ادھوری کہانی ۔۔۔ انور فرازؔ

میری بیٹی سیما کھانے کے ٹیبل پر میرے سامنے بیٹھی ہے۔ وہ کھاتی بھی جاتی ہے اور رسالہ بھی پڑھتی جاتی ہے۔ کھاتے کھاتے اسے کچھ نہ کچھ پڑھنے کی عادت ہے۔ زیادہ تر کہانیاں ہی پڑھتی ہے، پڑھنے کے بعد پڑھی ہوئی کہانی مجھے سناتی ہے۔ پھر مجھ سے کہانی پر میری رائے پوچھتی ہے۔ وہ جانتی ہے، مجھے کہانیاں سننے اور پڑھنے کا شوق ہے، اس لیے وہ مجھے کہانیاں سناتی ہے، اور پھر کہانی پر میری رائے پوچھتی ہے۔

’’واہ وا ۔۔۔! کتنی خوب صورت، کتنی پیاری کہانی ہے ڈیڈی!‘‘ وہ ایک دم اچھل پڑی ہے، میں اپنے کھانے میں مگن ہوں۔ اس نے رسالہ میرے سامنے کر دیا اور میں رسالے میں چھپی تصویر کو دیکھ رہا ہوں۔ تصویر کے نیچے لکھا ہے کہانی ’خواب کی تکمیل‘ کی مصنفہ شالینی ۔ یہ وہی تصویر ہے جو سولہ سال سے میرے ذہن کے فریم میں آویزاں ہے، کہانی بھی وہی ہے جو میں نے اپنے دل میں سولہ سال سے دبائے رکھی ہے۔

اس کہانی کے کردار بھی وہی ہیں جو میری ادھوری کہانی کے ہیں۔ میں شالنی اور میری بیٹی سیما۔

میں تصویر کو غور سے دیکھ رہا ہوں۔ تصویر میں کی شالنی مجھے ماضی کے دروازے کھولتے ہوئے سولہ سال پہلے کے مقام پر لے آئی ہے۔ ۔!

میں شہر کے ایک باغ میں بیٹھا کچھ سوچ رہا ہوں۔ کچھ لکھ رہا ہوں۔ میں اپنا خالی وقت باغ کے اِس کونے میں گزارتا ہوں، میری بیوی دو سال کی بچی کو تنہا چھوڑ کر اس جہاں سے ہمیشہ کے لیے چلی گئی، گھر میں اچھی ہے وہ کسی نا کسی طرح اسے سنبھالے ہوئے ہے، اور میں اپنی بیوی کی یادوں کو بھلانے کے لئے اس باغ کے کونے میں آ کر بیٹھ جاتا ہوں۔ میں اپنا خالی وقت باغ کے اِس کونے میں گزارتا ہوں۔ گھر میں رہوں تو بچی کا رونا مجھ سے دیکھا نہیں جاتا، وہ اپنی ممّی کو یاد کر کے روتی رہتی ہے۔ میں نے اُسے سنبھالنے کے لئے ایک آیا بھی رکھ لی ہے، لیکن ایک آیا میں اور ماں میں فرق بچہ خوب جانتا ہے۔

زبان پر ممّی کی ہی رٹ رہتی ہے۔ لیکن آیا بہت اچھی ہے وہ کسی نا کسی طرح سے اُسے سنبھالے ہوئے ہے، اور میں اپنی بیوی کی یادوں کو بھلانے کے لیئے اس باغ کے کونے میں آ کر بیٹھ جاتا ہوں۔

’’کیا میں اس سیٹ پر بٹھ سکتی ہوں؟‘‘ ایک خوبصورت عورت نے آ کر مجھ سے پوچھا۔

’’ضرور بیٹھئے۔ ۔!‘‘ میں نے اسے بیٹھنے کے لیئے ذرا سی جگہ بنا دی اور پھر لکھنے میں مصروف ہو گیا ہوں۔

’’اگر میرا اندازہ غلط نہ ہو تو آپ رویندر ہیں!؟ اس نے کہا۔

میں اپنا نام سن کر ایک دم چونک پڑا ہوں۔۔۔۔ ’’آپ نے کس طرح جانا؟‘‘

’’میں آپ کو یہ بھی بتا دوں کہ آپ ایک کہانی کار بھی ہیں۔ ۔ ۔!‘‘

اب میں سمجھ گیا ہوں، ضرور اس نے کسی رسالے میں میری تصویر دیکھی ہو گی، اس نے پھر کہا۔

’’شاید اس وقت بھی آپ کوئی کہانی لکھ رہے ہیں‘‘ وہ مجھ سے کہہ رہی ہے۔‘‘

’’ہاں۔ ۔ ۔ کہانی لکھ کر دل کو بہلا رہا ہوں‘‘ اس نے میرے چہرے پر کی اُداسی کو نہیں دیکھا۔

’’کیا میں کہانی پڑھ سکتی ہوں؟‘‘ اس نے چند منٹوں کی دوستی میں فرمائش کر ڈالی۔ میں کہانی اس کی طرف بڑھا دیتا ہوں، اور جاتے ہوئے جوڑوں کو دیکھتا ہوں، مجھے اپنی بیوی یاد آ جاتی ہے۔ کھیلتے ہوئے بچوں کو دیکھتا ہوں۔ مجھے اپنی بیٹی یاد آ جاتی ہے اور آنکھ میں پانی بھر آتا ہے۔

’’کہانی کی ابتدا بہت اچھی ہے۔ ۔۔۔!‘‘ وہ کہہ رہی ہے ’’آپ کا یہی انداز مجھے بہت پسند ہے ۔۔۔ اور آپ کسی کے حسن کی تعریف بہت مختصر کرتے ہیں۔‘‘ وہ کہتی جا رہی ہے، میں خاموش اپنی سوچ میں بیٹھا ہوں۔ پھر میں نے کہا۔ ’’ہاں! میری کہانیوں میں یہ کمی آپ نے ضرور محسوس کی ہو گی۔ لیکن مری عملی زندگی میں اگر حسن میرے سامنے آ جائے تو میں اُس کی تعریف کئے بنا نہیں رہ سکتا۔‘‘

وہ یہ سن کر شرما سی گئی ’’آپ چھوٹے چھوٹے جملوں میں کافی چوٹ دے جاتے ہیں۔‘‘

میں نے کچھ نہیں کہا۔ وہ تھوڑی دیر بیٹھی رہی، پھر جانے کے لیے کھڑی ہو گئی۔

’’تو میں چلوں!‘‘ اس نے جانے کی اجازت چاہی۔

’’اچھا۔ ۔ ۔ لیکن اپنا نام تو بتاتی جائیے‘‘ میں نے کہا۔

’’شالنی‘‘ ۔۔۔۔۔ اس نے مختصر اپنا نام بتایا، پھر پوچھا ’’کیا آپ روز یہاں آتے ہیں؟‘‘

’’ہاں! خالی وقت میں اکثر آ جاتا ہوں۔‘‘ اور وہ چلی گئی۔

شالنی سے یہ میری پہلی ملاقات تھی، پھر وہ اکثر مجھ سے ملتی رہی۔ دن بیتتے رہے، ہماری ملاقاتیں بڑھتی رہیں۔ شالنی سے مل کر میں اپنی بیوی کی یادوں کو کچھ کم کر بیٹھا تھا اور مجھ میں پھر سے زندگی کو اپنانے کی چاہت آ گئی تھی۔

شالینی سے میری چاہت جب حد سے بڑھ گئی تو میں نے سوچا کہ اُس سے شادی کی بات کروں، لیکن ابھی تک اسے یہ نہیں معلوم تھا کہ میں شادی شدہ ہوں اور میری ایک بچی بھی ہے۔ لیکن مجھے اس کے پیار پر بھروسہ تھا، میں سمجھتا تھا وہ مجھ سے شادی کے لیے تیار ہو جائے گی اور میری لڑکی کو اپنا لے گی۔ یہی سوچ کر میں نے اپنے دل کی بات بتانے کے لیے ہماری ملاقاتوں، ہماری باتوں اور ہماری پیار کی ایک کہانی بنائی، جس میں اپنی خواہش، اپنی چاہت بتا دی اور یہ بھی بتا دیا کہ میرے گھر مری دو سال کی بیٹی بھی ہے اور اس سے التجا کی میری محبت کو قبول کر لے، میری بیٹی کو اپنا لے اور اس ادھوری کہانی کو مکمل کر دے۔ شالینی نے یہ کہانی پڑھی، اس کے چہرے پر ایک رنگ آتا تھا ایک رنگ جاتا تھا، پھر وہ چیخ پڑی۔ ’’نہیں رویندر، نہیں میں تم سے شادی نہیں کر سکتی، میں تم سے پیار ضرور کرتی ہوں، لیکن تمہاری ۔۔۔ بیٹی! نہیں نہیں میری ممتا صرف میری کوکھ سے جنم لینے والی بچی کے لیے ہو گی۔ میں اپنی ممتا کسی دوسرے کی بچی پر نچھاور نہیں کر سکتی۔ رویندر یہاں سے چلے جاؤ۔ مجھے بھول جاؤ، یہ کہانی مکمل نہیں ہو سکتی۔ میں تم سے شادی نہیں کر سکتی۔‘‘ وہ رو پڑی اور میں اپنے سینہ پر غموں کا پہاڑ رکھے، اپنی کہانی، ادھوری کہانی وہیں چھوڑ آتا ہوں۔

سولہ سال یوں ہی یادوں میں بیت جاتے ہیں۔ میں اب زندگی کے اس موڑ پر پہنچ گیا ہوں، جہاں چاہت کی حد ختم ہو جاتی ہے، جہاں ماضی بہت طویل نظر آتا ہے اور مُستقبل بہت مختصر۔۔!

’’ڈیڈی سنیے نا کہانی‘‘ ۔۔۔۔۔ میں اپنی بیٹی کی بات پر چونک پڑتا ہوں، اور وہ کہانی سنانے لگتی ہے۔ ۔ ۔

یہ وہی کہانی ہے جو میں نے سولہ سال پہلے شالنی کو لکھ کر دی تھی کہ وہ اس کہانی کو مکمل کر دے، میری بچی کو اپنا لے اور میرے پیار کو قبول کر لے۔ آج وہی کہانی میری بیٹی مجھے ہی سنا رہی تھی۔

’’۔۔۔ رویندر نے ہماری یہ کہانی لکھ کر میرے سامنے رکھ دی کہ میں اسے اپنا بنا لوں اور اس طرح ایک ادھوری کہانی پوری ہو جائے، لیکن میں نے اس سے شادی کرنے سے انکار کر دیا تھا، کیوں کہ اس کی ایک بچی تھی، ہر عورت کی طرح میں نے یہی سپنا دیکھا تھا کہ میں بھی ایک بچہ کو جنم دوں اور اسے چاہوں، میں دوسرے کے بچہ کو کس طرح پیار دے سکتی تھی۔ میں نے رویندر کو شادی سے انکار کر دیا تھا۔ اور پروفیسر کھنہ سے شادی کر لی تھی۔ شادی کئے پندرہ سال گزر چکے تھے لیکن میری گود ابھی تک بھری نہیں تھی، قدرت نے ایک بچی کو نہ اپنانے کا بدلا لے لیا تھا۔

میں بچہ کے لیے تڑپتی رہی آخر میں نے ہار مان کر دوسروں کے بچوں سے محبت شروع کر دی، اس شوق میں ایک اسکول کی ٹیچر بن گئی، یہاں دوسروں کے ہزاروں بچے ّ ہیں جنہیں میں اپنا سمجھنے کے لیے مجبور ہوں۔ اس طرح میں نے شکست کھا کر اپنے خواب کی تکمیل کر لی ہے۔ اپنی ممتا کو سکون پہنچا لیا ہے، لیکن اب سوچتی ہوں، اگر میں رویندر سے شادی کر لیتی، اس کی بیٹی کو اپنا لیتی، وہ ادھوری کہانی کو تکمیل تک پہنچا دیتی تو میرا خواب بہت پہلے پورا ہو جاتا۔ بہت پہلے مجھے سکون مل جاتا۔ بہت پہلے میں بچہ کا پیار پا لیتی، خواب کی تکمیل بہت پہلے ہو جاتی۔‘‘

’’کہیے ڈیڈی!! کہانی کیسی ہے۔۔؟‘‘ میری بیٹی مجھ سے پوچھ رہی ہے۔

میں اسے آہستہ سے کہتا ہوں ’’ایک سچی کہانی ہے ایک مکمل کہانی ہے۔ ۔!! پھر بھی ابھی تک ادھوری کہانی ہے۔!‘‘

میری بیٹی مجھے سوالیہ نظروں سے دیکھ رہی ہے۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے