’’ لفظوں کا لہو‘‘ میں لت پت معاشرہ ۔۔۔ غلام نبی کمار

 

اکیسویں صدی کو اگر اردو ناول کی صدی کہیں تو کوئی حرج نہیں ہے۔ جہاں ایک طرف مسلسل فکشن کی خدمت کرنے والے اپنے ناولوں سے اردو ادب کا دامن وسیع کر رہے ہیں، وہیں نئے قلم کار بھی فکشن کے میدان میں طبع آزمائی میں کسی سے پیچھے نہیں ہے۔ ایک دم نئے لکھنے والوں میں سلمان عبدالصمد کا نام بھی اس فہرست میں شامل ہو گیا ہے۔ جن کا ناول ’’ لفظوں کا لہو ‘‘ حال ہی میں ہی منظر عام پر آیا اور یکا یک ادب اور خاص کر صنفِ ناول کے ساتھ شغف رکھنے والوں کی نظروں میں منفرد مقام بنا لیا۔ اب اس ناول کا دوسرا ایڈیشن بھی جلد ہی قارئین کی تشنگی کو ختم کرنے کے لئے منظرِ عام پر آ رہا ہے۔

سلمان عبدالصمد ابھی تک اردو دنیا میں گاہِ گاہِ تنقیدی اور صحافتی مضامین اور مختصر افسانوی تحریروں کے ساتھ نظر آتے تھے۔ لیکن اب ناول میں طبع آزمائی کر کے انھوں نے ناول نگاروں کی صف میں بھی اپنی ایک مستحکم اور منفرد شناخت قائم کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ ان کی تحریریں معانی و مفاہیم، فنی و فکری، قوتِ فہم اور قوتِ ادراکیہ، ہمہ گیری اور وسعت، جوش اور جذبہ، حوصلے اور امنگوں کی سطح پر ادب کے خمیر سے گوندھی ہوئی نظر آتی ہیں۔ ’’ لفظوں کا لہو ‘‘ میں لسانی اور موضوعاتی سطح پر جدت نظر آتی ہے۔ یہ ناول ۲۰۱۶ء میں مطبع دائمی پرواز ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر سوسائٹی، لکھنؤ سے شائع ہوا۔ جو ۲۲۴ صفحات پر مشتمل ہے جس کو ناول نگار نے تین حصوں اور ۲۶ ابواب میں منقسم ہے۔ ان کا ناول سماج کے ایسے بے شمار مسائل کو اجاگر کرنے اور سامنے لانے میں کامیاب ہوا ہے جن سے آج کا قاری یا تو بے خبر ہے یا جان بوجھ کر غفلت شعار بننے کی کوشش کر رہا ہے۔ ابھی تک کوئی بھی ایسا ناول پڑھنے کو نہیں ملا جس میں صحافت کو موضوعِ خاص بنایا گیا ہو۔ اس وجہ سے بھی یہ ایک انوکھا اور منفرد قسم کا ناول ہے۔

محسن، نائلہ، زنیرا اور نائلہ اس ناول کے متحرک کردار ہیں جو کہ پورے ناول پر چھائے ہوئے ہیں لیکن نائلہ کو اس ناول کا مرکزی کردار قرار دینے میں کوئی شبہ نہیں۔ ان کے علاوہ ناول کے دیگر کرداروں میں حنیف، اطہر، داؤد، کہکشاں، حلیم، شبلی، عبید حیات، اکمل خان، انل رستو گی، پنڈی جی، نورشیہ ملہوترا، رگھو بیر، نیر، چسکا کمار، مزہ شریف، چوبے کمار، لکھن دادا، ڈاکٹر پی این پانڈے، گل افشاں، شفقت، زینت، اسلم، ناہیدہ، وقاص، وغیرہ بھی اس ناول کے پلاٹ کو آگے بڑھانے میں معاون ہیں۔ شہرۂ آفاق ناول نگار مرحوم پیغام آفاقی نے اس ناول کے بارے میں لکھا:

’’ناول میں تم نے کرداروں کی ذہنی دنیا کو مرکز بنایا ہے اور باہری دنیا کو سامان بیان، یہ اس کی خوبی ہے۔ تمہارا ناول شروع کرتے ہوئے اتنا سمجھ گیا تھا کہ تم ناول کے حسن اور تقاضوں کو سمجھتے ہو۔ اس ناول میں روح اور اس کی اپنی شخصیت ہے۔ ’اہل ایمان‘ کی طرح نہیں تو کیا ہوا کافر ہی سہی۔ ‘‘

مذکورہ بالا اقتباس میں پیغام آفاقی نے ناول کی کردار نگاری اور ناول میں برتے گئے فنی حسن کے التزام میں ناول نگار کے فنی جوہر کی بھرپور ستائش کی ہے۔ ’’ اہلِ ایمان کی طرح نہیں تو کیا ہوا کافر ہی سی‘‘ کا جملہ ناول اور ناول نگار کے مصداق ہے۔

اکیسویں صدی کے بہت سے ناولوں میں عورت کی ذات اور شخصیت کو لے کر مختلف مسائل اجاگر کیے گئے ہیں۔ مذکورہ ناول میں بھی اس کی منفرد انداز میں پاسداری کی گئی ہے۔ ناول ’’ لفظوں کا لہو ‘‘ میں سوتن کے رشتے پر جس قدر روشنی ڈالی گئی ہے کہ شاید ہی اردو کا کوئی دوسرا ناول اس ناول کی ہمسری کر سکے۔ ناول نگار کا کمال یہ ہے کہ عام قاری بھی رشتوں کے جذباتی سمند میں غرق ہوئے بغیر نہیں بچ سکتا۔ انسانی زندگی میں رشتوں کے اس بنتے بگڑتے کھیل میں قرب کیسے پیدا کیا جا سکتا ہے اور قرابت داری کو استحکام کیسے بخشا جا سکتا ہے۔ ناول کے مطالعہ سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

اس ناول میں ایک قابلِ ذکر نکتے کی طرف ہماری توجہ مبذول کروائی گئی ہے وہ یہ کہ ایک مرد کو پابندِ شریعت ہونا چاہئے۔ وہ ان معنوں میں کہ ایک مرد کو زیادہ مدت تک اپنی شریکِ حیات سے دور نہیں رہنا چاہئے۔ جس کی اسلام میں بھی مُمانعت کی گئی ہے۔ ’’ لفظوں کے لہو ‘‘ میں محسن کافی عرصے تک اپنی بیویوں سے دور رہتا ہے۔ جس کا اثر پڑنا واجبی ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نائلہ ڈاکٹر رستو گی کی قربت میں جنسی لطف کی مہک محسوس کرتی ہے۔ اس لئے ایک مرد کو خلافِ شریعت کام سے پرہیز کرنا چاہئے۔ اس ناول کی مرکزی کردار اگرچہ نائلہ ہے وہ ہر کام میں جلد بازی نہیں کرتی اور صبر و استقلال سے کام لیتی ہے لیکن اس کے بجائے نیلا کو متحرک، با ہمت اور باز پرس کے کردار میں پیش کیا گیا ہے وہ گناہ گار کے گناہ کو دبانا گوارا نہیں کرتی بلکہ مقررہ وقت پر ہی اس کی پول کھول کر سرِ عام ننگا کرنے کا تقاضا کرتی ہے۔ آج کی سوسائٹی میں عورت کو نیلا کی طرح نڈر، جری اور بیباک و بے خوف ہو کر اپنے حق اور عزت کی حفاظت کرنی چاہئے۔ ’’ لفظوں کے لہو ‘‘ میں ناول نگار کا یہ بھی خاص مدعا ہے۔

سلمان عبد الصمد نے کرداروں کو جس طرح پیش کیا ہے،ا س سے دو سطح پر معانی و مفاہیم اخذ کیے جا سکتے ہیں۔ عمومی طور پر فقط صحافت کا منظرنامہ ہوتا ہے، تاہم کرداروں کی ذہنی دنیا پر نظر رکھنے سے مختلف معانی و مفاہیم کا اندازہ ہوتا ہے۔ اس لیے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ بیانیہ کی سطح پر صحافتی بھول بھلیوں میں ناول گردش کرتا ہے، تاہم گہری نظر سے دیکھنے کے بعد پتا چلتا ہے کہ صحافت کے پردہ میں ناول نگار نے زندگی کا فلسفہ پیش کیا ہے۔ ان کے فلسفیانہ اساس میں جو نشتر ہے، اس سے نہ صرف ان کا ناول دلکشی سے ہمکنار ہوتا ہے، بلکہ معاشرہ کو انسانی زندگی کو ایک تھیوری بھی مل جاتی ہے۔ نائلہ کے کردار میں سلمان عبد الصمد نے یوں تو مکمل طور پر صحافی کا رنگ بکھیرنے کی کوشش کی ہے، تاہم پورے ناول میں کہیں بھی صحافتی سرگرمی میں نیلا سرگرم عمل نظر نہیں آتی ہے، جس سے محسوس ہوتا ہے کہ ایک صحافی نہ صرف اپنے قلم کے ذریعہ لوگوں کے ذہنوں کو تبدیل کر سکتا ہے بلکہ اس کی حکمت عملی بھی معاشرہ کی تبدیلی میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے، جیساکہ نائلہ نے باضابطہ صحافت سے نہ جڑ کر بھی معاشرہ کی تبدیلی کی وہ کہانی سنائی، جو فلسفہ کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔

کردار نگاری میں سلمان عبد الصمد نے اپنے فنی وصف کا اعلیٰ نمونہ پیش کیا ہے۔ ناول کا ہر کردار اپنا رول ادا کر کے ناول کی کامیابی کا ضامن بنا ہے۔ کچھ کردار ایسے ہیں جنہوں نے چھوٹے موٹے رول کے باوجود ناول میں اپنا رنگ بھر دیا ہے اور کچھ کردار ایسے کہ ناول کی جاودانی کا سبب بننے کے لئے کافی ہیں۔ مکالمہ نگاری میں موصوف کا کمال نہیں۔ انھوں نے مکالمہ نگاری میں جو جاذبیت پیدا کر دی ہے وہ انہی کے فن کا خاصہ ہے۔ محسن اور نائلہ کے درمیان، نائلہ اور زنیرا کے درمیان، نائلہ اور نیلا کے درمیان وغیرہ کی مکالمہ نگاری مؤثر کن ہے۔ منظر نگاری بے حد دلکش اور پُر فریب ہے۔ ہر واقعے کی منظر کشی بڑی خوبی سے کی گئی ہے۔ ناول ’’ لفظوں کے لہو ‘‘ سے ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیے :

’’ بے رحمی کی لے پر تھرکنے والی ہوا آج صبح سے ہی سنسنا رہی تھی۔ نائلہ کے گھر کے سامنے مسجد اور پیچھے تا حدِ نگاہ کھیتوں میں گیہوں کی تیار فصل لگی ہوئی تھی۔ جب تنے میں بالیاں نہیں آئی تھیں تو کھڑکیوں سے پیچھے دیکھنے کے بعد آنکھوں میں سرور آتا تھا۔ فطری جذبات بھڑک اٹھتے تھے۔ دور تک پھیلی ہریالیوں میں حسین مناظر کا بسیرا ہوتا تھا۔ ‘‘

متذکرہ بالا پیرا کے علاوہ کئی اقتباس پیش کیے جا سکتے ہیں جس سے ناول میں برتی گئی منظر کشی کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ اس ناول کو جذبات نگاری کے پیمانے پر دیکھیں یا جزئیات نگاری کے سانچے میں ڈھال کر آنکے، ہر سطح اور ہر اعتبار سے یہ ناول کھرا اُترتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس ناول کا بیانیہ بھی ہمیں اثر انداز کرتا  ہے۔ چھوٹے چھوٹے جملوں کو پڑھ کر داد دینے کو جی چاہتا ہے۔ جملوں میں ناول نگار نے اپنی ادراکی قوت اور تخلیقی حسن سے چاشنی بھر دی ہے۔ ناول میں استعمال میں لائی گئی زبان صاف، شستہ، سلیس، برجستہ، رواں اور مانوس ہے۔ لب و لہجہ ان کا اپنا انفرادی ہے۔ الغرض ناول ’’ لفظوں کے لہو ‘‘ میں بالکل آج کے معاشرے میں پنپ رہے مسائل کو ناول نگار نے تخلیقی وجدانی کا روپ عطا کیا ہے۔ جیسا کہ مذکور ہوا ہے کہ اس ناول کا بنیادی موضوع صحافت ہے اور صحافت کے در پردہ کئی مسائل بھی اس میں جگہ پا گئے ہیں۔ صحافت کے پیشے کا حق نہ ادا کرنے، عوام کے توقعات پر نہ کھرا اُترنے اور صحافیانہ خصوصیات اپنے اندر پیدا کرنے وغیرہ سے متعلق اس ناول میں خوب دلیلیں ملتی ہیں، تاکہ اردو صحافت کو جواں و توانا، مضبوط اور مستحکم کیا جا سکے۔ جمہوری اقدار کی جڑیں کمزور ہو رہی ہے، رشتوں میں دراریں پیدا ہو رہی ہیں اور اپنائیت کا احساس مٹتا جا رہا ہے وغیرہ۔ ناول ’’ لفظوں کا لہو ‘‘ کو ایسے کئی موضوعات سے مزین کیا گیا ہے۔

٭٭٭

One thought on “’’ لفظوں کا لہو‘‘ میں لت پت معاشرہ ۔۔۔ غلام نبی کمار

  • مخمصے میں ہوں کہ پہلی مبارکباد مبصر غلام نبی کمارکو پیش کروں یا ناول کے مصنف سلمان عبدالصمد صاحب کو۔۔میں خود صحافی ہوں اس لیے اپنے پیشے کی باریکیاں اور مسائل اچھی طرح جانتا ہوں ،اس پر غلام نبی کمار صاحب نے جس انداز میں ناول کے کرداروں کا تعارف کریاہے،دل چاہ رہا ہے کہ اسے پہلی فرصت میں پڑھ لوں ۔۔۔۔ اور میں یہ جانتا ہوں کہ جذبے صادق ہوں تو خواہشیں پوری ہوتے وقت نہیں لگتا۔
    عمران پاشا
    مدیر ماہ نامہ نمودِحرف لاہور

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے