غزل ۔۔۔ جمیل الرحمٰن

 

شاعری واعری نہیں کرتے

ہم یہ دھندا کبھی نہیں کرتے

 

گم شدہ آسماں کہاں ہے تُو

خواب کیوں مخبری نہیں کرتے

 

نام کرنے کی آرزو کیا ہو

جب کوئی کام ہی نہیں کرتے

 

خاک افتادگان کے آنسو

کیا کہیں روشنی نہیں کرتے

 

سب سے کرتے ہیں دل لگی لیکن

درد سے دل لگی نہیں کرتے

 

گفتگو بھی بھلی نہیں لگتی

بات بھی آخری نہیں کرتے

 

ایسی راحت ہے بے حسی میں جمیل

چوٹ لگتی ہے سی نہیں کرتے

٭٭٭

 

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے