نجمہ منصور ’’نظم کی بارگاہ میں‘‘ ۔۔۔ نعیم گھمن

سرگودھا مردم خیز خطہ ہے۔ اس کی مٹی میں وفا و محبت کی خوشبو رچی بسی ہے۔ پنجاب کی روایتی وضع داری اور مروت کا جوبن سرگودھا کے ہر گوشے میں اپنے رنگ بکھیرتا ہے۔ سرگودھا کی علم دوستی بھی اپنی مثال آپ ہے۔ ڈاکٹر وزیر آغا جیسا ادب دوست اور ادب پرور انسان اسی شہر میں اپنی شمع علم فروزاں کیے ہوئے تھا۔ ڈاکٹر وزیر آغا کی صحبت میں بیٹھنے والوں میں میرے محسن ڈاکٹر طارق حبیب اور نجمہ منصور بھی شامل تھے۔ نجمہ منصور کی فکری آبیاری اور ذہنی بالیدگی میں وزیر آغا کی دانش کا بڑا کردار ہے۔ وزیر آغا کی بارگاہ سے فیض پانے والی نجمہ منصور عہد رواں میں نثری نظم کا معتبر حوالہ ہیں۔ ان کی نظموں پر طویل مضمون اس سے پہلے لکھ چکا ہوں۔ آج ان کی دوسری کتاب ’نظم کی بارگاہ میں‘ پر کچھ معروضات پیش کر رہا ہوں۔ انہوں نے اس کتاب میں معروف نظم نگاروں کو خراج محبت پیش کیا ہے۔ دنیا کے کسی بھی میدان میں سب سے مشکل کام اپنے ہم عصروں کو ماننا اور ان کی تعریف کرنا ہوتا ہے۔ ادیبوں اور شاعروں کا اپنا من موجی سلسلہ ہوتا ہے یہ اپنی مخصوص ترنگ میں رہتے ہیں اور اپنے عہد کے شعراء اور ادبیوں سے شکوہ کناں رہنا معمول کی کاروائی ہوتا ہے۔

نجمہ منصور نے جرات کی ہے اور اس مصنوعی دائرے کو توڑا ہے۔ انہوں نے اپنے ہم عصر جدید نظم نگاروں کی نظم کے انداز میں تعریف کی ہے۔ ان کی ان نظموں میں گہرا مشاہدہ اور نفسیاتی شعور دکھائی دیتا ہے۔ انہوں نے جس شاعر کو نظم کے کوزے میں بند کیا ہے اور نظم میں اس شخصیت کے نمایاں پہلوؤں کو سمونے کی کوشش کی ہے۔ ان پہلی نظم اپنے والد گرامی کے فراق کا مرثیہ محسوس ہوتی ہے۔ انہوں نے اپنے والد کی یادوں کو حرز جاں بنایا ہے۔ اپنے والد کی جدائی کے غم کو لفظوں میں بیان کیا ہے۔ درد اور غم کی کسک اک لفظ لفظ سے عیاں ہے۔

 

بابا جان!

سچ ہے کہ مر نے وا لوں کے سا تھ

کو ئی مرتا نہیں مگر

جب کو ئی بہتا پنا مر جاتا ہے تو

اس کی قبر دل کے اندر بن جاتی ہے

اس کے سوگ کا برگد

جسم و جان پر پھیل جاتا ہے

اس کی جدائی سینے پر دکھ درد کے ہنٹر برساتی ہے

اور اس کا پیار

ساون کی جھڑی بن کر آنکھوں سے برسنے لگتا ہے

 

ڈاکٹر وزیر آغا نجمہ منصور کے ادبی مرشد ہیں۔ جب بھی وزیر آغا کا نام آتا ہے تو ان کی نگاہیں تقدیس کے بوجھ سے جھک جاتی ہیں۔ وزیر آغا کا معمول تھا کہ جب کوئی نئی تخلیق کرتے تو اس سب سے پہلے نجمہ منصور اور اس کے دوستوں کو سناتے تھے۔ وزیر آغا جیسی شخصیت مثل پیڑ ہوتی ہے جس کی چھاؤں سے ہزاروں لوگ لطف اندوز ہوتے ہیں۔ نجمہ منصور کی وزیر آغا کے لیے لکھی گئی نظم عقیدت و محبت پوری آب وتاب سے محسوس کی جا سکتی ہے۔

 

وزیر آغا

آپ اس بارہ ماسی پیڑ جیسے تھے

جس کی برگ برگ شاخوں پر

پرندوں کی ڈاریں اترتیں تو

وہ ان کے سواگت کے لیے

اپنی نرمل کومل پتیاں بچھائے

یگوں تک کھڑا رہتا

 

ڈاکٹر معین نظامی عہد رواں کا طرح دار نظم گو شاعر ہے۔ خانقاہی پس منظر اور فارسی ادب کے استاد ہونے کی وجہ سے ان کی نظم نگاری دبی دکھائی دیتی ہے۔ ان کی پہچان فارسی کے جید سکالر کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی نظم گوئی پر وہ توجہ نہیں دی گئی جس کے وہ مستحق تھے۔ انہوں نے اپنی نظموں میں لفظیات کا جو جال بنا ہے وہ موجودہ عہد کے نظم نگاروں کا میدان ہی نہیں۔ ان کی نظموں کا موضوعاتی تنوع، نفسیاتی پرتیں اور فنی مہارت اپنی مثال آپ ہے۔ نجمہ منصور نے ان کے خانقاہی پس منظر اور ان کی کتب کے نام بڑے ہی احسن انداز میں برتا ہے۔ میری دانست میں کتاب کی ترتیب میں معین نظامی صاحب کا پہلے ذکر آنا چاہیے تھی مگر نجمہ منصور نے اپنے تئیں بہتر ہی جانا ہو گا کہ کس کا ذکر کہاں کرنا ہے۔

 

معین نظامی!

تم خانقاہی نظام کا قدیم استعارہ ہو

تمہاری نظمیں طلسمات کی

تجسیم کا سچا آئینہ

جس میں

سفید بالوں والے درویش کی شبیہ صاف صاف دکھائی دیتی ہے

لگتا ہے

اس کی آنکھوں میں روشن لفظ

کسی مزار پر جلتے ننھے ننھے دئیے ہوں

جس کی لو سے پھوٹتی دودھیا روشنی سے

من کی درگاہ شرابور ہو جاتی ہے۔

 

منیر نیازی نے اپنی بیوی سے وصیت کی تھی کہ تم کسی مرد سے پردہ نہ کرنا مگر جب کشور ناہید آئے تو پردہ لازمی کرنا۔ ادبی حلقوں میں احمد بشیر کا خاکہ ’چھپن چھری‘ اور اس کو سن کر کشور ناہید کی دلدوز چیخ آج بھی سنی جا سکتی ہے۔ ہمارے معاشرے میں مردانہ وار زندگی گزرانے کا ہنر کشور ناہید کو آتا ہے۔ کشور ناہید گذشتہ کئی دہائیوں سے ادبی افق پر اپنے مخصوص انداز کی وجہ سے نمایاں ہیں۔ ان کی ہڈ بیتی ’بری عورت کی کتھا‘ بہت معروف ہے۔ ان کی شاعری اور دیگر ادبی تخلیقات بھی ہمارے سماجی رویوں پر گہری طنز لیے ہوئے ہیں۔ نجمہ منصور نے ان کو اپنی نظم میں بڑے ہی عجب رنگ میں خراج عقیدت پیش کیا ہے۔

 

کشور ناہید!

سنو:

ایسا کرو

دکھوں کا سنیپ شاٹ لے کر

پھر سے

بری عورت کی نئی کتھا لکھو۔ ۔ یا

اس سے پہلے کہ لفظوں کی بینائی ختم ہو جائے

تمہیں لکھنی ہے

ایک نئی طویل نظم

عورت کی اشک شوئی کے لیے

اپنے لیے اور میرے لیے بھی!

 

گلزار جدید اردو نظم کا معتبر حوالہ ہے۔ اس کی جنم بھومی دینہ جہلم ہے۔ گلزار نے ساری زندگی اپنی مٹی سے محبت کی۔ اس نے اپنی راکھ بھی دریائے راوی میں بہانے کا عہد باندھا تھا۔ وہ جب بھی پاکستان آتے تو ان کے جوتے خود بخود پاوں سے الگ ہوتے جاتے اور وہ ننگے پاوں اپنے اجداد کی مٹی پر چلنے کو شرف گردانتے تھے۔ ہجرت کا کرب اور اس کے دکھ کو نجمہ منصور نے گلزار کی بپتا کے روپ میں بیان کیا ہے۔ اس نظم کو پڑھ انسان بے اختیار اداس ہو جاتا ہے کہ تقسیم نے برصغیر انسانوں کو کتنا مجبور و لاچار کر دیا تھا۔ جس کا اظہار وہ ہر وقت کرتے رہتے تھے۔

 

پیارے گلزار جی!

یاد کرو جب تم نے

ننگے پاؤں اپنی جنم بھومی پر قدم رکھا تھا

تو کئی سالوں پر محیط بوڑھا بچپن اور ٹوٹے کھلونے

جو کانٹوں بھری باڑ میں الجھے

لہولہان پڑے تھے

تم سے لپٹ گئے تھے

تم نے انھیں بڑے دلار سے گلے لگا کر

گودی میں اٹھا لیا تھا

اس لمحے

نیلا آسمان، سرمئی بادل

سونا رستہ، ریل کی سیٹی

شاہ بلوط کے پیڑ کے بالکل ساتھ

آدھ کھلی کھڑکی، گھر کے ایک تاریک گوشے میں

کسی بھیگی سانسیں

سب یک زبان بول اٹھے تھے

بیٹا تم نے واپس آنے میں اتنی دیر کر دی!

 

نجمہ منصور نے اپنے عہد کے نظم گو نصیر احمد ناصر کو احساسات کی زبان میں پیغام دیا ہے۔ اس نظم میں انہوں نے فطرتی حسن، کاسنی پھول اور گلدان جیسے الفاظ کو بڑی مہارت سے برتا ہے۔

 

نصیر احمد ناصر

میں تمہارے لیے

لکھنا چاہتی ہوں

ایک زندہ نظم

لیکن وہ نظم کاغذ پر نہیں اترتی

وہ نظم

میرے ذہن کے گلدان میں

کسی سجی سنوری لڑکی کی طرح

کاسنی پھولوں، میں لپٹی

کھل کھل جاتی ہے

اور کبھی

سلیٹی نیند اوڑھے

بے خوابی کی آکاس بیل پر

آنکھیں جھپکاتی مجھ پر ہنستی ہے

 

ڈاکٹر طارق حبیب سے میرا تعارف ’شبیہ‘ کے نظام الدین نمبر کی وجہ سے ہوا تھا۔ اس رسالے کے حصول کے لیے میرے شعبہ کے استاد جاوید صاحب نے ان سے بات کروائی تھی۔ نجمہ منصور نے ان کے ساتھ گزرے ہوئے لمحوں کو یاد کیا۔ انسان جیسے جیسے اپنی عمر عزیز گزارتا چلا جاتا ہے اس کے ساتھ پرانی یادیں شدت سے آنکھ مچولی کرتی ہیں۔ اس نظم میں کچھ ایسی ہی کیفیت دکھائی دیتی ہے۔

 

طارق حبیب!

دھندلی سی یاد ہے

وزیر آغا کی شام دوستاں میں

تم دکھ کا فرغل اوڑھے

آغا جی کی کسی نئی نظم کے پرت کھول رہے تھے

دو دہائیوں پر محیط رشتہ

جس پر احترام کی راکھی بندھی ہے

اب بوڑھا ہونے کو ہے

 

داغستان کے مشہور ادیب رسول حمزہ توف جس کی تحریریں پڑھ کر انسان داغستان کے حسین نظاروں میں کھو جاتا ہے۔ اس کو بھی نظمیہ انداز میں یاد کر کے نجمہ منصور نے اپنے شعری کینوس کو وسعت عطا کی ہے۔ اس نظم سے یہ بھی خبر ملتی یے کہ دیگر زبانوں کے جدید نظم نگاروں کے فن سے بھی نجمہ منصور کو خاصی شناسائی یے۔

 

رسول حمزہ توف!

تم شاعر ہو اور داغستان تمہارا وطن

جیسے ہی تم

لفظوں کی پٹاری کھولتے ہو

تو لفظ

پہاڑیوں پر اگنے والے نوکدار کانٹوں کی طرح

تمہاری پوروں میں چبھ جاتے ہیں

پھر تمہاری بیاض میں

یوں اگ آتے ہیں جیسے

خود رو پھولوں سی نظمیں

 

افضال احمد سید جدید نظم کا معتبر حوالہ ہیں۔ ان کا ذکر بھی نجمہ منصور نے کیا ہے بلکہ ان کی نفسیاتی الجھنیں بھی بیان کی ہیں

 

افضال احمد سید!

تم بنا ڈرے سہمے

اس شہر کے ہر چوراہے پر

آنکھوں پر پٹی باندھے

ادھر ادھر بھاگتے پھرتے ہو

لفظوں کے پیچھے، کتابوں کے پیچھے

وقت نے تمہیں بنایا یا تم نے وقت کو

یہ تو وقت ہی بتا سکتا ہے۔

اس کے علاوہ انہوں دیگر زبانوں کے مختلف شعراء کو بھی یاد رکھا یے جن میں اوکتاویو پاز۔ پابلو نیرودا۔ ناظم حکمت۔ فروغ فرخ زاد وغیرہ شامل ہیں۔

نجمہ منصور کی یہ کتاب ’نظم کی بارگاہ میں‘ منفرد اور نمایاں تخلیق یے۔ جس کی اک اک نظم اپنے عہد اور سماج کی عکاس ہے۔ انہوں نے مختصر نظموں کے ذریعے معروف نظم نگاروں کا عمدہ اور دلچسپ تعارف پیش کیا۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے