تعداد میں جب غول در غول گِدھ پہنچے تو یہ لرزہ خیز اور اعصاب شکن منظر دیکھ کر قاری کی آنکھیں نم ہو جاتی ہیں۔ سہراب نے شادی نہیں کی تھی اس لیے وہ اجنبی اور بے نشاں بن کر رہ گیا تھا۔ میرا خیال ہے کہ ایسے مظلوم انسان کی موت یاس و ہراس کے سوا کچھ نہیں جو محض ایک آغاز کے انجام کا اعلان ہے کہ اب حشر تک کا دائمی سکوت ہی خالق کائنات کا فرمان ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر بیگ احساس نے واضح کیا ہے کہ عزیز ہستیوں کی رحلت سے ان کے اجسام آنکھوں سے اوجھل ہو جاتے ہیں اور یہ عنبر فشاں پھول شہر خموشاں میں تہہ خاک نہاں ہو جاتے ہیں۔ ان کی روح عالم بالا میں پہنچ جا تی ہے اس کے بعد فضاؤں میں ہر سُو ان کی یادیں بکھر جاتی ہیں اور قلوب میں اُن کی محبت مستقل طور پر قیام پذیر ہو جاتی ہے۔ ذہن و ذکاوت میں ان کی سوچیں ڈیرہ ڈال دیتی ہیں۔ الم نصیب پس ماندگان کے لیے موت کے جان لیوا صدمات برداشت کرنا بہت کٹھن اور صبر آزما مرحلہ ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ فرشتۂ اجل نے ہمارے جسم کا ایک حصہ کاٹ کر الگ کر دیا ہے اور ہم اس حصے کے بغیرسانس گِن گِن کر زندگی کے دِن پُورے کرنے پر مجبور ہیں۔ اپنے رفتگان کا الوداعی دیدار کرتے وقت ہماری چیخ پکار اور آہ و فغاں اُن کے لیے نہیں بل کہ اپنی حسرت ناک بے بسی، اذیت ناک محرومی اور عبرت ناک احساس زیاں کے باعث ہوتی ہے۔ غم بھی ایک متلاطم بحرِ زخار کے مانند ہے جس کے مدو جزر میں الم نصیب انسانوں کی کشتیِ جاں سدا ہچکولے کھاتی رہتی ہے۔ غم و آلام کے اس مہیب طوفان کی منھ زور لہریں سوگوار پس ماندگان کی راحت ومسرت کو خس و خاشاک کے مانند بہا لے جاتی ہیں۔ روح، ذہن اور قلب کیا تھاہ گہرائیوں میں سما جانے والے غم کا یہ جوار بھاٹا حد درجہ لرزہ خیز اور اعصاب شکن ثابت ہوتا ہے۔ کبھی غم کے اس طوفان کی لہروں میں سکوت ہوتا ہے تو کبھی مصائب و آلام کی یہ بلاخیز موجیں جب حد سے گزر جاتی ہیں تو صبر و تحمل اور ہوش و خرد کو غرقاب کر دیتی ہیں۔ غیر مختتم محرومی، یاس و ہراس، ابتلا و آزمائش اور روحانی کرب و ذہنی اذیت کے اِن تباہ کن شب و روز میں دِل گرفتہ پس ماندگان کے پاس اِس کے سوا کوئی چارۂ کار نہیں کہ وہ باقی عمر مصائب و آلام کی آگ سے دہکتے اس متلاطم سمندر کو تیر کر عبور کرنے اور موہوم کنارۂ عافیت پر پہنچنے کے لیے ہاتھ پاؤں مارتے رہیں۔ پروفیسر ڈاکٹر بیگ احساس نے اپنی تخلیقات میں قاری کو اس جانب متوجہ کیا ہے کہ بعض اوقات ہمارے عزیز رفتگاں ہماری بے قراری، بے چینی اور اضطراب کو دیکھ کر عالم خواب میں ہماری ڈھارس بندھاتے ہیں کہ اب دوبارہ ملاقات یقیناً ہو گی مگر حشر تلک انتظار کرنا ہو گا۔ سینۂ وقت سے پھُوٹنے والی موجِ حوادث نرم و نازک، کومل اور عطر بیز غنچوں کو اس طرح سفاکی سے پیوندِ خاک کر دیتی ہے جس طرح گرد آلود آندھی کے تند و تیز بگولے پھول پر بیٹھی سہمی ہوئی نحیف و ناتواں تتلی کو زمین پر پٹخ دیتے ہیں۔ پیہم حادثات کے بعد فضا میں شب و روز ایسے نوحے سنائی دیتے ہیں جو سننے والوں کے قلبِ حزیں کو مکمل انہدام کے قریب پہنچا دیتے ہیں۔ کہکشاں پر چاند ستاروں کے ایاغ دیکھ کر دائمی مفارقت دینے والوں کی یاد سُلگ اُٹھتی ہے۔ تقدیر کے ہاتھوں آرزوؤں کے شگفتہ سمن زار جب وقفِ خزاں ہو جاتے ہیں تو رنگ، خوشبو، رُوپ، چھب اور حُسن و خُوبی سے وابستہ تمام حقائق پلک جھپکتے میں خیال و خواب بن جاتے ہیں۔ روح کے قرطاس پر دائمی مفارقت دینے والوں کی یادوں کے انمٹ نقوش اور گہرے ہونے لگتے ہیں۔ ان حالات میں قصرِ دِل کے شکستہ دروازے پر لگا مشیت ایزدی اور صبر و رضا کا قفل بھی کھُل جاتا ہے۔ سیلابِ گریہ کی تباہ کاریوں، من کے روگ، جذبات حزیں کے سوگ اور خانہ بربادیوں کی کیفیات روزنِ اِدراک سے اس طرح سامنے آتی ہیں کہ دِل دہل جاتا ہے۔ سیل زماں کے مہیب تھپیڑے اُمیدوں کے سب تاج محل خس و خاشاک کے مانند بہا لے جاتے ہیں۔ جنھیں ہم دیکھ کر جیتے تھے ان سے وابستہ یادیں اور فریادیں ابلقِ ایام کے سموں کی گرد میں اوجھل ہو جاتی ہیں۔ دائمی مفارقت دینے والوں کی زندگی کے واقعات تاریخ کے طوماروں میں دب جاتے ہیں۔ جب ہم راہِ عدم پر چل نکلنے والے اپنے عزیزوں کا نام لیتے ہیں تو ہماری چشم بھر آ تی ہے۔ ہجومِ غم میں گھرے ہم اپنا دل تھام لیتے ہیں اور سوچتے ہیں اس طرح جینے کے لیے جگر کہاں سے لائیں؟

اس افسانے کا کردار سہراب حالات کے مہیب پاٹوں میں پِس گیا اور ایک شام دم توڑ گیا۔

پارسی رسوم کے مطابق سہراب کی نعش ’’دخمہ‘‘ پر منتقل کر دی گئی۔ فضا میں بڑی تعداد میں گِدھ منڈلانے لگے۔ یہ خوف ناک منظر دیکھ کر بچوں نے چاچا سے پُوچھا:

’’اور چاچا یہ گدھ کہاں سے آ جاتے ہیں؟‘‘

چاچا نے جب یہ سوال سُنا تو بچوں سے یہ سوال پُوچھا:

’’اگر فرش پر چینی گِر جائے تو چیونٹیاں کہاں سے آتی ہیں؟‘‘

چاچا نے بچوں کے سوال کا جواب بھی سوال ہی میں دیا۔

فضا میں غول در غول گِدھ منڈلاتے دیکھ کر بچوں کے فکر و خیال میں جو ہلچل مچی تھی اُس نے انھیں مضطرب کر دیا۔ اُن کے ذہن میں دخمہ کی چھت پر رکھی سہراب کی نعش کا خیال تھا۔

بے حس معاشرے کے وہ سفاک باشندے جنھوں نے زندگی بھر سہراب کی خبر نہ لی سہراب کی موت کے بعد دخمہ پر رکھی اس کی نعش کو دیکھ رہے تھے اور انھیں اس بات کا شدت سے انتظار تھا کہ فضا میں گدھ کب اور کس طرف سے نمودار ہوتے ہیں۔ پارسی اپنے رفتگاں کی نعش گِدھوں کے سامنے ڈال دیتے ہیں تا کہ وہ انھیں نوچ کر کھا جائیں۔ طوفانِ یاس میں غرق پارسی اس تشویش میں مبتلا تھے کہ رفتہ رفتہ گِدھ معدوم ہو رہے ہیں اور اگر دخمہ کی چھت پر بڑی تعداد میں گدھ نہ پہنچے تو پارسی رسوم کے مطابق سہراب کی نعش کوے کھائیں گے جو بہت بُرا شگون ہے۔

’’گِدھوں کا ایک جھُنڈ تیزی سے دخمہ کی طرف آ رہا تھا۔ پارسیوں کے چہرے خوشی سے کھِل اُٹھے۔ بیس برس بعد یہ منظر لوٹا تھا۔‘‘

’’پتا نہیں کہاں سے آئے ہیں؟‘‘ وہ ایک دوسرے سے سوال کر رہے تھے

’’اگر فرش پر چینی گِر جائے تو چیونٹیاں کہاں سے آتی ہیں؟‘‘

چاچا کی آواز کی باز گشت سنائی دی۔

ڈاکٹر بیگ احساس نے افسانے کے اختتام پر اسی بات کی جانب متوجہ کیا ہے کہ ہر جان دار کی زندگی کا انجام ایک جیسا ہے مگر آخری رسومات الگ الگ ہیں۔

’’اپنا اپنا عقیدہ ہے کوئی دفن کرتا ہے۔ کوئی جلا دیتا ہے۔ یہ لوگ پرندوں کو کھلا دیتے ہیں اور اسی کو ثواب سمجھتے ہیں۔‘‘

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے