غزلیں۔ ۔ ۔ ظہیر احمد ظہیرؔ

سفر حضر کی علامتیں ہیں، یا استعارہ ہے قافلوں کا

یہ شاعری تو نہیں ہماری، یہ روزنامہ ہے ہجرتوں کا

 

یہ رُوپ سورج کی دھوپ جیسا، یہ رنگ پھولوں کی آنچ والا

یہ سارے منظر ہیں بس اضافی، یہ سب تماشہ ہے زاویوں کا

 

ہر ایک اپنی انا کو تانے دُکھوں کی بارش میں چل رہا ہے

دیارِ ہجرت کے راستوں پر عجیب موسم ہے چھتریوں کا

 

ہر اک شباہت میں اپنا چہرہ دکھائی دیتا ہے عکس درعکس

خود آشنائی کی حد سے آگے عجب علاقہ ہے آئنوں کا

 

بس اب ضرورت کی وادیوں میں قیام جیسی مسافرت ہے

چلے تھے ہم جب ظہیر گھر سے تو اک ارادہ تھا پربتوں کا

٭٭٭

 

 

 

 

کچھ دیر کو رسوائیِ  جذبات تو ہو گی

محفل میں سہی اُن سے ملاقات تو ہو گی

 

بس میں نہیں اک دستِ پذیرائی گر اُس کے

آنکھوں میں شناسائی کی سوغات تو ہو گی

 

سوچا بھی نہ تھا خود کو تمہیں دے نہ سکوں گا

سمجھا تھا مرے بس میں مری ذات تو ہو گی

 

ہر حال میں ہنسنے کا ہنر پاس تھا جن کے

وہ رونے لگے ہیں تو کوئی بات تو ہو گی

 

میں پوچھ ہی لوں گا کہ ملا کیا تمہیں کھو کر

اک روز کہیں خود سے مری بات تو ہو گی

 

اِس بازئ مابینِ غمِ وصلت و ہجراں

جس مات سے ڈرتے ہو وہی مات تو ہو گی

 

اِس آس پہ دن شہرِ  ضرورت کو دیا ہے

اُجرت میں ترے ساتھ مری رات تو ہو گی

 

ہو جاؤں خفا میں تو منانے کوئی آئے

اے دوستو اتنی مری اوقات تو ہو گی

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے