جنگل ۔۔۔ سچدانند راؤترائے/ اعجاز عبید

(اڑیا)

 

اس جنگل کا کوئی خاص نام نہیں۔ پورا علاقہ ہی کرمل کہلاتا ہے۔ پھر بھی مقامی لوگ پاس والے حصہ کو بیرینا لتا کہتے ہیں۔ نٹ ور فارسٹ گارڈ بن کر ادھر آیا ہے۔ دو سال میں ہی یہاں اچھی طرح جم کر بیٹھ گیا ہے۔ جنگل کے ٹھیکیدار کے ساتھ اس کی صلح ہے۔ کچلا کا ٹھیکہ لیا ہے، لیکن بڑے بڑے سال، پی سال کاٹ کر ٹرک میں بھر لے جاتے ہیں۔ سنا تو یہاں تک جاتا ہے کہ نٹیا موٹی رقم لے کر انہیں چھوڑ دیتا ہے یا پھر جعلی چالان دے دیتا ہے، یہ بات رینجر بابو سے کئی بار کہی جا چکی ہے۔ کتنی ہی رپورٹیں اوپر بھیجی گئی ہیں، لیکن کچھ نہیں ہوتا۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ نٹیا کی جیب میں ہیں اوپر والے۔ حالانکہ جنگل اسی بیچ صاف ہوتا جا رہا ہے۔ کوئی اس کا بال بانکا نہیں کر سکتا۔ نٹیا روپاس گاؤں میں چائے کی دکان کے آگے بنچ پر بیٹھا چائے پیتے پیتے مونچھوں پر تاؤ دیتا ہے – ’’دیکھیں گے، کون سالا میرا کیا بگاڑ لے گا! اس لٹھ سے کھوپڑی کھول دوں گا۔‘‘

اس گاؤں کا ڈاکیا بھرمر پر زیادہ ناراض ہے۔ کبھی کبھی سوچتا ہے پیٹ پیٹ کر مار ڈالوں اور لاش لے کر جنگل میں پھینک آؤں۔ کسی کو پتہ بھی نہیں چلے گا۔ تھانے میں جمعدار بابو کے ساتھ اٹھ بیٹھ ہے اس کی۔ ایک دو بار بلا کر تھانہ بابو نے لکڑی کی چوری کے بارے میں پوچھ تاچھ کی ہے۔ نٹیا کی کیفیت سے وہ مطمئن ہیں۔

بھرمر نے نٹیا کے دور کے رشتہ کی خالہ زاد بہن سے بیاہ کیا ہے۔ سلوچنا کو گھر لانے کی بہت تمنا تھی۔ اس کے لیے اس نے ہر ممکن کوشش کی۔ شردھا جیجی، کیلو بابا وغیرہ کو بیچ میں رکھ داما پہان بابا کو بہت سمجھایا۔ لیکن اس کی وہ لفنگوں والی عادت، اس کے بے ڈھنگے سلوک کو دیکھ کر ماں باپ یا سلوچنا کوئی راضی نہیں ہوئے۔ پھر بھی وہ کبھی کبھی ٹھیکہ یا بدلے میں کام کر لیتا ہے۔ کوئی فارسٹ گارڈ چھٹی پر جائے تو مہینے دو مہینے اس کی جگہ کام کر لیتا ہے، پھر وہی بیکار کا بیکار!

نٹیا نے اس دن سلوچنا کو پوکھر کے پاس دھمکایا تھا، ’’دیکھتا ہوں،، تجھے کون بیاہتا ہے؟ میں ٹھکانے بٹھا دوں گا!‘‘ آج تک سلوچنا بھولی نہیں ہے وہ بات! نٹیا کا لہجہ اور اس کی آواز کبھی کبھی یاد آ جاتی ہے تو وہ گھبرا سی جاتی ہے۔

نٹیا عرف نٹ، عرف نٹور کی موٹی موٹی شیر جیسی مونچھیں، ان پر چپٹی ناک اور پچکے گال دیکھ کر کوئی بھی ڈر جائے گا۔ بچپن سے ہی سلوچنا کو اس سے کوفت رہی ہے۔ پھر اس کی ٹیڑھی میڑھی عادت، سخت مزاج اور اس پر اس کا آگے بڑھ کر معاملات میں دخل دینے کی عادت – شروع سے ہی اس کے تئیں دل میں نفرت بھر چکی ہے۔ اب تو لمبے لمبے بالوں اور مونچھوں کی وجہ سے تو ایک دم عجیب لگتا ہے۔

اس دن گاؤں میں یاترا (میلہ) ہو رہی تھی۔ جکھرا اوپیرا پارٹی ‘کنساسر ودھ’ سوانگ رچ رہی تھی۔ بھرمر اور سلوچنا گاؤں میں سوپنیشور مہادیو کے مندر کے آنگن میں یہ سوانگ دیکھ رہے تھے۔ نٹ بھی ایک بیڑی سلگایے ہوئے یاترا دیکھ رہا تھا۔ بیچ بیچ میں جب سکھی کا کوئی گیت آتا تو وہ فحش آوازے کسنے سے نہیں چوکتا۔ یاترا ختم ہونے کے بعد دھکم دھکا کرتے سب لوگ بھیڑ میں لوٹ رہے تھے، سلوچنا کو لگا، بائیں اور پیچھے سے کسی نے ہاتھ بڑھایا ہے۔ کس کر اسے بھینچ کر بھیڑ میں کہیں غائب بھی ہو گیا۔ چیختے ہوئے اس نے بھرمر کو آواز دی۔ بھرمر کچھ قدم پیچھے چھوٹ گیا تھا۔ اس نے دوڑ کر آگے آ کر پوچھا، ’’کیا بات ہے؟‘‘

آگے نٹیا جا رہا تھا۔ اسے دکھا کر اشارہ کیا۔ بھرمر نے جا کر پیچھے سے نٹیا کو دھر پکڑا۔ نٹیا بہانا بناتے ہوئے بولا، ’’کیا! کیا بات ہے؟ کس کے بدلے کسے پکڑ رہے ہو؟‘‘

دونوں میں تو تو میں میں ہو رہی تھی۔ کچھ لوگ اکٹھا ہو گئے۔ آخر بیچ بچاؤ ہوا۔ نٹیا اور بھرمر دونوں نے ایک دوسرے کو کہا – ’’ٹھیک ہے، دیکھ لیں گے!‘‘

تب سے سارے گاؤں میں یہ بات پھیل گئی کہ نٹیا اور بھرمر میں ٹھن گئی ہے۔ جلدی ہی کچھ ہو گا!

دو دن بعد۔ ہاٹ والے دن مدن ساہو کی دکان کے آگے نٹیا نے سب کو سنا کر کہا، ’’میں اس کا خون پی جاؤں گا۔‘‘ ادھر بھرمر بھی کچھ دور کانسا پیتل کی دکان کے آگے سنا بیہرا کو سنا کر کہہ اٹھا، ’’میں نے اسے ختم نہ کر دیا تو میرا نام بھرمر ساہو نہیں!‘‘

دن بیتتے گئے۔ لوگ دھیرے دھیرے نٹ بھرمر کے جھگڑے کی بات بھول گئے۔ چھ سات مہینے نکل گئے اسی طرح۔ ایک دن تڑکے ہی سلوچنا جنگل کی طرف سے دوڑی دوڑی ہانپتی سی آ کر گھر میں گھستے ہی بے ہوش! بھرمر اور کچھ مرد ادھر پاس کھڑے باتیں کر رہے تھے، دوڑ کر آئے، کسی طرح سلوچنا کو ہوش میں لائے۔ پوچھا، ’’بات کیا ہوئی؟‘‘ سلوچنا نے بتایا، ’’شام تک بچھیا جب نہیں آئی تو ڈھونڈنے میں جنگل کی طرف گئی تھی۔ پیڑوں کے  جھنڈ سے کوئی اچانک نکل کر آ جھپٹا۔ کھینچا تانی چلی۔ آم کے پیڑ تلے کھینچتا لے گیا۔ جان بچا کر کسی طرح بھاگی گرتی پڑتی آ گئی۔ بابرانیاں کانٹوں کا بوجھ لیے جنگل سے لوٹ رہی تھیں۔ انہوں نے بھی شور مچایا۔

مگر وہ تو اندھیرے میں بھاگ نکلا۔

’’کون تھا وہ؟‘‘ سب نے ایک آواز میں پوچھا۔

’’نٹ بھائی!‘‘ سلوچنا نے دھیرے سے کہا۔

بس بھرمر کے سر بھوت سوار۔ فرسا لے کر نٹیا کے گھر کی اور تیزی سے چل پڑا۔ ساتھ چار پانچ چھوکرے۔ ہاتھ میں لاٹھی لیے یہ بھی لیس۔ نٹیا پچھواڑے باڑی میں سے ہوتے ہوئے جنگل میں بھاگ گیا۔ آٹھ دس دن تک گاؤں میں دکھائی ہی نہیں پڑا۔ اس کے بعد جب گاؤں لوٹا تو بھرمر اس کی تاک میں رہنے لگا۔

گاؤں میں کانا پھوسی ہوئی – بس اب دو میں سے کوئی جائے گا۔ گاؤں کے نالے کے پل پر بیٹھا پیر ہلاتے ہوئے نٹ کہہ رہا تھا – سب کو سنا سنا کر، ’’اب کی دیکھ لوں گا اسے!‘‘ بھرمر بھی مہادیو مندر کے آگے سب کو سنا کر کہہ آیا، ’’اسے جب تک زندہ نہ جلا دیا، چین سے نہیں بیٹھوں گا۔‘‘

گاؤں میں کچھ جوانوں میں بات چلی – دیکھنا ہے، اب پہلے کون کسے ختم کرتا ہے۔ بھگوان ہی جانیں۔

برسات شروع ہو گئی ہے۔ بجلی اور بادلوں کی گڑگڑاہٹ سے سارا جنگل کانپ اٹھا۔ مساشنی ندی اور گاؤں میں گھٹنوں تک پانی۔ ادھر جٹیا پہاڑ کے سرے سے دھیرے سے آ کر چاروں طرف بھر گئی ہے۔ بانس کا بیڑا بنا کر لوگ آ جا رہے ہیں۔ گاؤں کے بیچ میں اونچے ٹیلے پر دال، چاول، سبزی لا کر کھانا پکا رہے ہیں۔ لوگوں کے گھروں میں پانی بھر گیا ہے۔ ہر سال کچھ دن گاؤں والوں کو یہی سب بھگتنا پڑتا ہے۔ سب کے گھر ایک ایک ڈونگی باہر والی چھان سے بندھی ہوتی ہے۔ گاؤں میں باڑھ کا پانی گھسنے پر لگاتار چھ ۔ سات دن ادھر ادھر ڈونگی سے ہی آ جا پاتے ہیں۔ یہاں تک کہ نزدیک کے اڑوس پڑوس میں بھی۔ باڑھ کے ساتھ آتی ہے مہا ماری، کھانسی سردی، بخار، ہیضہ۔ ٹیلے پر چھوٹا سا میڈیکل سینٹر ہے۔ کوئی کوئی ڈونگی میں جا کر وہاں سے دوا دارو لے آتا ہے۔ کوئی مر جائے تو ’’جے گنگا مییا! تیری شرن ۔۔۔‘‘ کہہ کر بہا دیتے ہیں۔ برسوں کے بعد پرول، گوبھی، ٹماٹر، بینگن وغیرہ خوب ہوتے ہیں۔ پرول تو پچیس پیسے کلو ہو جاتی ہے۔ گاؤں والے سبزی لا کر کٹک میں ڈیڑھ روپئے کلو میں بیچتے ہیں۔ پھاگن چیت میں پھولوں کی مہک، آم اور بکُل کی خوشبو سے سارا جنگل مہک جاتا ہے۔

سارا جنگل ایسی برساتی ہوا میں لہلہا رہا ہے۔ رات ہوتے ہی اندھیرے میں پیڑ پودے کچھ نظر نہیں آتے۔ سب مل کر اندھیرے کا حصہ بن جاتے ہیں۔ زندگی کا جیسے نشان بھی نہیں رہ جاتا۔

جنگل میں بھی باڑھ کا پانی بھر گیا ہے۔ سانپ، گیدڑ، سیار، ہرن وغیرہ پانی کی دھار میں آ کر گاؤں کے کنارے لگتے یا اس کے تیز بہاؤ میں بہہ جاتے۔

برسات کچھ تھم گئی تھی۔ نٹ ایک ڈونگی میں بیٹھا جنگل کی جانب چل پڑا۔ ساتھ لئے ہے چھاتا اور لالٹین۔ آج اس کی چیک گیٹ پر ڈیوٹی ہے۔ گیٹ کے پاس کی گمٹی میں وہ کھڑکی دروازہ سب بند کر کے بیٹھ گیا ہے۔ آندھی برسات کا موقع دیکھ کنٹراکٹر کا ٹرک بھی جنگل میں گھس آیا۔ بڑے بڑے سال کے پیڑ کاٹیں گے، لاد کر بھرا ٹرک لے کر لوٹیں گے۔ نٹ پیڑ کی کٹائی کی آواز سن رہا ہے۔ لیکن وہ کر بھی کیا سکتا ہے اس وقت؟

پھر ایک ٹرک آ کر چیک گیٹ کے پاس رکا۔ اوپر سے بانس کی رکاوٹ اٹھانے کے لیے ہارن بجایا۔ نٹ نے ان سنا کر دیا۔ اچانک دو تین قلی اتر آئے ٹرک سے۔ نٹ کو گھسیٹ لائے۔ چابی مانگی۔ مگر نٹ نے چابی نہیں دی۔ کہا، ’’رات میں گیٹ کھولنے کی اجازت نہیں ہے۔ رینجر بابو نے منع کر رکھا ہے، سویرے آ کر چکوں کی لیک دیکھیں گے۔ میری نوکری گول ہو جائے گی۔ بنا ‘پاس’ کے میں گیٹ نہیں کھول سکتا۔‘‘

نٹ کی کس کر پٹائی کر دی گئی۔ بیہوش کر کے اور گیٹ توڑ کر وہ ٹرک لے کر بھاگ نکلے۔ تب رات کے دو بج رہے تھے۔ آس پاس کوئی لوگ نہیں۔ جنگل سائیں سائیں کر رہا تھا۔

صبح ڈونگی میں بیٹھ کر بھرمر نکلا، گاؤں میں ڈاک بانٹنے کے لیے۔ فارسٹ رینجر کی ڈاک زیادہ ہوتی ہے۔ جا کر گمٹی کی کھڑکی سے جھانکا۔ تو دیکھا کہ نٹ بیہوش پڑا ہے۔ دونوں جبڑے خون میں سنے ہیں۔ منہ ؒلل ہو گیا ہے، مکھیاں بھنبھنا رہی ہیں۔ دروازے پر دھکا مارا، مگر نٹ نہ ہلا نہ ڈلا۔ کچھ اٹھایا، کچھ گھسیٹا، لا کر ڈونگی پر لٹایا۔ اور گاؤں کے بیچ ٹیلے پر میڈیکل سنٹر کے ڈاکٹر بابو کے سپرد کر دیا۔ اور  اس ذمے داری سے فارغ ہو کر چل پڑا ڈونگی میں خطوط بانٹنے ۔۔۔

کئی گھنٹوں بعد نٹ کو ہوش آیا۔ ڈاکٹر سے ساری باتیں سن کر اسے اپنے کانوں پر یقین نہیں آیا۔ بھرمر کا قرض کیسے چکاؤں گا؟ پچھلی باتیں، جھگڑا فساد سب بھول گیا۔

کچھ دن بعد کی بات ہے، موہنی ساہو نے  بھرمر سے کہا، ’’کہنا، نٹیا آیا تھا۔ وہ تو بس تیرے ہی گن گا رہا تھا۔ بولا – ‘بھرمر بھائی نے میری جان بچا لی۔ جیون میں اس کا قرضہ کبھی نہیں چکا سکوں گا!’

بھرمر کا دل نرم ہو گیا۔ پھر بھی کہیں ملاقات ہو جانے پر نٹیا سے بات کرنے میں اسے جھجھک ہوتی۔

نٹ بھی دل کھول کر اس سے بات چیت نہیں کر پاتا۔ دونوں ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر اپنے اپنے راستے چلے جاتے۔

مہینے دو مہینے بعد نٹیا نے سنا۔  سائیکل والا سمیسر کہہ رہا ہے، ’’بھرمر نے تیرے لیے کیا کچھ نہیں کیا۔ بھگوان نے اتنی بڑی مصیبت سے بچا لیا! جا کو رکھے سائیاں، بال نہ بانکا ہوئے!‘‘

نٹ سب سنتا رہتا۔ مگر بھرمر کو بلا کر کچھ کہہ نہیں پاتا۔ بھرمر بھی سب سنتا رہتا، مگر نٹ کو کچھ نہیں کہہ پاتا۔ بس، آمنے سامنے پڑتے تو دونوں کے چہرے پر ذرا سی مسکان کھل اٹھتی۔

ایسے ہی کچھ مہینے بیت گئے۔ اس دن نٹیا نے بستی میں سنا۔۔ سلوچنا پیٹ سے ہے۔ دو مہینے بعد وہ ماں بن جائے گی!

رینجر بابو نے اس دن ہرن مارا تھا۔ نٹیا کو بلا کر اسے دو کلو گوشت دیا۔ پتہ نہیں، اس کے سر میں کیا سنک چڑھی، جا کر بھرمر کے دروازے حاضر! سلوچنا اور بھرمر برامدے میں بیٹھے باتیں کر رہے تھے۔ نٹیا اچانک کہہ اٹھا – ’’بھرمر بھیا! سلو بہن! یہ ہرن کا گوشت تم رکھو۔ ترکاری بنا لینا۔ مجھے رینجر بابو نے دیا ہے۔‘‘

بھرمر اور سلوچنا دونوں کے ہونٹوں پر ہلکی سی مسکان بکھر گئی۔ ’’سارا ہی کیوں دے رہے ہو؟‘‘

نٹیا نے قہقہہ لگایا، ’’میرے کس کام کا؟ میں تو مراری بابا کے ہوٹل کا گراہک ہوں۔ میرے لیے بھلا کون پکائے گا؟‘‘

بھرمر نے کہا، ’’نٹیا رے! تم ایسا کرو آج رات ہمارے گھر کھانا کھا لینا۔۔‘‘

سلوچنا تو لاج میں گڑ گئی۔ ایک بار نٹیا کے چہرے کی اور دیکھ کر منہ نیچا کر لیا۔

نٹیا نے کہا، ’’ٹھیک ہے۔ بہن کے گھر سے نیوتا ملا ہے، کوئی کیسے منع کرے گا؟ مگر کہاں، بہن تو کچھ بولتی نہیں۔‘‘

سلوچنا تو لاج میں سمٹ گئی۔ پھر تھوڑی ہنس کر کہہ اٹھی – ’’ہاں ہاں، تُو آج ہمارے گھر کھانا کھائے گا نٹ بھیا!‘‘

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے