سیرِ لکھنؤ ۔۔۔ عبد الرحمن بجنوری

لکھنؤ میں جہاں اور چیزیں قابل دید ہیں، چند تصویریں بھی ہیں۔ تصویریں کیا ہیں گویا شاہان و وزیران اودھ کی تاریخ کے چند اوراق ہیں جو زمانے کے دست برد سے بچ رہے ہیں، یا یوں کہیے کہ اس کارواں کے نقش پا ہیں جو اودھ کی خاک پاک سے آج نصف صدی گذری اپنا کوچ ختم کر کے چلا گیا ہے۔ اور جس نے اس دنیا کو خیر باد کہہ کر اُس سر زمین کو آباد کیا ہے جہاں حیات انسانی ابدی ہے۔

دروازہ کھلا، ہم داخل ہوئے، دس وزیران و شاہان اودھ ایک کمرے میں۔ قانون قدرت کے خلاف ہے کہ سعادت خاں شاہ اول اور واجد علی شاہ آخر ایک دوسرے کے سامنے کھڑے ہوں مگر یہ تو تصویریں ہیں۔ پہلی تصویر سعادت خاں کی ہے جو ہو بہو اورنگ زیب کی تصویر ہے۔ عجب بات ہے دو انسانوں کی شکل ایک مگر زندگی جدا، ایک سے ایک سلطنت شروع ہو دوسرے پر دوسری ختم ہو۔ تصویر میں پشت کی جانب قطب مینار ہے۔ شاید خاندان اودھ اور شاہان دہلی کے تعلقات کی طرف اشارہ ہو۔ کیا عبرت کی بات ہے۔ قطب صاحب کی لاٹ آج تک قائم ہے، سعادت خاں کے خاندان کا چراغ گل ہو گیا۔ نسل انسان کو اتنی بھی بقا نہیں جتنی پتھروں کے ایک باقاعدہ ڈھیر کو۔

آگے بڑھیے۔ یہ نواب منور جنگ کی تصویر ہے، باپ سے مشابہ ہے۔ رنگ ذرا سیاہ ہے شاید مصور کی عنایت ہو۔ خنجر کمر سے کھول دیا ہے، غالباً استحکام سلطنت کی وجہ سے اس کی ضرورت نہ رہی ہو۔ پشت کی طرف چھتر منزل ہے۔ اس منزل کو آپ ہی نے بنوایا تھا مگر یہ خیال نہ آیا ہوگا کہ ایک دن انگریزی کلب میں تبدیل ہو جائے گی۔

بڑے آدمیوں کی تیسری پشت میں اکثر قابل آدمی پیدا ہوتے ہیں۔ لوگ ایسا ہی کہتے ہیں، شاید سچ بھی ہے۔ تیسری تصویر شجاع الدولہ کی ہے۔ شجاعت جس کے نام سے عیاں ہے۔ باپ دادا کی پوشاک کو خیر باد کہہ دی ہے، برجس پہنے، گیٹس چڑھائے، شمشیر بکف کھڑا ہے۔ داڑھی صاف ہے، موچھیں بڑھی ہوئی ہیں، پیشانی پر بل ہیں، آنکھیں غضبناک ہیں، گویا دیکھ رہی ہیں کہ میرا ملک غیروں کے ہاتھ میں ہے۔ لوگ کہتے ہیں بڑا مشہور جنرل ہے مگر مجھے تو سیدھا سادھا سپاہی معلوم ہوتا ہے جو شرابِ حبِ وطن سے مخمور، زرہ میں مستور کھڑا ہے۔ واقعی یہ شخص شیر ہے۔ فرق صرف اس قدر ہے کہ اُس وقت شیر اصلی ہوگا اور اب شیر کی تصویر رہ گیا ہے۔ لکھنؤ میں آج تک جب دکان دار اپنی دکان کھولتا ہے تو آصف الدولہ کا نام لیتا ہے۔ یہ اپنے خاندان کا لکھ داتا ہے اگرچہ کوئی بڑا انجینئر نہیں مگر امام باڑہ آصف الدولہ کے بنوانے کی وجہ سے لکھنؤ کا شاہجہاں مشہور ہے۔ ہم اس کی تصویر کے سامنے کھڑے ہیں۔ بھاری بھرکم آدمی ہے۔ لباس ایک ہندوستانی دولھا کے لباس کے مشابہ ہے اور کیوں نہ ہو لکھنؤ دلھن تھی اور یہ اس کا دولھا۔ پاجامہ ڈھیلا ڈھالا سرخ ریشم کا ہے۔ پاؤں میں گھیتلا ہے جس کو اب مستورات بھی نہیں پہنتیں کیوں کہ اس سے چلنے میں دقت ہوتی ہے۔ سر پر کلغی ہے اور پھبتی بھی ہے۔

دوسری تصویر سعادت علی خان کی ہے۔ وہ طاقت جو باپ کے دل میں تھی بیٹے کے دماغ میں منتقل ہو گئی ہے۔ باپ سخی تھا بیٹا مدبر ہے۔

اب تک جتنے تھے کھڑے تھے۔ سعادت خاں صوبہ قائم کرنے کی فکر میں، بیٹا اپنے باپ کی پیروی میں، شجاع الدولہ اپنی تلوار کے بھروسہ پر، آصف الدولہ دولت دینے اور دعائیں لینے کے لیے، مگر سعادت علی خاں سوچنے کے لیے بیٹھ گیا ہے۔ دوہرے بدن کا آدمی ہے۔ چہرے سے رعب برستا ہے۔ نہایت کم سخن اور سمجھ دار معلوم ہوتا ہے۔ اعضا میں ایک خاص تناسب ہے جو دل کو لبھائے لیتا ہے۔ غرض مکمل انسان ہے۔ حسن ظاہری اور باطنی دونوں موجود ہیں۔ یاد پڑتا ہے کہ میں نے اسی شباہت کی ایک اور تصویر دیکھی ہے۔ ہاں یاد آیا۔ سر سالار جنگ مرحوم سے بہت ملتا ہے۔ دونوں اپنے وقت کے مدبر ہیں اور دونوں کی زندگی ایک گونہ نا کامیابی کی جھلک لیے ہوئے ہے۔ سعادت خاں اور اورنگ زیب کی ایک شکل مگر زندگی میں اختلاف۔ سعادت علی خاں اور سر سالار جنگ کی ایک شکل اور زندگی میں ایک گونہ یگانگت، ایسی باتیں ہیں جو ہم نہیں سمجھ سکتے۔

باپ نے بیٹے کے سر پر تاج رکھ دیا مگر تاج کے آتے ہی شان جاتی رہی۔ غازی الدین حیدر خوبصورت بھی باپ کی طرح ہے، لباس بھی وہی ہے بلکہ شاہی عبا کی زیادتی ہے اور اس پر طرہ یہ کہ طرے کی جگہ تاج ہے۔ پھر اس خیال کے آنے کی کیا وجہ؟ آنکھوں میں تدبیر کی نظر کی بجائے شوق کی نگاہ ہے جو ظاہر کرتی ہے کہ باطن کی آنکھیں بند ہو گئی ہیں۔ خیر آگے بڑھیے۔

نصیر الدین حیدر کی تصویر نے اس خیال کو اور بھی تقویت دی۔ دبلا پتلا آدمی ہے۔ صورت میں باپ دادا سے مختلف، آنکھیں عیاشی کا پتہ دے رہی ہیں۔ چہرے پر ایک خاص نقاہت اور رنگ میں ایک خاص سیاہی ہے جو ثابت کرتی ہے کہ صرف اس کی ہی عیش پرستی نے اس کو اس حالت پر نہیں پہنچایا بلکہ باپ دادا کی عیاشی بھی شامل ہے۔ دنیا بھی عجب جگہ ہے، گناہ کرے کوئی اور پاداش اٹھائے کوئی۔ مگر صرف سمجھ کا پھیر ہے اگر وہ ظاہر کا پردہ جو باطن کو چھپائے ہوئے ہے، اٹھا دیا جائے تو ‘میں’ اور ‘تو’ میں فرق ہی کیا رہ جائے؟ اور جب یہ ہے تو سب کا گناہ اپنا گناہ اور اپنا گناہ سب کا گناہ ہے۔ کیونکہ آخر ہم سب ایک ہی منزل کی طرف تو بڑھ رہے ہیں۔

اگلی تصویر محمد علی شاہ کی ہے۔ یہ غازی الدین حیدر کا بھائی اور سعادت علی خاں کا بیٹا ہے۔ سیاہ فام ہے مگر یہ سیاہی وہ نہیں جو پہلی تصویر میں دیکھی تھی۔ وہ باطن کی ایک جھلک تھی جس کا وہ خود قصور وار تھا، یہ ظاہری ہے جس کی قدرت ذمہ دار ہے۔ مگر قدرت تو غلطی نہیں کرتی۔ آنکھوں کی تیزی گواہی دیتی ہے کہ اپنے گرد و پیش سے خبردار ہے۔ مگر افسوس! وہ آنکھیں جن سے کوئی چیز چھپی نہیں رہتی تھی، موت کو جو قریب ہی گھات میں لگی ہوئی تھی، نہ دیکھ سکیں۔ تخت پر بیٹھنے کے تھوڑے ہی عرصے بعد وہ تخت و تاج جس کے لیے اس قدر انتظار کھینچا تھا، یکایک چھوڑنا پڑا۔ پانچ سال حکومت کر کے تاج و تخت سے رخصت ہوا اور اس آسمانی سلطنت میں داخل ہوا جہاں حکومت ہے اور زوال نہیں، جہاں شجاعت ہے اور جنگ نہیں، جہاں عیش ہے اور گناہ نہیں۔

یہ امجد علی شاہ ہے۔ دیکھتے ہی ہم نے سعادت علی خاں کی تصویر پر مڑ کر نگاہ ڈالی۔ واقعی دادا کی شباہت آتی ہے۔ خاندان اودھ کے چراغ نے بجھنے سے پہلے ایک خاص روشنی دکھلائی تھی جس نے بہت سے دلوں میں امید کی شمع کو روشن کر دیا تھا۔ امجد علی شاہ سے لوگوں کو بہت امیدیں تھیں مگر خاندان اودھ کا انجام قریب آ گیا تھا۔ موت نے اسے بھی مہلت نہ دی۔ محمد علی شاہ تو بوڑھا تھا، اس بے چارے نے کیا قصور کیا تھا؟ مگر موت وقت نہیں دیکھتی۔

اس کے بعد کی تصویر پر پردہ پڑا ہے۔ ہم جانتے ہیں جس کی تصویر ہے، مگر چونکہ ایک باریک حجاب نظر کا مانع ہے کچھ بھی نظر نہیں آتا۔ ہماری آنکھیں جو ایک باریک حجاب سے گذر کر اس چیز کو نہیں دیکھ سکتیں جیسی ہم چاہتے ہیں، کیوں اس راز مخفی کے دریافت کرنے کا شوق رکھتی ہیں جو پردۂ قدرت میں پنہاں ہے؟ یہ سچ ہے مگر چشم باطن کی نگاہ تو خیال سے وسیع اور موجودات سے بالاتر ہے۔

پردہ اٹھا تو ہم نے دیکھا کہ اس تصویر میں اور اَور تصویروں میں ایک خاص فرق ہے۔ یہ تصویر نفاست اور زیبائش میں ان سے کہیں بڑھی ہوئی ہے۔ دریافت پر معلوم ہوا کہ ایک ہندوستانی اور غالباً بنگالی مصور کی بنائی ہوئی ہے۔

یہ واجد علی شاہ کی شبیہ ہے جو عیاشی کی مجسم تصویر تھا۔ کامدار اچکن پہنے ہوئے ہے، سر پر دو کَلیہ مرصع کلغی دار ٹوپی ہے۔ سینے کا کچھ حصہ باہر نظر آ رہا ہے۔ کیسا خوبصورت آدمی ہے، افسوس! اگر اس کا ظاہر و باطن یکساں ہوتا تو کیسا اچھا ہوتا۔ او ظاہر سفید باطن سیاہ! مگر یہ شکایت خاص اس سے کیوں، ہر انسان کا یہی حال ہے۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے