آخری جھوٹ ۔۔۔ گلاب داس بروکر/ اعجاز عبید

(گجراتی)

 

 

کتنی حسین ہے وہ؟ بات کرنے کا موقع مل جائے تو مزہ آ جائے۔ نریش گھیا نے اپنے آپ سے کہا۔ اور بات کرنے کے ارادے سے اس نے اپنی طرف بڑھتی ہوئی لڑکی کی طرف مسکرا کر دیکھا۔

اس کے چہرے پر بھی مسکراہٹ تھی۔ وہ کہہ رہی تھی ’’میں آپ کے پاس آ ہی رہی تھی۔‘‘

’’سچ مچ، مجھے بہت خوشی ہوئی مس‘‘

’’نندتا مہتا‘‘ اس نے جملہ پورا کیا۔

”کل کے جلسے میں مجھے آپ کی تقریر بہت پسند آئی‘‘ پھر اچانک وہ بولی – ’’مجھے اتنی پسند آئی کہ میں نے سوچا اگر میں خود آ کر آپ کی تعریف نہیں کرتی ہوں تو اپنی نظروں میں ہی گر جاؤں گی۔‘‘

نریش ذرا جھک کر بولا ’’تھینک یو تھینک یو تھینک یو، مس۔‘‘

’’نندتا، نندتا مہتا نہیں مسٹر گھیا۔‘‘

’’مگر آپ نے غلطی کی نا، مس نندتا‘‘

’’میں نے غلطی کی؟ کون سی؟‘‘

’’میرا نام مسٹر گھیا نہیں، نریش ہے۔‘‘

’’اوہ، سوری، ہاں میں اپنی خوشی کا ہی آپ کے سامنے اظہار کرنا چاہتی تھی۔‘‘

’’مجھے فخر ہوا۔ پر کیا میں سچ مچ اتنا اچھا بولا تھا، اتنا اچھا کہ آپ کے جیسی ٹیلینٹیڈ عورت، سوری، لڑکی کو خود چل کر آنا پڑا مجھے مبارکباد دینے!‘‘

’’آپ ضرور اتنا ہی اچھا بولے ہوں گے، نہیں تو میں ادھر کیوں آتی؟‘‘ ایک مسکراہٹ اس کے ہونٹوں پر تھی، ’’آپ کیسے آدمی ہیں؟ جیسے کہ آپ کو پتہ ہی نہ ہو کہ آپ کتنا اچھا بولے تھے‘‘

’’سچ مچ پتہ نہیں ہے مس نندتا۔ بہت ہی بھلکڑ ہوں،۔ پر کیا کہا تھا میں نے؟‘‘

’’اگر یہی میں بتا سکتی، تو مبارکباد خود وصول کر رہی ہوتی، دے نہ رہی ہوتی۔ مگر وہ کیا جملہ تھا — وہاٹ گریمر از لینگویج ۔۔۔ وہ کیا کیا تھا؟‘‘

’’ہاں ہاں، وہ تو… وہ تو‘‘ نریش چٹکی بجاتے ہوئے کہہ رہا تھا، ’’ورڈس آر ٹو تھاٹ وہاٹ، گریمر اج ٹو لینگویج ۔۔۔‘‘ مگر نندتا جی یہ جملہ میرا نہیں ہے، کہیں پڑھا تھا میں نے۔‘‘

”پڑھا ہوا ہی سہی، پر آپ نے اس کا استعمال بہت اچھا کیا۔ پھر آپ کی تو عادت ہے کہ کسی چیز کا بھی کریڈٹ لینا نہیں چاہتے۔ پنڈیا صاحب کہہ رہے تھے۔‘‘

”کیا کہہ رہے تھے پنڈیا صاحب؟‘‘

”یہی کہ نریش بالکل مغرور نہیں ہے۔ ہماری کلاس میں کل کے جلسے کے سلسلے میں باتیں کرتے ہوئے آج ہی انہوں نے کہا کہ آپ نے کوئی مضمون بہت اچھا لکھا تھا، مگر اس کا بھی کریڈٹ آپ لینے کو تیار نہ ہوئے۔‘‘

’’مطلب؟‘‘

’’مطلب آپ نے کوئی بہت ‘برلینٹ’ بات لکھی تھی۔ اس کی تعریف ہونے پر آپ نے مسکرا کر کہا تھا کہ اس کے لیے مجھے بہت عقلمند ماننا غلط ہوگا، کیونکہ میں نے اسے کہیں پڑھا تھا۔‘‘

’’میں نے تو صرف اسے ’کوٹ‘ کر دیا تھا اور سچ بھی یہی تھا، مس نندتا‘‘

’’مس وس جانے دیجیے نریش جی، صرف نندتا ہی اچھا لگتا ہے۔‘‘

نریش کچھ جھکا۔ پھر دل میں گدگدی سی محسوس کرتے ہوئے بولا، ’’میں جھوٹھ نہیں کہہ رہا ہوں۔ مجھے مذاق کرنے کی عادت ہے۔ میں نے ایمانداری سے لکھا تھا کہ ممتحن اگر ایسا مانے گا کہ ایسا لکھنے والا لڑکا بہت ہوشیار ہے، تو یہ اس کی بھول ہوگی۔ اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ جو چیز ممتحن نے نہ پڑھی ہو، اسے طالب علم پڑھ لے اور اسے امتحان میں لکھ بھی دے، تو ممتحن اسے ہوشیار سمجھنے لگتا ہے۔‘‘

’’ہوشیار ہے تو لگے گا بھی۔‘‘

اس طرح سے نریش اور نندتا کی دوستی گاڑھی ہوتی گئی، جو تھوڑے ہی دنوں میں سارے کالج کی گفتگو کا موضوع بن گئی۔ کالج میں نئی آئی نندتا اپنے حسن و ملاحت سے سب کی کشش کا مرکز تھی۔ نریش اپنی ذہانت اور ہوشیاری کے لیے سب کا پسندیدہ تھا ہی — پر وہ اس حسینہ کا بھی پیارا ہو جائے، یہ کسی کو بھی پسند نہیں آیا پھر بھی سبھی سمجھتے تھے کہ یہ فطری ہی ہے، کیوں کہ نریش جتنا ذہین اور ہوشیار تھا، اتنا ہی امیر بھی تھا۔ بات بات میں وہ شرماتا ہوا کہتا تھا کہ بڑودہ میں اس کے والد کی دو ملیں اور چار موٹریں ہیں۔ وہاں تو بڑے شاہانہ ٹھاٹھ اور لاڑ پیار سے رکھا جاتا ہے، پر اس کی تمنا بمبئی میں ہی پڑھنے کی تھی، اس لئے وہ یہاں چلا آیا ہے۔ ممی تو بہت روئی تھیں۔ پر پاپا ارادے کے بڑے پکے ہیں۔ بیٹا اپنے آپ اپنی زندگی سنوار سکے اس لئے نہ تو ایک موٹر وہاں سے بھیجتے ہیں اور نہ مجھے یہاں خریدنے دیتے ہیں۔ ویسے چار میں سے دو تو بیکار پڑی رہتی ہے۔ ایک کا استعمال ممی کرتی ہے، ایک پاپا کی سیوا میں رہتی ہے۔ جب کبھی میں وہاں ہوتا ہوں، تب تیسری موٹر مجھے دے دی جاتی ہے۔ اور ممی اکثر کہتی ہے’’تو اکیلا ہے اس لئے تیرے حصہ میں دو دو موٹریں ہیں۔‘‘

نریش اور نندتا جب بھی ملتے ان کی بات چیت کا موضوع عام بور پر بیرونی ممالک ہوتے۔ نندتا کہتی –’’میرے پتا جی کافی عرصے ولایت میں رہے ہیں اسلئے میرا بچپن قریب قریب وہیں بیتا ہے۔ پر میرے پاپا بڑے ہی سنکی ہیں۔ جب میں دس سال کی ہوئی، تب انہوں نے اپنا وہاں رہنے کا ارادہ بدل دیا۔ تمبو اکھاڑ کر ادھر آئے۔ اب وہ ماتھے پر تلک لگاتے ہیں اور گیتا کے شلوک پڑھتے رہتے ہیں، بڑے سنکی لگتے ہیں۔‘‘

اتنا کہہ کر وہ زور سے کھلکھلا پڑتی۔ تبھی نریش پوچھ بیٹھا،’’ٹیمس ندی کو کل کل بہتے نہیں سنا ہے نا؟‘‘

’’کیسے بہے گی بچاری جب سارا شہر اسے گھیرے ہوئے ہے۔‘‘

’’تو پھر ایسے کل کل شور کرتے ہوئے ہنسنا کہاں سے سیکھا نندتا؟ بچپن تو تم نے اسی کے کنارے بتایا ہے نا؟‘‘

’’آپ بڑے ویسے ہیں!‘‘

’’پر تمہاری طرح نہیں۔ اور میرے پتا بھی تمہارے پتا کی طرح نہیں ہیں۔ ان میں سنک تو بالکل ہی نہیں۔ بیوپار میں ہی ان کی جان ہے۔ ولایت میں بھی دھندا ہی کرتے رہے۔ خوب ماہر ہو کر جب اپنے دیس واپس آئے، تب یہاں بھی بیوپار ہی کیا اور خدا کے کرم سے انہیں کامیابی بھی خوب ملی۔‘‘

’’ٹھیک ۔۔۔ ٹھیک!‘‘ نندتا ہنس پڑی۔

’’دو ملیں اور چار موٹر گاڑیوں کی کامیابی کوئی خاص کامیابی نہیں کہلاتی نریش جی‘‘

’’پانچویں بھی آنے والی ہے‘‘ نریش نے سنجیدگی سے کہا، ’’آج ہی ممی کا خط آیا ہے۔ انہوں نے اس بات کو ابھی راز رکھنے کو کہا ہے۔‘‘

’’یہ کسے ملے گی؟‘‘

’’کسے ملنی چاہیئے؟‘‘

’’تم کو‘‘ نندتا تالی بجاتی اٹھ کھڑی ہوئی، ’’آپ کو بھی فائدہ ہو گا۔ مجھے بھی۔۔ کبھی اس میں لفٹ دو گے نا؟‘‘

’’میں کیا کہوں‘‘ نریش نے جھجکتے ہوئے کہا۔ اس کی آواز بھی دھیمی پڑ گئی،’’کہ اسے کسی کو دے سکوں، اسی لئے ممی کا ‘اسکرو’ گھمانے کی کوشش کر رہا ہوں‘‘

’’سچ مچ!‘‘

سامنے رکھی ایک کتاب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے نندتا نے نریش سے پوچھا —

’’تم مارکس کو پورا کر چکے ہو شاید۔ یہ تو کوئی دوسری کتاب لگتی ہے؟‘‘

’’یہ فرائڈ کی ہے، دیکھنی ہے؟‘‘

’’بھاڑ میں جائے فرائڈ، مجھے تو اس کا نام بھی پسند نہیں۔‘‘

’’تم بہت جلدی ہی اوب جانے والی جان پڑتی ہو۔‘‘

’’تو لاؤ، دیکھ لیتی ہوں، اس میں کیا ہے؟‘‘

’’نہیں، نہیں، رہنے دو، میرا فراائڈ اتنا گرا ہوا نہیں ہے‘‘ نریش نے ہنستے ہوئے کہا۔

اور اس کتاب کو اس نے ذرا پرے کھسکا دیا۔

’’دیکھوں، تمہارا فرائڈ۔ اس میں کیا پڑھنے لائق ہے؟‘‘ کہہ کر اس نے اچانک آگے بڑھ کر کتاب اٹھا لی۔

’’ارے! یہ تو لندن کی ‘گائڈ بک’ ہے۔ فرائڈ کہاں ہے؟‘‘

’’ارے، یہ آ گئی؟ بدل گئی ہوگی۔ شاید، پٹیل ہے نا، کافی دنوں سے پیچھے پڑا ہے، لندن کے بارے میں جاننے کے لیے۔ اسی لئے اسے دینے کے لیے لایا ہوں۔ بیچارہ فرائڈ تو میرے کمرے میں ہی سو رہا ہوگا۔‘‘

’’مگر یہ بھی ان لوگوں کے لیے ہے جو لندن سے بالکل انجان ہیں۔‘‘

’’پٹیل تو انجان ہی ہے نا!‘‘

’’پر یہ کتاب تو ایک دم نئی ہے۔ کیا اسی کے لیے خریدی؟‘‘

’’کیا کروں دوست ہے نا! اور پھر کیا اس کی خریدنے کی اوقات ہے؟‘‘

’’کتنے سخی ہو تم!‘‘

’’سخی تو تم ہو نندتا۔‘‘

نریش کی آواز جذبات سے پُر ہو اٹھی۔’’نہیں تو میرے جیسے کو اتنے پیار بھری دوستی کیسے دیتیں!‘‘

’’تمہارے جیسے کو؟‘‘ نندتا نے بھوئیں سکیڑ کر پوچھا۔

نریش نے اسی دن اپنے باپ کو خط میں لکھا ۔۔۔

’’آپ کی ایک بات ہمیشہ سچ ہوتی رہتی ہے کہ مجھے امتحان میں اچھی ڈویزن نہیں ملتی۔ ویسے، یہ بات سبھی مانتے ہیں کہ میرا جنرل نالیج بہتوں سے اچھا ہے۔ چونکہ میں کتابی کیڑا نہیں ہوں۔ شاید، اسی لئے ایسا ہے۔ یہاں کوئی نہیں مانے گا کہ میں واقعی میں ٹھونٹھ ہوں،۔ اتنا ٹھونٹھ کہ بنگالی سیکھنے بیٹھا پر لکھاوٹ اتنی ٹیڑھی میڑھی کہ اسی میں الجھ کر رہ گیا اور اسے چھوڑ بیٹھا، پھر بھی میرے دوست مجھے بنگالی کا پنڈت مانتے ہیں۔ مجھے ہنسی آتی ہے ان پر۔ ماں کیسی ہیں؟ دکان کیسی چل رہی ہے؟ بیوپار مندا ہی لگتا ہے۔ پچھلے مہینے آپ نے مجھے ٢٥ روپئے کم بھیجے تھے۔ گزارا کر رہا ہوں۔ پچھلے مہینے سے ایک ٹیوشن بھی مل گئی ہے۔ آپ کی صحت کیسی ہے، اس میں میں آپ کو زیادہ محنت کرنے دینا نہیں چاہتا ہوں۔

اگلے سال تک میں بی۔ اے کر لوں گا۔ بس، اتنی ہی دیر ہے۔ اس کے بعد میں آپ کا بوجھ ہلکا کرنے ۔۔۔۔‘‘

اس کی آنکھیں بھر آئیں، ہاتھ رک گیا۔ اسے دو ملوں اور چار موٹروں کی یاد ہو آئی!

خط ڈاک میں ڈال کر نریش نے ایک عجیب سی تسلی محسوس کی۔ ایسی ہی جیسی نندتا کے قرب سے ہوتی تھی۔ یہ قربت اب اور زیادہ خوبصورت ہو گئی تھی۔

کبھی کبھی کوئی یہ بھی کہہ اٹھتا تھا کہ دونوں کی شادی ہو جائے تو جان چھوٹے۔ پر شادی کیسے ہو سکتی تھی۔ نریش تو جیسے کچھ جانتا سمجھتا ہی نہیں تھا۔ ’’ساری دنیا سمجھتی ہے تو پھر یہ کیسے نہیں سمجھتا؟‘‘ نندتا سوچتی تھی۔

’’کیسا بھولا ہے۔‘‘

’’تم کچھ سمجھتے کیوں نہیں؟‘‘

’’کیا نہیں سمجھتا؟‘‘

’’جو ساری دنیا سمجھتی ہے وہ۔‘‘

’’کہ ۔۔۔‘‘

’’یہ مجھ سے نہیں کہا جائے گا۔‘‘

’’تو کس سے کہا جائے گا؟‘‘

’’تم سے‘‘ کہہ کر نندتا نے اچانک اس کا ہاتھ تھام لیا۔ جو کچھ نریش کو ابھی تک سمجھ میں نہیں آیا تھا، وہ اچانک ہی آ گیا۔

’’نندی،‘‘ وہ صرف اتنا بول سکا۔

’’بولتے کیوں نہیں؟‘‘

’’کیا بولوں، تو تو بہت بھولی ہے۔‘‘

’’بھولے تو خود ہو۔ دل کی بات کہنے کی ہمت تک نہیں کرتے!‘‘ حالات نے نریش کو جیسے چوکنا کر دیا ہو۔ اس کے چہرے پر ایک فیصلے، ایک عہد کی چمک تھی، اس نے کہا ’’کہوں گا، ایک دن ضرور کہوں گا۔‘‘

’’کہوں؟ پر کیا کہوں؟ ایسی بھولی بھالی، پھول جیسی معصوم لڑکی سے، جو مجھے دو ملوں اور چار موٹروں کا مالک اور مائکل مدھوسودن دت تک کے بنگالی ادب کا عالم سمجھتی ہے۔ ایسی لڑکی سے بھلا کیا کہوں؟‘‘ ایک چھوٹی سی کوٹھری میں کروٹ بدلتے ہوئے نریش کو نیند نہیں آ رہی تھی۔ اپنے کلاس کے ساتھیوں کی نظروں میں اس نے اس کوٹھری کو اپنے چاچا کا ‘نیپین سی روڈ’ کا محل بنا رکھا تھا۔ کسی کسی کو تو اس نے ایک نظر دور سے دکھایا تک بھی تھا۔ پر چاچا کا غرور اور چاچی کی لڑاکو طبیعت کی قلعہ بندی کر کے اس نے وہاں سب کا داخلہ روک رکھا تھا۔ یہ ‘محل’ جو ہمیشہ اسے گہری نیند میں سلا دیتا تھا، آج نیند کے بجائے آنسوؤں کا تحفہ دے رہا تھا۔ اس تحفے کے پیچھے اس کو محنت کرتے ہوئے باپ اور اپنا جسم گھلاتی ہوئی ماں دکھائی دیتی ہے۔ ننھے سے گاؤں کی گندی گلیاں ابھرتی ہیں۔

اس میں کیا نندتا رہ سکتی ہے؟ ناممکن، بالکل ناممکن۔ میں نریش گھیا چاہے جتنی گپ نازی کروں، پر ایسا ظلم کبھی گوارا نہیں کر سکوں گا۔ تو کہنا کیا چاہیئے؟ نندتا سے؟‘‘ُ

’’اب تو نندی‘‘ اس نے کہنا چاہا۔ نندتا جیسے نیند سے جاگی ہو۔ حیرت اس کے چہرے پر تھی۔ وہ سوچ رہی تھی نریش کی اس آواز میں اتنی تکلیف کیوں ہے؟

’’تم نے ایک دن مجھ سے کہا تھا کہ میں تم سے کچھ کہوں۔‘‘

’’ہاں، ہاں‘‘ وہ جوش کے ساتھ بولی،

’’میں تو اسی کا انتظار کر رہی تھی، ہر روز، ہر گھڑی، ہر پل۔‘‘

’’مجھے تم سے جو کہنا ہے، وہ کہوں گا، پر پہلے ایک سوال پوچھوں؟‘‘

’’پوچھو نا، نہیں کیوں؟‘‘

’’تم میری کتنی گہری دوست ہو؟‘‘

’’ہوں، ہی۔‘‘

’’پر پھر بھی۔‘‘ نریش ہچکچایا، بولا،’’کیا میں نے کبھی کوئی وعدہ و پیمان توڑا ہے؟ میں نے کبھی بھی تمہارا دوست کے علاوہ کسی اور طریقے سے چھوا ہے؟ سچ کہنا۔‘‘

’’نہیں کیا۔ پر تم ایسے ہو، اسی وجہ سے تو…. میں کیا کہوں تم کو‘‘

’’کیسی بھولی ہو‘‘ اس نے کہا —

’’اتنا گہرا تعلق ہونے پر بھی میں نے ایسا کچھ کیوں نہیں کیا، اس کا خیال تک تم نے نہیں کیا۔‘‘

’’اس میں سوچنا کیا! تم اتنے اچھے ہو کہ ۔۔۔‘‘

’’آدمی چاہے جتنا اچھا ہو پھر بھی وہ ایسا نہیں کرے گا، نندی۔‘‘

’’تو پھر کون نہیں کرے گا؟‘‘ نندی نے چھیڑا۔

’’شادی شدہ‘‘ جیسے قبر سے نریش کی آواز آئی۔

’’نریش‘‘ نندتا چیخ پڑی۔

”شادی شدہ‘‘ نریش نے اتنی ہی دھیمی آواز میں دوبارہ کہا۔ اس کے پہلے کہ نندتا اسے روک کر کچھ پوچھ سکے، وہ چلا گیا۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے