اس کا کیا نام تھا ۔۔۔ مسعود اشعر

‘‘تو آپ نے دیکھا تھا؟’’

‘‘جی، میں نے دیکھا تھا۔ مگر۔’’

‘‘مگر آپ وہاں رکے نہیں تھے؟ ہے نا؟ اس لیے کہ ایسے واقعات تو روز ہوتے رہتے ہیں۔ وہ بھی ایک واقعہ ہی تھا۔ اخباروں اور ٹی وی کی ایک خبر؟’’

’’تم جب بھی ان سے ملتے ہو یہی سوال جواب ہوتے ہیں۔ ہر بار تم اپنے آپ کو مجرم محسوس کرتے ہو‘‘

‘‘جب سے انڈرپاس بننا شروع ہوا ہے۔ میں اسی طرف سے گزرتا ہوں۔ اس دن بھی صبح ہی صبح ادھر سے گزرا تو میں نے پل پر کچھ لوگوں کو دیکھا جو ایک کار کو گھیرا ڈالے کھڑے تھے۔ وہاں دو پین پولیس والے بھی تھے۔ وہ پولیس والے بھی ٹریفک وارڈن بھی ——’’

پہلے دن تم انھیں یہ ساری بات بتاتے ہو اور وہ آنسو روکتے ہوئے کہتے ہیں ’’ہاں، ٹریفک کا حادثہ بھی تو ہو سکتا ہے؟ آپ نے یہی سوچا تھا؟’’

تم سرجھکا کر آنکھیں نیچی کر لیتے ہو۔  تم اور کر بھی کیا سکتے ہو؟ تم کچھ بھی نہیں کر سکتے۔ کوئی بھی کچھ نہیں کر سکتا۔ جب تم انھیں تسلی دینے کی کوشش کرتے ہو تو خوب جانتے ہو کہ تم جھوٹ بول رہے ہو۔ تم جانتے ہو کہ ہر انسان کا غم اس کا ذاتی اور نجی غم ہوتا ہے۔ اس غم میں کوئی اور شریک نہیں ہو سکتا۔ جو لوگ کسی کے غم میں شریک ہونے کی بات کرتے ہیں وہ دوسروں کے ساتھ اپنے آپ کو بھی دھوکہ دے رہے ہوتے ہیں۔ مگر یہ جانتے ہوئے بھی تم بولتے رہتے ہو۔ اس لیے کہ اگر تم نہیں بولو گے تو وہ بولنے لگیں گے۔ اور تم نہیں چاہتے کہ وہ بولیں۔ وہ تم سے ایک ہی بات پوچھیں گے اور بار بار پوچھیں گے ’’تو آپ نے دیکھا تھا’’

اور جب تم اس سوال کا وہی جواب دیتے ہو جو بار بار دے چکے تو وہ تھوڑی دیر کے لیے خاموش ہو جاتے ہیں۔ پھر ایک اور سوال کر دیتے ہیں۔ ’’آپ جانتے ہیں نا، اس کا کیا نام تھا؟’’

وہ اس سوال کا جواب نہیں چاہتے۔ یہ سوال بھی ہے اور جواب بھی۔ تم خاموش رہتے ہو۔

‘‘یہ اس کا نام ہی تھا نا جس نے۔’’ ان کا گلا رندھ جاتا ہے۔

پھر انھیں سلگ یاد آ جاتے ہیں۔ سلگ وہ کالا لجلجا کیڑا جو ہرے بھرے لان میں اچانک نمودار ہوتا ہے اور پھول پتے کھانا شروع کر دیتا ہے۔ جدھر بھی جاتا ہے اپنے پیچھے ایک چپ چپاتی لکیر چھوڑ جاتا ہے۔ چاندی جیسی چمکتی ہوئی لکیر۔ چپ چپاتی اور زہریلی لے کر۔‘‘اس دن صبح ہی صبح۔ وہ صبح کا ہی وقت تھا نا؟ وہ تم سے ایسے سوال کرتے ہیں جیسے بھول گئے ہوں کہ وہ صبح کا وقت ہی تھا۔‘‘وہ اپنے بیٹے کو اسکول چھوڑنے جا رہا تھا۔ اس دن اس کے بیٹے کو انعام ملنے والا تھا’’ وہ گہری سانس لیتے ہیں ’’اس وقت میں لان میں کھڑا تھا اور سلگ دیکھ رہا تھا۔ میں پریشان ہو رہا تھا کہ ان گھناؤنے چہچہاتے کیڑوں کو کیسے ختم کیا جائے۔ بس—— اسی وقت لوگ بھاگتے ہوئے آئے اور میرے سامنے آ کر کھڑے ہو گئے۔ انھوں نے اپنے منھ سے کچھ نہیں کہا مگر میرا دل جیسے دھڑکتے دھڑکتے رک گیا۔ ان کے چہرے اور ان کی آنکھیں سب کچھ کہہ رہی تھیں۔ میں وہیں بیٹھ گیا۔ پھر وہ کچھ کہہ رہے تھے اور میرے کان نہیں میرا دل سن رہا تھا۔ سب کچھ۔۔’’

وہ کہتے ہیں۔ اور تم خاموشی سے سرجھکائے سنتے رہتے ہو کہ یہ بات بھی وہ اتنی مرتبہ کر چکے ہیں کہ اب تمہارے لیے اس پر‘‘جی’’ بھی کہنا بے کار معلوم ہوتا ہے۔

اسکول سے فون آتا ہے کہ اپنے بچے کو لے جاؤ، اس کو چوٹ لگ گئی ہے۔ تم بھاگے بھاگے جاتے ہو۔ یہ جونئیر اسکول ہے۔ بچے کے سر میں معمولی سی خراش آئی ہے۔‘‘مجھے اس نے دھکا دے دیا’’۔ تمہارا اپنا بچہ اپنے برابر کے ایک اور بچے کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ تم اس بچے کو دیکھتے ہو۔ استانی تمہیں کچھ بتانے کی کوشش کر رہی ہے مگر تمہاری توجہ اس بچے کی طرف زیادہ ہے جو تمہارے بچے سے بھی زیادہ رو رہا ہے۔ تمہارا بچہ اب خاموش ہے۔ جیسے تمہیں دیکھ کر اسے تسلی ہو گئی ہے۔ تم اپنے بچے کو استانی کے حوالے کرتے ہو اور اس بچے کے پاس جا کر اس کے سر پر ہاتھ رکھتے ہو۔ وہ بچہ تم سے لپٹ کر اور بھی پھوٹ پھوٹ کر رونے لگتا ہے۔ تم اسے پیار کرتے ہو۔ اور اپنے بچے سے کہتے ہو۔‘‘بہادر بنو بیٹے، ذرا سی چوٹ لگی ہے۔ اتنی سی چوٹ پہ کون روتا ہے۔ آؤ، اپنے بھائی سے گلے ملو۔‘‘ پھر اس بچے سے کہتے ہو ’’چپ ہو جاؤ۔ چپ ہو جاؤ۔ کچھ نہیں ہوا۔ غلطی سے تمہارا ہاتھ لگ گیا تھا نا؟’’ وہ بچہ تمہیں نہیں دیکھتا تمہارے بچے کو دیکھے جا رہا ہے ’’جی، ہاتھ لگ گیا تھا۔‘‘ اور استانی کھڑی ہنس رہی ہے۔

برسوں بعد ایک ہوٹل کی لابی میں سفید بالوں والا ایک جوان تمہارے سامنے آ کر کھڑا ہو جاتا ہے۔ ’’سلام علیکم انکل۔‘‘

تم اسے غور سے دیکھتے ہو۔ پہچان جاتے ہو۔ ’’ارے، یہ تمہارا سارا سر سفید کیسے ہو گیا؟ اور اتنی جلدی؟‘‘

‘‘ہم تمہارے ابو سے ملنے اکثر تمہارے گھر جاتے رہتے ہیں۔ مگر تم کبھی نہیں ملتے؟’’

‘‘وہ تو آپ ابو سے ملنے جاتے ہیں نا؟’’

اور سچی بات بھی ہے کہ تم اس کے ابو سے ملنے جاتے ہو،۔ اور وہ بھی رات کو۔ خاندانی بچوں کی طرح وہ بڑوں کی محفلوں میں نہیں آتا۔ یہ تو تم جانتے ہی ہو کہ وہ اب بہت بڑا ڈاکٹر بن گیا ہے۔ اور بہت مصروف ہو گیا ہے۔ اور مشہور بھی۔

اس دن عصر اور مغرب کے درمیان تم ان کے ہاں جاتے ہو۔ سڑک پر کھلنے والے بڑے گیٹ کے دونوں کواڑ اس طرح سے بھڑے ہوئے ہیں کہ اوپر سے کھٹکا اٹھا کر کوئی بھی اندر جا سکتا ہے۔ یہ بھلے زمانے کا گیٹ ہے، جب گیٹ کی اونچائی ساڑھے چار یا پانچ فٹ سے زیادہ نہیں ہوتی تھی۔ اور یہ گیٹ بھی ایسے ہوتے تھے کہ اندر باہر کا سب نظر آتا تھا۔ چھ چھ فٹ سے اونچے گیٹ تو اب بننا شروع ہوئے ہیں جب لوگ اپنے آپ سے بھی ڈرنے لگے ہیں۔ اس واقعے کے بعد تم نے ان نوکروں سے کہا تھا کہ اس گیٹ پر اندر سے قفل لگا کر رکھا کرو۔ کسی وقت بھی کچھ ہو سکتا ہے۔ اس دن بھی تم نے ڈانٹنے کے انداز میں نوکر سے یہی بات کرتے ہو۔

’’شاہ صاحب کہتے ہیں گیٹ کھلا رکھو۔ اب میری باری ہے۔ انھیں آنے دو۔ میں بھی تیار ہوں۔‘‘ ایک نوکر جو آنکھیں نیچی کیے کھڑا ہے تمہیں بتاتا ہے

تم اندر جاتے ہو۔ تمہاری پہلی نظر ایک کنال کے اس لان پڑتی ہے جو اس پوری آبادی میں اپنی خوبصورتی کے لیے مشہور تھا۔ اب وہاں تمہیں اجڑا ہوا کھنڈر سا نظر آتا ہے۔ یہ اپریل ہے مگر پٹونیا، ڈیزی، پنیزی اور سویٹ پیز کے پھول بے رونق معلوم ہو رہے ہیں۔ اور گھاس سوکھی سوکھی سی ہے جیسے کئی دن سے اسے پانی نہ دیا گیا ہو

’’مالی نہیں آتا؟’’تم نوکر سے پوچھتے ہو

’’مالی تو آتا ہے۔ مگر شاہ صاحب کا حکم ہے لان کو پانی نہ دینا۔ لان گیلا ہو تو سلگ آ جاتے ہیں۔‘‘ نوکر جواب دیتا ہے۔

تم آگے بڑھتے ہو تو چھوٹی نارنگی کے پیڑ کے پیچھے ایک سایہ سا دکھائی دیتا ہے۔ وہ کرسی پر بیٹھے بیٹھے نماز پڑھ رہے ہیں۔ ظہرین کی نماز۔ قمیص کے سارے بٹن کھلے ہیں۔ آستینیں بھی دونوں ہاتھوں پر لٹک رہی ہیں۔ چہرے کا خون جیسے نچوڑ لیا گیا ہے۔ پیلے ہو گئے ہیں۔ تمہارے دل کو کچھ ہونے لگتا ہے۔ یہ ایک دو ہفتے میں کیا ہو گیا ہے؟ اور یہ کرسی پر بیٹھ کر نماز کیوں پڑھ رہے ہیں؟ ان کے گھٹنوں میں تو کوئی تکلیف نہیں ہے۔ ایک ہفتہ پہلے تک تو یہ آپریشن تھیٹر میں گھنٹوں کھڑے ہو کر بڑے بڑے نازک اور پیچیدہ آپریشن کرتے رہے ہیں۔ تھائی رائیڈ کا آپریشن کتنا پیچیدہ اور مشکل ہوتا ہے۔ یہ تو سارے ملک میں اس آپریشن کے لیے مشہور ہیں۔ دور دور سے مریض اس آپریشن کے لیے ان کے پاس آتے ہیں۔ پچھلے ہفتے ہی انھوں نے تمہاری ہمکار خاتون کا آپریشن کیا ہے۔

ارے—۔  ان کے تو ہاتھ بھی کانپ رہے ہیں؟ تم گھٹنوں پر رکھے ہوئے ان کے ہاتھ دیکھتے ہو۔ وہ ہاتھ لرز نہیں رہے ہیں، تڑپ رہے ہیں۔ ان کے لیے مشکل ہو رہا ہے ان ہاتھوں کو گھٹنوں پر جمائے رکھنا۔ شدید کرب ان کے چہرے پر بھی نمایاں ہے۔ تم اس طرح ہاتھ پر ہاتھ باندھے کھڑے رہتے ہو، جیسے تم اپنی نماز پڑھ رہے ہو۔

اب وہ تمہیں دیکھتے ہیں۔ منھ سے کچھ نہیں کہتے۔ اندر ڈرائنگ روم کی طرف چلنے لگتے ہیں۔ تم ان کے ساتھ اندر جاتے ہو۔ تمہیں صوفے پر بیٹھا کر وہ دوسرے کمرے میں چلے جاتے ہیں۔ تم بیٹھے رہتے ہو۔ ان کی بیگم آتی ہیں۔ سرخ و سفید چہرہ بھولا پھالا لگ رہا ہے۔ آنکھوں کے گرد سیاہ نہیں سرخ دھبے ہیں۔ آنکھوں کے ڈیلے لال ہیں، جیسے ابھی خون ٹپک پڑے گا۔

’’معلوم ہے وہ اندر کیوں گئے ہیں؟’’ وہ سوال کرتی ہیں۔ تم خاموش رہتے ہو۔ جانتے ہو کہ اس سوال کا جواب بھی وہ خود ہی دیں گی۔ ’’وہ کسی کے سامنے رونا نہیں چاہتے۔ میرے سامنے بھی نہیں غسل خانے چلے جاتے ہیں۔’’

تم اس پر بھی کچھ نہیں بولتے۔

‘‘ان کی وجہ سے میں بھی نہیں رہ سکتی’’ یہ کہہ کر وہ ڈوپٹے سے اپنی آنکھیں چھپا لیتی ہیں۔

‘‘رات کو یہ کروٹیں بدلتے رہتے ہیں۔ اور بار بار مجھ سے پوچھتے ہیں ’’تم رو تو نہیں رہی ہو؟’’

اب تم بھی آنکھیں چھپاتے ہو۔

‘‘جب قرار داد منظور ہوئی تو منٹو پارک میں اس وقت میرے والد صاحب بھی موجود تھے۔ وہ ہمیں اس دن کے قصّے سنایا کرتے تھے۔ کیا جوش تھا۔ کیا جذبہ تھا—’’

کچھ دن بعد تم ان کے گھر جاتے ہو تو وہ پرانی باتیں شروع کر دیتے ہیں۔ یہ بات شروع کرتے مگر اسے بیچ ہی میں چھوڑ کر خاموش ہو جاتے ہیں، جیسے اپنے ابلتے ہوئے جذبات پر قابو پانے کی کوشش کر رہے ہوں۔

‘‘1946ء کے الیکشن میں میرے والد نے پورے پنجاب اور سرحد کا دورہ کیا تھا۔‘‘ وہ پھر بولنے لگتے ہیں۔‘‘ ہمارا پورا خاندان یونینسٹ پارٹی میں تھا۔ لیکن میرے والد اکیلے مسلم لیگ کے ساتھ تھے۔ آپ جانتے ہیں نا، میرے والد وکیل تھے؟اپنے علاقے کے سب سے معزز اور مشہور وکیل؟

ایک عورت چائے لاتی ہے۔ کپ میں چائے ڈال کر ایک کپ تمہارے سامنے اور دوسرا کپ ان کے سامنے رکھتی ہے۔ اس سارے عرصے میں خاموش رہتی ہے۔

‘‘جب مشرقی پنجاب سے لٹے پٹے مہاجر یہاں آئے تو انہیں ہمارے خاندان نے پناہ دی—‘‘ یہ کہہ کر اچھل پڑتے ہیں اور دونوں ہاتھ گالوں پر مارتے ہیں۔‘‘ توبہ توبہ، ہم پناہ دینے والے کون ہوتے ہیں۔ پناہ دینے والی ذات تو وہی ہے۔ ہم نے تو اپنا فرض ادا کیا۔ وہ مہاجر کون تھے؟ کیا تھے؟ ہمیں اس سے کوئی غرض نہ تھی۔ ہمارے لیے تو وہ مہاجر تھے، جو اپنا سب کچھ لٹا کر یہاں آ رہے تھے۔‘‘ وہ چھت کی طرف دیکھتے ہیں۔ جیسے وہاں پڑھنے کی کوشش کر رہے ہوں ’’ہم نے اگر کچھ لیا دیا بھی۔’’

یہ کہہ کر پھر اپنے کان پکڑتے ہیں۔‘‘توبہ توبہ۔ آپ تو ہمارے بارے میں خوب جانتے ہیں۔‘‘ تم کوئی جواب نہیں دیتے۔

‘‘پھر کیا ہوا۔ ۔؟’’ وہ کانپتے ہاتھوں سے کپ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ چائے چھلک جاتی ہے۔ وہ کپ تپائی پر رکھ دیتے ہیں۔ تم بھی چائے کو ہاتھ نہیں لگاتے۔

اب تم دیوار پر لگی تصویریں دیکھنے لگتے ہو۔ ایک تصویر اس کی بھی ہے جو اب اس دنیا میں نہیں ہے مگر ہر طرف اور ہر سمت موجود ہے، اپنے بارہ سال کے بچے کے ساتھ۔ دلہا دلہن کی تصویر۔ جب اس کی شادی ہوئی تو لوگوں کو بہت حیرت ہوئی کہ لڑکی ان کے فرقے کی نہیں تھی۔ مگر تمہیں اس پر کوئی حیرت نہیں ہوئی تھی کہ وہ خاندان تھا ہی ایسا۔ بلکہ تمہیں تو اس وقت بھی حیرت نہیں ہوئی جب ان کے بھائی کی لڑکی نے بھی دوسرے فرقے کے لڑکے سے شادی کی۔ دونوں شادیاں بہت ہی کامیاب تھیں۔

‘‘وہ نئی کونپلیں کھا جاتے ہیں’’

انھیں پھر سلگ یاد آ جاتے ہیں۔ وہ بھی تو نئی کونپل ہی تھا۔ ابھی اس کی عمر ہی کیا تھی۔ چالیس پنتالیس سال بھی کوئی عمر ہوتی ہے۔ اور اس عمر میں اس نے اتنی شہرت پالی تھی کہ دوسرے شہروں سے بھی مریض اس سے علاج کرانے آتے تھے۔

وہ خاموش ہو کر اپنے ہونٹ کاٹتے ہیں۔

وہ مفت علاج کرتا تھا غریبوں کا۔ سال میں دو مرتبہ اپنے آبائی گاؤں میں کیمپ لگاتا تھا۔ آپریشن کرتا تھا سب کا۔ سب کو نئی نظر دیتا تھا، نئی آنکھیں سب کو، کسی تفریق کے بغیر —– اور—— وہ— بارہ سال کا بچہ —–؟ اس کا کیا گناہ تھا؟ یہی نہ کہ اس کے نام میں بھی۔ ۔

ان کی نظریں چھت پر گڑی ہیں۔ اس بچے کو اس دن انعام ملنے والا تھا۔ وہ بچے کو اسکول چھوڑنے جا رہا تھا۔

اب وہ اپنی نظریں تمہارے اوپر گاڑ دیتے ہیں۔ ’’آپ جانتے ہیں نا، کیا نام تھا اس کا؟‘‘

یہ اس کا نام ہی تھا نا جس نے اس کو اور اس کے بارہ سال کے بیٹے کو——

اب کمرے میں خاموشی چھا جاتی ہے۔ ان کی بیگم اٹھتی ہیں دوسرے کمرے میں چلی جاتی ہیں۔ تم دونوں اکیلے رہ جاتے ہو۔ وہ تمہیں گھور رہے ہیں۔ تم اس سفید بالوں والے لڑکے اور اس کے بچے کی تصویر دیکھ رہے ہو جو اس صبح انعام لینے باپ کے ساتھ اسکول جا رہا تھا

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے