اداس نسلیں ۔۔۔ عبد اللہ حسین

 

(اقتباس)

 

سارا گاؤں مسکل سے سو گھروں پر مشتمل تھا، اس گاؤں کا نام روشن پور تھا۔ یہ راستے سے ہٹ کر واقع تھا اور کوئی ڈاچی یا پکی سڑک یہاں تک نہ تھی۔ اس طرف کے دیہات میں آمد و رفت کا سلسلہ اکوں، تانگوں یا پیدل چل کر طے ہوتا تھا۔ ٹوٹی پھوٹی، ٹیڑھی میڑھی پگڈنڈیاں تھیں کو کثرت سے ایک دوسری کو کاٹتی تھی۔ اکثر اوقات ایسا ہوتا تھا کہ کسی اجنبی گاؤں میں پہنچ کر پریشانی اٹھاتے تھے، مگر یہ روز کی بات تھی اور گاؤں والوں کو ایسے مسافروں کے ساتھ خندہ پیشانی سے پیش آنے کی عادت سی پڑ گئی تھی۔ بعض اوقات ان لوگوں کو پہر دو پہر سستانے کے لئے کھاٹ اور پیاس بجھانے کے لئے لسی پانی بھی مل جاتا تھا۔ پگڈنڈیوں پر سارا دن سورج چمکا کرتا، دھوپ کی ماری ہوئی وہ بڑی مسکین اور صاف ستھری لیٹی رہتیں، مگر ان کی کمینگی اس وقت ظاہر ہوتی جب کوئی سواری ان کے اوپر سے گزرتی، تب وہ پگڈنڈیاں گرد و غبار کا ایک طوفان اٹھاتیں جو فضا میں دیر تک منڈلاتا رہتا اور دور نزدیک جو بھی انسان حیوان یا شجر اس کی زد میں آتا، یکساں سب کی دل آزاری کا سبب بنتا۔ کسان مسافروں کو غلط رستے پر ڈال دیتا اور گرد اڑا اڑا کر آس پاس کے جانداروں کو تنگ کرنا ان پگڈنڈیوں کے پاس اپنی بد حالی پر خاموش کرنے کے دو موثر طریقے تھے۔ روشن پور جانے کے لئے آپ کو رانی کوٹ کے چھوٹے سے قصباتی اسٹیشن پر اتر،  ایسے ہی راستوں پر مغرب کی سمت دور تک چلنا پڑتا تھا، رستے میں آپ کو کتے ملتے۔ یہ ایسے ہی معمولی آوارہ کتے تھے جو ہر گاؤں میں ہوتے ہیں اور گاؤں والوں کی رائے یا خواہش کے بغیر ہی اپنے اوپر سارے گاؤں کی حفاظت اور دیکھ بھال کا ذمہ لے لیتے ہیں۔ یہ کتے عموماً قریب سے گزرنے والے مسافر کو بیرونی حملہ آور اور گاؤں کی سلامتی کے لیے سخت خطرے کا باعث سمجھتے، اپنے خدشات کا اعلان اونچی آواز میں بھونک بھونک کر کرتے اور اس طرح مخالفت کا اظہار کرتے ہوئے اگلے گاؤں تک تعاقب جاری رکھتے، جہاں وہ آپ کو اپنے جیسے ہی معمولی اور شکی المزاج کتوں کے حوالے کر کے بہ اطمینان واپس لوٹتے۔ کمزور دل و دماغ رکھنے والے مسافر اکثر طیش میں آ کر رک جاتے، انہیں کوستے، پتھر اٹھا اٹھا کر مارتے، پیچھے بھاگتے اور طرح طرح کی حرکتوں سے سخت ناراضگی کا اظہار کرتے۔  لیکن طبع سلیم کے مالک لوگ کتوں کی نسبت اپنے وقار اور برتر حیثیت کو زیادہ اہمیت دیتے اور درگزر کر کے نکل جاتے۔ اس طرح چودہ کشس لمبی مسافت کے بعد گرد میں اٹے اور اکتائے ہوئے تھک ہار کر آپ روشن پور پہنچتے۔ یہ گاؤں نہر کے کنارے آباد تھا اور نہر کا پانی یہاں کی زمینوں کو سیراب کرتا تھا۔

علاقائی طور پر اس گاؤں کی حیثیت، کم از کم رائے عامہ کے لحاظ سے غیر مسلم تھی، ایک گروہ جس کا سربراہ گاؤں کا سب سے عمر رسیدہ کسان احمد دین تھا، مدعی تھا کہ گاؤں صوبہ دلی میں اور دوسرا گروہ جو سکھ کسان ہرنام سنگھ کی سربراہی میں تھا، دعویٰ کرتا تھا کہ گا آن صوبہ پنجاب میں واقع ہے۔ اس بات پر اکثر چوپال میں مناظرے ہوا کرتے تھے۔ بہر حال یہ امر مسلم تھا کہ گاؤں ہر دو صوبہ جات کی مشترکہ حد پر کسی جگہ واقع تھا۔ اس گاؤں کی تہذیب بھی اسی دوئی کا نمونہ تھی۔ جو سکھ قوم کے افراد یہاں آباد تھے وہ پنجاب کے سکھ کسانوں کی طرح پہنتے کھاتے اور پنجابی زبان میں گفتگو کرتے تھے۔ ہندو اور مسلمان طبقہ یو۔ پی کے کسانوں کی معاشرت کی روادار تھا۔ اس کے باوجود گاؤں کے دو ڈھائی سو افراد بڑے امن اور صلح جوئی کے ساتھ اپنے اپنے طور پر اپنی اپنی زندگیاں بسر کر رہے تھے۔

روشن پور کی تاریخ مختصر اور رومانی تھی۔ اسے آباد ہوئے نصف صدی سے چند سال اوپر کا عرصہ ہوا تھا۔ اس لحاظ سے وہ اس علاقے کا سب سے کم عمر گاؤں تھا۔ یہاں ابھی اس نسل کے بھی افراد بقید حیات تھے جس نے پہلے پہل آ کر یہ گاؤں آباد کیا تھا۔ جس وقت کا ہم ذکر کر رہے ہیں اس وقت دوسری اور تیسری نسل اس کی زمینوں کی کاشت کر رہی تھی۔ تاریخ کا سب سے مستند ذریعہ بہر حال کسان احمد دین تھا جو عین جوانی میں یہاں آ کر بسا تھا اور ان چند کنبوں میں سے تھا جنہوں نے غیر آباد زمین میں روشن پور کا گاؤں آباد کیا تھا۔ یہ تاریخی کہانی وہ اس طرح بیان کرتا تھا:

جب سن ستاون کا غدر مچا تو نواب روشن علی خان ضلع رہتک کے کلکٹر کے دفتر میں معمولی اہلکار تھے (ظاہر ہے کہ اس وقت وہ نواب نہیں رہے ہوں گے )۔ مڈل تک تعلیم یافتہ تھے اور اپنی شرافت کی وجہ سے دوست و احباب اور گلی کوچہ میں قدر و منزلت کی نگاہوں سے دیکھے جاتے تھے۔ اس زمانے میں وہ اپنی والدہ اور نئی بیاہتا بیوی کے ساتھ شہر کے پرانے حصے میں رہتے تھے۔ جس روز شہر میں بغاوت کی آگ بھڑکی اور ہندوستانی سپاہی انگریز افسروں کے خلاف ہتھیار لے کر اٹھ کھڑے ہوئے، اس روز شہر کے عوام میں بھی خوف و ہراس کے ساتھ غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی۔ کئی جگہ لوگ گلی محلوں میں اکٹھے ہو کر چھاؤنی سے آنے والی خبروں پر کان لگائے بیٹھے تھے، گو یہ سمجھنا غلطی ہو گی کہ وہ سب کے سب انگریزوں کے جانی دشمن تھے۔ رات پڑی تو سب شہری اپنے اپنے مکانوں میں بند ہو کر بیٹھ گئے۔

شام کے قریب روشن علی خان نے اپنے علیل دوست سے، جس کی مزاج پرسی کی خاطر وہ اس کے ہاں تشریف لے گئے تھے، اجازت حاصل کی اور گھر لوٹے۔ اپنی گلی سے پچھلی گلی کے اندر داخل ہوتے تھے کہ چند قدم آگے ایک بھاگتے ہوئے شخص پر پڑی۔ دیکھتے دیکھتے وہ سایہ لڑکھڑا کر گرا اور ساکن ہو گیا۔ انہیں تشویش ہوئی، تیزی سے بڑھ کر اس پر جھکے لیکن اندھیرے کی وجہ سے کچھ پہچان نہ پائے۔ پھر آوازیں دیں، ٹٹولا، ناک کے آگے ہاتھ رکھ کر سانس کی روانی کو محسوس کیا اور صرف اتنا جان پائے کہ کوئی مصیبت کا مارا غش کھا گیا ہے۔ بغیر سوچے سمجھے اٹھا کر کندھے پر لادا اور چل پڑے۔ مضبوط آدمی تھے، ایک گلی آسانی سے چل کر کر لی۔ پر بے ہوش آدمی وزن دار ہوتا ہے، ایک جگہ جو کندھا بدلنے کو رکے تو کوئی سخت سی شے محسوس ہوئی۔ ٹٹول کر دیکھا تو اس شخص کی کمر کے ساتھ بندھا ہوا طپنچہ تھا۔ ساتھ ہی ان کا ہاتھ خون سے لتھڑ گیا، وہ زخمی بھی تھا۔ ان کا ما تھا ٹھنکا لیکن اسے اٹھائے ہوئے چلتے رہے۔

گھر پہنچ کر جو چراغ کی روشنی میں دیکھا تو یکلخت سرد پڑ گئے۔ ان کے سامنے سنہری بالوں والا انگریز پڑا تھا جو ہندوستانی دکانداروں کے لباس میں تھا۔ اس کا چہرہ زرد اور سانس مدھم تھا۔ انہوں نے دوڑ کر دروازہ بند کیا اور اسے ہوش میں لانے کی تدبیر کرنے لگے۔ سب سے پہلے گھر کی عورتوں کو پردے میں کر کے اس کا لباس تبدیل کیا اور ٹانگ کے زخم پر، جو تیز دھار آلے سے لگایا گیا تھا، پٹی باندھی۔ پھر اپنی ماں کو بلایا۔ پہلے تو اس نیک بی بی نے مریض کے فرنگی ہونے کی رو سے اس کے نزدیک آنے سے انکار کر دیا۔ مگر پھر روشن علی کے اور اس کی بیوی کے، جو اس خوبصورت جوان کو کسمپرسی کی حالت میں دیکھ کر کافی غمزدہ تھی، منت سماجت کرنے سے اس کی دیکھ بھال کرنے پر رضامند ہو گئی۔ اس نیک بی بی کا مرحوم شوہر یعنی روشن علی خان کا والد چھوٹا موٹا حکیم تھا اور گو اس کی وفات سے خاندان میں یہ پیشہ ختم ہو چکا تھا۔ پر اس واسطے سے مرحوم کی بی بی کو، جو مرحوم سے زیادہ طویل العمر ثابت ہوئیں، کسی حد تک حکمت میں دخل تھا۔ بہر حال اس سفید فام مریض کے سلسلے میں ان لوگوں سے جو کچھ ہو سکا انہوں نے کیا۔

یکایک گلی میں شور اٹھا اور چند لمحوں کے اندر شور قیامت معلوم ہونے لگا۔ پھر روشن علی خان کے گھر کا دروازہ دھڑا دھڑ کوٹا جانے لگا۔ گھر کے مالک نے کھڑکی سے جھانک کر دیکھا تو ہندوستانی سپاہیوں کی ننگی تلواریں اور برچھیوں کے پھل مشعلوں کی روشنی میں چمکتے ہوئے نظر آئے۔ گلی میں ہر طرف ہاہا کار مچی تھی اور سر ہی سر نظر آتے تھے۔ تھوڑی دیر تک اندر سے کوئی جواب نہ ملا تو باغیوں نے دروازہ توڑنے کا فیصلہ کیا۔

اول اول تو محلے کے لوگ گھروں میں دبکے بیٹھے رہے کہ جانے کسی کی موت آئی ہے۔ پھر جب بات کھل گئی کہ اس غیض و غضب کا رخ محض روشن علی کان کے گھر کی جانب سے تو چند سربراہ دبکے دبکائے نکلے اور کسی نہ کسی طور اس دروازے تک پہنچے جس کے توڑے جانے کی تجویزیں ہو رہی تھیں۔ وہاں پر انہیں جو بتایا گیا وہ ہوں تھا: ’’کرنل جانسن، چھاؤنی کے کمانڈنگ افسر، بھیس بدل کر گھیرے میں سے بچ نکلے ہیں اور دلی پہنچنا چاہتے ہیں۔ رستے مین چند سپاہیوں سے ان کی مٹھ بھیڑ بھی ہوئی لیکن وہ ان میں سے 3 کو موت کی نیند سلا کر اور کود تلوار کا زخم کھا کر نکل آئے ہیں۔ اب ان کے خون کی لکیر اس دروازے میں داخل ہوتی ہے۔ انہیں ہمارے حوالے کیا جائے، ورنہ دروازہ توڑ کر گھر کے مکینوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا جائے گا‘‘۔ محلے کے سربرا ہوں نے، کہ کود خوفزدہ تھے، ہر قسم کی مدد کرنے کا وعدہ کیا اور باغیوں کے غصے کو فی الوقت ٹھنڈا کر کے کسی نہ کسی طریقے سے مکان میں داخل ہوئے۔ اب ہر ایک سربراہ اپنی اپنی پگڑی اتار روشن علی خان کے پیروں پہ رکھ رہا ہے، منتیں کر رہا ہے، دھمکیاں اور گھرکیاں دے رہا ہے پر ہمت کا دھنی روشن علی خان اپنے اٹل فیصلے پر قائم ہے کہ جان جاتی ہو تو چلی جائے، پر زخمی مہمان کو دشمنوں کے حوالے نہ کروں گا۔

اس کے بعد کے واقعات کے سلسلے میں داستان گو کے بیان میں بڑی گڑ بڑ تھی۔ کبھی وہ کہتا کہ جب دروازہ توڑا گیا تو بہادر نوجوان نے ایک کندھے پر زخمی مہمان کو، دوسرے پر اپنی بیوی کو تھاما اور لڑتا بھڑتا ہوا صحیح سلامت نکال لے گیا۔ کچھ موقعوں پر اس نے یہ بھی یہ بیان دیا تھا کہ چند مصلحتوں کی بنا پر باغی دروازہ توڑنے سے باز رہے مگر سارے علاقے کو گھیرے میں لے لیا اور رسل و رسائل کے تمام وسائل منقطع کر دیئے گئے۔ یہ سلسلہ کئی ہفتوں تک جاری رہا، یہاں تک کہ اہالیان شہر پر فاقوں کی نوبت آ گئی۔ پھر خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ فرنگیوں کو فتح نصیب ہوئی اور محاصرین کو نجات ملی۔ ایک حکایت یہ بھی تھی کہ روشن علی خان نے جب کوئی راہ فرار نہ دیکھی تو گھر کے فرش سے سرنگ لگانی شروع کی جو چھاؤنی میں جا نکلی۔ اس راستے سے وہ کرنل جانسن اور اپنی بیوی کو نکال کر لے گیا اور بالآخر محلے کے سربرا ہوں کی رائے سے جب گھر کا دروازہ ایک دن توڑا گیا تو گھر میں صرف ایک بڈھی عورت کی لاش ملی۔ یہ گھر کے مالک کی ماں تھی جو پہلے ہی روز صدمے کی وجہ سے راہی ملک عدم ہو گئی تھی۔ قصہ مختصر یہ کہ سربرا ہوں اور باغیوں کو سخت پشیمانی کا سامنا کرنا پڑا۔ ان حکایات کی صحت کی طرف توجہ دینے کی کسی کو ضرورت یوں محسوس نہ ہوتی کہ اس کے بعد داستان گو کے خیالات کی لڑی پھر سلجھ جاتی اور وہ کمال یکسوئی سے یوں گویا ہوتا : ’’جب غدر کا خاتمہ ہوا اور باغی کیفر کردار کو پہنچے تو کرنل جانسن نے، جو شاہ انگلستان کے قریبی عزیزوں میں سے تھا، روشن علی خان کو دلی دربار بلا بھیجا اور اپنے دست خاص سے خلعت عطا کی اور کہا کہ جاؤں اور جتنی زمین، جہاں سے چا ہو گھیر لو، تمہیں عنایت کی جائے گی۔ اس کے بعد اس فیاض انگریز حاکم نے، جسے اردو زبان پر غیر معمولی قدرت حاصل تھی، ایک عجیب و غریب تقریب کے دوران (جس کا تفصیلی ذکر آگے چل کر آئے گا) نواز روشن علی خان کو آغا کا لقب عطا کیا‘‘

زمین گھیرنے کے متعلق دو روایتیں تھیں۔ ایک کے مطابق نواب صاحب نے گھوڑے پر سوار ہو کر چکر لگایا اور گھوڑے کی پونچھ کے ساتھ ایک شہد بھرا ٹین باندھ دیا جس کے پیندے میں سوراخ تھا۔ دوسری کے مطابق انہوں نے پیدل بھاگنا شروع کیا اور بانس کی کھپچیاں راستے میں گاڑتے گئے۔ غروب آفتاب کے وقت جب واپس پہنچے تو سانس اکھڑ گئی، پلٹ کر گرے اور مرتے مرتے بچے، اس سوال کے جواب میں بھی کہ رہائش کے لئے خاص طور پر اس علاقے کا انتخاب کیسے اور کیوں عمل میں آیا، کئی روایتیں مشہور تھیں جن کا بیان اس کتاب کے احاطے سے باہر ہے۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے