م۔ ناگ اور اُس کی افسانہ نگاری ۔۔۔ اسیم کاویانی

مختار احمد (م۔ ناگ) نے مغربی وِدربھ کے ضلع ناگپور کے ایک غریب اور  کثیر عیال ہیڈ کانسٹیبل کے یہاں جنم لیا تھا۔ اُس کے والد نے ایمان داری میں گزر بسرکی تھی اور  وہ اپنے خاندان کو غریبی کی ظلمت سے نہ نکال سکے تھے۔ پہلی کلاس ہی میں مختار احمد نے چار سال لگا دیے تھے، اس لیے کہ ہر سال کسی نہ کسی سبب سے اُس کے والد کا تبادلہ ہو جانے کی وجہ سے وہ امتحان ہی نہیں دے پاتا تھا۔ اُس نے لکھا ہے کہ ’پولیس کالونی میں کوئی گھریلو تقریب ہوتی تو ہمارے کپڑے، ہمارا اوتار دیکھ کر خود ہمیں شرم آتی۔ ۔ ۔ دو جوڑی سے زائد کپڑے کسی کے پاس نہ تھے۔ ‘1؎ وہ اکثر اپنی امّاں اور  ابّا کا جھگڑا دیکھا کرتا تھا اور  اُس کی ماں کا  یہ  فقرہ اُس کے ذہن سے چپک کر رہ گیا تھا کہ ’آپ کے اصول سب کے لیے سزا بن گئے ہیں۔ ‘ 2؎ بقول ناگ اُس کے والد نے کبھی کوئی نصیحت تو نہیں کی تھی، لیکن اُن کے کردار و عمل نے اُس کی شخصیت کی تعمیر میں ایک اہم رول ادا کیا تھا۔ میں سمجھتا ہوں کہ مختار احمد کی میٹرک کے بعد اُسے پولیس کے محکمے میں لگانے کی صلاح دینے والے پولیس کمشنر کو اُس کے والد کا اپنا  یہ  فیصلہ سنادینا کہ وہ اپنے بیٹے سے بھیک منگوا لیں گے، لیکن اسے پولیس محکمے میں نہیں جانے دیں گے۔ 3؎ اپنے آپ میں ایک بہت بڑی نصیحت تھی۔ یہ اُن کے کردار و اصول ہی کا اثر تھا کہ جس نے مختار احمد کے خمیر میں فقر و قناعت، عاجزی و فروتنی، مصلحت و مصالحت اور  سادگی و راستی کے عناصر کی پرورش کی تھی اور  اس کے کردار میں احتجاج و بغاوت، چالاکیو ہوشیاری اور  مسابقت و مخاصمت کے جذبات ٹھٹر کر رہ گئے تھے۔

مختار احمد میٹرک کے بعد چھوٹی موٹی ملازمتیں کرتا رہا، مثلاً: گوندیا میں شراب کی ایک ہول سیل کی دکان، بھنڈارا کے ایک اینٹ کے بھٹّے اور  ناگپور کے ڈیم کنٹراکٹر کے یہاں منیم گری اور ایک واٹر ٹینکر کی کلینری وغیرہ۔

جب 1975ء میں اُس کے سر میں بمبئی جانے کا سودا سمایا تو اُس کے والد نے منع کیا تھا’ وہاں کون ہے تیرا؟‘ لیکن وہ اپنے ایک دوست سے سو روپیے اُدھار لے کر بغیر کسی کو بتائے بمبئی کے لیے بھاگ کھڑا ہوا تھا۔ اُس نے اپنی خودنوشت میں لکھا ہے :

’’میں ایک عدد ملازمت کے لیے بمبئی جا رہا تھا۔ میرا خواب کوئی بہت بڑا نہیں تھا کہ دنیا کو کچھ کر دکھانا ہے۔ میں تو ایک خوش حال زندگی گزارنا چاہتا تھا۔ ڈھنگ کے کپڑے جوتے ہوں، اچھا کھانا ہو، دوا دارو کا پیسا ہو۔ ‘‘ 4؎

انصاف کی بات تو  یہ  ہے کہ خوش حال زندگی سے زیادہ یہ انسان کی صرف بنیادی ضرورت کی چیزیں ہیں، لیکن جیسا کہ ناگ نے لکھا ہے، ’ اس خواب کی تعبیر میں جیسے صدیاں گزر گئیں۔ ‘

م۔ ناگ نے اپنی خودنوشت کی دوسری قسط کے آغاز میں بمبئی کے بارے میں  یہ  عبارت درج کی ہے :

’’ممبئی ایک چوہا دان ہے، جس میں روٹی کا ٹکرا پھنسا ہے۔ میں روٹی کا ٹکڑا پانے کے لیے اندر کیا گیا، ساری دنیا باہر آ گئی۔ بس پھر کیا تھا، تیسری گھنٹی بجی، پردہ اٹھا اور  چوہا بلی کا کھیل شروع ہو گیا۔ ‘‘ 5؎

اگرچہ م۔ ناگ اپنے شوقِ قلم کاری میں ’تاج‘ ویکلی میں چھپے اپنے پہلے افسانے کے بعد ماہ نامہ ’کتاب‘ لکھنؤ، ماہ نامہ ’تحریک‘ نئی دہلی، ماہ نامہ ’شمع‘ نئی دہلی، ماہ نامہ ’بانو‘ نئی دہلی اور  ماہ نامہ ’روبی‘ نئی دہلی جیسے رسائل میں چھپ چکا تھا اور  اس کے بیگ میں اُس کی غیر مطبوعہ کہانیوں کی ایک موٹی سی فائل بھی موجود تھی، مگر اِس شہرِ ستم گر کے سلسلے میں جب ایک زمانے میں شبلی جیسے علامہ کو  یہ  کہنا پڑ گیا تھا کہ ’’یہاں شبلی پڑا پھرتا ہے اور  کوئی جانتا بھی نہیں کہ  یہ  شبلی ہے !‘‘ 6؎ تو  یہ  تو بے چارہ م۔ ناگ ہی تھا۔ یہاں اَن چاہا مہمان بننے سے لے کر فٹ پاتھ پر شب بسری، سروجنک غسل خانے اور  بیت الخلا کے استعمال کے تجربے اور  ملازمت کی تلاش میں لوکل ٹرینوں اور  بسوں کی بھیڑ میں بھینچ بھنچا کر اُسے بہت جلد یہ احساس ہو گیا کہ ع تلاشِ گُل میں ہم کس وادیِ پُر خار میں آئے !

ایک بار اُس نے دیکھا کہ لوکل ٹرین میں دروازے کا پول پکڑ کر باہر جھکے ہوئے لڑکے کو کسی مسافر نے منع کرتے ہوئے کہا تھا’ ’لڑکے، جھکو مت۔ تُو گرے گا تو ہمیں لیٹ (late) ہو گا‘‘ تو اُسے ممبئی کا مزاج سمجھنے میں دیر نہیں لگی تھی۔ اسی ممبئی کے بارے میں سید محمد ہادی نے کہا تھا ؎

یہاں چلنے کا طریقہ نہیں پہلے آپ

کہنیاں مار کے بڑھنا سیکھو

لیکن ایسا کرنا تو م۔ ناگ کے خمیر ہی میں شامل نہیں تھا۔ اُس نے مشہور افسانہ نگار انور قمر کی وساطت سے چمن لال سسوڈیا کی گوا اور  ممبئی کی کمپنیوں میں تقریباً بارہ سال سپروائزر وغیرہ کی ملازمت کی اور  چکّی کی مشقت کے ساتھ اپنی مشق سخن  / قلم کو بھی جاری رکھا۔ اب یا تو وہ ملازمت اُسے راس نہیں آئی یا وہ اُس ملازمت کو راس نہیں آیا، وہ کبھی اپنے والد کو بمبئی کا سفر خرچ تک نہ بھیج سکا کہ وہ آ کر مل جائیں اور  جب وہ چل بسے تو وہ اُن کے جنازے کو کندھا دینے بھی نہ جا سکا تھا۔

جب وہ اِنڈوفل میں ملازم تھا تو وہاں کے سکیوریٹی افسر الکزینڈر کو کمپنی کے مالک چمن لال سسوڈیا سے  یہ  کہتے سنا تھا کہ ’یہ  لڑکا رات دن گدھے کی طرح کام کرتا ہے، لیکن نتیجہ صفر‘ 7؎۔ اُس وقت کے اپنے ردِّ عمل کو ناگ نے پُر لطف بمبیا ڈھنگ سے یوں بیان کیا ہے :’ یہ  تو ایرانی ہو ٹل والا قصّہ ہو گیا کہ کھایا پیا کچھ نہیں، گلاس توڑا بارہ آنہ‘!

م۔ ناگ کی کہانیاں مشہور رسائل اور  اخبارات میں شائع ہو رہی تھیں۔ آخر اس نے ملازمت سے پنڈ چھڑایا اور  صحافت کو بطور پیشہ اپنا لیا۔ وہ بمبئی کے ہفت روز ’بلٹز‘ اور  ’انقلاب‘، ’اردو ٹائمز‘، ’صحافت‘، ’ہندستان‘ اور  ’مہانگر‘ جیسے اردو روزناموں اور  چند ہندی اور  مراٹھی اخبارات میں کالم نگاری، تبصرہ نگاری سے لے کر معاون مدیر تک کے فرائض انجام دیتا رہا۔ اُس کا ’ جن ستّہ‘ کا کالم ’اردو دنیا‘ اور  ’صحافت‘ میں اردو قلم کاروں کے لیے گئے انٹرویو سرا ہے بھی گئے، لیکن وہ اپنی سادہ دلی اور  صحافتی اداروں کی استحصال کاری کے باعث عموماً تنگ دستی کا شکار رہا۔ اُس نے لکھا ہے کہ ’ضروریاتِ زندگی کے مقابل اُس کی آمدنی ایسی ہی رہی جیسے اونٹ کے منہ میں زیرہ‘۔ اردو اخباروں کے روایتی ماحول میں وہ اپنی صلاحیتوں کا کوئی پائیدار نقش نہ بنا سکا۔ مجموعی طور پر اُس کا معاملہ شمیم عباس کے اس مصرعے کے مصداق رہاع باندھے خود کو تِرے کھونٹے سے ہوں جیسے تیسے۔

اس نے اپنی خودنوشت میں لکھا ہے کہ اکثر اُس کے پاس لوکل ٹرین کا سیزن ٹکٹ تک نہیں ہوتا تھا۔ اُسے بمبئی سینٹرل پر اُتر کر ناگپاڑا اپنے اخبار کے دفتر جانا ہوتا تھا تو وہ ٹکٹ چیکر سے بچنے کے لیے پلیٹ فارم کے پچھلے سِرے پر یارڈ سے ہوتا ہوا سڑک پر جا نکلتا تھا۔ ناداری کے دنوں میں اس کی شریک حیات نے گھر گھر ساڑیاں بیچنے کا کام بھی کیا تھا، لیکن سپلائر کو بروقت ادائیگی نہ کر پانے پر وہ سلسلہ ختم ہو گیا تھا۔ م۔ ناگ کو اُدھار لینے کی لت بھی پڑ گئی تھی اور  قرض خواہوں کا سامنا کرتے کرتے اُس میں ڈھیٹ پن بھی آ گیا تھا، اُس نے خود لکھا ہے کہ لوگ اُس سے کترانے لگے تھے۔ اُس کی مفلسی نے اُس سے گھوسٹ رائٹنگ بھی کرائی اور  وہ اپنے فن کو صیقل کرنے پر متوجہ نہ ہو سکا۔ ایک جگہ رقم طراز ہے :

’’بچّوں کا بچپن محرومیوں میں گزرا۔ نہ کپڑے، نہ کھلونے۔ اسکول کی فیس کے لیے بھی مسئلہ پیدا ہو جاتا تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میری وجہ سے بیوی بچوں کو کافی تکلیف ہوئی۔ میں اپنے آپ کو اُن کا گنہگار سمجھتا ہوں۔ بڑی مشکل سے دن گزرتے تھے۔ حالانکہ میں ’اردو ٹائمز‘، ’مسلم ٹائمز‘… …لیکن پیسوں میں کوئی برکت ہی نہیں رہی۔ ‘‘ 8؎

اپنے آخری دور میں م ناگ نے جس اردو اخبار کی ملازمت کو چھوڑا تھا وہاں کا حال تو اور  بھی ناگفتہ بہ تھا۔ انٹرنیٹ اور  دوسرے اخباروں کی خبروں کے cut and paste سے اخبار تیار کر لیا جاتا تھا۔ DTP آپریٹر ہی اڈیٹر کا فرض انجام دے لیتے تھے۔ ناگ جیسے سینئر صحافی پر وہاں کے چپراسی کو ترجیح حاصل تھی کہ وہ مالکِ اخبار کی ناک کا بال اور  اُس کا مخبر بھی تھا۔ مختصر  یہ  کہ ناگ اپنی زبوں حالی میں جیسے تیسے اپنی سفید پوشی کا بھرم قائم رکھنے کے جتن کرتا رہا تھا۔ …دوسری طرف اس کے ہم عصر افسانہ نگاروں یعنی سلام بن رزاق، انور خان، ساجد رشید اور  انور قمر نے چونکہ اپنے کرئیر پر دھیان دیا تھا، نوکری یا روزگار کے معاملوں میں اپنی صلاحیت و زیرکی کا ثبوت دیا تھا، اس لیے وہ لوگ اس کی بہ نسبت اپنے فن کے ساتھ ساتھ دنیاداری میں بھی کامیاب رہے۔ ناگ اپنے ہم راہیوں سے ہر دو محاذ پر پچھڑ کر رہ گیا۔

اُس کے ایک افسانے ’زراف‘ کا مرکزی کردار رائٹر ہے جسے اُس نے زراف سے نسبت دی ہے : ’ زراف کہ گردن لمبی ہونے کی وجہ سے نیچے کی طرف اُگی ہری پتیاں نہیں کھاسکتا اور  چوٹیوں پر اُگا سبزہ ختم ہو چکا ہے۔ ‘ 9؎ نجانے کیوں ایسا لگتا ہے کہ اُس نے جگ بیتی کے پردے میں آپ بیتی کہنے کی کوشش کی ہے اور  اپنے ہم عصر ساتھیوں کو بھی ہدف بنایا ہے۔ وہ  یہ  مغالطہ بھی پالے ہوئے رہا کہ زمانہ اُس کا بیری ہے : ’’میں کتنے محاذ پر تنہا لڑسکتا ہوں ؟ آخر کب تک۔ ۔ ۔ ؟ میں اکیلا اور  وہ اتنے سارے لوگ کیل کانٹوں سے لیس۔ ‘‘ ایک مقام پر رائٹر اپنی بیوی سے کہتا ہے :

’’چپ رہو۔ وہ اونچی مچان پر بیٹھے ہیں اور  مجھے پریشان کر رہے ہیں۔ ‘‘

’’کیوں بھلا! آپ میں کون سے سُرخاب کے پَر لگے ہیں۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ آپ کی رائٹنگ سے ان کا تختہ پلٹ جائے گا! اگر  یہ  بات ہے تو وہ غلطی پر ہیں۔ ‘‘ بیوی ہنستی ہے۔

میں پھر سر جوڑے بیٹھا ہوں۔ کچھ نیا تخلیق ہو۔ کچھ شاہکار نہیں تو کم سے کم اوریجنل تخلیق ہوتا کہ اطمینان ہو جائے۔ ‘

اور یہ  واقعہ ہے کہ اس نے اپنی کہانیوں میں اوریجنل پلاٹ پیش کرنے کی کوشش کی۔ چونکا دینے والا اسلوب اپنایا اور  حد درجہ اختصار برتا۔ اب یہ الگ بات ہے کہ وہ کہیں کامیاب رہا، کہیں ناکام۔

بچپن میں وہ اپنے گھر سے کچھ فاصلے پر واقع جیل میں ایک چور کو لائے جانے کی خبر سن کر تجسّس میں اسے دیکھنے چلا گیا تھا اور  یہ  دیکھ کر حیران رہ گیا تھا کہ چور بھی سپاہی کی طرح ایک انسان ہوتا ہے۔ تب اُس کے معصوم ذہن میں انسانی کردار کی اس خلیج یا تضاد پر جو سوال قائم ہوا تھا، اس سوال کے حل کی جستجو کواس کے فن کا سفر باور کیا جا سکتا ہے۔ یہ  کہنا تو مشکل ہے کہ اس کے جواب کی جستجو میں اس نے کیا پایا لیکن یہ  کہا جا سکتا ہے کہ غم ہائے روزگار میں بھی اس نے اپنے اندر کے فنکار کو کھونے نہیں دیا۔ زندگی بھر اپنے صحافتی روزگار کے ہنگامی موضوعات اور  زود نویسی پر مجبور رہنے کی بنا پر اس نے اپنے اظہارِ فن کے لیے مختصر افسانوں کا وسیلہ اختیار کرنا مناسب سمجھا۔ اس کے افسانوں میں سیاست کے مکر، رشتوں کے تصنع، قدروں کے زوال اور  مادیّت کے جبر پر بے محابا طنز ہے اور  خاص طور پر شہری زندگی کے بناوٹی، ریا کار اور  زر پرست معاشرے پر بے دریغ تنقید کا اظہار ہوا ہے۔ مثلاً: ’’جنگل کاٹ دیے گئے ہیں اور  جو بچے ہیں وہ بھی کٹتے جا رہے ہیں۔ تخلیقی اظہار میں جمالیاتی پہلو ہی نہیں رہا۔ درخت اُگاؤ کی جگہ ڈالڈے کے خالی ڈبّے میں ایک پلانٹ لگایا ہے، وہ بھی منی پلانٹ، اور  اسے بالکونی میں ٹانگ دیا ہے۔ دیکھ دیکھ کر خوش ہوتے ہیں۔ سوچتے رہتے ہیں کہ کس طرح منی کو سر پلس کریں۔ رشتوں کو کیسے ڈیوائڈ کریں۔ پہچان کیسے ملٹی پلائی کریں۔ کیا کیش کریں۔ کیا بچ گیا ہے اور  کیا بھاپ بن کر اُڑ گیا ہے۔ ‘‘(افسانہ:’زراف‘)

میری نظر میں ’ڈاکو طے کریں گے ‘ ناگ کا بہترین افسانہ ہے، جو اپنے انوکھے پلاٹ اور  اسلوب کی تازگی کی وجہ سے قاری کے ذہن پر نقش چھوڑ جاتا ہے۔ اس دنیا کی غرض و غایت اور  انسانی ترقی و رفتار کی حدّو انتہا نہ پاکر کبھی کبھی اس کائناتی معمّے کو اندھی سرنگ میں نامعلوم منزل کی طرف تیزی سے دوڑتی ٹرین سے تشبیہ  دی گئی ہے۔ ناگ کے اس افسانے میں دوڑتی ٹرین کے ڈاکوؤں کو ہم اپنے دور کے بے رحم اور  بے نکیل سیاسی مقتدرہ پر منطبق کر سکتے ہیں۔ شلوار، پینٹ، ساڑی اور  دھوتی عام لوگ ہیں۔ چشمہ، دانش ور ہے اور  سادھو، مذہبی رہبر۔

’’ہمیں تو  یہ  بھی پتا نہیں کہ ٹرین جا کہاں رہی ہے۔ ‘ شلوار

’آخر ہم کس ٹرین میں بیٹھے ہیں ؟ ‘ پینٹ

’ٹکٹ دیکھو! شاید ٹکٹ پر لکھا ہو کہ تمھیں جانا کہاں ہے ؟ ‘ دھوتی

چشمہ کتاب پڑھ رہا ہے۔

’ ایک سکیوزمی! کیا اِس کتاب میں کہیں لکھا ہے کہ ہم کہاں جا رہے ہیں ؟ ‘ ساڑی

’میں وہی تلاش کر رہا ہوں۔ ‘ چشمہ

ملے تو مجھے بھی بتانا پلیز! شلوار، (سادھو مہاراج بھی نہیں جانتا کہ ٹرین کہاں جا رہی ہے۔ )

یہ  ڈاکو کہاں سے آ گئے ! ٹرین تو کہیں رُکی نہیں۔ پھر  یہ  ڈاکو کہاں سے آ گئے ؟

یہ  ہمارے ساتھ ہی چلے تھے۔ یہ  ہمارے ہم سفر ہیں۔ یہ  ہماری جان و مال کی حفاظت کریں گے۔ یہ  کہیں باہر سے نہیں آئے ہیں، کیا سمجھے، نہیں سمجھے !‘

’سب کچھ ہمارے حوالے کر دو، ورنہ بھون دیے جاؤ گے۔ ‘

’بھوننے کی کیا ضرورت ہے۔ سب کچھ بھُنا بھُنایا ہے جی۔ ‘

دوستو! ہم پھر وہیں لوٹ رہے ہیں، جہاں سے چلے تھے۔ ڈاکوؤں نے بندوق کی نال پر ہماری منزل طے کر دی ہے۔ ہم سب اُن کے آبھاری ہیں۔ 10؎

افسانے کا اختتام بتاتا ہے کہ بہ ایں ہمہ شورا شوری اپنے رہ نماؤں اور  حاکموں کی وجہ سے ہم جہاں پہنچے ہیں وہ جگہ nowhereہے اور  ہمارے دانش ور اور  مذہبی رہنما بھی ہماری منزل کا پتہ دینے میں ناکام رہے ہیں۔

اُس کے اسلوب کی تازہ کاری اُس کی کہانی ’بائیں پسلی‘ میں بھی نمایاں ہے، بلکہ اُس کی پست و بلند ہر طرح کی کہانیوں میں بھی تازگیِ اسلوب کی جھلکیاں دیکھی جا سکتی ہے، مثلاً: اُس کی ایک کہانی ’کٹی ہوئی ناک‘ کی بے بی جوان ہو گئی اور  پھر ایک دن گھر سے غائب ہو گئی، پھر:

٭ ’’پھر کئی پڑوسی زخم پر نمک چھڑکنے آ گئے۔

’’بے بی آ گئی کیا؟‘‘۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ’’بے بی ابھی تک نہیں آئی؟‘‘

اُن کے ہاتھوں میں سفید پِسے ہوئے نمک کے پیکٹ تھے۔ وہ زخم پر نمک چھڑکتے۔ ڈرامائی انداز میں تعجب کا اظہار کرتے اور  چلے جاتے۔

٭ ’’وہ مندر میں بھگوان کے سامنے کھڑی ہے۔ مندر میں بھگوان نے اپنا ڈمی چھوڑا ہوا ہے اور  خود نجانے کہاں غائب ہو چکا ہے۔ ‘‘ (گھوڑ سوار)

کہیں کہیں م۔ ناگ کی سہل انگاری بات بگاڑ بھی دیتی ہے۔ مثلاً انوکھے پن کی تلاش میں اُس نے ایک عجیب سی کہانی لکھی ’چاند میرے آ جا۔ ‘ جس میں یورینس والے زمین والوں سے چاند مانگ رہے ہیں۔ شاید اس میں اُن کے لیے کوئی خاص بات ہے۔ تبادلے میں وہ زمین کو دو چاند پیش کر رہے ہیں کیونکہیورینس کے پاس پندرہ چاند ہیں۔ ایسے ماحول میں دھرتی پر ڈاکٹر ارشد اور  رضیہ  کی جوان بیٹی نازو گُم ہو جاتی ہے۔ ڈاکٹر ارشد، رضیہ  کو دلاسا دیتا ہے کہ وہ فکر نہ کرے۔ کائنات گلوبل وِلیج بن گئی ہے اور  وہ اُسے جلد ہی تلاش کر لیں گے۔ ایسے اڈوانس دور میں جب کہ ٹی وی پر بریکنگ نیوز میں چاند کے چوری ہونے کی خبر دی جا رہی ہے، رضیہ  کا بیٹی کی جدائی میں اپنے شوہر سے روایتی انداز سے  یہ  کہنا کہ ’’۔ ۔ ۔ ۔ مگر ہم سماج کا کس طرح سامنا کریں گے۔ میرے لیے تو یہ اس دھماکے سے بھی بڑا ہے جو تخلیقِ کائنات کے وقت ہوا تھا۔ ‘‘ افسانے کی فضا کو عرش سے اُٹھا کر فرش پر دے مارتا ہے۔

م۔ ناگ کی کہانیوں کے تین مجموعے جو شائع ہو چکے ہیں، یوں ہیں : (1) ’ڈاکو طے کریں گے ‘ (1990ء) (2) ’ غلط پتہ ‘2009ء اور  (3)’ چوتھی سیٹ کا مسافر ‘(2015ء)۔ ان کی مجموعی ضخامت بھی تین سوصفحات سے زیادہ نہیں ہے۔ ناگ نے اپنی کہانیوں کا سارا خام مواد بھی ممبئی یا سلمبئی سے حاصل کیا ہے اور  اُن کے کردار بھی۔ مثلاً لوکل ٹرین، دیونار ڈمپنگ گراؤنڈ، دھاراوی، کچرا اُلٹنے پلٹنے والے کالے کلوٹے مرد، عورتیں اور  بچے، آفسوں کی میکانکی زندگی، بس اسٹاپ۔ ۔ ۔ انتظار میں بیٹھی ہوئی لڑکی، جھونپڑپٹی، غنڈے، چال کے کمرے اور  فلیٹ کی خلیج، شہر کی مادّیت اور  میکانیکیت کے مارے ازدواجی رشتوں کی یبوسیت، شادی کی منتظر ڈھلتی جوانیاں، استحصالِ زن، ریپ، کسبیت، اسٹاکر (Stalker)، ٹریڈ یونین اور  اردو اخبار کا دفتر وغیرہ۔

خاص بات  یہ  ہے کہ اس کی مٹھی بھر تخلیقی کائنات کی تقریباً ہر دوسری کہانی میں سیکس کا موضوع در آیا ہے۔ اس کے معاصرین میں سیکس پر سب سے انتہا پسندانہ اظہار بھی اسی کے یہاں ملتا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ اُس کا قلم کہیں با مراد رہا تو کہیں نامُراد۔

اِس نوعیت کی کہانیوں میں اس نے مرد و زن کے شہوانی رشتوں کی ڈھکی ہوئی سچائیاں اس انداز سے سامنے لانے کی کوشش کی ہے کہ اس کے اسلوب کی سفّاکی قارئین کو اکثر ذہنی دھچکوں سے دو چار کر دیتی ہے۔ reality showsکے سچ کو دیکھنے کی طرح اِن کہانیوں کا مطالعہ بھی ہمیں  یہ  سوچنے پر مجبور کر دیتا ہے کہ جھوٹ ہماری زندگی کے لیے کتنا ضروری ہے۔ اس کے ساتھ ہی یہ  کہنا بھی ضروری ہے کہ اُس کی اکثر کہانیاں اپنے کرداروں کے نفسیاتی مطالعے سے محروم ہیں اور  وہ محض اپنے چونکا دینے والے ٹریٹمینٹ کی وجہ سے یاد رہ جاتی ہیں، مثلاً:

٭جنسی بھیڑیوں سے بچ کر بھاگنے والی ایک لڑکی ایک گھر میں گھس کر پناہ لیتی ہے۔ وہ اُن متعدد بدمعاشوں کے ذریعے جنسی استحصال سے بچنے کے لیے بہ مجبوری یہ  گوارا کر لیتی ہے کہ اُس کمرے کے تنہا مکین مرد کی ہوس کا تقاضا پورا کر دے۔ اس ساری واردات میں وہ اس بات کو غنیمت سمجھتی ہے کہ باہر کے لوگ، اُن بدمعاشوں سے اُس کا اپنی آبرو بچا لینا باور کر لیں گے۔ اس لڑکی کا اطمینانِ خاطر اِس بات پر ٹِکا ہے کہ دروازہ تو بند ہے۔ (دروازہ)

٭لڑکیوں کے عنفوانِ شباب کے حریفانہ جذبات کو ناگ نے اپنے مخصوص رنگ میں ایک کہانی میں یوں پیش کیا ہے کہ جب کچھ اغوا کار ایک گھر سے سویٹی کو لے جانے کی تیاری کر رہے تھے تو اُسی وقت اُس کی بڑی بہن پنکی غسل خانے سے نہا کر بدن پر تول یہ  لپیٹے باہر آ گئی۔ اغوا کاروں نے اُسے لے جانا پسند کیا اور  سویٹی کو چھوڑ گئے۔ پنکی لُٹ لُٹا کر لوٹی تو اُس نے سویٹی کو یوں تسلی دینے کی کوشش کی کہ چلو اُس کی عزت تو بچ گئی۔ لیکن وہ سویٹی کا  یہ  جواب سن کر ششدر رہ جاتی ہے کہ ’۔ ۔ ۔ تم ہر بات میں میرے آڑے کیوں آ جاتی ہو۔ تم نے مجھے بچایا نہیں بلکہ اپنے آپ کو پیش کیا ہے۔ ‘ ( ایک تھی سویٹی، ایک تھی پنکی)

٭اپنے ازدواجی / شہوانی عمل میں ’شہد‘ کا خواہاں ساگر اپنی بیوی کے جسم میں مِس پریرا کی گداز ٹانگوں اور  مِس جنیجا کی سڈول چھاتیوں کو ملا کر بنی ہوئی عورت پانا چاہتا ہے مگر اُسے حاصل ہوتی ہے ’کڑوی کسیلی کونین‘۔ (رائے گر مورٹس)

٭جوانی کے مچلتے ہوئے جذبات سے مغلوب ایک بیٹی کے ماں باپ کی آنکھوں میں اُس کے لیے ایک قابل اور ’گھوڑ سوار دولھے ‘ کا خواب بسا ہوا ہے اور  اُنھوں نے اپنی اس بیٹی کو جو کماؤ بھی ہے، نامناسب اُمیدوار’ بھیڑیوں ‘سے ڈرا کر انتظار کی دہلیز پر لٹکا رکھا ہے۔ لڑکی کے لیے جب یہ انتظار ناقابلِ برداشت ہو جاتا ہے تو وہ ’گھوڑ سوار دولھے ‘ کو بھول کر خود کو ’بھیڑیوں ‘ کے سپرد کر دینے کا ارادہ کر لیتی ہے، اور  یہ  سوچ کر کہیں وہ اپنے والدین کے لیے سونے کا انڈا دینے والی مرغی بن کر تو نہیں رہ گئی، کہتی ہے : ’کاٹ لو ایک ہی دفعہ، نکال لو سارے انڈے۔ ‘ (گھوڑ سوار)

٭ ایک ماں اپنی بیٹی کے پرس میں رکھے ہوئے کنڈوم دیکھ لیتی ہے۔ بات تو چنتا کی تھی، لیکن وہ اپنے دل کو یوں سمجھا لیتی ہے کہ ’محفوظ سیکس کرتی ہے۔ ‘ (محفوظ سیکس)

ناگ ’نے ’گریبان میں جھانکنا‘ اور  ’بغلیں جھانکنا‘ جیسے عام محاوروں پر چسپاں افسانچوں کو بھی سیکس کے تڑکے کے ساتھ پیش کیا ہے۔ جنسی علامتوں کے لیے ’سگریٹ‘، ’ایش ٹرے ‘ اور ’ بڑا بڑاسامان‘ جیسے لفظوں کا استعمال بتاتا ہے کہ کلفتِ زمانہ نے اس کے جمالیاتی ذوق کو بھی ٹھس کر دیا تھا۔ اس باب (سیکس) میں اس کے ناقابلِ تذکرہ اور  بے ہودہ افسانوں کی تعداد بھی زیاد ہے، مثلاً ’حسبِ معمول‘، ’آدم اور  حوّا‘، ’لکڑ بگھا‘ اور ’جون‘ وغیرہ۔ سیکس کے موضوع پر اُس کے ذہنی رویے کا کھل کر اظہار اُس کے محرمات سے مباشرت (incest) کے تعلق سے لکھے ایک افسانے ’تیرتھ‘ میں ہوا ہے۔ افسانے کی مرکزی کردار ایک عورت ہے جس نے اپنے شوہر کے ’مدن ‘نامی سب سے کم عمر دوست سے جسمانی تعلق بنا رکھا ہے اور  اُس کے شوہر نے مدن کی ماں سے۔ ایک دن مدن اس سے جھلّا کر پوچھتا ہے کہ آخر اُن کا  یہ  جسمانی رشتہ سماج کی کس اکائی میں آتا ہے ؟ ‘ عورت پلٹ کر جواب دیتی ہے کہ جس اکائی میں اُس کے شوہر اور  مدن کی ماں کا جسمانی رشتہ آتا ہے اور  پھر گویا مصنّف اُس عورت کی زبان سے اپنے جنسی نظریے کا اظہار کرتا نظر آتا ہے :

’’کیا تم سمجھتے ہو کہ تمھاری ماں ایسا نہیں کر سکتی! میرے بچے سمجھتے ہیں کہ اُن کی ماں ایسا نہیں کر سکتی۔ تمھاری ماں سمجھتی ہو گی کہ تم ایسا نہیں کر سکتے۔ میں سمجھتی ہوں کہ میرا شوہر ایسا نہیں کر سکتا۔ میرا شوہر سمجھتا ہے کہ اس کی بیوی یعنی میَں ایسا نہیں کر سکتی، لیکن ہم سب ایساکر رہے ہیں۔ میں پوچھتی ہوں  یہ  سب سماج کی کس اکائی میں فٹ بیٹھتا ہے۔ جسموں کو بھوگنے کے لیے کسی رشتے کی ضرورت نہیں ہوتی مدن۔ ضرورت ہوتی ہے مخصوص حالات اور ایک دوسرے کی مرضی کی۔ میں نہیں چاہتی کہ ہمارے تعلقات کسی نام کے محتاج رہیں۔ جہاں دو افراد کے درمیان رونما ہونے والے کام میں مرضی کا دخل نہیں ہے، وہیں گناہ سرزد ہوتا ہے۔ (تیرتھ)

یہ افسانہم۔ ناگ کی 2009ء میں آئی کتاب ’غلط پتہ‘ میں شامل ہے۔ اتفاق تو دیکھیے کہ 2016ء میں ریلیز ہوئی بالی وڈ کی فلم ’پنک‘ میں گو کہ incestکا پہلو نہیں ہے پر  یہی مرکزی خیال پیش کیا گیا ہے کہ زن و مرد کے تعلقات میں فریقین کی مرضی کا ہونا لازمی ہے اور  جہاں مرضی کا دخل نہیں، وہیں جرم سرزد ہوتا ہے۔ فلمی مبصروں اور  نقادوں نے مجموعی طور پر اس فلم اور  اس کے مرکزی خیال کوسراہا ہے۔

کہا جا سکتا ہے کہ طویل افسانے کی دنیا میں ماحول سازی، جزئیات نگاری، کرداروں کی تشکیل اور ان کے احساسات کی ترجمانی کے جو تقاضے ہیں، ناگ کی اختصار پسندی اور  عجلت نگاری ویسی دقّتِ نظری اور  ریاضت کی متحمل نہیں ہو سکتی تھی یا دوسرے لفظوں میں کمند کوتاہ، بازوئے سست و بامِ بلند کا سا معاملہ تھا، اس لیے مختصر افسانے کا میدان منتخب کر کے اس نے ایک صحیح فیصلہ کیا تھا۔ اگر چہ ناگ کے ’ بلّی‘، ’بگ بینگ‘ اور ’ غولِ بیابانی‘ جیسے کئی افسانے ابہام کا شکار ہو گئے ہیں، لیکن اس نے مشق مسلسل سے اس صنف پر دسترس حاصل کی، مختصر فقروں میں وقوعے سمیٹے اور  اپنے طنز کے حربے سے ان میں جان ڈال دی۔ اس کا اسلوب اس کی شخصیت کی طرح کسی بھی ایچ پیچ سے خالی اتنا سادہ، کھرا، اور  بے ساختہ ہے کہ بے اختیار شمیم عبّاس کا  یہ  شعر یاد آ جاتا ہے۔

جو جی میں آیا، وہی من و عن ہے کاغذ پر

نہ سوچا سمجھا سا کچھ اور  نہ اہتمامی ہے

بہر حال اپنے اسلوب کی اِسی بے تکلفی اور  طنز کی پُر اثری کی وجہ سے وہ مختصر افسانہ نگاری کا ایک معروف نام بن گیا۔ آخری دنوں میں وہ اپنے غیر مدوّن افسانوں کا مجموعہ ترتیب دے رہا تھا، جس کا نام اس نے ’پھٹی ہوئی کتاب‘ رکھا تھا۔ یہ  نام بھی اس کی سابقہ کتابوں کی طرح اس کی جدّت پسندی کا مظہر ہے۔ ممکن ہے کہ اس کتاب کی اشاعت کے بعد اس کی افسانہ نگاری کے بارے میں زیادہ بہتر رائے قائم کی جا سکے۔

راقمِ تحریر پچھلے پچیس برسوں سےم ناگ کی صحافتی و ادبی کار گزاریوں کا دور سے شاہد رہا ہے، پر ذاتی اعتبار سے پچھلے پانچ چھے برسوں میں ہوئی سات آٹھ ملاقاتوں نے ایک محدود سا ربط بھی پیدا کر دیا تھا۔ وہ جب بھی ملا، ستم زدۂ روز گار بنا زبانِ حال سے  یہ  فریاد کرتا نظر آیا کہ ع خاک ہو کر بھی رہے ہم تو ہوا تیز رہی!گذشتہ برس ’نیا ورق فاؤنڈیشن‘ اور  ’مہاراشٹر اردو رائٹرس گلڈ‘ نے میرا روڈ (ممبئی) میں م۔ ناگ کے اعزاز میں ایک شام منائی تھی۔ م۔ ناگ نے مجھ سے درخواست کی تھی کہ اُس موقع پر اگر مَیں اُس کے فن پر کچھ اظہار خیال کر دوں تو وہ ممنون ہو گا۔ اُن دونوں سہ ماہی ’نیا ورق ‘میں اس کی افسانوی خودنوشت ’دکھی من میرے ‘ کی دو قسطیں آ چکی تھیں۔ راقم نے اُس خودنوشت پر اظہارِ خیال کی ہامی بھری تھی تو وہ بہت خوش ہوا تھا۔ بہرحال اُس تقریب کی شام، شیام تن م۔ ناگ، گہرے نیلے سوٹ پر شوخ رنگ کی ٹائی لٹکائے، نوشہ بن کر اسٹیج پر آیا تو ناگ کے زہریلے رنگ کے ذوقِ انتخاب پر یار دوستوں نے خوب ہنسی مذاق کیا تھا اور  اُس نے اپنی آرائشِ لباس میں سے کسی چیز کے کرایے پر لانے کا لطیفہ سنا کر اُنھیں مزید محظوظ ہونے کا موقع فراہم کر دیا تھا۔ تو ایسا تھا، م۔ ناگ۔

٭٭

 

مصادر

________________________

 

1، 2:ص:152، افسانوی خود نوشت ’دُکھی من میرے ‘، پہلی قسط، ’نیا ورق‘، (ممبئی) اکتوبر2014 تا مارچ2015

3:ص:153

4:ص:159

5:ص:166،  دوسری قسط،  اپریل تا ستمبر 2015

6:ص:762، حیاتِ شبلی، (مولفۂ مولانا سیّد سلیمان ندوی)، طبعِ ثانی، 1970، دارالمصنّفین(مولانا شبلی طبعاً خلوت پسند تھے جب کہ ندوہ میں انھیں احباب اور  ملاقاتی گھیرے رہتے تھے۔ وہ سیرت النبی کا کام سکون سے کرنے کے لیے بمبئی چلے آتے تھے اور  جانتے تھے کہ یہاں کے کاروباری ذہن کے لوگ ان کے کام میں مخل نہیں ہوں گے۔ متذکرہ قول کے راوی اُن کے اسسٹنٹ مولوی عبدالسلام ندوی ہیں۔ )

7:ص:181، افسانوی خود نوشت ’دُکھی من میرے ‘، تیسری قسط، ’نیا ورق‘، (ممبئی)، اکتوبر تا دسمبر2015

8:ص:184

9:ص:55، افسانہ، ’زراف‘ مشمولہ ’ڈاکو طے کریں گے ‘

10:ص:39 تا43، افسانہ’ڈاکو طے کریں گے ‘ مشمولہ ’ڈاکو طے کریں گے ‘۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے