دخمہ: اردو فکشن میں ایک نیا اضافہ ۔۔۔ محمد یحییٰ

بیگ احساس نے ۱۹۷۱ء میں افسانہ کی دنیا میں قدم رکھا اور ’سراب‘ کے نام سے پہلی کہانی تخلیق کی جو ماہنامہ ’بانو‘ دہلی میں شائع ہوا۔ ظاہر سی بات ہے کہ اس کہانی میں فکشن کے سارے اوصاف کھوجنا حماقت کے مترادف ہو گا۔ لیکن بہر حال یہ کہانی لوگوں کو متأثر کرنے میں کامیاب ہوئی اور اس سے حوصلہ پا کر انہوں نے اپنی رفتار تھوڑی تیز کی اور اس کا نتیجہ ۱۹۷۹ء میں ’خوشہ گندم‘ اور ۱۹۹۳ء میں ’حنظل‘ کے نام سے سامنے آیا۔ ان کے یہ دونوں افسانوی مجموعے اردو ادب کی دنیا میں اپنی شناخت قائم کرنے میں کامیاب رہے۔ ان کا تیسرا افسانوی مجموعہ ’دخمہ‘ کے نام سے ۲۰۱۵ء میں شائع ہوا۔ اس میں بیگ احساس کے ۱۱ افسانے شامل ہیں۔ یہ افسانے مختلف رسالوں میں شائع ہو کر ناقدین سے تحسین حاصل کر چکے ہیں۔ ’سنگ گراں‘ میں بیگ احساس نے اسقاط حمل اور ایک ماں کی مامتا کی شدت کو بیان کیا ہے۔ افسانہ کا مذکر و مؤنث کردار آپس میں محبت کرتے ہیں۔ یہی محبت شادی کی راہ ہموار کرتی ہے۔ دونوں کی شادی تو ہو جاتی ہے لیکن دقت یہ ہے کہ لڑکا اپنی بیوی کو کہاں رکھے کیوں کہ اس کے پاس کوئی گھر نہیں ہے۔ اس لئے دونوں دن ہی میں ملتے ہیں۔ رات کو لڑکی اپنے گھر چلی جاتی ہے۔ اسی طرح دونوں کے شب و روز گزرنے لگتے ہیں۔ اسی بیچ یہ خبر دونوں کو دہلا دیتی ہے کہ لڑکی ماں بننے والی ہے۔ لڑکی اپنے بچے کے تصور میں اس حد تک کھو جاتی ہے کہ اسے محسوس ہوتا ہے کہ اس کی ناف سے ممی ممی کی آوازیں آ رہی ہیں۔ لڑکا اس سوچ میں گم ہے کہ اگر بچہ ہو گیا تو وہ اسے کہاں رکھے گا۔ اس کے پاس کوئی گھر تو ہے نہیں۔ اس لئے وہ چاہتا ہے کہ حمل گرا دیا جائے۔ لڑکے کی مجبوری سے لڑکی متاثر ہو جاتی ہے اور حمل گرا دینے کا ارادہ کر لیتی ہے۔ لیکن اس کی مامتا اس کے خلاف تھی۔ اسقاط حمل کا فیصلہ ہی اٹل رہتا ہے اور مامتا ہار جاتی ہے۔
’کھائی‘ میں بیگ احساس نے تین نسل کی کہانی پروسی ہے۔ ان تین نسلوں کی نمائندگی کرنے والے کرداروں کے نام میں بھی علامت اور تمثیل کی جھلک ملتی ہے۔ شوکت جاگیرداری کے زوال اور اس کے خاتمہ کے بعد کا کردار ہے۔ اس کی جاگیر داری کب کی ہوا ہو گئی لیکن ابھی بھی وہ شوکت و جاہ و جلال کا دلدادہ ہے۔ اسے اس بات کی قطعی فکر نہیں کہ گھر بار کیسے چلے گا۔ وہ بالکل بے پروا عیش کی زندگی گزارنے کا خواہاں ہے۔ اس کے برعکس اس کا بیٹا کفایت ہے۔ گھر کے حالات اس سے پوشیدہ نہیں ہے۔ وہ بہت ہی کفایت شعاری سے اپنا گھر بار چلا رہا ہے۔ پھٹے پرانے کپڑوں میں اپنی زندگی گزار رہا ہے۔ خود روکھا سوکھا کھاتا ہے لیکن اپنے باپ کے گالی گلوج سے بچنے کے لئے اس کے لئے مرغن غذا کا انتظام کرتا ہے۔ کفایت کا ایک بیٹا ہے شہزادہ۔ وہ کسی طرح پڑھ پڑھا کر گلف پہنچ جاتا ہے اور دولت کی انبار لگا دیتا ہے۔ اس کا مزاج بھی اپنے دادا شوکت کی طرح ہی شاہانہ ہے۔ جب شوکت کا انتقال ہو جاتا ہے اور مزدور کفایت سے اس لئے جھگڑ پڑتا ہے کہ وہ صرف قبر کھدائی کا پیسہ دینا چاہتا ہے۔ شور سن کر اس کا بیٹا اس کی مطلوبہ رقم باپ کے منع کرنے کے باوجود ادا کر دیتا ہے۔ باپ کہتا بھی ہے کہ یہ قبر اب کس کام کی ہے۔ بیٹا کہتا ہے یہ آپ کے کام آئے گی۔ باپ بیٹے کا نظریاتی فرق وہاں بھی سامنے آتا ہے جب کفایت اپنے باپ کو عام قبرستان میں دفن کرنا چاہتا ہے اور اس کا پوتا شہزادہ اپنے دادا کی نعش کو شہر کے سب سے مہنگے قبرستان میں دفن کرنا چاہتا ہے۔ یہاں کفایت کی کفایت شعاری شرمسار ہو جاتی ہے اور شہزادہ کا شاہانہ مزاج فاتحانہ جشن مناتا ہے۔ اس کہانی میں بیگ احساس نے تین پیڑھیوں کے نظریاتی اختلاف کو خوبصورت انداز میں پیش کیا ہے۔ پہلے جاگیرداری تھی تو اخلاق و مروت کی پاسداری بھی تھی لیکن نئی نسل کے پیسہ تو آ گیا ہے لیکن وہ بڑوں کی عزت اور اخلاق و مروت کو بالکل بھول گیا ہے۔ اس افسانہ کا آغاز آگے کی کہانی جاننے کے لئے مجبور کر دیتا ہے۔
ان تینوں کرداروں میں تین سوچ کی عکاسی کی گئی ہے۔ شوکت علی کے پاس کوئی شوکت نہ ہوتے ہوئے بھی عیش کی زندگی گزارنا چاہتا ہے۔ اپنے تو کچھ کرتا نہیں اپنے بیٹے کفایت علی کا خون چوستا رہتا ہے۔ شہزادہ گرچہ کسی ریاست کا ملک نہیں مگر دولت کی ریل پیل نے اسے ایک شہزادہ بنا دیا ہے۔ ہر جگہ تصنع اور دکھاوا اس کی زندگی کا مقصد بن گیا ہے۔ اس میں سب سے کھرا کردار کفایت علی ہے۔ وہ حالات سے سبق لیتے ہوئے کفایت شعاری سے اپنا کام چلاتا ہے اور چادر کے مطابق ہی اپنا پاؤں پھیلاتا ہے۔
’چکرویو‘ فرقہ واریت کے موضوع پر بیگ احساس کا بہترین افسانہ ہے۔ دھرت راشٹر اور سنجے کی مکالماتی فضا میں اس افسانہ کو خلق کیا گیا ہے۔ علامت اور تمثیل کے پیرایے میں اس کو خوب سے خوب تر بنانے میں بیگ احساس نے کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی ہے۔ اس افسانے میں مستعمل علامت اور تمثیل گجرات فساد کی جانب اشارے کرتے ہیں۔ یہ علامت اور تمثیل اتنی واضح ہیں کہ کسی قیاس کے گھوڑے کی ضرورت نہیں پڑتی ہے۔ کانگریس کے سابق ممبر پارلیمنٹ مرحوم احسان جعفری کی درد ناک موت اور انسانیت کو شرمسار ہونے سے بچانے کے لئے ان کی ساری کوشش رائیگاں ہو جاتی ہے۔ ان تمام کا بیان بیگ احساس نے بہت ہی ہنر مندی اور فنکارانہ چابک دستی سے کیا ہے۔ افسانہ نگار کے یہ جملے ساری حقیقت کو ہماری آنکھوں کے سامنے لا دیتا ہے۔ گجرات فساد میں دوسرا گھناؤنا عمل ایک نو مہینے کی حاملہ عورت کا پیٹ چاک کر اس کا بچہ باہر نکالنا ہے۔ اس واقعہ کو افسانہ نگار نے جس اثر انگیزی سے پیش کیا ہے، وہ قابلِ تعریف ہے۔ ظلم و سفاکی پر مبنی افسانے کی جو زبان ہونی چاہئے، بیگ احساس نے یہاں شعور کی رو کو وہی آگ پیش کی ہے جس سے ضمیر لہولہان ہو جاتا ہے۔ روح کانپ اٹھتی ہے اور ظالم کے خلاف نفرت کے انگارے ابلنے لگتے ہیں۔ ظالم اپنے کریہہ عمل میں اتنا مد ہوش ہوتا ہے کہ اسے اتنا بھی ہوش نہیں رہتا کہ کسی کے ظلم و تعدی سے انسانیت نہیں مرتی۔ وہ پھر سے اپنا وجود بحال کر لیتی ہے۔
’سانسوں کے درمیان‘ بیگ احساس کا ایک عمدہ افسانہ ہے۔ اس افسانہ میں رشتوں کے تقدس کی پامالی، احساس فرض کا فقدان، اولاد کے بے حسی اور بوڑھے باپ کی بیچارگی کی داستان نشتر چبھونے جیسی ہے۔ باپ کومے کی حالت میں بے سدھ پڑا ہوا ہے۔ اس کے دو بیٹے ہیں۔ ایک خلیج میں ہے اور دولت سے کھیل رہا ہے اور دوسرا حیدر آباد میں ہے اور تنگدستی کی مار جھیل رہا ہے۔ خلیج میں رہنے والا بیٹا اپنے باپ کے علاج کے لئے فائیو اسٹار جیسا اسپتال منتخب کرتا ہے اور تنگدستی کی مار جھیلنے والا بیٹا اس کی تیمار داری پر مامور ہے۔ باپ کی تیمار داری کے نام پر اب اس کے پاس خلیج سے پیسہ آ رہا ہے۔ ان پیسوں سے وہ اپنے بچوں اور بیوی کے شوق کی تکمیل کرتا ہے۔ حد تو ہے کہ اس فائیو اسٹار اسپتال کا حمام بھی فائیو اسٹار جیسا ہے۔ وہ اپنی بیوی کو وہاں غسل کرواتا ہے اور جنسی اختلاط سے لطف اندوز بھی ہوتا ہے۔ ایک طرف اس باپ کی سانسیں ہیں اور دوسری طرف میاں بیوی کے جنسی اختلاط کی سانسیں۔ یہ دور جدید کی کرامات ہیں کہ انسان سے با وقار زندگی جینے کا سلیقہ بھی چھین لیا ہے۔ معروضیت اور واقعیت پسندی میں اس افسانے کا جواب نہیں ہے۔
’نجات‘ میں فرحان کی دیوانگی کا بہترین نقشہ کھینچا گیا ہے۔ فرحان بدیس میں رہتا ہے۔ ابھی اس کی نئی نئی شادی ہوئی تھی۔ شادی کے بعد وہ بدیس چلا جاتا ہے لیکن فوراً ہی واپس چلا آتا ہے۔ جب اس کا دوست سوال کرتا ہے کہ کیا بیوی کے بغیر رہنا مشکل تھا۔ فرحان نے جواب دیا کہ ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ در اصل وہاں ایک علاقے کے لوگ کام کرتے ہیں۔ انھیں میری موجودگی کھل رہی ہے اسی لئے انھوں کے میرے پیچھے اوباش لوگوں کو لگا دیا ہے۔ اور انڈر ورلڈ والے میرے پیچھے پڑ گئے ہیں۔ فرحان کے پاگل پن کی یہ پہلی سیڑھی تھی۔ کچھ دنوں بعد وہ اس کا اظہار کرنے لگا کے اس کے اندر روحانی طاقت حلول کر گئی ہے۔ اس کے بعد وہ طرح طرح کی حرکتیں کرنے لگا جس کا صحیح الدماغ آدمی مرتکب نہیں ہو سکتا۔ اچانک ایک دن وہ بے ہوش ہو جاتا ہے۔ یہ پاگل پن کا سخت دورہ تھا۔ فرحان کے اس پاگل پن میں اس کی بیوی عاشی اس کی خوب خدمت کرتی ہے۔ ایک وقت ایسا بھی آتا ہے جب وہ عاشی کے ساتھ رہنا نہیں چاہتا اور اس پر طرح طرح کے الزامات لگاتا ہے اور کہتا رہتا ہے کہ محلہ کے لوگوں کے ساتھ اس کے ناجائز تعلقات ہیں۔ ان سب کے باوجود عاشی اپنے شوہر فرحان کا ساتھ نہیں چھوڑتی ہے اور پہلے ہی کی طرح اس کی خدمت کرتی رہتی ہے۔ اب فرحان اچھا ہونے لگتا ہے۔ اچھا ہوتے ہی پچھلی ساری باتیں اس کے ذہن سے محو ہو جاتی ہیں۔ ایک دن فرحان کے دوست کو عاشی کا فون آتا ہے۔ یہ ایک نفسیاتی افسانہ ہے۔ کہانی کا کلائمس بالکل آخر میں ظاہر ہوتا ہے۔ جب اس کلائمس سے پردہ اٹھتا ہے تو قاری اس افسانہ کو پھر سے پڑھنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ گویا فرحان اپنی کمزوری کو پہلے دیوانگی، بہانہ بازی اور اب احسان مندی کے حجاب میں چھپانا چاہتا ہے۔
’دھار‘ ایک نفسیاتی افسانہ ہے۔ افسانہ گرچہ مختصر ہے۔ لیکن قومی اور بین الاقوامی سطح پر مسلمان جس پریشانی سے گزر رہے ہیں، ان سارے مسائل کو بیگ احساس نے بہت ہی مہارت سے اس میں سمودیا ہے۔ اگر اس کا بکھان کیا جائے تو پوری پوری کتاب تیار ہو سکتی ہے۔ در اصل بابری مسجد کی شہادت اور ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر حملہ کے بعد مغربی میڈیا مسلمانوں کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑ گئی ہے۔ میڈیا کے متعصب رویے سے نوجوانوں میں مذہبی شدت آ گئی ہے۔ افسانہ کا مرکزی کردار آزاد خیال انسان ہے۔ وہ مذہب بیزار تو نہیں ہے لیکن مذہبی شعار کا پابند بھی نہیں ہے۔ وہ شیونگ کرتا ہے۔ جب کہ اس کا لڑکا مذہبی شعار کا پابند ہے۔ لمبی لمبی داڑھی رکھتا ہے۔ نماز روزے کا پابند ہے۔ جماعت میں جاتا ہے۔ وہ ملازمت کے لئے مغربی ملک کا سفر کرتا ہے۔ لیکن ہوائی اڈے پر اس کی لمبی لمبی داڑھی دیکھ کر اسے دہشت گرد سمجھ لیا جاتا ہے اور اسے اپنے ملک واپس کر دیا جاتا ہے۔ لڑکا کا نظریہ تبدیل ہو جاتا ہے اور اس کی داڑھی غائب ہو جاتی ہے۔ باپ کا شیونگ کٹ غائب ہو گیا تھا۔ وہ باپ کے لئے شیونگ کٹ لاتا ہے۔ باپ کہتا ہے کہ اب ہمیں اس کی ضرورت نہیں۔ تم کو ضرورت پڑے گی۔ باپ کی داڑھی بڑھ چکی ہے اور بیٹا شیونگ کرتا ہے۔ زمانے کے بدلتے نظریات اور حالات کے مد نظر آج کے انسان میں بھی تبدیلی آ رہی ہے۔ جب مذہب آڑے نہیں آتا تو اس کی پابندی کی جاتی ہے اور وہ روزگار اور ترقی میں رکاوٹ بنتا ہے تو مذہبی شعار سے ناطہ توڑ لیا جاتا ہے۔ یہی افسانہ کا تھیم ہے جس کو افسانہ نگار بہت خوبصورتی سے بیان کیا ہے۔
’شکستہ پر‘ میں ایک شادی شدہ عورت کی نفسیات کا مطالعہ کیا گیا ہے۔ سشما کی ماں اس کی شادی کم عمری میں کرا دیتی ہے۔ مرضی کے خلاف اور کم عمری میں کی گئی شادی کا نتیجہ طلاق پر منتج پوتا ہے۔ سشما کی شادی اور اس کے طلاق میں بھی اس کی ماں کا زبردست ہاتھ ہوتا ہے۔ اس کے سبب وہ اپنی ماں سے نفرت کرتی ہے۔ سشما شادی سے قبل سمیر سے پیار کرتی تھی۔ لیکن اس شادی کی وجہ سے وہ اس سے دور ہو گئی تھی۔ دس برس بعد جب دونوں کی ملاقات ہوئی تو دونوں نے شادی کر لی۔ سشما نے جب یہ خبر اپنی ممی کو دی تو کہا کہ فوراً اس گھر کو خالی کر دو۔ سشما سمیر کے ساتھ چلی گئی اور اس کے ساتھ خوش خرم رہنے لگی۔ سشما کو پہلے شوہر سے ایک لڑکی بھی ہے جس کا نام سمن ہے۔ سشما کی ماں نے سمن کو اپنے اصلی باپ کے پاس نہیں جانے دیا۔ سمیر سے شادی کے بعد جب سمن سے کہا گیا کہ اپنی ماں کے ساتھ چلی جاؤ تو اس نے انکار کیا۔ ایک دن سشما کا باپ سمن کو سشما کے پاس پہنچا دیا۔ شروع میں سمن گم صم رہتی تھی۔ دھیرے دھیرے وہ بے تکلف ہونے لگی اور سمیر سے اس کی خوب چھننے لگی۔ کہانی یہاں پر ایک زبردست موڑ لیتی ہے۔ نفسیات کی گرہیں کھلنے لگتی ہیں۔ اسی قسم کے چھوٹے موٹے واقعات سشما، سمیر اور سمن کے مابین ہوتے رہتے ہیں۔ سمن جب اپنی ماں کی ساری پہن کر بالکونی میں کھڑی ہوتی ہے اور سمیر اپنی بیوی سشما سمجھ کر اس کو اپنی باہوں میں بھر لیتا ہے تو سمن چیخ نکل آتی ہے۔ چیخ سن کر سشما کچن سے باہر آتی ہے اور سشما کو دیکھ سمیر شرمندگی میں ڈوب جاتا ہے۔ سشما ان سب سے پریشان رہتی ہے اور ایک دن جب وہ غصہ میں گھر سے نکل جاتی ہے اور رات بھر نہیں آتی ہے۔ سمیر پریشان ہو جاتا ہے لیکن سشما کے یہ جواب قاری کو سوچنے پر مجبور کرتا ہے۔
’دخمہ‘ ایک انوکھا اور اچھوتا افسانہ ہے۔ اس افسانہ کے کردار پارسی لوگ ہیں۔ اسی لئے اس کے عقیدہ سے مطابقت رکھنے والے دخمہ اس افسانہ کا عنوان رکھا گیا ہے۔ پارسیوں میں نعش کو نہ دفن کیا جاتا ہے اور نہ جلایا جاتا ہے۔ بلکہ دخمہ کے مقام پر اس کو رکھ دیا جاتا ہے تاکہ گدھ اسے نوچ نوچ کر کھا لیں۔ یہ افسانہ تہذیب و اقدار کی شکست و ریخت کا بہترین اظہاریہ ہے۔ اس افسانہ میں بیک وقت کئی لہریں موجزن ہیں۔ ماضی، حال اور مستقبل کا بیگ احساس کب سیر کرا دیتے ہیں احساس ہی نہیں ہوتا۔ ملک کی آزادی، تقسیم اور دیگر سیاسی ہنگامے اس افسانہ کے صحن میں براجمان ہیں۔ سماجی اور سیاسی حقیقت کی بہترین عکاسی اس افسانہ میں کی گئی ہے۔ بیگ احساس کا یہ افسانہ اپنی انفرادیت، انوکھا بیان اور اچھوتے اسلوب کی وجہ سے اکیسویں صدی کا بہترین افسانہ کہلانے کا مستحق ہے۔ جب بھی اس دور کی افسانہ نگاری کا تذکرہ ہو گا، اس افسانہ کا ذکر یقیناً ہو گا، ورنہ وہ تاریخ مکمل نہ ہو گی۔
’نمی دانم۔۔ ۔‘ میں بیگ احساس نے بے حد خوش اسلوبی سے خانقاہ کے شب و روز کی عکاسی کی ہے۔ مریدین حضرات اپنے پیر و مرشد سے بے پناہ عقیدت رکھتے ہیں۔ مرشد دنیا سے بے نیاز ہیں۔ البتہ مریدین کے مسائل کو حل کرتے ہیں اور ان کی یکسوئی کے لئے غیر محسوس طریقے سے ان کی رہنمائی اور مدد بھی کرتے ہیں۔ دکن صوفی سنتوں کی سر زمین رہی ہے۔ افسانہ نگاروں جیسے عزیز احمد، حمید سہروردی، نور الحسنین وغیرہ نے اس کو اپنے افسانے کا موضوع بنایا ہے۔ بیگ احساس اسی روایت کو آگے بڑھاتے نظر آ رہے ہیں۔
’رنگ کا سایہ‘ اس لحاظ سے اہمیت کا حامل ہے کہ جس المناک واقعہ کو نہ تاریخی کتابوں میں جگہ ملی اور نہ ادب میں، اس واقعہ کو بنیاد بنا کر بیگ احساس نے اس افسانہ کا تانا بانا بُنا ہے۔ یہ سانحہ ریاست حیدر آباد سے تعلق رکھتا ہے۔ اس کے زخموں کی ٹیس اب بھی حیدرآباد کے مسلمانوں کا سینہ چھلنی کر دیتی ہے۔ حیدرآباد پولس ایکشن کے ہاتھوں لاکھوں انسانوں کا قتل عام کیا جاتا ہے۔ ان کی جائدادیں ضبط کی جاتی ہیں، گھر رہتے ہوئے بے گھرکا درد سہنے پر مجبور کر دیا جاتا ہے۔ یہ کہانی ان متوسط طبقہ کے مسلمانوں کی ہے۔ جو ان زخموں سے لہولہان ہو کر محنت کش طبقوں میں پناہ لینے پر بے بس ہو جاتا ہے لیکن یہاں بھی امان نہیں ملتا اور نفرتوں کے شکار بنتے رہتے ہیں۔ اس کہانی میں ایک ہندو لڑکی لکشمی اور ایک مسلمان لڑکے کی محبت ہے۔ حالات دونوں کو ایک ہونے نہیں دیتے۔ لڑکی کی شادی ہو جاتی ہے۔ لڑکی سانولی ہے اور لڑکا گورا چٹا۔ لڑکی کو جب بچہ ہوتا ہے تو گورا چٹا ہوتا ہے۔ اس کا باپ اسے قبول کرنے سے انکار کر دیتا ہے اور اسے چھوڑ دیتا ہے۔ افسانہ کا یہ کلائمس بہت ہی معنی خیز ہے۔ اس کے بعد ساری علامتوں سے پردہ اٹھنے لگتا ہے۔
بیگ احساس فطری افسانہ نگار ہیں، جس کے یہاں بناوٹ اور تصنع کہیں سے نہیں جھلکتا۔ وہ افسانوں کے بنائے ہوئے فریم میں افسانہ نہیں لکھتے بلکہ فریم کو توڑ کر اپنا نیا فریم بناتے ہیں اور اس میں کہانی کو فٹ کر دیتے ہیں۔ ان کی زبان ایسی ہوتی ہے جہاں عام اور خاص دونوں قاری کی رسائی آسانی سے ہو جاتی ہے۔ ان کا افسانہ صرف مزہ ہی نہیں دیتا بلکہ ایک پیغام بھی دیتا ہے اور پڑھنے والے کے لیے نئے نئے دروازے کھولتا ہے۔
بیگ احساس اردو کے ایک معروف افسانہ نگار ہیں۔ یہ صحیح ہے کہ ان کے افسانوں کی تعداد کم ہے لیکن جو کچھ بھی لکھا وہ ان کے فنی خلوص کی دلیل ہے۔ وہ بلا کا تخلیقی ذہن رکھتے ہیں۔ ان کے افسانے ذاتی مشاہدے اور تجربے پر مبنی ہوتے ہیں۔ ان کا مطالعہ اور مشاہدہ عمیق ہے۔ روز مرہ کی زندگی میں کوئی غیر معمولی واقعہ یا حادثہ جب انہیں متأثر کرتا ہے تو وہ اسے اپنے ذہن کے نہاں خانوں میں محفوظ کر لیتے ہیں اور پھر انہیں الفاظ کی مدد سے افسانہ کی شکل دے کر صفحہ قرطاس پر بکھیر دیتے ہیں۔ یہ ان کی باریک بینی اور دور رس نگاہ کا ثبوت فراہم کرتا ہے۔ ہم بجا طور پر کہہ سکتے ہیں کہ بیگ احساس کا دماغ آٹومیٹک مشین کی طرح ہے جس کی گرفت میں آ کر ہر تجربہ اور مشاہدہ افسانہ کا جامہ اختیار کر لیتا ہے اور یہی ان کے افسانوں کا سب سے بڑا وصف ہے۔ انہوں نے عام طور پر جو بھی افسانے تحریر کئے ہیں وہ حقیقت کی ترجمانی کرتے ہیں۔ مشاہدے کی تیز آنچ میں تپ کر یہ افسانے کندن بن گئے ہیں۔
کسی بھی افسانے میں عنوان کی بڑی اہمیت ہوتی ہے۔ ایک افسانہ نگار کے لئے لازم ہے کہ وہ با معنی، دلچسپ اور جاذب نظر عنوان قائم کرے۔ عنوان کے لئے ضروری ہے کہ وہ طویل نہ ہو اور جو عنوان قائم کئے گئے ہوں اس کا تعلق افسانے کے اصل موضوع سے ضرور ہو۔ کیونکہ عنوان سے افسانے کی فضائی کیفیت معلوم ہو جائے، تو قاری کی دلچسپی بڑھ جاتی ہے اور وہ جلد ہی متوجہ ہو جاتا ہے۔ اس لحاظ سے جب ہم بیگ احساس کے افسانوں کا مطالعہ کرتے ہیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ انھوں نے اپنے افسانوں کے لئے جو عنوان قائم کئے ہیں، وہ نہ صرف مختصر ہیں بلکہ دلکش، دلچسپ اور بامعنی ہیں۔ اس کا اندازہ مذکورہ بالا گزارشات سے بخوبی ہو گیا ہو گا۔ بیگ احساس کے افسانوں کا اختتام عام طور پر حزنیہ ہوتا ہے اور اس حزنیہ اختتام کی وجہ سے قاری کو افسانے کے مرکزی کردار سے ہمدردی کا ایک احساس ہوتا ہے اور یہ ہمدردی انسانیت کا تقاضہ ہے۔ کیونکہ یہ انسانی فطرت ہے کہ جب وہ کسی کو حالات کی ستم ظریفی کا شکار ہوتے دیکھتا ہے تو اس کے دل میں ہمدردی کا ایک جذبہ خود بخود پیدا ہو جاتا ہے۔ بیگ احساس کے افسانے کے سبھی کردار عام طور پر حالات کی ستم ظریفی کے شکار ہیں۔ افسانے کے اختتام پر ان کی ستم ظریفی انتہا کو پہنچ جاتی ہے۔ اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ بیگ احساس کے افسانوں کا پلاٹ سیدھے سادے ہوتے ہیں۔ ان میں کوئی پیچیدگی نہیں ہوتی ہے۔ وہ کہانی کی ترتیب و تنظیم میں مشاق نظر آتے ہیں۔ پلاٹ کی تعمیر، واقعات کی ترتیب اور ارتقائے ماجرا میں ربط، تسلسل و روانی کا خاص خیال رکھتے ہیں۔ جذبہ تجسس بھی شروع سے آخر تک قائم رہتا ہے۔
افسانہ نگاری زندگی کی عکاسی کا فن ہے۔ اور افسانہ نگار کسی کردار کے وسیلے سے ہم تک اپنی بات پہچانا چاہتا ہے۔ اس لئے فنکار کردار نگاری پر خاص توجہ دیتا ہے۔ اس طرح افسانے میں کردار نگاری کی خاص اہمیت حاصل ہو جاتی ہے۔ کردار نگاری ایک نہایت ہی مشکل اور نازک فن ہے۔ کیونکہ اس کی وجہ سے ایک فنکار کی عظمت واضح ہوتی ہے۔ کردار نگاری کے لئے یہ ضروری ہے کہ فنکار ایسے ہی کردار منتخب کرے جن کا تعلق افسانے کی دنیا سے ہو۔ جو خیر و شر دونوں کے مجموعے معلوم ہوں۔ عمدہ کردار نگاری کی وجہ سے افسانہ نگار کے کچھ افسانے یقیناً زندہ جاوید ہو جاتے ہیں۔ بیگ احساس کے افسانوں کا جب ہم مطالعہ کرتے ہیں تو یہ حقیقت منکشف ہو جاتی ہے کہ انہیں کردار نگاری کا سلیقہ آتا ہے۔ وہ اپنے افسانوں کے لئے جو کردار منتخب کرتے ہیں وہ اسی دنیا کے جیتے جاگتے کردار ہوتے ہیں۔ وہ کرداروں کی روح میں اتر کر ان کی شخصیت میں جھانک لیتے ہیں۔ اور انہیں اس طرح اجاگر کرتے ہیں کہ وہ اجنبی نہیں معلوم ہوتے ہیں۔ ان کے کرداروں میں چونکہ انسان سانس لیتے ہیں اس لئے ان میں خوبیاں اور برائیاں دونوں آ جاتی ہیں۔ اس لئے ان کے کرداروں میں تنوع پایا جاتا ہے۔ ان کے افسانے کے پردے پر معاشرے کے تمام طبقات اور مختلف قوموں کے کردار چلتے پھرتے نظر آتے ہیں۔ کرداروں میں خصائل کے اعتبار سے نیک و پارسا، آوارہ و اوباش، بدمعاش و بدکردار، مخلص و بے لوث محبت کرنے والے اور ریا کار و فریب کار سب ہی موجود ہیں۔ انہیں کرداروں کی مدد سے وہ اپنے افسانوں کا ڈھانچہ تیار کرتے ہیں اور افسانے کی تخلیق کرتے ہیں۔ بیگ احساس نے ان تمام کرداروں کی تصویر کشی اس خوبصورتی اور چابکدستی سے کی ہے کہ وہ زندگی کی بھرپور حرکت اور حرارت کے حامل دکھائی دیتے ہیں۔ یہ ان کی فنی صناعی کا بین ثبوت ہے۔
٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے