نظمیں ۔۔۔ کالپیٹا نارائنن / اعجاز عبید

(ملیالم)

 

مجرم

___________________

 

مجرموں کا جرم ثابت کرنا

بہت آسان ہوتا ہے

ایک حد سے آگے

وہ کچھ بھی چھپا نہیں سکتے

 

جس راز کو وہ چھپا رہے ہوتے ہیں

اس کے ہی ارد گرد گھومتے رہتے ہیں ان کے جھوٹ…

تھوڑے بہت مختلف ہوں گے ان کے بیان

لیکن آخر میں وہ قبول کر لیں گے اپنے سب گناہ

آخر، انہیں معلوم جو ہے سب کچھ

 

جینا حرام ہوتا ہے

بے گناہ لوگوں کی وجہ سے

قبول ہی نہیں کریں گے وہ کبھی اپنا جرم

تعاون لفظ کا مطلب جیسے کہ سنا ہی نہیں کبھی

ان کی قوتِ برداشت کمال کی ہوتی ہے

 

ان کی ماند کو اگر کھود کر دیکھیں گے

تب ہمیں حاصل

کچھ نہیں ہو گا

 

بے گناہوں سے

زیادہ سخت دل

اور کوئی نہیں اس دنیا میں

٭٭٭

 

 

 

وقت کے مالک

___________________

 

گھنے اندھیرے میں

بلی کی طرف

اشارہ کرتے ہوئے

چوہیا اپنے بچہ کو سکھا رہی ہے:

 

‘‘سنو، ان کی نظر بڑی تیز ہے

تم کبھی بھی ان کی نظر میں پڑ سکتے ہو

 

ان کے کان بھی بہت تیز ہیں

فرش پر گرتے روئیں کی آہٹ سے بھی

وہ پہچان لیتے ہیں

تمہیں

 

بہت مہذب شخصیت ہے ان کی

وہ اپنے بچے کے نرم دستانوں کا استعمال کریں گے

تمہارے پیچھے پلٹنے کے لیے

 

وہ بہت صابر ہیں

چار پانچ گھنٹے لگاتے ہیں

تمہیں آرام سے

دُم تک نگل لینے میں

 

وہ رحم کے مینار ہیں

صرف اتنا زخمی کریں گے تمہیں جتنا ضروری ہے

 

وہ کبھی تمہیں مایوس نہیں کریں گے

جان واپس بھی ملے گی

کئی بار تمہیں

 

بے حد قدر دان ہیں یہ

مزے سے چکھتے رہتے ہیں تمہیں

دُم کی آخری لرزش تک

 

کبھی کوئی جلدی نہیں انہیں

وقت کے مالک ہیں

مالک … ’’

٭٭٭

 

 

راحت

___________________

 

جب میری ماں گزر گئی

تب مجھے بڑی راحت محسوس ہوئی

اب میں رات کو بھوکا رہ سکتا ہوں

وہ مجھے بے چین نہیں کرے گی

اب مجھے نہانے کے بعد

بالوں کو ٹھیک سے سکھانا نہیں پڑے گا

اب کوئی ہاتھ پھیلا کر

گیلا پن نہیں پرکھے گا

اب میں کوئیں کی آدھی دیوار پر بیٹھ کر

آدھی نیند میں کتاب پڑھ سکتا ہوں

بھاگ کر آتی ہوئی کوئی چیخ

اب مجھے نیند سے نہیں اٹھائے گی

اب میں شام ہونے پر بغیر ٹارچ لیے بھی

اندھیرے میں نکل سکتا ہوں

سانپ کے ڈسنے سے مر جانے والے پڑوسی کی یاد میں

رات رات بھر جاگنے والی اب نہیں رہی

اب میں جہاں چاہوں

وہاں بے فکر سو سکتا ہوں

میرے آنے سے پہلے ہی بجھنے والا چراغ

اب ہمیشہ کے لیے بجھ گیا

 

اپنے کئے کی سزا بھگت رہا ہوں میں

ازلی بے چینی سے

میری ماں آزاد ہو ہی گئی

آخر اس کا مجھے جنم دینا ختم ہوا

 

اب اس دھرتی پر بھلے ہی بدن درد سے روئے

غصے میں کوئی نہیں روئے گی اب

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے