چودھویں رات کا چاند ۔۔۔ محمد عظیم الدین

چودھویں کی رات تھی اور آسمان پر چمکتا ہوا چاند اسے دیکھ رہا تھا اور وہ زمین سے چاند کو۔ اس کے لیے یہ منظر نیا نہیں تھا لیکن چاند کے لیے شاید یہ منظر کچھ عجیب بھی تھا اور نیا بھی۔ اب سے پہلے چاند ہر مہینے کی چودھویں رات کو چار چمکتی آنکھیں اور دو مسکراتے چہروں کا دیدار کرتا تھا۔ لیکن اس بار چاند کے لیے آنسوؤں سے بھیگی ہوئی صرف دو آنکھیں اور ایک غمگین چہرہ کچھ عجیب منظر پیش کر رہا تھا۔

اس میں خدا کی لازمی کوئی حکمت ہے کہ چاند کو گویائی نہیں دی ورنہ بظاہر ایسا لگ رہا تھا کہ چاند اس سے پوچھنا چاہتا ہو کہ آج منظر کیوں بدلا ہوا ہے؟ پھر بھی اپنی اضطرابی کا اظہار چاند اپنی آب و تاب میں (بادلوں کی مدد سے) تغیر کے ذریعے اس تک پہنچا رہا تھا۔ اور پھر جیسے اس تک چاند کا یہ سوال پہنچ گیا کہ وہ دوسرا مسکراتا، چنچل چہرا اور خوبصورتی کی مثال آنکھیں کیا ہوئیں؟ اور تمہاری آنکھوں کا تشکر اور چہرے کا اطمینان کیوں غائب ہے؟

اس نے آنسو پونچھے اور چاند سے کہنے لگا۔۔

تم سوچتے ہو گے کہ آج میں اکیلا کیوں ہوں؟ آج تمھارے انتظار میں زمین کے اس ٹکڑے پر صرف ایک غمزدہ، آنسوؤں سے بھیگا ہوا چہرہ کیوں نظر آتا ہے؟ تو سنو کہ یہ تلخ حقیقت ہی اس بے وفا دنیا کی پہچان ہے کہ یہاں ہمیشہ کسی نے نہیں رہنا۔ ہمیشہ کی مسکراہٹ فقط اک خواب ہے۔۔۔ سراب ہے۔ جس کے بارے میں سوچا تو جا سکتا ہے لیکن اس کو حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ تم تو شاید خوش نصیب ہو کہ تم اور تمہاری چاندنی ہمیشہ ساتھ رہو گے۔ اس دنیا کے اختتام تک ایک ساتھ۔۔۔ لیکن میرا ہمدم۔۔ میرا ساتھی۔۔ میری خوشی۔۔۔ میری مسکراہٹ۔۔ میرا چین۔۔ میرا سکون۔۔ مجھ سے روٹھ گیا ہے۔ ہاں۔۔ ہمیشہ کے لیے مجھ سے روٹھ کر مجھے تنہا زندگی کے ستم جھیلنے کے لیے چھوڑ کر چلا گیا ہے۔ وہ وہاں چلا گیا ہے جہاں اے چاند! تم بھی اسے نہیں دیکھ سکتے۔

اچانک بادلوں نے چاند کو گھیر لیا۔ چود ہویں کے چاند کی رونق ماند پڑ گئی۔ ایسا لگا جیسے وہ اس کی ردواد سن کر غمگین ہو گیا ہے۔ فضا میں خنکی کے ساتھ ساتھ خاموشی نے بھی اپنے پاؤں پھیلانے شروع کر دیے۔ بس کچھ کچھ دیر بعد اس کی سسکیوں کی آوازوں سے ماحول پر اک عجیب سے افسردگی چھانے لگی۔ آہستہ آہستہ سسکیوں کے درمیان وقفہ بڑھنے لگا۔

بادل گہرے اور چاند کی روشنی مزید مدھم ہونے لگی۔ خنکی اور خاموشی کا ساتھ دینے کے لیے ماحول پر تیرگی نے بھی اپنے قدم جمانے شروع کر دیے۔ سسکیاں اب رک چکی تھیں لیکن وقفے قفے سے اکھڑتی ہوئی سانسوں کی آواز ایسے معلوم ہوتی تھی جیسے کوئی پرندہ پھڑپھڑا رہا ہو اور قفس سے نکلنے کی بھرپور کوشش کر رہا ہو۔

کچھ دیر بعد ہر طرف سناٹا تھا۔ چاند بادلوں کی اوٹ سے نکلا جیسے اس کو تسلی دینے کے لیے آیا ہو۔ لیکن اب اس کے سامنے دو پتھرائی ہوئی آنکھیں اور سپاٹ چہرہ موجود تھا۔ چاند کو یہ سمجھنے میں ذرا دیر نہیں لگی کہ اب آئندہ کبھی وہ ان مانوس آنکھوں اور چہروں کا دیدار نہیں کر پائے گا۔ اس نے اپنے آپ کو پھر بادلوں کے پیچھے چھپا لیا۔ بوندا باندی شروع ہو چکی تھی۔ شاید چاند بادلوں کے پیچھے چھپ کر رو رہا تھا۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے