ستیہ پال آنند کی دو نظموں کے تجزیاتی مطالعے ۔۔۔ نصیر احمد ناصر/ لطف الرحمٰن

 

۱۔ ’’سیپیاں‘‘ ۔۔۔ ستیہ پال آنند

________________________________________

 

سیپیاں، شفّا ف، پاکیزہ، عفیفہ

سیپیاں، عزت مآب و پارسا ناکتخدائیں

سیپیں مریم

بہت سی سیپیاں

چاروں طرف لیٹی ہوئی ہیں ریت پر

ساحل کی ہلکی دھوپ میں

پہلو بدلتی، کسمساتی!

 

کسمساتی سیپیاں

کھولے ہوئے رمز و رضائے وصل کے بند قبا

سارے دریچے

جو ابھی تک بند تھے

اب نیم وا ہیں

منتظر ہیں

نیم وا ہیں، منتظر ہیں

خالقِ ارض و سما کی

خاص شفقت کے

کہ جو ابر کرم سے

موتیوں کی بخششیں پیاسی زمیں پر بھیجتا ہے

سیپیاں ساحل کی پیاسی ریت پر

لیٹی ہوئی ان رحمتوں کی منتظر ہیں !

 

رحمتوں کی منتظر ہیں

جن سے شاید جاگ اٹھے

کوئی خوابیدہ کرن تاریکیوں میں

یا ہویدا ہو کوئی موتی منّور

بطن مادر میں کھِلے تخلیق کی پہلی کلی سا

ایک دُرِّ نجف و نذرۃ ؎۱

 

سیپیاں

ناکتخدا، مریم سی پاکیزہ

بہت سی سیپیاں

لیٹی ہوئی ہیں ریت پر!!

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

۰۰۰۰ اصلی عبرانی تلفظ روا رکھا گیا

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

 

مطالعہ ۔۔۔ نصیر احمد ناصر

________________________________________

 

 

Immaculate Conception

________________________________________

 

ستیہ پال آنند کی نظم ’’سیپیاں ‘‘ ایک بالائی یعنی ظاہری سطح پر اور تین زیریں سطحوں پر متحرک ہے اور ہلکی لہروں میں چلتی ہوئی، پہلو بدلتی ہوئی، سیپیوں کی طرح ہی ایک خوبصورت منظر پیش کرتی ہے۔

(۱) بالائی یعنی ظاہری سطح پر لا تعداد ’’شفاف‘‘ سیپیاں ہیں جو ساحل کی ’’پیاسی‘‘ ریت پر جہاں تہاں پڑی ہوئی ہیں۔

(۲) پہلی زیریں سطح پر سیپیاں ساحل سمندر یعنی Beach پر آفتابی غسل Sun bathing میں لیٹی ہوئی ہیں۔ اپنے برہنہ اعضا کی چمک دمک سے آنکھوں کی خیرہ کر دینے والی لڑکیاں ہیں یا نوجوان عورتیں ہیں، ’شفاف‘ سے عیاں ہے کہ یہ شاید گوری نسل سے ہیں۔

(۳) دوسری زیریں سطح پر یہ لڑکیاں، جو ’پاکیزہ ‘۔ ۔ ۔ ’عفیفہ‘ ۔ ۔ ۔ ناکتخدائیں ہیں، رمز و رضائے وصل کے بند قبا کھولے ہوئے، کسمساتی ہوئی، جذباتی یا شہوانی انگیخت کے ظاہری شواہد پیش کرتی ہوئی، کسی حادثے، سانحے یا آنے والے واقعے کی منتظر ہیں۔ اس سطح پر ان کا منظر نامہ ساحل سمندر پر دراز یا نیم دراز عورتوں کی مناسبت سے طبیعی یا جنسی جہت تک ہی محدود رہتا ہے۔

(۴)تیسری زیریں سطح پر یہ تصور عفت آب پارسا سیپیوں کو مریم کے روپ کا حامل بنا دیتا ہے۔ اس سطح پر سیپیاں خالق ارض و سما کی خاص شفقت کی منتظر ہیں جس سے ان کے بطن میں ایک ’’ دُر، نجف و نذرۃ ‘‘کا ظہو رہو اور وہ ’’حمل پاکیزہ‘‘ Immaculate Conception کے عقیدے کے مطابق حاملہ ہو جائیں۔

صرف پانچ بندوں اور تیس سطروں پر مشتمل اس نظم میں ان چار جہتوں کو نبھانا ایک نہایت مشکل امر ہے۔ کوئی اور شاعر شاید ان mutually inclusive ’باہم مشمولہ‘ زاویوں کو بہم دگر جوڑ کر مضبوطی سے پہوست رکھنے میں دقّت محسوس کرتا لیکن ستیہ پال آنند کی دوسری نظموں کی طرح اس میں بھی بیک وقت بقائے باہمی اور ہمہ جہتی سے عبارت Linear Progression (جو بیشتر نظموں کا خاصہ ہے ) کی جگہ پر coexistional ترتیب سے کام لیا ہے اور چاروں جہتیں ہمہ وقت موجود و حاضر رہتی ہیں اور آہستہ آہستہ ایک سے دوسری میں ضم ہوتی چلی جاتی ہیں۔ یہ جہتیں جو بقائے باہمی کی حامل بھی ہیں اور Linear Progression کا ساتھ بھی نہیں چھوڑتیں، کچھ اس طرح ہیں۔ ۔ ۔ ۔

سیپیاں۔ ۔ ۔ ۔ غسل آفتاب میں لیٹی ہوئی لڑکیاں (quantification-1)۔ ۔ ۔ ۔ پاکیزہ، عفیفہ، ناکتخدائیں، لیکن رمز و رضا کے وصل کے لیے بند قبا کھولے ہوئے (quantification-2)۔ ۔ ۔ ۔ مریم یعنی immaculate Conceptionکی مادر اصل و شہود و وجود (quantification-3)۔

اب آئیے، دیکھیں کہ Linear Progression کس طرح coexistional progression میں ضم ہو جاتی ہے۔

 

نظم کا پہلا سنگ میل

________________________________________

 

۱۔ سیپیاں (صنف نازک، بے جان) لیکن موتی سے حاملہ

/

۲۔ کنار آب پر آفتابی غسل میں لیٹی ہوئی لڑکیاں (صنف نازک، جاندار)

/

۳۔ پاکیزہ، عفیفہ (صاف) نا کتخدائیں (اسم اشارہ)

/

۴۔ رمز و رضائے وصل کے بند قبا کھولے ہوئے (حرکت الایجاد، اشارہ)

 

آخری عدد یعنی حرکت الایجاد، ایک مبہم اشارہ immaculate conception کی طرف ہے جو آگے چل کر صاف ہوتا چلا جائے گا۔

یہاں تک نظم کی پہلی موومنٹ پہنچ کر رُک جاتی ہے۔ یہ موومنٹ یک سمتی ہے۔ اس یک سمت حرکت میں بھی ہم سیپیوں (جو ایک حد brittle، نازک، شفاف، موتی سے حاملہ، architypal نسوانی سمبل ہے، ) کو اس حوالے سے پہچان سکتے ہیں۔ یعنی سیپیاں ’’ بمعنی لڑکیاں، سنِ بلوغت تک پہنچی ہوئی لڑکیاں۔ ۔ ۔ ‘‘ اب یہ لفظ ’’سیپیاں ‘‘مجاز مرسل کی سطح پر ’’لڑکیاں ‘‘ میں ضم ہو جاتا ہے اور نظم کے اس پڑاؤ کے بعد ’سیپیاں ‘ اور ’لڑکیاں ‘ ایک ہی معنی میں استعمال کیے جاتے ہیں۔ یعنی جسے شاعری کی گرائمر میں One-to-one metaphorical equation کہا جاتا ہے، وہ منزل آ جاتی ہے۔ لیکن شاعر ایک منجھا ہوا فنکار ہے اور وہ ان دو الفاظ (سیپیاں، لڑکیاں ) کو یکجا کرنے کے بعد بھی اسم جمع صفت noun-plus-adjective کے ایک پیہم سلسلے کو بروئے کار لاتا ہے، جو انہیں Maculate یعنی "کثیف یا غیر مصفیٰ "سے immaculate، صاف، شفاف (پاکیزہ)کی طرف لے جاتا ہے۔ مادر عیسیٰ کا حاملہ ہونا انسائکلوپیڈیا میں اس طرح درج ہے۔

Immaculate conception

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ..۔ "Conception in which the off-spring is preserved free from original sin by divine grace held in Roman Catholic dogma to be the manner۔ ..۔ .. of the conception of Virgin Mary.

اسم (جمع) صفات کا جو ایک لمبا سلسلہ نظم کے پہلے بند میں ہے، ان میں ہمیں ’‘شفاف‘‘، ’’پاکیزہ‘‘، ’’عفیفہ‘‘، ‘‘عفت مآب‘‘، ’’پارسا‘‘، ’’ناکتخدا‘‘ جیسے الفاظ ملتے ہیں۔ اور یہ ہمہ صفات الفاظ ایک زنجیر میں پروئے ہوئے ایک اسم کی کڑی تک پہنچ کر رُک جاتے ہیں۔ یعنی مریم۔ ۔ ۔ ’’مادر عیسیٰ‘‘۔ انہی الفاظ کی linear progression غیر مصفیٰ (maculate) سے چلتی ہوئی مندرجہ بالا الفاظ کی صفاتی روح اصل، یعنی صاف، شفاف immaculate) تک پہنچتی ہے۔

جونہی ہم نظم کے دوسرے بند تک پہنچتے ہیں، سیپیاں لڑکیوں میں تبدیل ہو جاتی ہیں۔ الفاظ کا استعمال جو اس بند میں ہے، تشبیہ واستعارہ کے باعث صراحت سے مملو ہونے کے باوجود اکہرا نہیں ہے۔ یہاں ’’سیپیاں ہی ہیں، جو کسمسا رہی ہیں ‘‘ کسمسانا اعضا کی اینٹھن کا ظاہری روپ ہے اور ایک متحرک فعل ہونے کی وجہ سے ایک متحرک تصویر ابھارتا ہے۔ اس بند میں سیپییاں رموز کے ملبوس میں۔ رمز و رضائے وصل کے ’بند قبا ‘کھلتے ہیں، یعنی سیپیاں اپنے بطن میں ایک موتی پانے کے لیے راضی بہ رضا ہیں۔ ان کے دریچے نیم وا ہیں۔ انہیں اگر انتظار ہے تو صرف ایک دُرِ نایاب کا!

لیکن، ایک دُرِ نایاب، جس کے لیے سیپیاں ’نیم وا ہیں، منتظر ہیں ‘، ۔ ۔ ۔ خالق ارض و سما کی خاص شفقت کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ یعنی حاملہ ہونا تو ایک امرِ عام ہے (مادہ جانور بھی حاملہ ہوتی ہے ) لیکن خالق ارض و سما کی خاص شفقت (یہاں ’خاص‘ غور طلب ہے )۔ ۔ ۔ ۔ Immaculate Conception کے لیے ضروری ہے کہ پیاسی زمین پر یہ موتی ابر کرم یعنی آسمان سے اترے۔ ابر نیساں کی طرح زمین جو ’پیاسی ہے ‘، اسے سیراب کرے۔ دو الفاظ کا مکرر استعمال ’خاص شفقت‘ اور ’موتیوں کی بخشش‘ اس منظر نامے کو ایک عام ’حمل‘ conception سے اُٹھا کر اس پاکیزہ بلندی کی طرف لے جاتا ہے، جسے immaculate conception کہا جاتا ہے۔

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اہلِ انجیل ’خدا کا بیٹا‘ تسلیم کرتے ہیں۔ لفظ ’بیٹا‘ کی استعارتی فہم و فراست سے قطع نظر (ہم سب خدا کے بیٹے ہیں، اس سے کسی مذہب کو کیا اختلاف ہو سکتا ہے ؟)، Immaculate Conception کا اپنا بھی ایک فلسفہ ہے، جسے اہلِ انجیل کے علاوہ اہل زبور بھی تسلیم کرتے ہیں۔

تیسرا بند اپنی see-saw تحریک میں ایک بار پھر دہرانے کے عمل میں، جسے ارسطو نے ڈرامے کی اصطلاح میں ’’پس آہنگ‘‘ کہا ہے، پہلی سطر، یعنی ’’نیم وا ہیں، منتظر ہیں ‘‘، جو ایک طبیعاتی (خارجی) منظر ’’نیم وا‘‘ اور ایک ذہنی، بطنی خواہش ’’منتظر ‘‘ ہیں، سے شروع ہوتا ہے، اور اس بار غیر مبہم طریقے سے ’’خالق ارض و سما‘‘ یعنی خداوند دو جہاں کی ’’خاص شفقت‘‘ کا ملتجی ہوتا ہے۔ جیسا کہ پہلے کہا جا چکا ہے، لفظ ’’خاص‘‘ خصوصی طور پر قابلِ غور ہے۔ یعنی حاملہ ہونا ’’conception‘‘ تو ایک عام بات ہے، لیکن Immaculate Conception ایک خصوصی امر ہے۔

اب پہلی بار نظم میں دو استعاراتی زاویے آپس میں congruent یعنی موافق اور یکساں ہو گئے ہیں۔ اردو شعری ادب میں ’ابر کرم‘ اور ’پیاسی‘ زمین یا ریت کا استعارہ بارہا استعمال ہوا ہے۔ اس میں دو صفات قابل غور ہیں۔ یعنی ’ابر‘ کے ساتھ ’کرم‘ اور ’ریت‘ کے ساتھ ’پیاسی‘۔ ۔ ۔ ۔ طوالت میں ایک مرکب استعارے Elongated metaphor کی شکل کو اب Linear کی خط راست اور مستحکم کی رواں خاصیت سے آگے بڑھا دیا گیا ہے۔ خدا خالق ہے، ارض کا بھی، اور سما کا بھی۔ خدا ابرِ کرم سے موتیوں کی بخششیں پیاسی زمیں پر بھیجتا ہے۔ اور یہ موتی سیپیوں کے بطون میں سما جاتے ہیں۔ ۔ ۔ حمل کے پروسس کی سائنسی سچائی کے علاوہ الفاظ کے ہمہ صفت معانی کے استعمال سے ستیہ پال آنند صاحب نے کمال خوبی سے ایک اور جہت کو نمایاں کر دیا ہے۔ یعنی ’’ابر کرم‘‘، ’’ابر نیساں ‘‘، ’’لیٹی ہوئی‘‘ (یعنی کھڑی یا بیٹھی ہوئی نہیں، بلکہ ’لیٹی ہوئی‘) ان کے فنکارانہ استعمال سے شاعر قاری کو personification کی اس جہت تک لے جاتا ہے جہاں بے جان چیز (سیپ) اپنی صفات اور حرکت سے جاندار (حاملہ عورت) بن جاتی ہے۔ اس تیسرے بند میں کھلے بندوں ساحل پر پڑی سیپیاں دھوپ کا غسل کرتی ہوئی لڑکیاں بن کر قاری کے ذہن میں جلوہ گر ہو جاتی ہیں۔ واقعہ نگاری کی وہ جہت جیسے تمثال نگاری اور پیکر سازی کے عمل میں congruence کہتے ہیں، جو در اصل جیومیٹری کی ایک اصطلاح ہے، یہاں بالمقابلہ ایک چسپاں شدہ، خط بر خط اور زاویہ بر زاویہ نہ رکھ کر، بلکہ اشارے، علامتیں اور کنائیے بروئے کار لا کر لائی گئی ہے۔ جو لوگ شاعر یعنی ستیہ پال آنند کے طریق کار سے واقف ہیں اور جنہیں ان کی کثیر الجہت علمی اور ادبی شخصیت کا اندازہ ہے، جانتے ہیں کہ وہ کس طرح دیگر علوم سے استعارے اخذ کرتے ہیں۔

چوتھا بند ایک بار پھر ڈرامے کی اصطلاحی لُغت میں صدائے باز گشت یعنی Echo سے شروع ہوتا ہے۔ یعنی ایک سطر ’’رحمتوں کے منتظر ہیں ‘‘ کے دہرانے سے جو عمل پیدا ہوا، اس سے لپٹ کر بالیدگی، نشو و نما پانے، بیدار ہونے اور چمکنے یا چمک اُٹھنے کی طبیعی کیفیت معرضِ وجود میں آئی۔ یہاں سنسکرت شعریات کا بارہا آزمودہ نسخہ شاعر کامیابی کے ساتھ استعمال کرتا ہے۔ کسی بھی دوہے کی دوسری مقفیٰ سطر کے آخری ٹکڑے اور دوسرے دوہے کی پہلی سطر کے پہلے ٹکڑے کے آپس میں جُڑ کر تسلس کا قائم ہونا تو ایک عام بات ہے، لیکن سنسکرت نا ٹیہ شاستر میں یہ صفت دو کرداروں کے مابین مکالمے سے اس طرح مترشح ہوتی ہے کہ ایک کردار کا مکالمہ اپنے آخری ادا شدہ جملے کو دوسرے کردار کے مکالمے کے پہلے جملے میں ضم کر دیتا ہے۔

جن سے شاید جاگ اٹھے

کوئی خوابیدہ کرن تاریکیوں میں

یا ہویدا ہو کوئی موتی منور

بطن مادر میں کھلے

تخلیق کی پہلی کرن سا !

لیکن وہ کیا ہے، جسے ’’جاگ اٹھنا ‘‘ہے، ’’ہویدا ہونا ‘‘ہے ؟ اس بند کی آخری سطر اور سطر کا مقصد چشم حیرت کے واشگاف ہونے کی طرح یکا یک وارد ہوتا ہے۔

ایک دُر نجف و نذرۃ !

’’دُر نجف‘‘ کی اصطلاح تو عرب کی یعنی عراق کی دین ہے، جس میں نجف کے ہیروں کی چمک دمک پوشیدہ ہے۔ نذرۃ (Nazarath) البتہ عیسیٰ مسیح کے بچپن اور لڑکپن کی یاد دلاتا ہے۔ ستیہ پال آنند ’’ نذرۃ‘‘ کے اصلی تلفظ (کلاسیکی، عبرانی) کو برقرار رکھتے ہیں اور اس طرح عیسیٰ کی جائے پیدائش کی یاد دلا کر عیسیٰ کو ہی ’’دُر نذرۃ‘‘ کہتے ہیں۔ اب پورا استعارہ جو (۱)بے جان سیپیوں کے ساحل سمندر پر پڑا ہونے کے منظر سے چلتا ہوا، (۲)غسل آفتابی میں لیٹی ہوئی گوری نسل کی لڑکیوں سے ہوتا ہوا، (۳) اپنے بطون میں موتی سمو لینے کی خواہش اور حمل میں آ چکنے کے بعد اس کی پیدائش، پرورش و پرداخت کے مراحل طے کرتا ہوا یہاں تک پہنچا تھا، (۴) مریم اور اس کے بیٹے عیسیٰ تک آ کر اپنے چاروں زاویے مکمل کر گیا۔ ۔ ۔ ۔ Immaculate Conception  ’’دُر نذرۃ‘‘ میں آنے کا اسمِ مبارک تھا۔ اب یہ استعارے کی جیومیٹری کی ’’پرکار‘‘ کی طرح دائرے میں گھماتے ہوئے واپس اسی نقطہ آغاز تک لے آیا جہاں سیپیاں ساحل کی ریت پر پڑی ہوئی تھی۔ لیکن اب یہ سیپیاں محض سیپیاں نہیں ہیں، صرف لڑکیاں بھی نہیں ہیں۔ صرف بطون میں حمل رکھنے والے مائیں بھی نہیں ہیں، بلکہ مریم کی مظہر ہیں، جو حمل کے باوجود ’’ناکتخدا‘‘ ہے، ’’عفیفہ ‘‘ ہے، اپنے نقطۂ آغاز تک پہنچ کر ہمیں آواز باز گشت یعنی echo کی تکنیک سے دگنی شدت سے ملتا ہے۔

بہت سی سیپیاں لیٹی ہوئی ہیں، ریت، پیاسی ریت پر

تو کیا ستیہ پال آنند صرف ایک سیپ (مریم)، ایک بچے (عیسیٰ) کی بات کر رہے ہیں ؟ جی نہیں، سیپیاں، بہت سی ہیں، لاکھوں، کروڑوں کی تعداد میں ہیں، اور سبھی پیاسی ریت transferred epithit from thirsty women to thirsty sand پر اس امید اور اس انتظار میں لیٹی ہوئی ہیں کہ جب ابر نیساں برسے گا، تو ایک چمکیلا موتی ان کے بطن میں بھی آ جائے گا۔ تو طے ہوا کہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ Extended meaning کے طور پر ستیہ پال آنند کے ’’کاویہ گیان‘‘ میں دنیا کی ہر ہونے والی ماں مریم ہے اور ہر ہونے والا بچہ عیسیٰ ہے۔

ستیہ پال آنند نے اس نظم میں سنسکرت اور یونانی ڈراموں کی تکنیک کے ایک سے زیادہ عملی قاعدوں کے استعمال سے نظم کو ظاہری حسن تو عطا کیا ہی ہے، اسے معنوی پُر کاری سے بھی مملو کر دیا ہے۔

٭٭٭

 

 

۲۔ یہ میری آنکھ ہے  ۔۔۔ ستیہ پال آنند

________________________________________

 

(ایک فینٹسی۔ ۔ نیوکلائی جنگ کے تیس برس بعد کا منظر نامہ)

________________________________________

 

 

 

نظر اوپر اٹھائیں، تو بھی دیکھیں کیا؟

کہ بادل کے تھنوں کی تھیلیوں میں

شیر مادر ایک قطرہ بھی نہیں

سوکھی ہوا ہے

خشک آہیں، امتلا، اکراہ کی اک گھن گرج سی ہے

منغض ناگواری ہے !

کڑکتی بجلیوں کی شعلہ سامانی

پریدہ رنگ ہے، ان کی کڑک جیسے

کسی گونگے کی ہکلاہٹ، گلو گیری سی رِیں رِیں ہے۔

کہاں سے پانی برسائیں، ’’گھٹا گھنگھور‘‘ کی آنکھوں میں کانٹے ہیں !

نظر نیچے جھکائیں تو بھی دیکھیں کیا؟

کہ اس تشنہ دہاں دھرتی کے جوف و جوع کے مابین اب کچھ بھی نہیں باقی

یہی لگتا ہے کوئی راکھ کے نیچے پھنسا ہو موت کے منہ میں

نفس واپسیں کی کھڑ کھڑ اتی ہچکیوں میں مر رہا ہو وقت سے پہلے

نمو سے سر بسرعاری خرابہ

راکھ کے اڑتے بگولے

دور تک اک روہڑی، سنسان ویرانہ

مخنث، بے نمو، لا ولد دھرتی، نسل کش ناکارگی۔ ۔ ۔

 

اور میں !

 

یہ میری آنکھ ہے کیا جو

زمان و وقت کے جریان سے آگے پہنچ کر

نیچے اوپر دیکھتی ہے ؟ راکھ کے اڑتے بگولے ارض پر

بادل کے بنجر بانجھ ٹکڑے آسماں میں۔ ۔ ۔

ہاں، یہ میری آنکھ ہے جو پیش بیں ہے، غیب کے احوال کی واقف!

نہفتہ داں میں سب کچھ دیکھتا ہوں۔ ۔ ۔ ۔

آنے والے دور میں کیا ہونے والا ہے

میں سب کچھ جانتا ہوں !!

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 2008ء

 

مخنث، بے نمو، لا ولد دھرتی

________________________________________

 

نوٹ

ڈاکٹر ستیہ پال آنند صاحب اور

٭٭یہ ناچیز دہلی میں ساہیتہ اکاڈمی کے منٹو سے متعلق سیمینار کے   مو قع پر جامعہ ملیہ کے نہرو گیسٹ ہاؤس میں آمنے سامنے کمروں میں ٹھہرے ہوئے تھے  اور شام کو جب ان کے کمرے میں محفل جمتی تھی تو کچھ اور دوست بھی شامل ہو جاتے تھے۔  اردو شاعری کے بارے میں جب ایک باراس موضوع پر بات چیت ہوئی کہ غزل سے  نظم آج تک اپنا دامن بچا نہیں پائی۔ غزل کی طرح اس میں بھی ماضی ہی ماضی ہے۔   زمانۂ حال کبھی کبھی اپنی شکل دکھاتا ہے لیکن مستقبل تو بالکل ہی عنقا ہے، تب ڈاکٹر آنند   نے اپنی یہ نظم سنائی اور کہا کہ مستقبل عموماً اطوپیا کی ممکنہ صورت ہی پیش کرے گا لیکن ان   کی یہ نظم آلڈس ہکسلے Aldous Huxley کے مشہورِ زماں انگریزی ناول   Brave New World کی طرح Anti-Utopia ہے۔ میں نے اسی وقت ان   سے ’’کتاب نما‘‘ کا وہ شمارہ لے لیا، جس میں یہ نظم شامل تھی۔ اور وعدہ کیا کہ دہلی سے    واپس امریکا جانے سے پیشتر اس پر لکھا ہوا عملی تنقید کا مضمون آپ کے ہاتھوں میں    ہو گا۔ یہ مضمون اسی رات لکھا گیا اور دوسری صبح آنند صاحب کے لیَپ ٹاپ پرہی    انسائکلوپیڈیا سے حوالہ جات چیک کرنے کے بعد ان کے ہاتھوں میں تھما دیا گیا۔

۔ لطف الرحمن۔ (دہلی، نومبر 2012ء)

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

 

اطوپیا (Utopia)اردو کے لیے نیا لفظ ہے۔ اس کا اردو نعم البدل نہیں ہے، کیونکہ یہ ایک ناول کا عنوان ہے جو1516ء میں سرٹامس مور Sir Thomas More نے تحریر کیا۔ اس میں ایک فرضی جزیرے کے سماجی، معاشی، معاشرتی نظام کا نقشہ کھینچا گیا ہے جو سیاسی اور سماجی مساوات پر مبنی ہے۔ یہ ایک ایسی فلاحی ریاست ہے، جہاں سب لوگ امن سے رہتے ہیں۔ اس کے بعد یورپ کی مختلف زبانوں میں کئی اور کتابیں ایسی لکھی گئیں، جن میں اسی موضوع پر مبنی خیالی مملکتوں کا نقشہ تھا۔ پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے وسطی برسوں میں البتہ Anti-Utopia کا تصور بھی پیش ہوا اور ہکسلے کے علاوہ جارج آرویل نے Animal Farm اور 1984، دو ناول لکھ کر اس صنف کو فروغ دیا۔

ڈاکٹر ستیہ پال آنند صاحب کی نظم مختصر ہے، لیکن اجزائے ترکیبی کے آپس میں مضبوطی سے جُڑے ہوئے ہونے کی وجہ سے compact جسامت رکھتی ہے۔ صرف ستائیس سطروں میں شاعر نے نہ صرف ایک منظر نامہ ترتیب دیا ہے، جو قاری کے سامنے ایک مکمل graphic تصویر پیش کرتا ہے، بلکہ نظم کے عین وسط میں گریز کی سطر تک پہنچتے ہی شاعر خود اعلانیہ بنفس نفیس جیسے نظم کے میدان میں کود کر وارد ہو جاتا ہے، اور اس دعویٰ کے ساتھ کہ شاعر ہونے کی وجہ سے وہ ’’نہفتہ دان‘‘ ہے اور مستقبل میں کیا ہونے والا ہے، پہلے ہی بتا سکتا ہے، اس تصویر میں مزید رنگ بھر دیتا ہے۔

نقشہ نویسی خطوط میں کی جاتی ہے، لیکن الفاظ میں عمل اقلیدس کا در آنا ایک ایسی تکنیک ہے، جس سے ستیہ پال آنند جیسا ہی کوئی ’’لینڈ اس کیپ‘‘ یا ٹیبلیو Tableau بنانے والا شاعر کامیابی سے عہدہ برا ہو سکتا ہے۔ پہلی کچھ سطروں میں ’زمین‘، ’ آسمان‘ اور اِن دو حدود کے درمیان ’ہوا‘ کی آؤٹ لاین ترتیب دی جاتی ہے، اسے تمثیلی اور ناقلانہ ماڈل میں تبدیل کیا جاتا ہے، اور پھر اس سے معانی اخذ کئے جاتے ہیں۔ شروع کا یہ ’’بلیک اینڈ وہائٹ‘‘ خاکہ ہر نئی سطر کے ساتھ elevation and projectionکی تکنیک استعمال کرتے ہوئے کیمرے اور کیمکارڈر کی مدد سے تصویری بیانیہ میں ڈھلتا جاتا ہے، اور miniature (تصغیریہ) سے طائرانہ اسکایا گرافی panaoramic skiagraphy تک پہنچتے ہوئے ایک cosmic picture آفاقی تصویر پیش کرتا ہے۔

 

نظر نیچے جھکائیں تو بھی دیکھیں کیا؟

کہ اس تشنہ دہاں دھرتی کے جوف و جوع کے مابین اب کچھ بھی نہیں باقی

یہی لگتا ہے کوئی راکھ کے نیچے پھنسا ہو موت کے منہ میں

نفس واپسیں کی کھڑ کھڑ اتی ہچکیوں میں مر رہا ہو وقت سے پہلے

نمو سے سر بسرعاری خرابہ

راکھ کے اڑتے بگولے

دور تک اک روہڑی، سنسان ویرانہ

مخنث، بے نمو، لا ولد دھرتی، نسل کش ناکارگی۔ ۔ ۔

یہ تو اس اُجاڑ خرابے کا ذکر ہے جس میں جوہری ہتھیاروں کی جنگ ہنستے بستے شہروں کو انہدام کی آخری حد تک پہنچا گئی ہے، جہاں نباتات اور حیوانات کا تُخم تک مٹ گیا ہے۔ زندگی بیخ و بُن سے اکھڑ گئی ہے۔ نیستی اور فنا کا منظر نامہ ’’روہڑی، سنسان ویرانہ‘‘ سے تو ظاہر ہے ہی، لیکن تخم ریزی کے نام پر اس ویرانے کے پاس کیا ہے، اس کا مذکور ان الفاظ میں مستور ہے۔ ’’مخنث، بے نمو، لا ولد، نس کش، ناکارہ‘‘۔ ۔ ۔ ایک وقت ایسا تھا جب زمین کی گود بھی حیوانی اور نباتاتی Life forms سے ایسے ہی آباد و شاداب تھی، جیسے کہ انسان کی، لیکن اس منظر نامے میں تو زمین ایک مخنث کی طرح ہے جو اولاد پیدا کرنے کے نا قابل ہو، لا ولد ہے، اس میں نمو نہیں ہو سکتا۔ ہر طرف نسل کشی کا دور دورہ ہے۔

اس سے پہلے آفاقی منظر نامہ ہے۔ جیسے کہ پہلے کہا جا چکا ہے۔ شاعر کا کیمرہ (تصویر اور آواز۔ دونوں کو ریکارڈ کرتے ہوئے ) elevation and projection کے زاویوں سے کام لیتا ہے، اور projectionکا یہ زاویہ upward ہے، زمین سے آسمان کی جانب ہے۔

نظر اوپر اٹھائیں، تو بھی دیکھیں کیا؟

کہ بادل کے تھنوں کی تھیلیوں میں

شیر مادر ایک قطرہ بھی نہیں

سوکھی ہوا ہے

خشک آہیں، امتلا، اکراہ کی اک گھن گرج سی ہے

منغض ناگواری ہے !

کڑکتی بجلیوں کی شعلہ سامانی

پریدہ رنگ ہے، ان کی کڑک جیسے

کسی گونگے کی ہکلاہٹ، گلو گیری سی رِیں رِیں ہے۔

تین مظاہر قدرت ہیں، جن کا تعلق زمین و آسمان کے درمیانی ’’علاقے ‘‘ سے ہے۔ یہ ہیں بادل، ہوا، اور کڑکتی بجلیاں۔ ۔ ۔ بادل مینہ برساتا ہے، جو شیر مادر سا ہے۔ دھرتی کے لیے امرت ہے۔ زمین کی ساری ہریالی اس کے دم سے ہے۔ لیکن بادل کو ’ماں ‘ کے استعارے کے ساتھ منسلک کر تے ہی یہ کہہ دیا گیا کہ اس کے ’’تھنوں کی تھیلیوں میں شیر مادر ایک قطرہ بھی نہیں۔ ‘‘ تھنوں کی تھیلیاں ‘‘ کم از کم میری نگاہ سے دیکھیں تو اردو شاعری میں پہلی بار استعمال میں لایا گیا ہے۔ صوتی یک آہنگی، تصویری یگانگت (تھ، تھ کی صوتیات، اور تھن اور تھیلیاں کی ہم شکل تصویر) کے علاوہ ’’شیر مادر کا ایک قطرہ‘‘ تک نہ ہونا، اور سوکھی ہو اکا اُس کی کرخت، درشت۔ کھرکھرے پن کی کریہہ الصوت آوازوں سے یہ تصویر باصری اور سمعی دونوں سطحوں پر قاری کو گرفت میں لے لیتی ہے۔

خشک آہیں، امتلا، اکراہ کی اک گھن گرج سی ہے

 

تیسرا قدرتی عنصر ’’کڑکتی بجلیاں ‘‘ ہیں، لیکن ’’کڑکتی ‘‘ کہہ چکنے کے بعد شاعر فوراً اس بات کی تردید کر دیتا ہے، کہ بجلیوں کی ’’شعلہ سامانی‘‘ اور ’’بجلیوں کی کڑک‘‘، ’’پریدہ رنگ ‘‘ہوتے ہوتے صرف گونگے کی ہکلاہٹ اور رونے کی آواز( ’’ریں، ریں ‘‘) ہے۔ گویا وہی بجلی جو چمک کر اور کڑک کر دھرتی کے باسیوں کے دلوں میں خوف بھر دیتی تھی، اب خود خوف زدہ ہے، گونگے کی طرح ہکلا رہی ہے، بے بس بچے کی طرح ریں ریں کر رہی ہے۔

اس مرکزی نقطۂ ارتکاز تک پہنچنے کے بعد گریز کا وہ سلسلہ شروع ہوتا ہے جس کے بارے میں پہلے کہا جا چکا ہے کہ نظم کا واحد متکلم، بیان کنندہ یا شاعر یکدم اپنے first person pronoun ’’میَں ‘‘ کے ساتھ نظم میں وارد ہو جاتا ہے۔ یہ سیناریو اس قدر ڈرامائی ہے کہ دیکھتے ہی بن پڑتا ہے۔ صرف ایک نعرۂ مستانہ سا سنائی دیتا ہے

اور میَں !

یعنی بربادی اور تحس نحس کے اس منظر کو دیکھنے والا، یا اس کا تصور کرنے والا مَیں یعنی شاعر ہوں۔ پھر فوراً ہی اس بات کا اعلامیہ ہمارے سامنے آتا ہے کہ شاعر ہونے کی وجہ سے مَیں پیش بین ہوں، نہفتہ دان ہوں، غیب کے احوال کا واقف ہوں۔ اس لیے اکیلا مَیں ہی یہ احوال نامہ لکھ سکتا ہوں جو ابھی ظہور پذیر نہیں ہوا ہے، یعنی وہ سیناریو جو نیوکلائی یا جوہری بموں والی جنگ کے تیس برسوں کے بعد ہونے والا ہے۔ اس کا نقشہ صرف (اور صرف) میں ہی کھینچ سکتا ہوں۔ اس بند کے مخفی معانی یہ ہیں کہ دنیا کے سیاست دان شاید اس خطرے سے آگاہ نہیں ہیں، لیکن ایک شاعر ہونے کی حیثیت سے میرا یہ فرض ہے کہ انہیں اس سے آگاہ کروں۔

یہ میری آنکھ ہے کیا جو

زمان و وقت کے جریان سے آگے پہنچ کر

نیچے اوپر دیکھتی ہے ؟ راکھ کے اڑتے بگولے ارض پر

بادل کے بنجر بانجھ ٹکڑے آسماں میں۔ ۔ ۔

ہاں، یہ میری آنکھ ہے جو پیش بیں ہے، غیب کے احوال کی واقف!

نہفتہ داں میں سب کچھ دیکھتا ہوں۔ ۔ ۔ ۔

آنے والے دور میں کیا ہونے والا ہے

میں سب کچھ جانتا ہوں !!

’’نیچے، اوپر ‘‘ دیکھ کر اس کی عکاسی کرنے والا شاعر ’’زمان و وقت ‘‘ کے ’’جریان‘‘ کا ذکر کرتا ہے۔ ان دو اصطلاحات پر، خصوصی طور پر لفظ ’’جریان‘‘ کے استعمال پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ زمان و وقت کا اشارہ براہ راست اس طرف ہے۔ زمان کے حوالے سے یہ کہا گیا ہے کہ ہر پانچ سات برس کے بعد، کبھی مشرق وسطیٰ میں، کبھی جنوبی ایشیا میں، کبھی جزیرہ نمائے کوریا میں، کبھی یورپ میں جوہری جنگ کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

’’جریان‘‘، اشتہاری طبیبوں کی وجہ سے ایک خاص قسم کے جنسی مرض کا سکہ بند نام تسلیم کر لیا گیا ہے، لیکن اس کے معنی لغت میں یہ ہیں (۔ ’’پانی کا رُک رُک کر بہاؤ، رواں ہونا ) یہ معنی عربی میں مستعمل ہے جبکہ منی کے خارج ہونے کے معنی یونانی طب سے وارد ہوئے ہیں ) یہاں شاعر نے شاید ذو جہتی معنویت کو زیادہ جِلا دینے کے لیے اردو تنقید کے لیے اس غیر مستعمل لفظ کا استعمال کیا ہے۔ (گستاخی نہ ہو، تو یہ عرض کر دوں کہ ستیہ پال آنند سے الفاظ کے استعمال میں ذو جہتی، سہ جہتی، بسیار جہتی معانی۔ ۔ ۔ ۔ کچھ بھی بعید نہیں ہے، کہ وہ کئی زبانوں کے عالم ہونے کے علاوہ مشرقی اور مغربی علوم کے ماہر ہیں ) ۔

یہ نظم، جیسے کہ میں پہلے تحریر کر چکا ہوں، anti-utopia کے قماش کی ہے اور اردو میں ایک نئی قسم کا باب کھولتی ہے۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے