بھُوکے ۔۔۔ حنیف سیّد

بھُوکے تو دونوں ہی تھے، یہ کہنا مشکل تھا کہ زیادہ بھُوکا تھا کون۔۔ ۔۔؟ وہ، جو پاکھڑ کی جڑ سے ٹِکا، ستر سال کا بد شکل، کالا کلوٹا، چار فٹا، لنگڑا، زنانا اور اَگھوری، ہُلّا۔ یا وہ جو جون کی چلچلاتی دھوپ میں اپنے گھر کی کچی دیوار پر آدھے سے کچھ کم باہر کو لٹکی، سات آٹھ سال کی خوبصورت، کامنی۔ دونوں کبھی ایک دوسرے کو دیکھتے، اور کبھی دیکھتے پاکھڑ کی چھاؤں میں آم، جامن، چنے، مرچیں مگوڑے، مٹر پکوڑے اور آئس کریم وغیرہ فروخت کرنے والوں کے خوانچوں کو۔ یہ سب ایک دن کی کہانی نہ تھی بلکہ روز کا معمول تھا، دونوں کا۔

ہُلّا، ہر اعتبار سے تیسری دنیا کی مخلوق لگتا تھا۔ اس کے سر سے پیر تک ایک بھی بال نہ تھا۔ زنانا لباس ہی پسند تھا، اُس کو۔ اُس کو بات کرتے بھی نہیں دیکھا تھا کسی نے، کسی سے۔ ہاں کسی بات پر اُس کو غصہ آ جاتا تو وہ ایسی زبان بولتا جو کسی کی سمجھ میں نہیں آتی تھی۔ اُس کی خوشی اور ناراضگی کا اندازہ صرف اُس کے چہرے کے ہاؤ بھاؤ سے ہی لگایا جا سکتا تھا، زبان سے نہیں۔ کسی کے سامنے ہاتھ بھی نہیں پھیلاتا تھا وہ، کبھی۔ ہاں اگر کسی نے اُسے کچھ کھانے کو دے دیا، تو وہ ایسی جگہ چلا جاتا ,جہاں اُسے کوئی کھاتے نہ دیکھ سکے۔ اُس کی چال بھی نرالی تھی، یعنی کہ پگدوں جیسی، کچھ اُچھل اُچھل کر بھی، ایک پیرگھسیٹتے ہوئے۔ لوگوں کا خیال تھا کہ یہ کبھی شاطر رہا ہو گا، اِس لیے بجلی کے کرنٹ سے مفلوج کر دیا گیا ہے، اِس کو۔ اُس کو لوگ چھیڑتے بھی بہت تھے، لیکن وہ برا نہ مان کر مسکرا دیتا تھا۔ قصبے میں سب سے زیادہ بد شکل وہی تھا۔ چیچک کے داغوں نے اُس کے چہرے کو مزید ڈراؤنا کر دیا تھا۔ بچّے اکثر اُسے دیکھ کر ڈر جاتے تھے۔

کامنی، میری پڑوسن تھی۔ یہ کہانی اس دَور کی ہے جب پانچ چھ سال کی عمر سے ہی لڑکیاں گھروں میں قید کر دی جاتی تھیں۔ لیکن کامنی کسی مجبوری کے تحت آزادی سے صرف باہر ہی نہیں نکلتی۔ بلکہ بکریاں چَرانے کھیت کھلیان تک جاتی تھی۔ بکریاں چَرانا مجبوری کے تحت ہی تھا، اُس کا۔ کیوں کہ اُس کے غریب اَبّا بکریوں کی خرید و فروخت کرتے تھے۔

دھوپ میں بکریاں چَرانے کے باوجود بھی وہ بہت خوبصورت تھی، یہ اُس کے اور میرے گھر والے ہی جانتے تھے۔ دوسرے اُس کی خوبصورتی کا اندازہ اُس کے پیروں کی ایڑیوں اور ہاتھوں سے ہی لگا سکتے تھے۔ کیوں کہ وہ اپنے چہرے کو نقاب سے پوری طرح ڈھکے رہتی تھی۔

میرے یہاں وہ ہر روز کئی چکر لگاتی تھی، صبح اُٹھتے ہی منہ ہاتھ دھونے میرے ہی ہینڈ پمپ پر آتی، دو پہر کو کھلیان سے بکریاں چَرا کر کھانا کھانے آتی تو اُس کو منہ ہاتھ دھونے کی ضرورت لے آتی، پھر شام کو کھلیان سے لوٹتی تو اپنی صفائی کے لیے میرا ہی ہینڈ پمپ مناسب لگتا۔ جب وہ میرے یہاں آتی تو بڑے قاعدے سے اپنا نقاب اُتار کر ہینڈ پمپ کے پاس کھونٹی پر ٹانگتی، دو تین منٹ ہینڈ پمپ کا پانی نکالتی، پھر ہتّے کو صابن سے دھوتی، پھر پانی منہ پر ڈالتی۔ اُس کی اِس نفاست پر میری ماں کئی بار لکچر بھی مار چکی تھی، جس کا

اُس پر کبھی کوئی اثر نہ پڑا تھا۔ اُس کی نفاست کے باعث، میں سترہ سال کی عمر میں محلے کی ساری لڑکیوں کو نظر انداز کر کے صرف اُسی کے بارے میں سوچنے لگا تھا۔ میرے یہاں کے علاوہ اس کو کبھی کسی نے اور کہیں جاتے آتے نہیں دیکھا تھا۔ ہاں دوپہر میں جب دکاندار پاکھڑ کے نیچے جمع ہوتے تو وہ بھی اپنی دیوار پر نقاب ڈالے لٹکی رہتی، خاص طور سے جب برف کی چسکی فروخت کرنے والا آواز لگاتا تو فوراً دیوار پر آ جاتی۔ اور برف کی چسکیاں لے لے کر اپنے گھر والوں سے نظر بچا کر دیوار پر لٹکے لٹکے چوستی رہتی، ایک بار چسکی چوستے وقت پیچھے سے کسی کے آنے کی آہٹ ہوئی، تو وہ فوراً چسکی باہر گرا کر سیدھی کھڑی ہو گئی، اور جب آہٹ وہم میں پوری طرح تبدیل ہو گئی تو اُس نے ہُلّا کلی جانب حسرت سے دیکھا اور ہُلّا نے فوراً برف والے کو اشارہ کیا اور بترف والے نے فوراً چسکیے جا کر اسے تھما دی، لیکن کسی نے چسکیوں کا پیمینٹ کرتے کبھی نہیں دیکھا تھا، اُس کو۔ برف کی چسکیوں کا چسکا صرف مجھے ہی نہیں میرے سبھی گھر والوں کو تھا۔ چسکیاں خریدتے وقت کامنی بڑی حسرت سے مجھے اور میری چسکیوں کو تاکتی تھی۔

جس روز میرا اسکول بند ہوتا تو میں جان بوجھ کر اُس کے تعاقب میں کھیت کھلیان نکل جاتا۔ لیکن میرے اِس عمل کا کامنی پر کبھی کوئی اثر نہ پڑتا، کیوں کہ وہ کبھی بھی نہ تو اپنا نقاب ہٹاتی اور نہ ہی میری کسی بات کا جواب دیتی تھی۔

بکریاں چَرانے سات آٹھ سال کا لنگڑا جگّن بھی اُس کے ساتھ اپنی بکریاں لے جاتا تھا۔ جب کوئی بکری کسی کے کھیت میں چلی جاتی تو وہ جگّن کو ہی دوڑاتی وہ، اور جگّن اپنی ٹانگ پھینکتا ہوا جاتا اور بکری کو راست پر لے آتا تھا۔

ایک دوپہر جب میں اپنے فارم سے گھرآ رہا تھا تو کامنی مجھے دیکھ کر کھلیان میں پَرال کے ڈھیروں کی جانب جا تے جاتے پلٹ کر گولر کی چھانو میں بیٹھ گئی۔ میرا ماتھا ٹھنکا اور میں انجانے طور پر آگے نکال آیا۔ پھر میں نے مڑ کر دیکھا تو کامنی غائب تھی۔ میں نے لپک کر کامنی کا تعاقب کیا تو وہ، پَرال کے ڈھیروں کے درمیاں ہُلّا کی کالی کلوٹی، گندی، بدبو دار اور خارش زدہ زانوں پر کھُلے گیٹ کی اپنی کچّی سڑک سونپے بے سدھ آنکھیں موندے پڑی تھی، اُس کا بے نقاب چہرہ دمک میں سورج کو پوری طرح مات دینے میں کامیاب تھا اور ہُلّا اپنے زنگ آلود اسپنج نما مردہ ٹٹو کی لگامیں کھینچنے کی ناکام کوشش میں اپنی عیش کے سنہری باب کی تاریخ رقم کرنے میں منہمک تھا۔

حیرت تھی، تو یہ کہ میرے پہنچنے کی آہٹ پر کامنی نے مجھے آنکھیں کھول کر دیکھا جس کا کوئی بھی ردِ عمل اُس کے چہرے پر نمودار نہ ہوا، میں نے بڑھ کر طمطراق سے ہُلّا کے ایک زور دار لات جانے دی اور وہ بنا دانتوں کے مسوڑے دکھاتا ہوا، جڑ میں دیمک لگے پیڑ سا ایک جانب ڈھیر ہو گیا اور کامنی ہڑبڑا کر کھڑے ہوتے ہوئے اپنالباس درست کرنے لگی پھرجیسے ہی اس نے اپنے چہرے پر نقاب ڈالنی چاہی، میں نے اس کا ہاتھ تھامتے ہوئے پوچھا: ’’یہ ستر سال کا بد شکل، کالا کلوٹا، چار فٹا، لنگڑا، زنانا اور اَگھوری ہی پسند آیا تجھ کو۔۔ ۔۔ ۔۔؟‘‘

’’ہوں۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔! چسکیاں بھی تو دلواتا ہے، مجھ کو۔‘‘ کامنی کہتے ہوئے بسکنے لگی۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے