درون پختون ۔۔۔ داؤد کاکڑ

یہ مئی 1989 کی بات ہے کہ میں چند دوستوں کے ساتھ بدرشی (نوشہرہ) میں ان کے گھر پہنچا۔ دروازہ کھٹکھٹاتے ہوئے عجیب گو مگو کی کیفیت کا شکار تھا کہ خدا جانے وہ مجھے پہچان بھی پائیں گے یا نہیں کہ میں پانچ برس کی طویل غیر حاضری کے بعد ان سے ملاقات کرنے جا رہا تھا۔ سفید بنیان اور شلوار میں ملبوس انھوں نے دروازہ کھولا تو مجھے پہلے سے خاصے لاغر لگے۔ انھوں نے حسب عادت بڑی خندہ پیشانی سے ہمارا استقبال کیا۔ رسمی حال احوال کے دوران میں مجھے لگا کہ وہ شاید مجھے پہچان نہیں پائے لیکن چند منٹوں میں میرا یہ وسوسہ جاتا رہا جب انھوں نے مجھ سے امریکہ میں میرے شب و روز کا حال دریافت کیا۔ گھنٹہ بھر کی اس نشست میں انھوں نے مجھے یہ خوشخبری بھی سنائی کہ ان کی طویل نظم شائع ہو چکی تھی جس پر وہ خاصے مطمئن تھے۔ یہ میری سمندر خان سمندر سے آخری ملاقات تھی۔ چند ماہ بعد جنوری 1990 میں۔ مجھے میرے بھائی مسعود نے ان کی وفات کی خبر فون پر دی تھی۔

یہ غالباً ستر کی دھائی کا وسط تھا جب اباسین آرٹس کونسل پشاور کے زیرِ اہتمام کسی تقریب میں سمندر خان سمندر سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا تھا۔ یہ میرا ادبی حلقوں اور نشستوں میں آمدورفت کا ابتدائی زمانہ تھا اور ادبی بڑوں سے نئی نئی روشناسیاں تھی۔

درمیانہ قد، چھریری کاٹھ، سرخ و سفید رنگت، بالشت بھر کی ترشی ہوئی سفید داڑھی، سر پر روایتی کلاہ، آنکھوں پر نظر کی عینک، ہاتھ میں کھونٹی اور چہرے پر ایسا وقار اور بردبار سنجیدگی کہ دیکھنے والا پہلی نظر میں متاثر ہو جائے۔ اکثر و بیشتر ان کو سفید رنگ کی قمیص شلوار میں دیکھا۔ سردیوں میں شیروانی یا چغے کا استعمال کرتے تھے۔ ان کی عمر سے متعلق ایک نہایت دلچسپ حقیقت بتاتا چلوں کہ ہر دن کی تاریخ ہی ان کی عمر تھی یعنی وہ یکم جنوری 1901 میں پیدا ہوئے تھے۔ یوں ہماری پہلی ملاقات کے وقت وہ ستر کے پیٹے میں تھے لیکن نہایت چاک و چو بند، قابل رشک صحت کے مالک تھے۔ کم گو اور کم خوراک تھے۔ صوم و صلواۃ کے پابند سچے اور کھرے مسلمان تھے۔ دین و مذہب کا ان کی زندگی میں بڑا عمل دخل تھا۔ لیکن زاہد خشک بھی نہیں تھے اور اس کبر سنی میں بھی زندہ دلی کا یہ عالم تھا ہر شام پشاور صدر کے پر رونق بازاروں میں چہل قدمی کرتے نظر آتے تھے۔ اکثر شام کو صدر روڈ اور ارباب روڈ کے سنگم پر صدر کے سب سے با رونق چوک میں جب نوجوان ٹولیوں میں بٹے اور سائیڈ واک کی ریلنگ سے لگے خوش گپیوں میں مصروف ہوتے تو چوک کی چھوٹی سی مسجد کے بے در و دیوار صحن میں جو نماز کے علاوہ اوقات میں پارکنگ کا کام بھی دیتا تھا سب سے اگلی صف میں مو صوف مسجد کے شکستہ کمرے کی طرف پشت کیئے اور نمازیوں کی صفوں کی طرف منہ کیئے۔ ۔ سر اٹھائے بازار کا نظارہ کرنے میں محو نظر آتے اور ان کی یہ محویت اس وقت تک قائم رہتی جب تک نمازیوں کی صفیں کھڑی نہ ہو جاتیں۔ کبھی نوجوانوں کے من پسند گورا بازار(جناح سٹریٹ)کے عین وسط میں ایک گلی کی نکڑ پر کھڑے رنگ و خوشبو میں رچے بسے چہروں کی بلائیں لیتے پائے جاتے۔

حسن پرستی اور عاشقی ان کی شخصیت کے نمایاں اوصاف میں سے تھے۔ یہاں میں مختصراً چند ایسے واقعات کا ذکر کرتا ہوں جو ان کی شخصیت کا یہ پہلو اجاگر کرتے ہیں۔ ایک دفعہ ہم ان کی پرانی تصاویر چھانٹ رہے تھے۔ انیس یا بیس برس کی عمر کی اپنی ایک تصویر دکھا کر بولے کہ اپنی یہ تصویر دیکھ کر وہ خود اپنے آپ پر عاشق ہو گئے تھے۔ نوجوانی میں اپنی کزن کے عشق میں مبتلا ہوئے لیکن یہ عشق خاندانی اختلافات کی بھینٹ چڑھ گیا۔ جوانی ہی کے دور میں ایک ٹینس میچ کے دوران ایک خوبرو نوجوان ان کے دل میں اتر گیا جو بعد میں زندگی بھر ان کے قریب ترین دوستوں میں سے رہا۔ وہ نوجوان ریاست سوات کا ولی عہد میاں گل محمد جہانزیب تھا جو بعد میں والیِ سوات بنا۔ 1980 میں جب میں امریکہ چلا گیا او وہ جب تک پشاور میں رہے تو ان سے کچھ عرصہ تک خط و کتابت رہی۔ اپنے شروع کے کسی خط میں میں نے ٹلسا (Tulsa) کی ایک بوڑھی خاتون کا ذکر کرتے ہوئے اس کی تعریف لکھی کہ کس طرح اس خاتون نے میری بہت مدد کی تو اگلے خط میں انھوں نے لکھا کہ ’’ آپ نے بوڑھی انگریز خاتون کی سیرت سے متعلق بہت لکھا ہے جس کا مجھ پر بہت اچھا اثر ہوا ہے بلکہ یوں سمجھو کہ میں 80 برس کا بوڑھا اس ضعیف العمر بڑھیا کی سیرت پر عاشق ہو گیا ہوں ‘‘ یعنی ان کی حسن پرستی اور عاشقی اپنے وسیع تر معانی میں استعمال ہوتی تھی۔

حسن پرستی کے ساتھ ساتھ ان کی شخصیت کے تین اور نمایاں اوصاف تھے جن کے ذکر کے بغیر ان کی شخصیت کا خاکہ مکمل نہیں ہو سکتا۔

اول ان کی خود داری جس کے آگے وہ محاورتاً نہیں بلکہ حقیقتاً شاہوں کو بھی خاطر میں نہیں لاتے تھے۔ اس ضمن میں ایک واقعہ بیان کرتا چلوں جو انھوں نے مجھے سنایا تھا۔ جیسے کہ میں نے اوپر ذکر کیا ہے۔ وادئ سوات کے والی میاں گل جہانزیب ان کے قریبی دوستوں میں سے تھے اور وہ ہر سال موسم گرما میں سوات جا کر ان کے ساتھ مہینہ دو مہینے گزارا کرتے تھے۔ ایسے ہی ایک سفر کے دوران وہ والیِ سوات کے ساتھ ان کی گاڑی میں سیدو شریف سے بحرین جا رہے تھے دونوں دوست خوش گپیوں میں مصروف تھے کہ یکایک والی صاحب نے ڈرائیور کو کار روکنے کا حکم دیا۔ چاک و چوبند ڈرائیور نے حکم کی تعمیل کی۔ کار کے رکتے ہی والی صاحب نہایت عجلت کے ساتھ دروازہ کھول کر باہر نکلے اور گاڑی کی پشت کی جانب چلے گئے۔ سمندر خان نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو تھوڑے فاصلے پر سڑک کے کنارے ایک فقیر بیٹھا ہوا تھا اور والی صاحب اسے کچھ دے رہے تھے۔ والی صاحب کی واپسی پر جب گاڑی دوبارہ اپنی منزل کی طرف رواں ہو گئی تو سمندر خان کے استفسار پر والی صاحب نے انہیں بتایا کہ ’یہ شخص نیچے پہاڑوں کے دامن میں ایک گاؤں میں رہتا ہے اور سال میں صرف ایک مرتبہ میرے لیئے اوپر سڑک پر آتا ہے‘۔ یہ جواب سن کر سمندر خان کے دل کو ٹھیس پہنچی اور اس کی وجہ یہ تھی کہ سالہا سال سے ان کا یہ معمول رہا تھا کہ وہ سال میں ایک دفعہ اپنے دوست سے ملنے سوات آتے تھے۔ زندگی میں یہ پہلا موقع تھا کہ وہ ایک سال میں دوسری مرتبہ آئے تھے۔ ان کی حساس طبیعت نے یہ بات بڑی شدت سے محسوس کی کہ ہو نہ ہو والی صاحب موصوف نے انہی پر چوٹ کی ہے۔ اب ان کے لیئے وہاں رکنا نا ممکن تھا۔ انھوں نے وہ دن مشکل سے گزارا اور اگلے ہی دن پشاور واپس آ گئے اور سالہا سال پر محیط ان کا یہ معمول اختتام کو پہنچ گیا۔ کئی سالوں بعد ان کا حج کا ارادہ ہوا تو انھوں نے اپنے دوست میاں جہانزیب کو خط لکھا اور اپنے حج کے ارادے سے انہیں آگاہ کرتے ہوئے لکھا کہ ’’زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں لہٰذا جانے سے پیشتر مناسب ہے کہ اپنے ملنے ملانے والوں سے اپنی بخشش کروا لوں اور یہی وجہ میرے اس خط لکھنے کی ہے‘‘۔ والی صاحب کا جواب آیا کہ ’’جب تک آپ میرے پاس نہیں آئیں گے، میں آپ کو نہیں بخشوں گا‘‘۔ سمندر خان نے جواباً سوات نہ آنے سے معذوری ظاہر کرتے ہوئے دوبارہ اپنی خواہش کا اظہار کیا لیکن والی صاحب اپنی بات پر مصر رہے اور انھیں مجبوراً سوات جانا پڑا۔ سالوں بعد دوستوں کی ملاقات ہوئی اور باتیں کھلیں تو والی صاحب نے قسم کھا کر انھیں یقین دلایا کہ اس فقیر سے متعلق جو کچھ بھی انھوں نے کہا تھا وہ حقیقت پر مبنی تھا اور وہ کسی طور ان کی ذات پر چوٹ نہیں تھی۔ یقین نہ ہو تو وہ خود اس فقیر کے گاؤں جا کر اس سے پوچھ سکتے ہیں۔ اگر وہ مجرم ہوئے تو سزا کے مستحق ورنہ انھیں اپنا رویہ بدلنا ہو گا۔ اوریوں برسوں بعد ان کا دل والی صاحب کی طرف سے صاف ہوا۔

پشاور صدر میں دو کمروں کے کوارٹر میں کم و بیش چالیس برس تک تنہا رہے۔ بیماری کی حالت میں تین تین دن تک بھوکے پیاسے رہے لیکن کسی کا احسان لینا گوارا نہیں کیا۔

دوئم ان کی انتہا درجے کی نفاست پسندی تھی جو یوں تو ان کے پورے گھر میں نمایاں تھی لیکن وہ کمرہ جو ان کی مخصوص نشست گاہ تھا اس کے کونے کونے سے نفاست ٹپکتی تھی۔ چھوٹا سا مستطیل کمرہ تھا جس میں ایک چارپائی دائیں جانب دیوار کے ساتھ لمبائی میں رکھی ہوئی تھیں۔ دو کرسیاں، دو میزیں اور ایک لوہے کا ٹرنک جو ان کے قلمی نسخوں سے بھرا ہوا تھا۔ چارپائی کے آگے رکھی ٹیبل پر پاکٹ بکس، چند قلم، سیاہی، پنسلیں، پیپر ویٹ اور ایک چھوٹا سا چاقو رکھا ہوتا تھا۔ چارپائی کے پیچھے دیوار میں پیوستہ دو بڑی الماریاں تھیں۔ ایک کتابوں کاپیوں سے اور دوسری روزمرہ کے استعمال کی چھوٹی موٹی اشیاء سے بھری ہوئی تھیں۔ دیواروں پر کیلنڈر کے علاوہ ان کی کئی تصاویر چھوٹی بڑی فریموں میں آویزاں تھیں۔ انہی میں ان کے تمغات اور ایوارڈز بھی پلاسٹک میں لپٹے دیوار پر سجے ہوئے تھے۔ کارنس بھی مختلف النوع نوادرات سے اٹا پڑا تھا لیکن ہر چیز دھول دھپے سے پاک اور چمکتی دمکتی اور ایک خاص ترتیب کے ساتھ رکھی ہوتی۔ کمرے میں ہمیشہ پشت کے رخ جوتے چوکٹھ کے باہر اتار کر اندر داخل ہوتے تھے یوں ان کے ملنے والے بھی ان کی تقلید میں جوتے کمرے کے باہر اتار کر اندر قدم رکھتے تھے۔ کمرے کے اندر چارپائی ان کی مخصوص جگہ تھی۔

ان کی شخصیت کی تیسری بڑی خصوصیت ان کا غصہ تھا جو ان کے نام اور کلام ہی کی طرح مشہور تھا، تیز اور تند۔ اپنی اس خو سے وہ خود بھی بیزار تھے لیکن کچھ کرنے سے لاچار تھے۔ زود رنج اس قدر کہ جب غصے کے اظہار کا کوئی ذریعہ نہ ملتا تو دنوں تک خود ہی سے لڑتے جھگڑتے رہتے۔ ایسی غصیلی طبیعت کے با وصف بذلہ سنجی کا یہ عالم تھا کہ ساٹھ کی دھائی میں جب پاکستان میں ٹی وی براڈ کاسٹ کا آغاز ہوا تو انہیں ایک پشتو مشاعرے میں شرکت کی دعوت ملی۔ یہ ان کا ٹی وی اسٹیشن جانے کا پہلا اتفاق تھا۔ ریکارڈنگ سے پہلے میک اپ روم میں ان کی نوک پلک درست کرتے ہوئے میک اپ مین نے ان سے سوال کیا۔

آپ ریڈیو میں کام کرتے ہیں؟

جی میں ریڈیو میں کام کرتا ہوں۔

آپ وہاں کیا بجاتے ہیں؟

میں وہاں طبلہ بجاتا ہوں۔

ایک مرتبہ پاکستان نیشنل سنٹر پشاور صدر میں غالب کی یاد میں مشاعرے کا اہتمام تھا۔ اکثر و بیشتر شعراء نے حسبِ دستور غالب کی زمینوں میں اپنا کلام پیش کیا اور اس کا روایتی انداز میں اظہار بھی کیا۔ سمندر خان سمندر پوڈیم پر آئے اور یوں گویا ہوئے کہ ’’ اکثر شعراء کرام نے غالب کی زمینوں میں اپنا کلام پیش کیا۔ میں غالب کے آسمان میں اپنا کلام پیش کرتا ہوں ‘‘۔ رد عمل میں قہقہے بلند ہوئے تو غنودگی میں ڈوبے سامعین جاگ گئے۔

سمندر خان سمندر نے 1943 میں ریڈیو پاکستان پشاور بطور سکرپٹ رائٹر شمولیت اختیار کی اور کم و بیش چالیس برس تک ریڈیو سے منسلک رہے اور مقبول عام پروگرام ’ حجرہ‘ کے لیئے با قاعدگی کے ساتھ روزانہ ایک سکرپٹ لکھا۔ یوں تو ’حجرہ ‘کے تمام ریڈیائی کردار جن میں قاضی صاحب، ہدایت خان اور شاہ پسند خان وغیرہ شامل تھے نے بے تحاشا شہرت حاصل کی لیکن پائندہ خان نے غیر معمولی مقبولیت حاصل کی۔ خود سمندر خان نے بھی ’حجرہ ‘ میں صدا کاری کے جوہر دکھائے۔ روزمرہ کے عام مسائل پر مبنی گفتگو کا یہ پروگرام کئی دہائیوں تک چلا اور اس قدر مقبول عام ہوا کہ لوگ حجرہ کے کرداروں سے ملنے ریڈیو اسٹیشن آتے۔ سمندر خان نے بیسیوں ڈرامے، فیچرز لکھے۔ ان کے ریڈیو کے دور کے ہم عصروں میں ن م راشد، امیر حمزہ خان شنواری، احمد ندیم قاسمی، احمد فراز، خاطر غزنوی اور تاج سعید جیسی شخصیات شامل ہیں۔

سمندر خان بلا کے زود نویس تھے۔ انھوں نے چھوٹی عمر میں لکھنا شروع کیا اور تا دم مرگ لکھتے رہے۔ ریڈیو کی کم و بیش چالیس برس کی نوکری میں تو انھوں جو لکھا وہ تو لکھا اس کے علاوہ انھوں نے 55 کتب نظم و نثر کی سپرد قلم کیں جن میں سے شاید بارہ کتب تو ان کی زندگی ہی میں شائع ہو چکی تھیں باقی کے مسودے اگر محفوظ ہیں تو ویسے ہی رکھے ہوئے ہیں۔ انھوں نے علامہ اقبال کی ’ اسرار خودی ‘اور ’رموز بے خودی ‘ کا پشتو ترجمہ بھی کیا جو بے حد مقبول ہوا اور پشتونوں میں جو لوگ فارسی زبان سے نابلد تھے انھیں علامہ کی شاعری پڑھنے کا موقع مل گیا۔ نوجوانی میں لکھے کم و بیش آٹھ نسخے شعور میں پختگی آئی تو نذرِ آتش کر دیئے لیکن بعد میں پشیمان ہوئے۔ اپنی تحریروں کی اشاعت کی فکر تو انھیں تھی لیکن ان کی سب سے بڑی خواہش اس طویل مثنوی کی اشاعت تھی جو انھوں نے چھتیس برسوں میں لکھی۔ کلمہ طیبہ کی تشریح و تفسیر پر مبنی یہ مثنوی ’’ دا توحید ترنگ ‘‘ ساٹھ ہزار پانچ سو اشعار پر مشتمل ہے۔ میں نے نظم کی طوالت کی وجہ تسمیہ پوچھی تو بولے کہ شاہنامہ فردوسی ساٹھ ہزار اشعار پر مشتمل نظم ہے اور وہ اس تعداد سے تجاوز کرنا چاہتے تھے۔ نظم کی اشاعت کے لیئے ایک کثیر رقم درکار تھی اور سمندر خان کی خواہش تھی کہ یہ نظم ان کی زندگی ہی میں شائع ہو جائے تو ان کی زندگی کا مقصد پورا ہو جائے گا۔ اس سلسلے میں انھوں نے مختلف ادوار حکومت میں کئی اعلیٰ عہدِ داروں سے بات کی لیکن سیاست دانوں کی روایتی بے حسی ہمیشہ آڑے آئی اور مثنوی سالہا سال تک ٹرنک میں بند رہی۔ آخر اس کار خیر کے لیئے پشتو اکیڈمی (پشاور یونیورسٹی) آگے بڑھی اور اشاعت کا سارا خرچہ اٹھایا۔ دس جلدوں پر مشتمل یہ طویل نظم 1984 اور 1986 کے دوران اشاعت پذیر ہوئی۔

سمندر خان سمندر صوتیاتی شاعری میں بھی یدِ طولیٰ رکھتے تھے۔ انھوں نے چار عدد ایسی نظمیں تخلیق کیں جن کے پڑھنے سے ایک مخصوص صوتی کیفیت کا تاثر ابھرتا ہے۔ ان نظموں کی تخلیق کے پس منظر میں کار فرما تحریک Robert Southey کی وہ onomatopoetic نظم تھی جو اس نے 1820 میں “ The Cataract of Ladore “کے نام سے لکھی تھی۔ Cumbria، England میں واقع Lodore Falls پر لکھی گئی اس نظم میں الفاظ کا چناؤ اور ان کی نشست و برخاست اس کمال کی ہے کہ نظم کے پڑھنے سے جھرنے کے ترنم کا تاثر ابھرتا ہے۔ سمندر خان اس تحریک کا برملا اظہار کرتے تھے۔ 1945 اور 1963 کے دوران لکھی گئی ان نظموں کے موضوعات کچھ یوں ہیں، ’ برتگ ‘ (ارتقاء)، ’ ڈان ڈت ‘ (دھُنیّا)، ’ دا اسپرلی بیم ‘ (موسم بہار) اور پشتونوں کے روایتی خٹک ڈانس کی دھن پر لکھی ’’درون پختون‘‘ جو ان کی پہچان بن گئی۔

خٹک ڈانس پانچ مراحل پر مشتمل ہے اور اس کا ٹیمپو ڈھول کی تھاپ پر بتدریج بڑھتا ہوا اختتام کو پہنچتا ہے۔ اس نظم میں انھوں نے پختونوں کے کردار و اقدار کو بڑی تفصیل سے نظم کیا ہے۔ اس نظم کو پڑھتے ہوئے غیر ارادی طور پر ایک لے اور سر بنتی ہے۔ ریڈیو کے ادبی ماحول اور صدا کاری کے تجربات نے ان کے لب و لہجہ کو ایسی جلا بخشی کہ نظم پڑھتے وہ سماء باندھ دیتے تھے۔ اس طویل نظم نے شہرت دوام حاصل کیا۔ ان نظموں کو پڑھ کر پشتو زبان و بیاں پر ان کی قدرت کا قائل ہونا پڑتا ہے۔ ذخیرہ الفاظ اور ان کا مناسب انتخاب اور برمحل استعمال ایک ایسا ہنر ہے جو اردو شاعری میں جوش ملیح آبادی کے ہاں بدرجہ اتم موجود ہے۔ پشتو ادب میں یہ خاصیت سمندر خان سمندر کی تخلیقات میں پوری آب و تاب کے ساتھ جلوہ گر ہوتی ہے۔

یہ غالباً 1979 کا زمانہ تھا جب ایک دن خدا جانے کیسے یہ بات میرے دل میں سمائی کہ کیوں نہ ان صوتیاتی نظموں کو ایک ہی کیسیٹ میں یکجا کر دیا جائے۔ اس وقت تک میں فقط ایک ہی نظم ’درون پختون ‘ سن چکا تھا اور بقیہ نظموں سے متعلق صرف سن رکھا تھا۔ اس کا اظہار میں نے سمندر خان سے کیا تو انہیں بھی یہ خیال پسند آیا۔ یوں 31 جنوری 1980 کو پہلے سے طے شدہ پروگرام کے مطابق صبح دس بجے میں انھیں اپنے گھر لے آیا۔ گھر میں میرا کمرہ سب سے زیادہ خاموش اور پرسکون تھا۔ میں نے ٹیپ ریکارڈر ان کے سامنے رکھا اور انھوں نے یکے بعد دیگرے تین نظمیں معہ تعارف ریکارڈ کر لیں۔ وہ کیسیٹ میرے پاس آج بھی اسی طرح محفوظ ہے۔ ان کی چوتھی نظم ’برتگ ‘ کو ہم نے بعد میں ریکارڈ کرنے کے لئے اٹھا رکھا کہ انھیں عید میلاد النبی کے سلسلے میں منعقد ہونے والے ایک مشاعرے میں جانا تھا۔ ان نظموں کو وہ ’سمندری اصطلاح‘ میں مصوت نظموں کا نام دیتے تھے۔ سمندری اصطلاح یوں کہ لفظ مصوت اردو تحریروں میں مستعمل نہیں ہے اور یا پھر میری نظروں سے نہیں گزرا۔

پشتو شاعری پڑھنے اور سمجھنے والے قارئین اس بات سے بخوبی واقف ہوں گے کہ سمندر خان شاعری کی مروجہ اصناف کے ساتھ ساتھ نت نئی اختراعات اور تجربات بھی کرتے رہتے تھے۔ یہ 24 اپریل 1976 کی شام کا ذکر ہے کہ میں ان کے گھر میں موجود ان کے بے پایاں علم و فضل سے مستفید ہو رہا تھا کہ مغرب کی نماز سے فارغ ہوتے ہی بولے ‘ میں تمھیں ایک چیز دکھاتا ہوں ‘۔ پھر انہوں نے اپنی کتب اور مسودات سے بھرا لوہے کا صندوق کھولا اور اس میں سے پشتو گرامر اور شاعری کی صنعتوں پر لکھی ہوئی اپنی کتاب نکالی۔ اس کتاب سے انہوں مجھے ایک غزل سنائی جس کی خصوصیت یہ تھی کہ مقطع کے دوسرے مصرعے کے سوا کسی شعر میں بھی ہونٹ آپس میں نہیں ملتے تھے۔ اور اس بات کا عملی مظاہرہ انہوں نے اپنے ہونٹوں کے درمیان ماچس کی تیلی کو کھڑا کر کے کیا۔ اس کے بعد انہوں نے ایک اور نظم یا غزل سنائی جس میں نقطوں والا کوئی لفظ نہیں تھا۔

تخلیق کے ضمن میں ان کی ایک بڑی عجیب اور انوکھی عادت تھی اور وہ یہ کہ کبھی کسی ایک جگہ سکون سے بیٹھ کر شعر نہیں کہتے تھے بلکہ یہ عمل ہمیشہ راہ چلتے میں ہوتا تھا۔ ایک نوٹ بک اور قلم اپنی جیب میں رکھتے۔ ریڈیو سٹیشن جو ان کی رہائش گاہ سے دو ڈھائی میل کے ٖفاصلے پر تھا اور جو وہ پیدل ہی طے کرتے تھے جاتے ہوئے یا واپس آتے ہوئے اور یا پھر شام کو صدر کے با رونق بازاروں میں چہل قدمی کرتے ہوئے ان کا ذہن ہمہ وقت تخلیق میں مصروف رہتا تھا۔ جہاں اور جس وقت کوئی مصرعہ یا شعر ہوا، وہی قدم روک کر جیب سے کاغذ قلم نکالتے اور خیال کو کاغذ پر رقم کر کے دونوں اشیاء جیب میں ڈالتے اور اپنی راہ لیتے۔ رات کو دن بھر میں جمع کیئے ہوئے اس خزانے کو بڑے اہتمام کے ساتھ مسودے کی کان میں سجا دیتے۔ وہ اپنی تخلیقات کی ہمیشہ دو نقول رکھتے تھے اور اپنے قلمی نسخے بڑی محنت اور نفاست سے لکھتے تھے اور ان کی با قاعدہ تزئین و آرائش کرتے تھے۔ وہ بلا کے خوش نویس بھی تھے اور ان کے قلمی نسخوں پر طبع شدہ کتابوں کا گمان ہوتا تھا۔ ان کے قلمی نسخے عجائب گھر میں رکھے جانے کے قابل تھے۔ ان کی وفات کے بعد میں اکثر و بیشتر ان خدا جانے ان کا کیا حال ہوا ۔

اپنی اس عادت کے بموجب پیش آنے والا ایک دلچسپ واقعہ انھوں نے سنایا کہ جن دنوں وہ اپنے گاؤں بدرشی (نوشہرہ) میں مقیم تھے ان کا معمول تھا کہ شام کو چہل قدمی کے لیئے پہاڑوں کی طرف نکل جایا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ وہ معمول کے مطابق دامن کوہ میں فطرت کی حسن کاریوں سے لطف اندوز ہو رہے تھے کہ ایک رباعی ہو گئی۔ حسب عادت کاغذ قلم کے لیئے جیب میں ہاتھ ڈالا تو دونوں اشیاء ندارد۔ بڑے پریشان ہوئے کہ گھر پہنچتے پہنچتے رباعی ذہن سے محو ہو جائے گی۔ عالم بے قراری میں ادھر ادھر پھرے کہ اچانک دماغ میں ایک ترکیب آئی۔ چوڑی سطح کا ایک بڑا پتھر ڈھونڈا اور پہاڑی چاک لے کر پتھر پر رباعی نوٹ کی اور پتھر کاندھے پر اٹھا کر گھر لے آئے۔ ان کا گھر اس مقام سے قریباً دو میل کے فاصلے پر تھا اور پتھر کا وزن لگ بھگ بیس سیر تھا۔ وہ پتھر عرصے تک ان کے گھر میں مصالحہ پیسنے کے کام آتا رہا۔

بیسویں صدی کی ابتدائی دہائیوں میں انگریز راج سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیئے کئی تحریکیں اور تنظیمیں سرگرم عمل تھیں جن میں ہر ہندستانی نے مقدور بھر حصہ لیا۔ سمندر خان سمندر نے بھی ان تحریکوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا جن میں قابل ذکر خان عبد الغفار خان کی ’خدائی خدمتگار‘ (سرخ پوش تحریک)، خاکسار تحریک اور مسلم لیگ وغیرہ شامل ہیں۔ یہ جلسے جلوسوں کا دور تھا۔ سمندر خان انہی جلسے جلوسوں میں دھڑ لے سے انقلابی شاعری کرتے تھے اور عوام الناس کا لہو گرماتے تھے۔ انقلابی شاعری کی پاداش میں ایک مرتبہ ان کی گرفتاری کے وارنٹ بھی جاری ہوئے لیکن وہ کسی کے ہاتھ نہ آئے۔ اسی دور میں انہیں ملک الشعراء کے خطاب سے بھی نوازا گیا۔ 1965 کی پاک بھارت جنگ کے دوران بھی ان کے ملی اور قومی نغموں نے خوب دھوم مچائی اور انھیں صدارتی تمغۂ امتیاز سے نوازا گیا۔ انہیں صدارتی تمغہ حسن کارکردگی بھی ملا۔ یہاں یہ بھی بتاتا چلوں کہ ان کی بارہویں برسی پر 17 جنوری 2002 میں ان کی یاد میں ڈاک کے ٹکٹ کا اجراء ہوا۔

سیاسی ہمدردیوں اور سرگرمیوں سے قطع نظر ان کے خان عبد الغفار خان فیملی کے ساتھ دوستانہ تعلقات تھے جن کا ذکر کرتے ہوئے انھوں نے ایک دلچسپ اور تاریخی واقعہ سنایا۔ ایک مرتبہ وہ خان عبد الولی خان اور چند دوسرے دوستوں کے ساتھ بٹیر کے شکار پر تھے۔ بٹیر کے شکار کا طریقہ کا ریہ تھا کہ شکاری ہاتھوں میں بندوقیں اٹھائے اور ایک دوسرے سے چند قدموں کے فاصلے ایک دیوار بنا کر آگے بڑھتے تھے اور ان کی پیش قدمی کے نتیجے میں گندم کی اونچی فصل کے اندر دانہ چگتے بٹیر اڑتے تو شکاری ان اڑتے بٹیروں پر فائر کھول دیتے۔ چھرے ہوا میں پھیل کر کئی بٹیروں کا نشانہ بنا دیتے۔ اسی طرح کی ایک پیش قدمی کے دوران جب شکاریوں نے فائر کھولا تو سمندر خان نے دائیں جانب سے اڑنے والے بٹیروں کے جھنڈ کو نشانہ بنانے کے لیئے بندوق کا رخ اسی طرف موڑ کر فائر کر دیا۔ ایک چھرا ان کے دائیں جانب کے شکاری کی آنکھ میں جا لگا۔ وہ شکاری ولی خان تھے۔ ولی خان کی وہ آنکھ ضائع ہو گئی جو بعد میں پتھر کی آنکھ سے مشہور ہوئی۔

سمندر خان سمندر زندگی بھر طرح طرح کے ناخوشگوار حالات و مصائب کا شکار رہے۔ پیدا ہوتے ہی والدہ کو طلاق ہو گئی اور انھیں ان کی ماں سے چھین لیا گیا۔ ان کی شادی اپنی کزن سے ہوئی لیکن ازدواجی زندگی بھی باعث سکون نہ تھی۔ ریڈیو پاکستان سے منسلک ہوئے تو کم و بیش چالیس برس پشاور میں اکیلے رہے۔ ریڈیو سے ریٹائرمنٹ کے بعد جب مسلسل بیماریوں نے انھیں اکیلے رہنے کے قابل نہیں چھوڑا تو پشاور میں اپنا مکان فروخت کر کے وہ بچوں کے قریب اپنے گاؤں بدرشی منتقل ہو گئے لیکن بعد میں پچھتائے کہ یہاں بھی انھیں وہ سکون اور آرام نہ مل سکا جس کی توقع رکھتے تھے۔ بد قسمتی سے ان کی اولاد بھی ان کے کام نہ آئی۔ زندگی کے آخری چند سال انھوں نے تنہائی اور تکلیف میں گزارے۔ اپنے 31 مئی 1983 کے خط میں جو انھوں بدرشی سے ارسال کیا تھا، لکھتے ہیں کہ ’’آپ یہ پڑھ کر ضرور خفا ہوں گے کہ میں دنیاوی زندگی دوزخ میں گزار رہا ہوں‘‘۔ ان کے کھانے پینے کا انتظام ان کے دو بیٹوں کے ذمہ تھا لیکن کبھی جب ناراضگی کی وجہ سے کھانا آنا بند ہو جاتا تو اگر تو ہمت ہوتی تو کچھ بنا کر کھا لیتے یا فروٹ پر گزارا کرتے ورنہ بھوکے پیٹ سو جاتے اور اس پر بھی صبر اور شکر کرتے۔

گزشتہ دہائیوں کی طرح ستر کی دہائی میں بھی پشاور صدر فنون لطیفہ سے متعلق لوگوں کا گڑھ تھا۔ سرِ شام ہی صدر کے مختلف کیفیز میں ادب و فن سے متعلقہ افراد کی محفلیں جمنا شروع ہو جاتی تھیں جو رات دس بجے تک رہتی تھیں۔ میری شامیں بھی صدر ہی میں گزرتی تھیں اور سمندر خان سمندر بھی صدر ہی میں رہائش پذیر تھے یوں ہفتے میں ایک دو مرتبہ ان سے ملاقات میرا معمول بن گیا۔ میں اکثر مغرب سے گھنٹہ دو پہلے ان کے گھر پہنچ جایا کرتا تھا۔ ان کی عادت تھی کہ مغرب کی نماز مسجد میں جا کر ادا کرتے تھے۔ نماز کے بعد ہم مال روڈ یا صدر روڈ پر تھوڑی دیر چہل قدمی کرتے اور پھر اندھیرا چھاتے ہی میں ان کے ساتھ گھر کے دروازے تک آتا۔ اس طرح میرا خاصا وقت ان کی صحبت میں گزرتا۔ اسی طرح ٹی وی پر جب کبھی ان سے متعلق کوئی پروگرام آ رہا ہوتا تو بھی میں وقت سے پہلے پہنچ جاتا اور پھر ہم کسی کم مصروف کیفے میں پہنچ جاتے جہاں ہم سکون سے پورا پروگرام بھی دیکھتے اور چائے وغیرہ سے بھی لطف اندوز ہوتے۔ اس دور کے پروگرامز میں پندرہ روزہ ’چہرے‘ بڑا مقبول تھا جس میں کسی ایک نامور شخصیت کا تعارف پیش کیا جاتا۔ یہ آدھ گھنٹے کا پروگرام ہوتا تھا۔ وہ شو مجھے خاص طور سے یاد ہے جو سمندر خان سمندر کی شخصیت پر مبنی تھا۔ ’چہرے‘ کا پورا لطف اٹھانے کے لئے میں انھیں صدر ہی کے ایک ہوٹل گلز کے ریسٹورانٹ میں لے گیا جو تھا تو نہایت چھوٹا لیکن بالکل خالی تھا۔ ہم نے وہ پروگرام بڑے سکون سے دیکھا۔ چائے اور شامی کباب بھی خوب انجوائے کئے۔ نشریات کے اختتام پر ہم اٹھے تو ہوٹل کا منیجر جو کہ ہوٹل کا مالک بھی تھا ہمارے پاس آیا اور بڑی گرم جوشی کے ساتھ سمندر خان سے مصافحہ کیا اور انھیں بتایا کہ اس کا والد ان کا بڑا دلدادہ اور پرستار تھا۔ پھر اس نے کمال مہربانی سے چائے وغیرہ کا معاوضہ نہیں لیا۔

1979 میں میری ٹرانسفر نیشنل بنک آف پاکستان کی مردان برانچ سے پشاور صدر ہو گئی تو مجھے سمندر خان کے مزید قریب آنے کے وافر مواقع میسر آئے اور میں اکثر و بیشتر لنچ بریک بھی ان کی صحبت میں گزارنے لگا۔ ان سے ملاقاتیں بڑھیں تو پشتو زبان و ادب کا چسکہ بھی بڑھتا گیا یہاں تک کہ میں نے ان کی سچی کہانیوں پر مبنی کتاب ’پختنے‘ کا اردو ترجمہ کر ڈالا۔ ترجمہ کرتے ہوئے میرا یہ معمول بن گیا کہ جہاں جہاں مشکلات پیش آئیں، سیدھا ان کے پاس پہنچا اور انہوں نے ہمیشہ بڑی خندہ پیشانی کے ساتھ میری رہنمائی فرمائی اور یوں میں انجانے میں ان کی شاگردی میں آ گیا۔

’پختنے‘ کل بارہ کہانیوں پر مشتمل تھی لیکن کتاب میں صرف گیارہ کہانیاں شامل تھیں۔ ایک کہانی جو چارسدہ میں رونما ہونے والے ایک تاریخی واقعہ ’’بابڑہ کیس‘‘ سے متعلق تھی فضل حق شیدا کے مشورے پر انھوں نے شامل اشاعت نہیں کی تھی۔ میری خواہش پر انھوں نے وہ کہانی بھی مجھے ترجمہ کے لیئے دے دی تھی۔

انہی دنوں کا ذکر ہے کہ ایک شام میں ان کے ہاں پہنچا تو اپنی نشستوں پر بیٹھتے ہی انھوں نے کہا کہ ’’میں تمہیں اپنی تازہ نظم سناتا ہوں‘‘ میں چونکا کہ یہ پہلی بار ایسا ہو رہا تھا کہ وہ مجھے اپنا تازہ کلام سنانا چاہتے تھے۔ نظم سنانے سے پہلے انھوں نے اس صنف کی تشریح کی جس کے تحت انھوں نے نظم لکھی تھی وہ صنف ’صنعت توشیح‘ کہلاتی ہے۔ نظم کل چھ اشعار یعنی بارہ مصرعوں پر مشتمل تھی۔ نظم کا موضوع وہ بے لوث محبت اور خلوص تھا جس کی توقع انسان اپنی اولاد اور دل کے قریب دوستوں سے رکھتا ہے لیکن وہ اس سے محروم تھے۔ اس کی بڑی وجہ تو یقیناً ان کی اپنی اولاد کی بے گانگی تھی لیکن اس میں ایک بڑا حصہ ان کے گرد پھیلے مطلب پرستوں کا بھی تھا۔ یہ محبت اور خلوص انھوں نے میرے روئیے میں محسوس کیا اور اسی کو انھوں نے نظم کیا۔ نظم کے ہر مصرعے کے پہلے ابجد ترتیب دینے پر میرا اصلی نام ’داؤد حسین عابد‘ بن گیا۔ قلمی نام میں نے بہت بعد میں اختیار کیا تھا۔ مجھے صحیح طرح سے یاد نہیں کہ میرا فوری ردِّ عمل کیا تھا لیکن آج جب میں پیچھے مڑ کر دیکھتا ہوں تو مجھے احساس ہوتا ہے کہ یہ اعزاز میری بساط سے بہت بڑھ کر تھا۔

سمندر خان سمندر نے معرکوں سے بھر پور زندگی گذاری۔ نان و نفقہ کے حصول کے لیئے انھوں نے ہر قسم کی محنت و مشقت کی۔ کوچوانی کی، بیرا گیری کی، باورچی بنے، گورے کے ذاتی نوکر بنے اور ایک گورے کی شاگردی میں شعبدہ بازی بھی کی۔ وہ خود تو چند ابتدائی کلاسوں سے آگے نہ بڑھ سکے لیکن ان کی تحریروں اور تخلیقات پر طلباء نے پی ایچ ڈی کی ڈگریاں حاصل کیں اور پروفیسر بنے۔ اس مضمون کا اختتام انہی کے ایک شعر پر کرتا ہوں کہ:

ترجمہ: حقیقت میں ہوں قطرہ۔ ۔ ۔ اس لئے سمندر ہوں

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے