میرے ساتھ ایک عجیب معاملہ ہے۔ گزرے دنوں کو یاد کرنے کے لیے مجھے حال سے ماضی کی طرف کھُلنے والی کھڑکیوں کے پیچھے جھانکنا نہیں پڑتا۔ ان گنت چہرے مجھے ہر وقت ان جھروکوں سے جھانکتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ وہ لوگ بھی مجھ سے ملنا چاہتے ہیں۔ شاید اسی لیے وہ ہر وقت فریم میں لگی تصویروں کی طرح ان جھروکوں میں کھڑے منتظرنظر آتے ہیں۔ مجھے دوسری طرف جھانک کر انہیں ڈھونڈنا نہیں پڑتا۔ ان چہروں کی تصویریں ہر وقت ایک فلم کی طرح میرے ذہن کے پردے پر چلتی رہتی ہیں اور میں پل بھر کے لیے بھی ان سے جدا نہیں ہو تا۔ ان میں ہرعمر اور بناوٹ کے چہرے ہیں۔ گول مٹول، بیضوی، لمبوترے، مردانہ، زنانہ، بچگانہ اور عمر رسیدہ چہرے۔
اتنے سارے چہروں کے بیچ ایک چہرہ ایسا بھی ہے جو سب سے روشن دکھائی دیتا ہے اور تنہا پورے جھروکے کو گھیرے نظر آتا ہے۔ یہ چہرہ پہلوان جی کا ہے۔ اس چہرے کی انفرادیت کی وجہ صرف میرا پہلوان جی کے ساتھ گہرا جذباتی لگاؤ ہی نہیں بلکہ یہ اعجاز اس چہرے کے حجم کا بھی ہے جس کے باعث جھروکے میں کسی دوسرے چہرے کے نظر آنے کی گنجائش ہی باقی نہیں بچتی۔ اکثر لوگ پہلوان جی کے ساتھ تصویر بنوانے سے کتراتے کیونکہ وہ اچھی طرح سے جانتے تھے کہ انہیں تو بس پہلوان کے ساتھ چپک کر کھڑے ہونے کا تکلف ہی کرنا ہے۔ تصویر تو صرف پہلوان کی ہی آنی ہے۔
ان کا اصل نام تو کچھ اور تھا مگر وہ محلے میں پہلوان جی کے نام سے مشہور تھے۔ ان کی ظاہری شخصیت میں ہمیشہ مجھے ایک عجیب طرح کی پراسراریت نظر آتی۔ گول بٹن جیسی آنکھیں، جو گھنی بھنوؤں کے بوجھ سے پوری طرح سے کھُلنے میں ہمیشہ ناکام رہا کرتیں۔ نیم وا آنکھوں سے جھانکتی سرخی، جو خواہ مخواہ پہلوان جی کی شخصیت کو بارعب بنانے پر تُلی رہتی۔ دو لمبی لمبی نیچے کو ڈھلکی ہوئی خوفناک مونچھیں، جو ذرا سی ہوا چلنے پر سانپوں کا رقص پیش کرنے لگتی تھیں۔
پہلوان جی ہمارے محلے میں ایک گلی کی نکّڑ پر واقع چھوٹے سے مکان میں رہائش پذیر تھے۔ گھر کے ماتھے پر لکڑی کی ایک بوسیدہ سی تختی آویزاں تھی جس پر ایک عبارت لکھی نظر آتی۔ ’آشیانۂ پہلوان‘۔ یہ دو لفظ ایک طرف تو پہلوان جی کے شاعرانہ ذوق کی تشہیر کرتے تھے تو دوسری طرف پڑھنے والوں پر خواہ مخواہ گھر کے مکین کی دھاک بٹھا دیتے۔ شروع میں تختی پر لکھی یہ تحریرمیری طبع نازک پر بڑی گراں گزرا کرتی۔ نجانے کیوں مجھے یہ محسوس ہونے لگتا جیسے کوئی شترمرغ کسی معصوم سی چڑیا کے نرم و نازک گھونسلے پر زبردستی آن بیٹھا ہو۔ مگر جب مجھے پہلوان جی سے ملنے کا موقع ملا تو ساری بد گمانی جاتی رہی۔ پتا چلا کہ پہلوان جی تو خود اپنے چوڑے چکلے سینے میں چڑیا کا دل رکھتے تھے۔
کہنے کو پہلوان جی کی سکونت ’آشیانۂ پہلوان‘ میں تھی مگر حقیقت میں وہ سارا دن اپنی بیٹھک کھولے گلی میں چارپائی بچھائے بیٹھے نظر آتے۔ شریک حیات کے مرنے کے بعد آشیانۂ پہلوان پر بیٹے اور بہو کا قبضہ تھا۔ پہلوان جی کے حصے میں بس ایک بیٹھک ہی آئی تھی جو زندگی کے گرم و سرد موسم میں ان کی ساتھی تھی۔ یوں تو ساری زندگی اکھاڑے میں گزارنے کے بعد پہلوان جی کپڑوں کے تکلف سے تقریباً بے نیاز ہو چکے تھے۔ سارا دن نیلے رنگ کا تہبند باندھے، ہاتھ میں حقہ تھامے وہ اپنی گلی کی نکڑ پر بیٹھے نظر آتے۔ اب تو پہلوان جی کی شخصیت اس گلی کی پہچان بن چکی تھی۔ جس دن وہ گلی میں نظر نہ آتے۔ گلی کے ایک دو مرد اپنے گھر کا راستہ بھول جاتے۔ چھیمو کا شوہر تو اس دن ضرور رستہ بھولتا اور ساتھ والی گلی میں جا کر رجو کے دروازے پر دستک دے ڈالتا۔ رجو دروازہ کھولتی تو اس کے گورے چٹے چہرے کو شرم سے گلابی ہوتا دیکھ کر اس کا دل باغ باغ ہو جاتا۔ دوسری طرف چھیمو کے جاسوس جب اس حادثے کی اطلاع اسے دیتے تو وہ جھولی پھیلا کر شوہر کو کوسنے کے ساتھ ساتھ پہلوان جی کی لمبی عمر کی دعائیں بھی مانگ ڈالتی جس کی موجودگی گلی کے مردوں کو راہ راست پر لے آتی تھی۔
سنا تھا کہ کسی زمانے میں پہلوان جی کا ڈنکا پورے شہر میں بجتا تھا۔ ان کی وجۂ شہرت یہ تھی کہ اپنی زندگی میں کوئی کُشتی ایسی نہ تھی جو پہلوان جی ہارے نہ ہوں۔ اس کے باوجود پہلوانی کا ایسا شوق کہ ہر چھوٹی بڑی کشتی کے اشتہاری پوسٹر پر پہلوان جی کا نام واضح لکھا نظر آتا۔ بڑے بڑے نامی گرامی پہلوان ان کی بڑی عزت کرتے تھے اور انہیں اپنا استاد مانتے تھے۔ اور کیونکر نہ مانتے؟ آخر کو انہوں نے پہلوان جی کے پنڈے پر ہی تو اپنے ہاتھ رواں کیے تھے۔ پہلوان جی کا بے ڈول مگر پہاڑ جیسا پنڈا ان کے لیے تختۂ مشق نہ بنتا تو آج وہ بھی گمنامی کی زندگی بسر کر رہے ہوتے۔ پہلوان جی بھی اپنے ان شاگردوں کا نام بڑے فخر سے لیتے جنہوں نے ان کے پنڈے کو مجاز بنا کر حقیقی کامیابی کو پا لیا تھا اور بڑا نام کمایا تھا۔ ایک دن مجھے پہلوان جی کی بیٹھک اندر سے دیکھنے کا شرف حاصل ہوا تو دیوار کی ایک کارنس پر سجی ان گنت ٹرافیوں اور میڈلز کو دیکھ کر میں ششدر رہ گیا۔ اس کے بعد ایک عرصے تک حیرت و عقیدت کے بحر بیکراں میں غوطے کھانے کے بعد یہ عقدہ کھلا کہ یہ سب تو پہلوان جی کی فیکے کباڑیے سے دوستی کی نشانیاں ہیں۔
پہلوان جی سے میری باقاعدہ دوستی کا آغاز اس زمانے میں ہوا جب میں رقعہ بازی جیسے بد نامِ زمانہ کھیل کھیلنے کے لیے گھر کی چھت پر چلچلاتی دھوپ میں سارا دن جلا کرتا تھا۔ مجھے یاد ہے اس دن بھی اِسی کھیل کا مظاہرہ کرنے کے لیے میں چھت پر کسی کے انتظار میں کھڑا تھا۔ سامنے والی کھڑکی کو آہستہ سے کھلتے دیکھ کر میں نے جھٹ اپنی جیب سے ایک رقعہ نکال لیا۔ رقعے پر لکھی تحریر کے نیچے میں نے بڑی چاہت سے ایک دل بنایا تھا جس میں اپنے نام کے ساتھ کھڑکی والی کا نام جوڑ کر لکھا تھا۔ اور دردِ محبت کے اظہار کے لیے بڑی چابکدستی سے ایک عددتیر بھی عین اس دل کے وسط میں پیوست کر دیا تھا۔ اس پربھی دل عاشق کو قرار نہ آیا تو سرخ سیاہی سے اس زخمی دل سے خون کے چند قطرے بھی ٹپکا دیے۔ کھڑکی اب پوری طرح سے کھُل چکی تھی۔ میں نے فوراً دھاگے کی مدد سے رقعے کو ایک چھوٹی سی پنگ پانگ گیند کے اوپر لپیٹا اور اسے کھُلی کھڑکی کی طرف اچھال دیا۔ اب اسے قسمت کی سِتم ظریفی سمجھیے یا میری ناتجربہ کاری کہ گیند تو درِ محبوب کو چھو نے میں کامیاب رہی مگر میرا محبت نامہ گیند سے روٹھ کر الگ ہو گیا اور ہوا کے دوش پر رقص کرتا سیدھا نیچے گلی کی طرف چل نکلا۔ اس روح فرسا منظر کی تاب نہ لاتے ہوئے سامنے والی کھڑکی دھڑ سے بند ہو گئی تھی۔ میں نے حواس باختہ ہو کر نیچے گلی میں جھانکا تو دل اچھل کر حلق میں آ گیا۔ دیکھتے کیا ہیں کہ نیچے گلی میں پہلوان جی چارپائی پر بیٹھے ہمارا رقعہ دونوں ہاتھوں میں تھامے اپنے مطالعے کا دیرینہ شوق پورا فرما رہے تھے۔ میں بھاگم بھاگ، سیڑھیاں پھلانگتے ہوئے گلی میں پہنچا تو دیکھا کہ پہلوان جی رقعے کو الٹا پکڑے، اپنی عینک کے موٹے شیشوں کے پیچھے سے، اس پر لکھی تحریر کو پڑھنے کی انتھک اور جان توڑ کوشش میں لگے تھے۔ یہ دیکھ کر میری جان میں جان آئی۔ مجھے پاس آتا دیکھ کر پہلوان جی فوراً چہکے۔ ارے جمیل میاں! ذرا دیکھنا۔ اس کاغذ پر کون سی زبان لکھی ہے۔ بھئی! ہم سے تو پڑھا نہیں جا رہا۔ میں نے جھٹ کاغذ پہلوان جی کے ہاتھ سے چھین لیا۔ پہلوان جی! یہ آپ کو سمجھ نہیں آئے گی۔ اس پر پشتو لکھی ہے۔ میری بات پر پہلوان جی بولے۔ اچھا کوئی بات نہیں۔ میں اپنے بیٹے سے پڑھوا لوں گا۔ اسے پشتو آتی ہے۔ یہ کہہ کر پہلوان جی نے آناً فاناً کاغذ میرے ہاتھ سے جھپٹ لیا اور اپنے تکیے کے نیچے رکھ کر خود اس پر لیٹ گئے۔ میں چار و ناچار بوجھل قدموں سے چلتا واپس چھت پر پہنچ گیا۔ دل ہی دل میں پہلوان جی کو برُا بھلا کہا۔ جو رقعے کو قارون کا خزانہ سمجھ کر اسے دبا کر بیٹھ گئے تھے۔ اب کیا کروں؟۔ دل میں سوچا۔ سوائے انتظار کے اب کوئی چارہ نہیں۔ پہلوان جی کے سونے کا انتظار کرنا چاہئے۔ اسی سوچ میں چھت پر بچھی چارپائی پر لیٹا تو خود کی آنکھ لگ گئی۔ خواب میں دیکھا کہ میں مرغا بنا ہوں اور پاس ہی ابا میاں ہاتھ میں کوئی کاغذ پکڑے غضب ناک نظروں سے مجھے گھورے چلے جا رہے ہیں۔ گھبرا کر اٹھا اور نیچے گلی میں جھانکا۔ پہلوان جی غائب تھے۔ چارپائی پر ان کی جگہ ان کا چھ سالہ پوتا احمد بیٹھا تھا۔ ذرا غور سے دیکھا تو دل دھک سے رہ گیا۔ بچے کے ہاتھ میں میرا رقعہ تھا اور وہ اس سے جہاز بنانے کے تخلیقی کام میں مصروف تھا۔ جلدی سے بھاگتا ہوا میں پھر سے گلی میں پہنچا مگر اس بار ذرا تاخیر ہو گئی تھی۔ جہاز اپنی اڑان بھر چکا تھا۔ میرے دیکھتے ہی دیکھتے وہ ہوا میں بلند ہوا اور سیدھا پہلوان جی کی چھت پر جا اترا۔ اسی وقت احمد کی ماں نے اسے پکارا اور وہ اندر بھاگ گیا۔ میں پریشان حال کھڑا سوچ رہا تھا کہ اب کیا کروں۔
اسی اثناء میں اچانک پیچھے سے کسی نے میرے کاندھے پر ہاتھ رکھ دیا۔ پلٹ کر دیکھا تو پہلوان جی چہرے پر ازلی مسکراہٹ سجائے مشفقانہ نظروں سے میری طرف دیکھ رہے تھے۔ ہاتھ میں پکڑا ایک کاغذ لہراتے ہوئے ان کی آنکھوں میں چمک آ گئی، بولے۔ اسے ڈھونڈ رہے تھے برخوردار۔ میں نے غور کیا تو پتا چلا کہ ان کے ہاتھ میں میرا ہی محبت نامہ تھا۔ اب سمجھ میں آیا کہ احمد میاں کے ہاتھ میں کوئی دوسرا کاغذ تھا جسے میں اپنا رقعہ سمجھا تھا۔ پہلوان جی نے پیار سے مجھے اپنے پاس چارپائی پر بٹھا لیا اور بولے۔ جمیل میاں! اگر کاغذ کی تحریر پشتو میں بھی ہوتی تو اسے سمجھنے کے لیے فقط اس پر بنا دل ہی کافی تھا۔ اسے دیکھ کر سارا مضمون سمجھ میں آ جاتا۔ میں نے چوری پکڑے جانے پر شرمندگی سے سر جھکا لیا۔ وہ بولے۔ جمیل میاں! تم ابھی بچے ہو۔ تم کیا جانو محبت کیا ہوتی ہے۔ اور اگر ایک پل کو مان بھی لیں کہ تمہیں کسی سے سچی محبت ہو گئی ہے تو پھر یہ ڈھنڈورا کیسا۔ محبت کی نعمت تو خوش نصیبوں پر اترتی ہے اور اس کی تشہیر سے رب کی ناشکری ہوتی ہے۔ لو رکھو اسے۔ پہلوان جی نے رقعہ میرے ہاتھ میں تھما دیا۔ جس دن سچی محبت ہو گی۔ یاد رکھنا! اُس دن تمہیں اِس رقعے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ اور جمیل میاں! جس چیز پہ اختیار نہ ہو اس کا اتنا دعویٰ نہیں کرتے۔ اس روز نجانے پہلوان جی کی باتوں میں ایسا کیا تھا کہ میری سارا سارا دن چھت پر دھوپ میں جلنے سے جان چھوٹ گئی۔
٭٭
وقت کا پنچھی پر لگا کر اڑتا رہا۔ پھر ایسا ہوا کہ نوکری کے سلسلے میں مجھے ملک چھوڑ کر پردیس جانا پڑا۔ پیسہ کمانے کی دھُن سر پر سوار ہوئی تو رشتوں ناطوں کی دنیا سمٹتی چلی گئی۔ رابطے منقطع ہوتے گئے۔ دوستوں کے ساتھ گزرے وقت کی یادیں قصۂ پارینہ بنتی چلی گئیں۔ اماں اور ابا کی وفات کے بعد تو جیسے وطن سے ناتا ہی ٹوٹ گیا۔ ایک چھوٹا بھائی تھا خلیل، جو مجھے وطن کی مٹی سے جوڑنے کی تگ ودو میں لگا رہتا۔ اس سے فون پر جب بھی بات ہوتی وہ محلے بھر کی خبریں مجھے سنا ڈالتا۔ میں ہوں ہاں کرتا رہتا یا کہہ دیتا مصروف ہوں، جلدی میں ہوں۔ وہ مایوس ہو کر فون رکھ دیتا۔ وہ چھوٹا تھا ناں۔ میری مجبوری کو نہیں سمجھتا تھا۔ میں بڑا تھا۔ مجھے بڑا ہونے کا بھرم بھی تو رکھنا تھا۔ پھر اسے کیسے کہہ دیتا کہ پردیس میں مجھے یادوں سے ڈر لگتا ہے۔
ایک دن خلافِ معمول صبح سویرے ہی خلیل کا فون آ گیا۔ بہت شور تھا مگر اس کی آواز نہیں تھی۔ میں گھبرا گیا۔ پھر اچانک اس کی آواز اُبھری۔ وہ مجھے رات کے شدید ترین زلزلے کی تباہ کاریوں کا احوال سنا رہا تھا۔ میں اس کی آواز میں چھپے دکھ اور کرب کو محسوس کر سکتا تھا۔ اپنی اور دیگر عزیز و اقارب کی خیریت کا بتا کر وہ کہنے لگا۔ محلے میں کئی کثیر المنزلہ عمارتیں اور رہائشی مکان زمیں بوس ہو گئے ہیں۔ رات سے بارش بھی زوروں پر ہے۔ محلے کے سب لوگ ریسکیو ٹیموں کے شانہ بشانہ امدادی کاروائیوں میں لگے ہیں۔ ہماری بھرپور کوشش ہے کہ جلد از جلد ملبے تلے دبے لوگوں کو نکال لیں۔ میں نے اسے اپنا خیال رکھنے کو کہا تو بولا۔ میری پرواہ نہ کریں بھیا۔ کاش! آپ اس وقت پہلوان جی کو دیکھ سکتے۔ ان کے جذبے کو محسوس کر سکتے۔ ہم نے بہت روکا مگر وہ ساری رات ہمارے ساتھ بارش میں بھیگتے رہے۔ پاگلوں کی طرح ملبے تلے دبے زخمیوں کو ڈھونڈ کر نکالتے رہے۔ مگر بھیا! ان کے ماتھے پر تھکن کی ایک بھی لکیر نہیں۔ وہ جذباتی ہو رہا تھا۔ میں اس سے ڈھیروں باتیں کرنا چاہتا تھا مگر اس دن وہ جلدی میں تھا، مصروف تھا۔ اس کا وقت بیحد قیمتی تھا۔ اس نے مختصر بات کی اور پھر سے آہوں اور سسکیوں کے شور میں گم ہو گیا تاکہ کسی مرتے کو بچا سکے۔
اس دن میں سارا دن بھوکا پیاسا بستر پر پڑا رہا۔ ایک پھانس سی تھی جو گلے میں اٹک گئی تھی جس کی وجہ سے ایک نوالہ بھی حلق سے نیچے نہیں اتر رہا تھا۔ میرا خود ساختہ، خود فریبی کا خول ٹوٹ کر ریزہ ریزہ ہو گیا تھا۔ خلیل کی محنت رنگ لے آئی تھی جو سالہا سال سے مجھے اپنے وطن کی مٹی سے اور اپنے لوگوں سے جوڑنے کی کوشش میں لگا تھا۔ رات ہو گئی مگر نیند آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔ مجھے خود پر حیرت ہو رہی تھی کیونکہ اس رات پہلی بار مجھے یادوں سے ڈر نہیں لگا۔ میں یادوں کے سمندر میں ڈوب جانا چاہتا تھا۔ جی بھر کے گزرے وقت کو یاد کرنا چاہتا تھا۔ نجانے رات کا وہ کونسا پہر تھا جب خلیل کا فون پھر سے آ گیا۔ میں نے بے تابی سے اس کا حال دریافت کیا تو کہنے لگا۔ بھیا! میں ٹھیک ہوں۔ میں آپ کی پہلوان جی سے بات کرواتا ہوں۔ آپ ان کو ذرا سمجھائیں کہ کچھ دیر آرام کر لیں۔ ان کی صحت اچھی نہیں ہے۔ یہ ہماری نہیں سنتے۔ اس نے فون پہلوان جی کو تھما دیا۔ میں نے لمبی بات کرنا چاہی مگر دوسری طرف سے پہلوان جی نے جلدی سے میری بات کاٹ دی اور پر جوش انداز میں بولے۔ جمیل میاں۔ میں بالکل ٹھیک ہوں۔ تم میری پرواہ نہ کرو۔ یہاں بہت سے مرتے ہوئے لوگوں کو ہماری ضرورت ہے۔ میں اس وقت پیٹھ نہیں دکھا سکتا۔ تم اچھی طرح جانتے ہو۔ میں نے اپنی زندگی میں کبھی کوئی کشتی نہیں جیتی۔ مگر آج میں ہار نہیں مانوں گا۔ تم دعا کرنا۔ اس بار میں جیت کر دکھاؤں گا۔ دوسری طرف سے پہلوان نے فون بند کر دیا۔ اس کے بعد میرا فون پر خلیل سے رابطہ نہ ہو سکا۔ دو تین بار فون کیا مگر اس کا فون بند ملا۔ میں ویسے بھی ان لوگوں سے شرمندہ تھا۔ پردیس میں بیٹھ کر میں ان کی کوئی مدد نہیں کر پا رہا تھا۔ الٹا ان کا وقت ضائع کر رہا تھا جس میں وہ کسی مرتے ہوئے انسان کے کام آ سکتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ میں نے بھی رابطہ کرنے کی کوئی زیادہ کوشش نہیں کی۔
پھر ایک دن صبح سویرے خلیل کا فون آ گیا۔ سسکیوں بھری آواز میں اس نے بتایا کہ ’پہلوان جی مر گئے ہیں‘۔ مجھے اپنے کانوں پر یقین نہیں آ یا۔ دوسری طرف خلیل کہہ رہا تھا۔ بھیا! پہلوان جی جیسا بہادر انسان میں نے آج تک نہیں دیکھا۔ ستر سال کی عمر میں ان کا جذبہ نوجوانوں جیسا تھا۔ وہ لگا تار تین دن اور تین راتیں ہمارے ساتھ بارش میں بھیگتے رہے۔ مسلسل بخار کی حدت میں جلتے رہے مگر پھر بھی جذبے کے ساتھ ملبے تلے دبے لوگوں کو نکالتے رہے۔ آخری بار انہوں نے ایک چار سال کے بچے کو ملبے سے نکالا تھا۔ جو معجزانہ طور پر بالکل صحیح سلامت تھا۔ وہ تین دن سے ملبے تلے دبا سانس لے رہا تھا۔ اس بچے کو میرے بازوؤں میں تھماتے ہوئے پہلوان جی کے پاؤں لڑکھڑا گئے تھے۔ پھر جب انہیں ہسپتال لے جانے کے لیے ایمبولینس میں ڈالا جا رہا تھا تو اسٹریچر پر لیٹے لیٹے انہوں نے یکدم میرا ہاتھ تھام لیا تھا۔ اور جانتے ہیں بھیا! انہوں نے مسکراتے ہوئے کیا کہا تھا۔ کہنے لگے کہ جمیل میاں کو بتا دینا کہ میں نے زندگی کا آخری مقابلہ جیت لیا ہے۔ فون پر خلیل بھرائی ہوئی آواز میں بولے چلا جا رہا تھا۔ میں خاموش تھا۔ میرے پاس کہنے کو کچھ نہیں تھا۔ البتہ آنکھوں میں چھپے ڈھیروں آنسو تھے۔ جو اب پہلوان جی کی جیت کی خوشی میں پلکوں کے بند توڑ کر رخساروں پر بہنے کے لیے مچل رہے تھے۔
٭٭٭