اسمعیل شیخ کی تلاش میں ۔۔۔ ہومین برگوہاتری/ اعجاز عبید

(اسمیا(آسامی))

 

میں شاید زمان و مکاں سب کچھ بھول کر شہر کے مصروف ترین راج پتھ کے بیچوں بیچ کھڑا آس پاس کے لوگوں کو اچرج میں ڈال کر جسم کی پوری قوت کے ساتھ پکار اٹھا تھا — ’اسمعیل!‘

پکار ختم ہوئی نہیں کہ میں نے دوڑنا شروع کر دیا تھا۔

زندگی میں کی گئی ایک عام سی غلطی کا بھی شاید کوئی کفّارہ نہیں ہے۔ اسمعیل کو اگر میں نام لے کر نہ پکارتا تو اس آدمی سے میری ملاقات ہو پاتی!۔ جس آدمی کی تلاش میں لگاتار پانچ سالوں سے کرتا آ رہا ہوں۔ لیکن میری آواز سنتے ہی اسمعیل تماش بین آدمی کی طرح اچانک غائب ہو گیا۔ میں نے مورکھوں کی طرح ایک بھیانک غلطی اور کر لی۔

لیکن اسمعیل کو مجھے کھوج کر نکالنا ہی ہے۔ ایک بار جو اسے دیکھ لیا ہے، اب وہ مجھ سے بچ کر بھاگ نہیں سکتا۔ کچھ دوری سے میں نے دیکھ لیا تھا کہ میری آواز سن کر پل بھر وہ شک و شبہ سے میری طرف دیکھ کر راستے کی سکری گلی میں غائب ہو گیا۔ میں بھاگ کر اس گلی کے منھ تک پہنچ گیا تھا۔

گلی کے سامنے کی پان کی دکان پر کھڑے ہو کر دو جوان سگریٹ پھونک رہے تھے۔ مجھے اس کشمکش کی حالت میں دیکھ کر وہ آپس میں ہی کچھ بتیاتے رہے۔ ان کا اس طرح کا پر اسرار سلوک دیکھ کر میرے من میں انجانا سا ڈر سما گیا— اپنی زبان سے انجان لوگوں کے سامنے اکیلے مسافرکو لگنے والا ڈر جیسا۔ ان کی طرف ایک بار نظر دوڑا کر میں جلدی ہی گلی میں گھس گیا۔ ساتھ ساتھ میرے پیٹھ پیچھے ایک عجیب سی ہنسی کا جیسے فوارہ پھوٹ پڑا۔

کچھ قدم بڈھا کر میں ذرا سہم کر ٹھٹک گیا۔ اس وقت دوپہر کے تین بج رہے تھے، مگر اس گلی کو اندھیرے نے گھیر رکھا تھا۔ میں چاروں اور نظر دوڑا کر ماحول کا جائزہ لے رہا تھا۔گلی کے دونوں سروں پر دو بڑی بڑی عمارتیں کھڑی تھیں۔ عمارت جہاں ختم ہوئی، وہیں پر راستے کو روکے ایک لکڑی کی دیوار تھی۔ دیوار پر دروازے کی طرح آنے جانے کا تنگ سا راستہ بنا ہوا ہے۔ اس سے صرف ایک ہی آدمی آ جا سکتا ہے۔ دیکھنے پر ہی سمجھا جا سکتا ہے کہ یہ عام راستہ نہیں ہے۔ اندر کے کسی ایک گھر میں داخلے کے لیے وہ راستہ بنا ہوا ہے۔ اسمعیل اس طرف کہاں جا سکتا ہے، یہ سوچ کر میں حیران ہو گیا۔ اس کا مجھے پیچھا کرنا ہی ہے۔ مگر سچ تو یہ ہے کہ اس اندھیری گلی میں جانے کے لیے مجھے ڈر سا لگ رہا تھا۔ میں کچھ دیر اس حالت میں کھڑا رہا۔ اچانک اس لکڑی کی دیوار کے اندر سے کسی عورت کی کھلکھلاہٹ سنائی دی۔ کھلکھلاہٹ بھی ایک زبان ہے۔ تب مجھے احساس ہوا کہ تھوڑا عجیب میل ہے۔ کچھ لمحوں تک میرا ذہن لسانیات کی تحقیق میں مگن رہا۔ راز کا پردا جیسے دھیرے دھیرے اٹھ رہا تھا۔ میں دیوار پھاند کر بھیتر کی گلی میں داخل ہوا۔

’’ارے کتے کا بچہ!‘‘

اچانک بھیتر گھس کر کسی سے ٹکرانے کی صورت حال کا جائزہ لینے کے پہلے ہی سننے کو ملا یہ میٹھا میٹھا تخاطب!  ساتھ ہی ناک میں شراب کی بو آئی۔ میں سہم کر ایک قدم پیچھے ہٹ گیا۔ اس آدمی پر نظر پڑتے ہی میرا پوترا جسم برف ہو گیا۔ ایک کی آنکھیں خوب لال تھیں۔ پورے چہرے پر گول گول نشان۔ ناک نے بیچ میں گھس کر چہرے کو اور زیادہ مکروہ بنا ڈالا تھا۔ اس آدمی نے ایک نیلی لنگی اور ایک کالا کوٹ پہنا ہوا تھا۔ پیشہ ور خونی کی بے رحم نظر سے وہ آدمی کچھ لمحوں تک میرے چہرے پر نظریں گاڑ کر دیکھتا رہا، اس کے بعد کھسیا کر ہنستے ہوئے میری طرف بڑھنے لگا۔

’’ارے سالا! تو مجھے پہچان نہیں پا رہا ہے؟ تیری ۔۔۔‘‘

ایک فحش گالی سے اپنا تعارف کرا کے وہ میرا ایک ہاتھ پکڑنے کے لیے آگے بڑھ آیا۔ ادھر ڈر اور دہشت سے میرا جزم کانپنے لگا۔ میرے سامنے جیسے یہ کوئی آدمی نہیں ہے، بھیانک موت کے کلبلانے والے کیڑوں سے بھرا ایک گوشت کا لوتھڑا، اس کے لمس ہی سے میری آنکھوں کے سامنے میرے ہاتھ پیر ٹوٹ کر گر پڑیں گے۔ اس کے قریب پہنچتے ہی میں آنکھ موند کر کسی حملہ آور کی طرح سے ہاتھ اٹھا کر چلا اٹھا: ’’مت چھو، مجھے مت چھو۔‘‘

وہ آدمی یکایک رک گیا۔ میں نے آنکھیں کھول کر دیکھا کہ اچانک وہ آدمی بھی نرم پڑ گیا ہے۔ نہایت مسکین بھکاری کی سی شرم اور اذیت سے اس کا چہرہ بھر گیا ہے۔ اس کی بیمار آنکھیں آنسوؤں سے دھندلانے لگیں :

’’ارے سالا، تجھے بھی پتہ چل گیا کیا رے؟‘‘ ٹوٹے ہوئے لہجے میں اس نے مجھ سے پوچھا۔

’’کس کے پتہ چلنے کی بات کر رہا ہے؟‘‘ میں نے پوچھا۔

’’ارے کتے کا بچہ، تیری ۔۔۔ تو نہیں دیکھ رہا ہے میری بیماری؟ ارے تجھے بھی یہ بیماری لگ جائے گی۔ بھاگ، بھاگ، بھاگ یہاں سے۔ یہاں سب بیمار ہیں۔ سب سڑے ہوئے، بدبو سے بھرے ہوئے۔ دس سال سے میں نے ان کے ساتھ کاروبار کیا ہے۔ مجھے سب پتہ ہے۔ ان لوگوں نے ہی مجھے یہ بیماری دی ہے۔ اب یہ مجھے دیکھتے ہی دروازہ بند کر دیتی ہیں۔ سالی سب رنڈیاں ہیں — تھو۔‘‘

اس بیچ میں بھول گیا تھا کہ مجھے اسمعیل کا پیچھا کرنا ہے۔ شاید وہ بہت دور تک نکل گیا تھا۔ میں پھر چلنے کے لیے تیار ہو گیا۔ جیب سے ایک سگریٹ نکال کر سلگا لیا، ایک سگریٹ اس آدمی کی طرف بڑھا کر پوچھا : ’’تھوڑی دیر پہلے ادھر سے ایک لمبی داڑھی والے اور پاجامہ پہنے کسی آدمی کو جاتے دیکھا ہے؟‘‘

’’ارے سالا، میرے رہتے ہوئے تو دوسرے آدمی کو کیوں کھوجتا ہے رے؟ اس گلی میں مجھ سے زیادہ اس کے رہنے والوں سے واقف اور کون ہے رے؟ لیکن مجھے پانچ پورا لگے گا۔‘‘

اس کے ساتھ فضول باتیں کرنے سے کوئی فائدہ نہیں، میں نے سوچا۔ اس کی بات پر دھیان دئیے بنا میں فوراً آگے بڑھ گیا۔ آگے بڑھتے ہی میں نے سنی رندھے ہوئے گلے سے کھسیا کر ہنسنے کی آواز۔ صرف ہنسی، کھلکھلاہٹ۔ اندھی گلی کے ان عجیب باشندوں کے لیے ہنسی ہی لنگوا فرینکا ہے۔

اچانک عورتوں کے گروہ سے کھلکھلاہٹ کی آوااز گونج اٹھی۔ میں چونک اٹھا۔ گھوڑے کے کھر کی بھانتی تین قطار میں کھڑی جھوپڑیوں کے بیچ وہ گلی ختم ہو گئی تھی۔ بیچ کے کھلے آنگن میں ہی کچھ عورتیں بیڑی پھونکتی ہوئی کھڑی تھیں۔ ان کے جذبات سے عاری چہروں پر گھنے میک اپ کا لیپ، ان کے جسموں اور کپڑوں سے نکلتی تیز خوشبو اور اس سے بھی زیادہ سستی ان کے بدنوں سے نکلتی ہوئی مخصوص بو، وہ کھڑی تھیں ہوش و حواس کی شام کے اندھیرے میں بھتنیوں کی طرح۔ میں نے ان سے پوچھا : ’’کیا تھوڑی دیر پہلے ادھر جاتے ہوئے کسی آدمی کو جاتے دیکھا؟‘‘ میرا سوال سن کر وہ ایک دوسرے کے جسموں پر گرتی ہوئی کھلکھلانے لگیں۔ میرا سوال جیسے ان کے لیے بالکل بے معنی ہے، جیسے میں پتھر کے زمانے کے آدمی کی بھاشا میں بول رہا ہوں۔ کیا اسمعیل ان میں سے کسی جھونپڑی میں چھپ کر رہ سکتا ہے، میں سوچنے لگا۔ میں نے پھر نرمی سے پوچھا: ’’کیا کسی آدمی کو ادھر سے جاتے ہوئے دیکھا ہے؟‘‘

ٹوٹی ہوئی ایک مردانی آواز میں ایک ہڈیوں کی ڈھانچہ عورت نے پوچھا، ’’کیسا آدمی ہے رے بابو؟ کسی کو بھگا کر لے آیا ہے کیا؟ اگر لے آیا ہے تو لے جانے دو۔ عورت کی کیا کمی ہے؟ ۔۔۔‘‘

چار پانچ عورتوں کی کھلکھلاہٹ میں اس کے آخری جملےسمجھ نہیں سکا۔

میں بالکل ادھیڑ بن میں پڑ گیا۔ اسمعیل اسی طرف آیا تھا، یہ میں نے صاف دیکھا تھا۔ سامنے سے جانے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ کہیں چھپنے کے لیے یہی اکلوتا مقام ہے۔ لیکن یہ عورتیں کسی سوال کا جواب دینا ضروری نہیں سمجھتی ہیں۔ اب کیا ہو سکتا ہے؟ شاید اب ایک ہی ترکیب باقی بچی ہے۔ ان کے گھر گھر میں جا کر تلاش کرنا۔ آخر وہی کرنے کا فیصلہ لیا۔ ایک سرے سے گھروں کی تلاش کرنے کے مقصد سے میں سامنے کے گھر کی طرف بڑھا۔

میں نے جس گھر کی بات کی ہے، اس کا دروازہ بند تھا۔ اس لئے وہاں کسی آدمی کے رہنے کے امکانات ہی زیادہ ہیں۔ میں نے جیسے ہی دروازے کو ڈھکیلا باہر کھڑی عورتیں شک و شبہ سے چلا اٹھیں ۔۔۔ ’’ارے، بھیتر آدمی ہے۔‘‘

میں ٹھٹک گیا۔ اچانک ٹوٹے ہوئے دروازے سے میری نظر اندر گئی۔ تب مجھے ہوش آیا کہ اندر رہنے والے آدمی کو اس وقت پریشان کرنا بڑا غیر انسانی کام ہوگا۔ میں دوسرے دروازے پر پہنچ گیا۔ دروازہ تھوڑا سا کھلا ہوا تھا۔ میں نے دروازے کو ڈھکیلا۔ ایک خوبصورت جوان عورت آئینہ کے سامنے بیٹھ کر سنگھار کر رہی تھی۔ میرے پیر کی آہٹ سن کر اس نے مڑ کر دیکھا۔ بغیر کسی جذبے کے لہجے میں ہونٹ پر لپ سٹک لگاتے ہوئے اس نے کہا : ’’بیٹھو گے؟‘‘

میں نے کوئی جواب نہیں دیا۔ بلیٹ کی طرح دو اور الفاظ آ کر میرے کانوں سے ٹکرائے جنہیں میں بیان نہیں کر سکتا۔

سنگھار ختم کر کے وہ اٹھی اور میرے سامنے آ کر کھڑی ہو گئی۔ عورت سچ مچ حسین تھی۔ اس کی رعونت اور غرور نے اسے اور خوبصورت بنا دیا تھا۔ ان گنت مردوں کے چومنے سے زخمی ہوئے اس کے ہونٹوں کی طرف میں کچھ پل بغیر پلک جھپکائے دیکھتا رہا۔ کتنے ہونٹوں کو اس نے چوما ہے، یہ وہ شاید وہ بھول گئی ہے، پر کیوں چوما تھا اسے وہ کیسے بھلا سکتی ہے؟ ’’بیٹھنا نہیں چاہ رہے ہو تو چلے جاؤ۔ دروازے پر تمہیں ایسے کھڑے دیکھ کر دوسرے لوگ بھی بھاگ جائیں گے، بڑے ہی پر سکون لہجے میں اس نے کہا:

’’تم کیا ہو؟ سننیاسن یا طوائف؟‘‘

’’تمہارے جیسا پاگل میں نے نہیں دیکھا ہے۔ کیوں یہ باتیں پوچھ رہے ہو؟‘‘

’’ایسی حالت میں تم جیسی ایک طوائف کے بستر پر اگر البرٹو کا ناول پڑا ہوا ہو، اور اگر یہ طے ہو کہ اس کی قاری تمہیں چھوڑ کر اور کوئی نہیں ہے، تو تمہارے ساتھ دو پل اچھی باتیں کیوں نہ کی جائیں؟‘‘

میری بات سننے پر اس کی نظر بستر پر پڑی۔ بستر پر البرٹو مورویا کا ناول ‘وومن آف روم’ پڑا ہوا تھا۔ اس کے چہرے پر چوری پکڑی جانے والی ایک نرم مسکراہٹ کھل اٹھی۔

’’آپ دوسرے ہیں۔‘‘

’’اس کا مطلب؟‘‘

’’میرے یہاں آنے والے لوگوں میں سے، آدمی کی زبان میں بات کرنے والے آپ دوسرے شخص ہیں۔ اس کے پہلے ایک اور آیا تھا۔ ایک کالج کا لڑکا۔‘‘

میں نے دیکھا کہ لڑکی مجھے ’آپ‘ کہہ کر مخاطب کر رہی ہے۔ میرے تئیں شاید وہ انسانیت کا لمس محسوس کر رہی ہے اور اپنے پیشے کو بھول گئی ہے۔ مجھے بھی اسے انسانیت کا احترام دینا مناسب لگنے لگا۔ ایک عام سے احترام سے میں نے کہا : ’’اگر آپ اجازت دیں تو کسی دن میں آپ کو کچھ کتابیں دے جاؤنگا۔ اب اجازت دیجیے۔ خدا حافظ۔”

کچھ لمحے تک لڑکی تعجب میں بت بنی رہی۔ سچ مچ مجھے جاتا دیکھ کر وہ ہوش میں آئی۔ یکایک اس نے کہا— ’’رکیے، رکیے، کہاں جا رہے ہیں؟ بالکل نئے معنی میں کہہ رہی ہوں، ذرا بیٹھ جائیے نا۔‘‘

’’کیوں؟‘‘

’’آپ اس بستی میں کیوں آئے ہیں؟‘‘

اسمعیل کے بارے میں اسے ذرا تفصیل سے کہنا مناسب سمجھا کیونکہ بستی میں صرف وہی ایک عورت لگتی ہے جو مجھے اس سلسلے میں مدد کر سکتی ہے۔

’’میں ایک آدمی کے پیچھے بھاگتے ہوئے یہاں پہنچا ہوں۔ اس آدمی کو میں بہت دنوں سے کھوج رہا ہوں— لگ بھگ پانچ سالوں سے۔ وہ بھی ایک خاص وجہ سے مجھ سے بھاگ رہا ہے۔ آج راستے میں اسے دیکھ کر اچانک بے تاب ہو کر نام لے کر میں نے اسے پکارا۔ وہ میری آواز سنتے ہی بھاگ کر اس گلی میں آ گھسا ہے۔ میں بھی اس کے پیچھے بھاگتے ہوئے آ پہنچا۔ لیکن یہاں آ کر میں اپنے کو کھو بیٹھا۔ اچھا، ادھر سے پار ہو جانے کے لیے کیا اس گھر کے پیچھے سے کوئی راستا ہے۔‘‘

’’نہیں۔‘‘

’’تب تو ان میں سے کسی گھر میں وہ گھسا ہوگا۔ لیکن کون اسے اس طرح رہنے دے گا؟‘‘

’’روپیہ دینے پر کون نہیں رہنے دے گا؟ پر اس کے اس طرح آپ سے بھاگتے رہنے کی کیا وجہ ہے؟ آپ ہی کیوں اسے اس طرح کھوج رہے ہیں؟‘‘

’’وہ کافی لمبی بات ہے۔ اتنی لمبی بات بتانے لگوں گا تو اسمعیل کہیں غائب ہو جائے گا۔‘‘

’’وہ اب تک کہیں بھاگ نہیں گیا ہوگا، یہ آپ کیسے کہہ سکتے ہیں؟‘‘

’’ارے یہ تو ہو سکتا ہے۔ باتوں میں پھنسے رہنے کے سبب میں اصلی بات بھول ہی گیا تھا۔ خیر جو بھی ہو، اب بھی ایک بار آپ جائزہ لے لیں۔ میں اسے کھوجتے ہوئے یہاں تک آ سکتا ہوں۔ وہ شاید ایسا سوچ بھی نہیں سکتا ہے۔ بلکہ راستے میں جاتے وقت پکڑ لیے جانے کے ڈر سے وہ ضرور یہیں کہیں چھپا ہوگا؟‘‘

’’وہ آدمی آپ کا کیا لگتا ہے؟‘‘

’’کچھ بھی نہیں۔‘‘

’’دشمن؟‘‘

’’نہیں۔‘‘

میرا جواب سن کر لڑکی نے ایک لمبی آہ بھری۔ اس کے بعد وہ اپنے سے ہی کہنے لگی : ’’کون جانتا ہے کہ اس تلاش کے آخر میں کیا ہے؟‘‘

لڑکی کے کہنے کا انداز کچھ ایسا تھا میں چونک پڑا۔ فوراً اس سے پوچھا : ’’اس بات کا مطلب؟ کس کی بات آپ کر رہی ہیں؟‘‘

’’آپ کی بھی، میری بھی۔ مورویا کا ناول پڑھنے والی کسبی کے بارے میں آپ کے ذہن میں جستجو نہیں پیدا ہوئی ہے؟‘‘

’’ہوئی ہے، لیکن آپ کی ذاتی زندگی  کے بارے میں جستجو کا اظہار کر کے میں آپ کو تکلیف نہیں دینا چاہتا ہوں۔‘‘

’’میں آپ کے خیالات کو ٹھیک سے سمجھ پا رہی ہوں۔ اور اس لئے میں آپ کو اپنی مرضی سے اپنے بارے میں کچھ بتلانا چاہتی ہوں۔ آپ اس آدمی کو پانچ سالوں سے کیوں کھوج رہے ہیں، اس سے مل کر آپ کیا کریں گے، میں نہیں جانتی۔ مجھے بھی ایک آدمی پانچ سال سے کھوج رہا ہے۔ میں نے اسے دیکھا ہے۔ لیکن اس نے مجھے نہیں دیکھا ہے۔ مجھے دیکھنے پر اور اس حالت میں دیکھنے پر وہ شاید مجھے مار ڈالے گا۔ میں مرنے سے نہیں ڈرتی ہوں۔ پر مجھے دیکھ کر اس آدمی کو جو خطرناک صدمہ پہنچے گا، اس کے تصور سے میں سہر جاتی ہوں۔ آپ ایک آدمی کے پیچھے بھاگ رہے ہیں، میں ایک آدمی کے سامنے بھاگ رہی ہوں۔ آپ جسے کھوج رہے ہیں اور میں جس سے ۔۔۔ دھیان دے رہے ہیں نا!‘‘

لڑکی کی بات سن کر میں متعجب رہ گیا۔ سچ مچ ایسے ڈرامائی اتفاق کے لیے میں بالکل تیار نہیں تھا۔ اتنی دیر تک میں کھڑا تھا۔ اب مجھے بیٹھنے کی خواہش ہوئی۔ میرے سامنے کھڑی وہ عورت طوائف ہے یا شریف با حیا عورت، میرے بیٹھنے والا وہ کمرا ریڈنگ روم یا کوئی محنتی عورت کے کام کی جگہ ہے، ان سوالوں کو سوچنا اب بالکل معمولی سا لگنے لگا۔ نظر نہ آنے والی ایک چوٹ سے زخمی  دو دکھی جانوں کے بیچ کا گہرا اپنا پن ہی صرف اس لمحے میرے ذہن میں اہم لگا۔ میں ایک عورت کے سامنے ہوں، ایک عورت کی زنگی جینے کی جد و جہد، اس کی امیدیں، خواب اور پریشانیوں کی باتیں کر رہا ہوں جو جد و جہد، خواب، امیدیں اور تکلیفیں ہم دونوں کے لیے ایک ہیں، سبھی کے لیے ایک ہیں، اس پاک احساس کے زیر اثر سے میرے ذہن میں ایک نیا خیال آیا۔ میں نے اس کے بستر پر بیٹھ کر ہمدردی کے لہجے میں اس سے پوچھا: ’’آپ کو تلاش کرتے رہنے والا وہ آدمی کون ہے؟‘‘

’’میرا باپ۔‘‘

میں پھر ایک بار چونک اٹھا۔ لیکن بظاہر نارمل ہو کر پھر پوچھا— ’’آپ مجھے دوست سمجھئے اور اپنی پوری کہانی مجھے تفصیل سے سنائیے۔ سچ تو یہ ہے کہ آپ کی باتوں سے میرے ذہن کی بے چینی مزید بڑھ گئی ہے۔”

’’آپ کو میں بتاؤں گی۔ کہنے کی میرا بھی غرض ہے۔ بہت دنوں سے میں ایک آدمی کی تلاش میں تھی، جس سے میں اپنے مسئلے پر مشورہ لے سکوں۔ مگر عورتوں کے گوشت کے خریداروں کے بیچ کیا ایسا کوئی دوست مل سکتا ہے؟ خیر، آج خدا نے آپ سے ملایا ہے۔ آپ ذرا بیٹھیے۔ میں آ رہی ہوں۔‘‘

پردے کو ہٹا کر وہ اندر گئی۔ میں نے ایک سگریٹ سلگا لیا۔ تھوڑی دیر بعد جب وہ لوٹی، تب اسے پہلے پہچان ہی نہ سکا۔ چہرے کے پوڈر کو اس نے دھو ڈالا تھا، ایک عجیب طریقے سے بنائی گئی زلفوں کو کھلا چھوڑ رکھا تھا، پہناوے میں بھی ایک سفید ساڑی اور ایک سفید بلاؤز۔ لڑکی کا روپ پل بھر میں جیسے بالکل بدل گیا۔ میں نے خاموش رہ کر اور خوش کن نظروں سے اس کے تئیں اپنے جذبۂ احترام کا اظہار کیا۔

’’آپ کو ایک لمبی کہانی سننے کی آشا نہیں کرنی چاہیئے‘‘ اس نے کہنا شروع کیا— ’’زندگی کے وقوعے سوچ سمجھ کر واقع نہیں ہوتے ہیں۔ آدمی اس کا ذکر کرتے وقت مختلف خیالات اور دلائل سے جوڑتے ہیں۔ میں ایسا نہیں کروں گی۔ لگ بھگ پانچ سال پہلے میں سیالدہ اسٹیشن میں باپ سے بچھڑ گئی تھی۔ مشرقی بنگال سے شرنارتھی بن کر وہاں ہم نے پناہ لی تھی۔ وہ پناہ گاہ بالکل عارضی تھا، کیونکہ اسٹیشن کے پلیٹ فارم پر کوئی شرنارتھیوں کے لیے کھانے کی ہوٹل کھول کر نہیں بیٹھا تھا۔ سنسکرت پنڈت براہمن پتا جی کو جب پیٹ کی آگ میں بیٹی کے پیار میں دھکے کھاتے دیکھا، تب نفرت میں نہیں، تکلیف میں پتا جی کو چھوڑ کر ایک دن اندھیری راہ پر قدم رکھ دیا۔ ایک ہی چھلانگ میں براہمن کے پوجا گھر سے آ پہنچی طوائف کے ڈیرے پر۔ سوچا تھا، پتا جی کے ساتھ سبھی حساب چکتا ہو گیا ہے۔ مگر ایسا نہیں ہے۔ ایک دن راستے میں گھومتے جاتے وقت دیکھا، زندگی میں کبھی پوجا کے بنا کسی بھی شے کو ہاتھ نہیں لگانے والا میرے وہ والد، شریمان اندادھرن مکھرجی گواہاٹی کے راستے پر دو زنانی سواریوں کو لے کر رکشا چلا رہے تھے۔ اس پل سنسار میں کتنے زلزلے آئے تھے اس کا حساب میں نہیں دے سکتی۔ میں نے جلدی سے گھونگھٹ اوڑھ لیا تھا۔ میرے پاس سے ہی میرے رکشا والے پتا جی پار ہو گئے تھے۔ ان کی نظریں دیکھ کر ہی میں پہچان گئی کہ ان کی آنکھوں میں ہر جگہ صرف میری تلاش جاری ہے۔ اس دن سے میرے من میں ڈر سما گیا۔ گیتا کو رٹنے والی ان کی بیٹی آج جسم فروخت کرنے والی ہے، یہ جان کر وہ کیا کر بیٹھیں گے، اس کا تصور کر کے مجھے ڈر لگنے لگا۔ ڈر اس لئے بھی بڑھ گیا کہ لگ بھگ ہر گاہک یہاں رکشا سے پہنچتا ہے۔ بد قسمتی سے میرے پتا جی کو بھی اگر یہاں آنا پڑے اور میں اس حالت میں اسے نظر آؤں تو!‘‘

لڑکی کچھ لمحوں کے لیے چپ رہی۔ کہنے کے لیے کچھ نہ سوجھنے پر میں بھی خاموش رہا۔ اچانک لڑکی ذرا سی مسکرائی۔ میری اور تیز نظریں ڈال کر پوچھا : ’’خوب رحم آ رہا ہے نا!‘‘ میں نے کوئی جواب نہیں دیا۔

لڑکی نے پھر کہا : ’’اور ایک آدمی کو میں نے یہ سب بتایا تھا۔ اس کالج کے لڑکے کو۔ اس نے کیا کہا، جانتے ہیں؟ میرے پتا جی کے رکشا والا بننے اور میرے طوائف ہونے سے اسے ویسے کوئی دکھ نہیں ہوا، نہ ہی اسے یہ لگا کہ یہ کوئی تکلیف کا سبب ہے۔ سماج کے نچلے طبقے کے لوگوں کی عادتوں میں تبدیلیاں ہوتی رہی ہیں۔ آج جو گاؤں کا کسان ہے یا کارخانے کا مزدور ہے، وہی حالات کا شکار بن کر رکشا چلانے والا بنتا ہے۔ شہر کے ہزار رکشا والوں کی ماضی کی کہانیوں کو سن کر، سوچ کر جب ہم سر نہیں کھپاتے ہیں تو ایک رکشا والے کے بارے میں سوچا ہی کیوں جائے! آج بھی براہمن وغیرہ اونچے طبقے کے لوگ ہاتھ سے ایک تنکا تک نہ توڑ کر دوسروں کے دام پر جیتے آ رہے ہیں۔ زمانۂ قدیم میں اس محنت سے بچنے کی وجہ گیان — سادھنا، علم کا حصول تھا۔ لیکن اب اس زمانے میں سب دھوکا دھڑی میں بدل گیا۔ پانچ ہزار سالوں کے بعد ذات پات کا رواج ٹوٹنا شروع ہو گیا ہے۔ ایک براہمن کو بھی اگر پیٹ کے لیے رکشا چلانا پڑا تو وہ اچھی بات ہے۔ اس طرح کے کٹھن زخموں کی وجہ سے سماجی ذہنی حالت میں انقلاب پیدا ہوتا ہے۔‘‘

’’آپ جس جذباتی بہاؤ سے بولتی جا رہی ہیں اسے سن کر مجھے  احساس ہوا ہے کہ شاید آپ کے پتا جی کے رکشا والا بننے میں آپ بھی ایک طرح سے خوش ہیں۔‘‘

’’اس بات کو ہی میں ہمیشہ اپنے کو سناتی رہنا چاہتی ہوں۔ اپنے کو مجھے کٹھور بنانا ہی ہے۔ نہیں تو پاگل ہو جاؤں گی۔‘‘

اچانک میں نے دیکھا کہ گھر کے اندر اندھیرا پھیل رہا ہے۔ شاید شام ہو گئی ہے۔ لڑکی کے چہرے کو دیکھ کر لگا کہ وقت کی طرف اس کا کوئی دھیان ہی نہیں ہے۔ میں نے ایک سگریٹ سلگانے کے مقصد سے دیا سلائی جلا کر دیکھا کہ اس کے دونوں گالوں سے دو آنسوؤں کی دھاریں بہہ آئی ہے۔ میں نے پھونک مار کر دیا سلائی بجھا دی۔ روشنی میں اس جذباتی اظہار کو  جگ ظاہر کرنے سے کیا فائدہ۔ اندھیرا ہی بہتر ہے۔

لڑکی نے بات کے سلسلے کو جاری رکھتے ہوئے کہا : ’’آپ اس آدمی کو کیوں کھوج رہے ہیں، مجھے جاننے کی خواہش ہو رہی ہے۔ وہ آدمی بھی کیا میری طرح بد قسمت ہے؟‘‘

اچانک میں نے فیصلہ کیا کہ اس لڑکی کو میں اسمعیل کی کہانی مکمل تفصیل سے بتاؤں گا۔ اپنے پتا جی کو رکشا والا بننے میں جو لڑی ایک سماجی زاویۂ نگاہ کھوج سکتی ہے، اسمعیل کی کہانی میں وہ ایک اور تاریخی حقیقت کو کھوج پائے گی اور اس سے اپنے کو کٹھن راستوں میں بڑھنے کے لیے اکسائے گی بھی۔

’’مسلمان غنڈوں نے ہماری زندگی کا ستیا ناس کیا ہے۔ ان غنڈوں کے کارن میں شاستری براہمن کی لڑکی ہو کر بھی آج طوائف ہوں۔ غنڈے کا نام سننے پر کیوں نہیں چوکوں گی؟ اس نے آپ کا کیا کیا؟‘‘

’’میری کہانی سنیے! اسمعیل کو میں کھوج رہا ہوں۔ آپ کی طرح اس کا گھر بھی مشرقی بنگال میں تھا۔ اس کا ماضی کی تاریخ میں اچھی طرح نہیں جانتا ہوں۔ صرف اتنا ہی جانتا ہوں کہ وہ کسی زمین دار کے تحت رہنے والا ایسا کسان تھا جس کے پاس اپنی کوئی زمین نہیں تھی۔ ایک دن اچانک اس نے سنا کہ اس کے ساتھ سیکڑوں کسان اپنی جنم بھومی چھوڑ کر آسام چلے جائیں گے، جہاں لاکھوں بیگھہ زمین غیر مجاز ہو کر پڑی ہے۔ اپنی جنم بھومی میں زندگی گزارنے کے لیے مٹھی بھر بھی زمین نہیں تھی، زمیندار کی غلامی قبول کر کے وہ موت کی کگار تک پہنچ چکے تھے۔ بلا شبہ، اسمعیل نے بھی اس گروہ میں اپنے کو شامل کر لیا۔‘‘

لڑکی کے چہرے پر نظر گاڑ کر میں نے پھر کہانی کو آگے جاری رکھا : ’’آپ کو خود بھی اپنے وطن کو چھوڑ کر آنا پڑا ہے۔ جس زمین سے آپ کا گہرا رشتہ تھا، اسے توڑ کر آتے وقت آپ کو کیسا لگا ہوگا؟ اسمعیل کے بچوں کو جیسے لگا تھا۔‘‘

غصے سے تمتماتی ہوئی لڑکی نے بحث کی؛ ’’آپ یہ کیا کہہ رہے ہیں؟ انہوں نے اپنی مرضی سے وطن چھوڑا تھا۔ ہمیں جس طرح مار کاٹ کر کے تلوار کے بل پر بھگایا گیا تھا، انہیں ویسے کسی نے کھدیڑا نہیں تھا۔ دونوں باتیں کیسے ایک سی ہو سکتی ہیں؟‘‘

’’اسمعیل جب اپنا وطن چھوڑ کر آ رہا تھا، تب اس کی بیوی گھر کی زمین پر لوٹ پوٹ ہو کر روئی تھی؛ گھر کے چھپر پر لگے لوکی کو چھوڑتے وقت اس کا دل ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا تھا۔ پھر بھی کیا آپ کہنا چاہتی ہیں کہ وہ لوگ اپنی مرضی سے سطن چھوڑ کر چلے آئے تھے؟ انہیں کسی نے ایک نظر نہ آنے والی تلوار سے کھدیڑا نہیں تھا؟‘‘

’’کس نے انہیں کھدیڑا تھا۔‘‘

’’تاریخ کی سازش نے، جس تاریخ کی رفتار اتنے دنوں سے طے کرتے آئے ہیں مٹھی بھر زمیندار اور پونجی پتی۔ جس اسمعیل کے سینے کا لہو زمین کو سونے کی چڑیا بناتا ہے، اس زمین پر ان کا حق کیوں نہیں ہے؟ کیوں انہیں ہونا پڑا؟ استحصال کی مشین چالو رکھنے کے لیے جتنے غلاموں کی ضرورت ہے، اس سے ان کی تعداد بڑھ جانے پر کتے بلیوں کی طرح جتھے در جتھے انہیں کھدیڑا گیا۔ وطن چھوڑ کر آتے وقت اسمعیل کی بیوی اور آپ کی آنکھوں سے آنسو نکلے تھے، ان آنسوؤں کا کوئی دھرم نہیں ہے۔ وہ آنسو ہندو یا مسلمان کا آنسو نہیں ہے۔‘‘

’’آپ بھول گئے ہیں کہ مسلمانوں نے ہمیں وطن سے کھدیڑا تھا مذہب کے نام پر۔ امیر غریب سبھی ہندوؤں کو انہوں نے نا قابلِ بیان اذیتیں دی ہیں۔ اس ہندو میدھ یگیہ میں شامل ہیں آپ کے یہ اسمعیل۔ آپ یہ مت بھول جائیے کہ 1947 میں ڈھاکہ کا راج پتھ جس لہو سے رنگ گیا تھا، اس لہو کا ایک دھرم تھا۔ وہ تھا ہندو دھرم۔‘‘

’’ٹھیک ایک ہی وقت دلی کا راج پتھ جس لہو سے رنگین ہوا تھا، اس کا بھی ایک مذہب تھا— اسلام۔ مگر کیا آپ عورت ہو کر خون اور آنسو کے فرق کو سمجھ نہیں پاتی ہیں؟ آنسو کا ماخذ ہے دل، آنسو کا منبع ہے انسانیت، آنسو نکلتے ہیں صرف دل و دماغ کی حوصلہ افزائی سے۔ اس لئے وہ پاک اور سچے ہیں۔ لیکن خون نکلتا ہے باہری چوٹوں اور زخموں سے— وہ نا پاک اور جھوٹے ہیں۔ اور نا پاک کا جو دھرم ہے، وہ ادھرم ہے۔‘‘

لڑکی اب لا جواب ہو گئی۔ اب ایسا لگا جیسے اپنے سے سوال کرنے کی باری تھی اس کی۔

”پھر بھی آپ لوگوں کو مسلمانوں نے کھدیڑا نہیں ہے، فرقہ وارانہ فسادات نے بھی نہیں بھگایا ہے؛ آپ لوگوں کو کھدیڑا ہے تاریخ کی ایک سازش نے۔ تھوڑی دیر پہلے آپ نے کہا ہے آپ لوگوں پر ظلم ہوا تھا دھرم کے نام پر۔ پرنتو دھرم کیا چیز ہے، جانتی ہیں؟ تاریخ کے ہر دور میں سماج کے مٹھی بھر زمینداروں اور پونجی پتیوں نے کروڑوں نیچ، غریب عام آدمیوں کو دنیا کے سبھی خوشیوں سے محروم کر رکھا ہے، تصوراتی سورگ لوک میں بیٹھ کر کھانے کا لالچ دکھا کر۔ بائبل میں صاف کہا گیا ہے، صرف غریب لوگ ہی جنت میں داخل ہو سکیں گے۔ امیروں کا سودا اس طرح ہے کہ ’تم لوگ یعنی نیچ غلام اگر اس جنم میں اپنا سارا سکھ بھول کر ہماری سیوا کرو گے تو اس کے بعد سورگ میں ابد تک یہ شراب۔ گوشت۔ عورت کو لے کر آرام سے رہ سکیں گے۔ کیونکہ صرف غریب اور بھکاریوں، سننیاسیوں کو ہی سورگ جانے کا پاسپورٹ مل سکتا ہے۔ ہم امیر طبقے کو تو دوزخ میں جانا ہی ہے، اس لئے اس جنم میں ہی سارا سکھ اٹھا لیں۔‘ آخرت کے دائمی عذاب دوزخ کے بدلے میں اس جنم میں چین آرام امیر طبقے نے کیوں چن لیا ہے، اس راز کی گتھی آج تک کسی شاستری، کسی برہمن سے نہیں سلجھی ہے۔ دھرم کیا ہے، جانتی ہیں؟ ایک زمانے میں پوپ نے اپنے صندوق کو بھرنے کے لیے دھرم کے نام پر دلالی کی تھی، یعنی نقد رقم کے بدلے میں جنت جانے کا ٹکٹ بیچا تھا۔ اسلام کے مطابق ایک کافر کو اللہ پر ایمان لانے والا بنانے پر ثواب ملتا ہے۔ دوسروں کی آزادی کے لیے اتنا سر درد کیوں؟ اور اس سر درد کے لیے شاستروں میں پُنیہ کا لالچ کیوں دکھانا چاہیئے؟ اس کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ اسلام کے اس ڈسپلن کے سبب ایک زمانے میں سپین انڈونیشیا تک کروڑوں کافروں کو تلوار کے بل پر اللہ کا ماننے والا بنایا گیا تھا، اس نیک کام کے لیے لاکھوں غریب فوجیوں نے اپنی زندگی قربان کر دی تھی۔ اس کے بدلے میں لاکھوں انجان فوجیوں کو بہشت ملا تھا یا نہیں، پتہ نہیں مگر مٹھی بھر بادشاہ، امیر امرا کو جو اس جنم میں ہی بہشت کا سکھ مل گیا، اس کا ثبوت تاریخ میں ہے۔ ہندوؤں کے مندروں میں عرصے سے پڑے ہوئے دھن دولت، جن سے کروڑوں لوگوں کو اس زندگی میں ہی غریبی کے دوزخ سے آزاد کیا جا سکتا ہے، لیکن نہیں، اس کے دروازے پر بیٹھے ہیں دھرم کے پنڈے، سورگ کے دلال براہمن!! دھرم کے لیے ہی مشرقی بنگال کے مسلمانوں نے اپنا ہاتھ ہندوؤں کے خون سے لال کیا تھا۔ اصل بات کیا جانتی ہیں؟ تاریخ کے لیڈروں نے انہیں شراب پلا دی تھی— مذہب کی شراب! شراب نہ پینے پر صحت مند حالت میں کیا کوئی حاملہ عورت پر حملہ کر سکتا ہے؟‘‘

ایک سانس میں لمبا بھاشن جھاڑ کر لڑکی کی طرف سر اٹھا کر دیکھا۔ شاید اس کے پوچھنے کے لیے اور کچھ نہیں ہے، مزید بحث کے لیے کوئی دلیل ہی بچی نہیں ہے۔

’’اسمعیل کی کہانی سنیے، میں نے پھر شروع کیا— انہوں نے آ کر آسام کے گھنے جنگلوں میں نئی بستی بسانی شروع کی۔ جنم سے لے کر موت تک ان کی زندگی محض فطرت کے ساتھ لگا تار جنگ کی رہی۔ مگر وہ اس دھرتی کی بہادر اولادیں ہیں۔ کسی نقصان سے وہ ٹوٹتے نہیں۔ ہر سال برہمپتر کی باڑھ آ کر ان کے دل کے خون سے بننے والے سنسار کو توڑ کر بہا کر لے جاتی ہے، لیکن پھر نئے حوصلے سے وہ اپنی دنیا کی پھر  تشکیل کرتے ہیں۔ اس طرح بارہ سال بیت گئے۔ مگر 1954 میں قدرت نے ان کے خلاف ایک نیا کھیل کھیلا۔ برہم پتر ندی کے کٹاؤ سے ہزاروں بیگھہ زمین ندی میں سما گئی۔ دیکھتے دیکھتے دو سال کے اندر اسمعیل کا گاؤں، کھیت، مویشی ندی میں غروب ہو گئے۔ پھر بھوت کی طرح پیڑ کے نیچے پناہ لینے والے بے گھر لوگوں پر حملہ کیا مہا ماری نے۔ وبا میں کافی لوگ چل بسے۔ ساتھ ہی اسمعیل کی بیوی مری اور ایک بارہ سال کا بیٹا بھی گزر گیا۔ صرف بچ گئے دو نا بالغ بچے ۔۔۔ آپ نے ہی کہا تھا کہ زندگی میں حادثے سوچ سمجھ کر نہیں واقع ہوتے ہیں۔ آدمی ان کا ذکر کرتے وقت ان میں اپنے خیالات۔ تصورات اور دلیلوں کو جوڑتے ہیں۔ میں بھی آپ کی طرح کچھ نہیں کہنا چاہتا ہوں۔ لیکن اسمعیل کے لیے مجھے ذرا رونے کو جی چاہتا ہے۔ خیر، اس ندی کے کٹاؤ میں سب کچھ گنوا کر اسمعیل کے گاؤں کے لگ بھگ ایک سو لوگوں نے سرکار کے سامنے زمین کے لیے درخواست دی۔ اس کا کوئی جواب نہیں آیا۔ مگر گھر بنانے کے لیے کوئی فالتو زمین بھی نہیں پڑی تھی۔ آخر اپنی جانوں کی حفاظت کرنے کے لیے انہوں نے قانون توڑنے کا فیصلہ کیا— ان لوگوں نے زبردستی چراگاہ کے طور پر مخصوص کی گئی زمین پر قبضہ کرنا شروع کر دیا۔ ٹھیک اسی وقت میرا اس سٹیج پر داخلہ ہوا۔‘‘

’’کیسے؟‘‘— لڑکی نے پوچھا۔

’’سرکاری کارندے کے روپ میں۔ سرکار کی رسٹرکٹیڈ زمین کو اسمعیل جیسے لوگوں کے دخل سے آزاد کرانے کا بار میرے کندھوں پر ڈالا گیا تھا۔ ایک دن میں نے ہتھیار بند سپاہی، امین اور دس بارہ ہاتھی لے جا کر اسمعیل وغیرہ کے خلاف جنگ کی شروعات کی۔ قانون کے مطابق گھروں کو ہاتھی سے رندوا کر مجھے توڑنا تھا۔ گاؤں کے ایک کنارے پر ہاتھی کی پیٹھ پر بیٹھ کر پورے گاؤں کا نظارہ دیکھا۔ میلوں کھلے میدان میں گھاس، پھونس، جھاڑی اور اپلوں کے بیچ میں کچھ جھونپڑیاں۔ ہوا کی سنسناہٹ سے گمبھیر بنی اس سنسان جنگلی زمین پر ان ایک سو جھوپڑیوں اور معصوم کومل چہرے والے بے بس آدی واسی مجھے اتنے بے سہارا اور کمزور لگے کہ ان کی اس پناہ گاہ کو توڑنے کے بدلے سبھی کو دل میں سمیٹ کر پیار کرتے ہوئے بے خوفی دان دینے کی خواہش میرے اندر جاگی۔ اچانک میں نے گھر توڑنے کا حکم دیا۔ دس ہاتھی گھروں پر ٹوٹ پڑے۔ عورتیں اور بچہ چلا چلا کر رونے لگے۔ ہوا کی وجہ سے ان کے رونے چلانے کو اور شے مل گئی تھی۔ اچانک ایک آدمی پاگل کی طرح دوڑتے ہوئے میرے پاس آیا۔ وہ اپنے دونوں ہاتھوں کو آکاش کی طرف پھیلا کر چلا چلا کر رونے لگا : اللہ کی دہائی حضور، میرا گھر مت توڑیئے، میرے دونوں بچے چیچک سے بیمار ہیں۔ اس ماگھ مہینے کی ٹھنڈ میں ایک گھر نہیں ہونے پر وہ آج رات ہی مر جائیں گے۔ ان کی ماں مر چکی ہے حضور، بڑا بھائی مر گیا ہے، انہیں بہت دنوں سے پیٹ بھر کھانا نصیب نہیں ہوا ہے۔، حضور ۔۔۔۔‘‘ کہتے کہتے وہ زمین پر گر کر رونے لگا۔ میں نے فوراً اس کے گھر کو نہ توڑنے کا حکم دیا۔ مگر امین نے آ کر جواب دیا کہ تب تک اس کے گھر کو توڑا جا چکا تھا۔

گھر کے توڑنے کی بات سن کر اسمعیل زمین سے اٹھ کر کھڑا ہو گیا۔ اس کے چہرے پر اچانک ایک نا قابل برداشت اور درد بھری سختی ابھر آئی، ’’یا اللہ، اس کے لیے میں ساری دنیا بھٹکتا رہا، وطن چھوڑ کر پردیس آ پہنچا، اپنی بیوی کو مہا ماری کے منھ میں ڈھکیل دیا، آج بیمار بچہ کو چین سے مرنے دینے کے لیے سر کے اوپر کے ایک کھپریل کو بھی بچا نہیں سکا۔‘‘ ان باتوں کو نظر نہ آنے والے اللہ کے احکام کی طرح کہہ کر دھیرے دھیرے وہ میرے سامنے سے ہٹ گیا۔ میرے پاس کچھ کہنے کے لیے نہیں تھا۔ اس آدمی کا نام اور دوسری تفصیلات لکھ لیں۔ اس کے بعد گھر دروازے تڑوانے کا کام ختم کر کے میں اپنے گھر واپس آ گیا۔

دوسرے دن صبح جاگ کر برامدے میں کھڑے ہوتے ہی جو منظر دیکھا، وہ مجھے مرتے دم تک یاد رہے گا۔ میرے برامدے پر دو بچوں کی لاشیں، دونوں کے چہرے پر چیچک کے منحوس نشان۔ مجھے کچھ سمجھنے میں دیر نہیں لگی۔ بعد میں معلوم ہوا کہ جس رات میں گھر تڑوا کر آیا، اسی رات اسمعیل اپنے بچوں کے ساتھ گاؤں سے لا پتہ ہو گیا تھا۔ بچوں کی خبر تو دھیرے دھیرے سب کو مل گئی، مگر اسمعیل کے بارے میں آج بھی کوئی نہیں جانتا ہے۔ جاننے کی خواہش بھی کیوں کسی کو ہو۔ مگر مجھے اسے کھوج نکالنا ہوگا۔ انسان کے بنائے حیوانی قانون اور حکومتی نظام کی طرف سے انسانیت کے نام پر اس کے سامنے مجھے معذرت طلب کرنی ہوگی۔ نہیں تو مر کر بھی مجھے شانتی نہیں ملے گی۔‘‘

اسمعیل کی کہانی ختم کر کے میں کچھ دیر تک خاموش بیٹھا رہا۔

لڑکی سے کچھ سننے کی امید کی تھی، مگر وہ بھی چپ رہی۔ کمرے کو پورے اندھیرے نے گھیر لیا تھا۔

’’بتی وغیرہ کچھ جلانا نہیں چاہیں گی؟‘‘ میں نے اس سے پوچھا۔ اس نے کوئی اتر نہیں دیا۔

میں سمجھ گیا، گھر کو روشن کر کے اب وہ کسی گاہک کو بلانا نہیں چاہتی ہے۔

اسمعیل کو مجھے کھوج نکالنا ہی ہے۔ جگہ جگہ اس عہد کو میں نے دہرایا تھا۔ مگر یکایک اندھیرے میں بے حس و حرکت ہو کر بیٹھی اس لڑکی کا خیال مجھے پریشان کرنے لگا۔ میں ایک آدمی کے پیچھے پیچھے بھاگ رہا ہوں اور وہ ایک آدمی کے آگے آگے دوڑ رہی ہے۔ میں کھوجنے آیا تھا اسمعیل کو۔ راستے میں ملاقات  ہو گئی اس طوائف لڑکی سے۔ امید رہا تھا اسمعیل کو پا لینے کی خبر کی، ملی انداشرن مکھرجی کی خبر۔ مگر تعجب ہے کہ وہ سب ایک ہیں، ان سب کی کہانی ایک سی ہے۔ وے خود سمجھ نہیں پانے پر بھی حقیقتاً وہ سبھی تاریخ کی بہیمت کے شکار ہیں۔ اس لڑکی کو اندھیرے میں اکیلے چھوڑ کر اب میں صرف اسمعیل کو کیسے کھوجتا پھروں گا؟ مجھے اب کھوجنا ہوگا انداشرن مکھرجی کو بھی۔ انہیں پانے پر پتہ نہیں اور کس کی کھوج جاری رکھنی ہوگی؟ سنسار کے کروڑوں اسمعیل، انداشرن کو کھوج پانا کس کے بس کی بات ہے؟ دراصل ان کے ایک کو جاننے سے ہی سب کے حالات معلوم ہو جاتے ہیں۔ اب صرف کھوج نکالنے کی ضرورت ہے اسمعیل اور انداشرن کے دشمنوں کو، انسانیت کے دشمنوں کو۔ وقت کافی ہو گیا تھا۔ میں نے اٹھنا چاہ کر بھی لڑکی سے پھر پوچھا : ’’لیمپ جلاؤ گی؟‘‘

اس بار بھی اس نے کوئی جواب نہیں دیا، نہ لیمپ جلانے کے لئے کوئی دلچسپی کا ہی مظاہرہ کیا۔

میری خیال ہے کہ میری سنائی گئی کہانی کی روشنی میں وہ نئے سرے سے اپنی کہانی پر سوچ بچار کرنا چاہ رہی ہے— اسمعیل آدمی ہے یا مسلمان! اس کا دل کھو گیا ہے اسمعیل شیخ کی تلاش میں۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے