غزلیں۔ ۔ ۔ حمیدہ شاہین

 

کھیل میں کچھ تو گڑ بڑ تھی جو آدھے ہو کر ہارے لوگ

آدھے لوگ نِری مٹی تھے، آدھے چاند ستارے لوگ

 

اُس ترتیب میں کوئی جانی بُوجھی بے ترتیبی تھی

آدھے ایک کنارے پر تھے، آدھے ایک کنارے لوگ

 

اُس کے نظم و ضبط سے باہر ہونا کیسے ممکن تھا

آدھے اس نے ساتھ ملائے، آدھے اس نے مارے لوگ

 

آج ہماری ہار سمجھ میں آنے والی بات نہیں

اُس کے پورے لشکر میں تھے آدھے آج ہمارے لوگ

 

کس کے ساتھ ہماری یک جانی کا منظر بن پاتا

آدھے جان کے دشمن تھے اور  آدھے جان سے پیارے لوگ

 

ان پر خواب ہوا اور  پانی کی تبدیلی لازم ہے

آدھے پھیکے بے رس ہو گئے، آدھے زہر تمہارے لوگ

 

آدھی رات ہوئی تو غم نے چپکے سے در کھول دیے

آدھوں نے تو آنکھ نہ کھولی آدھے آج گزارے لوگ

 

آدھوں آدھ کٹی یک جائی، پھر دوجوں نے بیچوں بیچ

آدھے پاؤں کے نیچے رکھے، آدھے سر سے وارے لوگ

 

ایسا بندو بست ہمارے حق میں کیسا رہنا تھا

ہلکے ہلکے چن کر اس نے آدھے پار اُتارے لوگ

 

کچھ لوگوں پر شیشے کے اُس جانب ہونا واجب تھا

دھار پہ چلتے چلتے ہو گئے آدھے آدھے سارے لوگ

٭٭٭

 

 

 

 

لفظ لَے ہونے کو ہے

راہ طے ہونے کو ہے

 

ملتوی رکھّا ہوا

پے بہ پے ہونے کو ہے

 

جو کبھی ” تھا ” بھی نہ تھا

اب وہ ” ہے ” ہونے کو ہے

 

خُو بدل دی جائے گی

بانس نَے ہونے کو ہے

 

اک تغیّر ہے کہیں

زہر مَے ہونے کو ہے

 

ہر طرف ہے گونج سی

کس کی جَے ہونے کو ہے

 

ایک شے اب کچھ نہیں

ایک شے ہونے کو ہے

 

کیا پکارا جائے گا

کون اَے ہونے کو ہے

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے