ریورس گیئر ۔۔۔ سید رفیق حسین

نوٹ: مئی 1952۔ بحیرۂ بالٹِک کے کنارے آباد قصبے نینڈورف (Niendorf) میں جرمن ادیبوں کی ایک بعد از جنگ منڈلی ’گروپ 47‘ کی نشست جاری ہے۔ بیشتر مرد ادیبوں پر مشتمل اس محفل میں شمع ایک اکتیس سالہ عورت اِلسے آئخنگر (Ilse Aichinger) کے آگے آتی ہے اور وہ اپنی کہانی Spiegelgeschichte پڑھ کر حاضرین کو سناتی ہے (جس کا انگریزی ترجمہ آگے چل کر دو ناموں سے ہوتا ہے: Story in a Mirror اور A Story in Reverse)۔

اس کہانی میں زندگی کو اُلٹی سمت میں چلتے ہوئے دکھایا گیا ہے، یعنی قبر سے پنگھوڑے کی طرف۔ واحد مخاطب (یعنی سیکنڈ پرسن) میں لکھی گئی اس کہانی کا مرکزی کردار (ایک عورت) موت سے بسترِ مرگ، وہاں سے اپنی صحتمند زندگی، بڑھاپے سے جوانی، اور پھر لڑکپن اور بچپن کی طرف سفر کرتی ہے اور آخرکار ناپیدا ہو کر عدم کا حصہ بن جاتی ہے۔ اِلسے آئخنگر نے اس نشست میں یہ کہانی سنا کر وہاں موجود نک چڑھے ادیبوں کو سکتے میں ڈال دیا تھا۔ جنگ عظیم کے اندوہناک واقعات سے گزرنے والے سماج کے لیے تو اس کہانی کی تخلیقی معنویت قابل فہم طور پر اثر انگیز تھی ہی، باقی دنیا کو بھی اس نے انسانی تقدیر اور تخیل کے معاملات کو نئے زاویے سے دیکھنے پر مائل کیا۔ اس کہانی کا دنیا کی بہت سی زبانوں میں ترجمہ ہوا۔ اردو میں اس کا ترجمہ عالمی ادب کے پارکھ اور بے مثل مترجم محمد سلیم الرحمٰن نے ’اُلٹی کہانی‘ کے عنوان سے غالباً 1960 کی دہائی میں کیا۔

پچھلے مہینے دلّی میں نامور ادبی محقق عبد الرشید نے مجھے اطلاع دی کہ انھوں نے ماہنامہ ’ساقی‘ (مدیر: شاہد احمد دہلوی) کے 1930 کی دہائی کے کئی شماروں میں سید رفیق حسین کی کچھ ایسی تحریریں دریافت کی ہیں جو آج کے زیر اہتمام مجموعے ’آئینۂ حیرت‘ میں شامل نہیں۔ (انھوں نے اس مجموعے کے متن میں در آنے والی بہت سی غلطیوں کی بھی نشاندہی کی جو اصل پہلی اشاعت سے ملا کر نہ دیکھے جانے کے باعث ہوئیں۔ اب وہ میری درخواست پر اس مجموعے کو نئے سرے سے ترتیب دے رہے ہیں۔) عبد الرشید کے دریافت کردہ ان نایاب متون میں مارچ 1939 کے ’ساقی‘ میں شائع ہوئی سید رفیق حسین کی ایک تحریر ’ریورس گیئر‘ کے عنوان سے شامل ہے جس نے مجھے نہایت خوشگوار حیرت میں مبتلا کر دیا۔ آپ کو بھی اس حیرت میں شریک ہونے کی دعوت ہے۔

اجمل کمال، مدیر ’آج‘

**

 

کس کو پڑی ہے کہ کوئی میری سُنے! ہائے، ظالم سمجھتے ہیں کہ بڈھا سٹھیا گیا ہے۔ افسوس، یہ دار المحن یونہی چلتا رہے گا۔ یہ دنیا رنج و غم و الم کا شکار ہی بنی رہے گی۔ انسانوں کی بستی وقفِ جور و ستم ہی رہے گی۔ مسکینوں پر ظلم ٹوٹتے ہی رہیں گے۔ گناہوں اور بدکاریوں کا دور دورہ یونہی رہے گا۔ افسوس کہ میری کوئی نہیں سنتا۔ بہتوں کو سمجھایا مگر کسی نے فکر نہ کی، یا جاتے ہی بھول گئے، عیش و عشرت کا شکار ہو گئے۔ ہاں، اب اُن کو کیا پڑی ہے! جن پر گزرتی ہے، گزرتی رہے۔ ان کی جانے بلا۔ افسوس، مجھے کوئی ہمدرد نسل انسان نہ ملا۔ ناظرین، آپ ہی کوشش کریں، کوئی من چلا ہمدردِ قوم راہیِ ملکِ عدم اگر مل جائے (مگر شرط یہ ہے کہ وضع قطع فردوسِ بریں کلاس کی سی ہو) تو اس سے میرا پیغام کہہ دیں۔ وہاں جا کر تھوڑا سا کام وہ کر دے، تمام دنیا پر احسان ہو گا۔ کام کچھ بھی نہیں، بالکل آسان ہے۔ وہاں پہنچ کر کسی دن ٹہلتا ٹہلتا پاور ہاؤس (Power House) چلا جائے۔ وہیں کہیں اس ہنڈولے کا گیئر بکس (Gear Box) ہے جو کہ ٹاپ اسپیڈ (Top Speed) میں پڑا ہوا ہے۔ ارے کون سی مشکل بات ہے! کوئی آہستہ سے اسے ریورس (Reverse) میں ڈال دے۔

خدا کی قسم، سب جھگڑے مٹ جائیں، چَین ہی چَین ہو جائے۔ دنیا اُلٹی چلنے لگ جائے، قدم بہ قدم جیسے آگے بڑھی تھی، پیچھے ہٹنے لگ جائے۔ سب جھگڑے چُک جائیں، گناہ پاپ مٹ جائیں، رنج و محن، جور و ستم نابود ہو جائیں۔ دنیا وہی رہے، دنیا کے گرم و سرد وہی رہیں، مگر خوشیاں ہی خوشیاں ہوں، کھٹا اور میٹھا وہی رہے مگر تلخ کامی مٹ جائے۔ رنج رہیں مگر کُڑھنا نہ رہے۔ موت رہے مگر مرنا نہ رہے۔ ہائے، کیا ہی لطف آئیں! جنت کیا ہے؟ بے بھوک کا کھانا، بے دھوپ کا سایہ، بے خزاں کی بہار! بچّو، تمھاری جان کی قسم، دنیا جنت سے بڑھ جائے! ذرا دیکھو تو سہی، ہم ایسے بڈھے مجبوراً یہ شعر پڑھتے ہیں:

ہو چکیں غالب بلائیں سب تمام

ایک مرگِ ناگہانی اور ہے

اور اگر دنیا الٹی چلنے لگ جائے تو یہ شعر نہ پڑھا کریں:

چشم مے گوں، چال مستانہ، شباب آنے کو ہے

اور کچھ دن ہیں کہ اس خُم میں شراب آنے کو ہے

چند دن میں اَدھیڑ ہوں، پھر جوان ہو جائیں اور آخر پھر ایک دفعہ شباب آ جائے۔ کسی دن میں کوڑے کے ڈھیر پر جا کر کھڑا ہوں۔ جونہی دور سے چٹکی اس پر کروں، ایک دانت اُس پر سے اٹھ کر چٹکی میں آ جائے۔ میں اُسے لیے ہوئے کمرے میں آؤں اور مزے سے لگا لوں۔ رفتہ رفتہ اُس کا ہلتا بند ہو جائے۔ باقی اور دانت بھی وقتاً فوقتاً اسی طرح واپس آ جائیں۔ سفید بال کم ہوتے ہوتے تمام سر کالا ہو جائے۔ آپ لوگوں کے واسطے بھی دیکھیے کتنے فائدے ہوں۔ اب یوں ہی سمجھیے کہ اتوار کے دن بارہ بجے سے خدا نہ کرے آپ کے بچّے صاحب طبیعت خراب کر کے آپ کو دھمکاتے ہیں۔ شام تک آپ کی بیوی صاحبہ پریشان ہو کر آپ کو ڈاکٹر کو لانے کے واسطے گھر سے دھکیلتی ہیں۔ آپ روانہ ہوتے ہیں۔ راستے میں ایک دوست کا مکان ملتا ہے۔ وہاں آپ برِج پر پکڑے جاتے ہیں۔ آپ بھی دل میں کہتے ہیں کہ اناپ شناپ کھاتا رہتا ہے، دست ہی تو آ رہے ہیں، صبح تک ٹھیک ہو جائے گا۔ اب آپ تاش میں لگ جاتے ہیں۔ چار آنے پوائنٹ کا کھیل ہو رہا ہے۔ ایک بجے رات کو جب آپ کی سب جیبیں خالی ہو جاتی ہیں تو آپ چونکتے ہیں۔ گھڑی دیکھتے ہیں، گھبرا کر گھر واپس آتے ہیں۔ یہاں معاملات برِج سے بھی زیادہ بگڑے ہوے نظر آتے ہیں۔ بچہ اب تک غذا کی پچکاریاں چھوڑ رہا ہے۔ گھر بھر جاگ رہا ہے۔ اب آپ سے کوئی بات تک نہیں کرتا۔ صبح ہوتے ہوتے، خدا نخواستہ خدا نخواستہ، شیطان کے کان بہرے، بچہ گڑی مڑی ہو جاتا ہے اور دن کے بارہ بجے تک آپ اُسے توپ کر واپس آتے ہیں۔ اچھا، اب یہیں تک رہنے دیجیے۔ یہ ٹاپ گیئر کا معاملہ ہے۔ اگر یہی حادثات ریورس گیئر میں وقوع پذیر ہوں تو کس قدر خوشگوار ہوں گے۔ پھر تصور کی دُوربین کا فوکس کیجیے۔ دن کے بارہ بجے آپ، مع احباب اور پڑوسیوں کے، تھوتھنی لٹکائے، شہر کے سُونے محلے میں تشریف لے جاتے ہیں۔ وہاں سے کھود کر بچے کو واپس لاتے ہیں۔ گھر میں رونا پیٹنا رہتا ہے، یہاں تک کہ شام ہونے لگتی ہے۔ آفتاب جس وقت مشرق کی طرف غروب ہونے لگتا ہے، رونا پیٹنا اس شدت سے ہوتا ہے کہ بچہ تھوڑی سی جنبش کرتا ہے، پھر کچھ اَور ہلتا ہے، پھر روتا ہے۔ اب وہی دستوں کی پچکاریاں چلنے لگتی ہیں۔ جوں جوں رات بڑھتی ہے، پریشانی کم ہوتی جاتی ہے۔ ایک بجے کے قریب آپ کپڑے پہن کر گھر سے نکل جاتے ہیں۔ اپنے دوستوں میں جا کرتا ش کھیلنے میں لگ جاتے ہیں۔ صبح سویرے، جب کہ سورج مغرب سے نکلتا ہوتا ہے، آپ جیبیں کھنکھناتے واپس آتے ہیں۔ آپ کی بیگم صاحبہ آپ سے بالکل راضی خوشی ہیں۔ بچہ اب بھی گندے کھیل میں مصروف ہے۔ دن کے بارہ بجتے بجتے اُس کا دل اس کھیل سے بھر جاتا ہے۔ کھٹولے سے اٹھ کر اَور کھیلوں میں لگ جاتا ہے۔ ہنسی خوشی گھر میں کھانا کھاتا ہے۔ چلو، تھوڑی دیر میں شام ہونے لگتی ہے۔ دن چھُپتے کی چائے اور ناشتہ آپ نوش فرما کر منھ دھوتے ہیں، سگریٹ پیتے ہوے چارپائی پر لیٹ جاتے ہیں، اور ابھی دھوپ ہی ہوتی ہے کہ سو جاتے ہیں۔

کہیے، کیسی رہی؟ بچہ آپ کا مُردہ سے زندہ ہوا، بیماری سے اچھا ہوا۔ خالی ہاتھ جوئے میں گئے، جیبیں کھنکھناتے واپس آئے۔ بیوی کا سب رنج اور غصہ کس مزے سے ختم ہوا۔ اجی اس الٹی چال میں تو روزبروز آپ کی اور اُن کی محبت بڑھتی ہی جائے گی، اب گھَٹنے کا کیا کام۔ کیا کہوں، بڈھا آدمی ہوں، میرے لیے زیب نہیں دیتا۔ بس اتنا کہتا ہوں کہ ایک دن وہ بھی آ جائے گا کہ اللہ رکّھے آپ دولھا ہوں گے اور وہ دلہن۔ کہیے، الٹی چال میں کیا لطف ہے! اب آپ کہتے ہوں گے کہ قبلہ، اس کے بعد ایک اور جو غضب ہے کہ پھر وہ جدا ہو جائیں گی۔ لوگ جمع ہوں گے، پلاؤ قورمہ اگل اگل کر دیگیں بھر بھر دیں گے۔ قاضی آ کر نکاح کی گتھی سُلجھا دے گا اور ہائے وہ ہمیشہ کے واسطے اپنے میکے چلی جائیں گی۔ ہاں، ٹھیک ہے، میاں صاحبزادے، بالکل درست ہے۔ مگر منچلا شباب جو اَب ہر دم لڑکپن ہی کی طرف رجوع ہو گا، تم کو اس جدائی کا قطعی غم نہ ہونے دے گا۔ تم اپنے لڑکپن کے طوفانِ سرور میں اس جدائی کو ہنس کر بھول جاؤ گے۔

میاں، یہ تو میری اور تمھاری زندگی کے معمولی واقعات ہیں، ذرا نگاہ اٹھا کر چاروں طرف دیکھو تو، کیا کیا تباہیاں پھیلی ہوئی ہیں، کیسے کیسے ظلم ہو رہے ہیں۔ کہیں بیوائیں گھٹ گھٹ کر روتی ہیں، کہیں مائیں رو رو کر نابینا ہوتی ہیں۔ کہیں بچے یتیم ہوتے ہیں، بے دودھ کے تڑپتے ہیں۔ بڈھوں کا سہارا اٹھ جاتا ہے، ٹھوکریں کھاتے پھرتے ہیں۔ اور پھر بے کسی تو دیکھیے، ہمیشہ ہمیشہ کے واسطے ان مظلوموں پر ظلم ٹوٹتے ہیں اور پھر انھیں ہمیشہ کے لیے اُمید ہی کو خیرباد کہہ دینا پڑتا ہے … نہیں میاں، دنیا الٹی چلنا چاہیے۔ یہ سب مصیبتیں خوشیوں میں بدل جائیں گی، دنیا سے ہر برائی اٹھ جائے گی۔ جوا جوا نہ رہے گا، چوری چوری نہ رہے گی۔ جواری رات رات بھر جوا کھیلیں گے، لمبے لمبے داؤں لگائیں گے، لیکن جب اٹھیں گے مالِ طیّب ہی لے کر باہر نکلیں گے۔

چوری؟ چوری ایسے ہو گی کہ دن میں معمار آ کر ساہوکار کی دیوار میں نقب لگائیں گے، بلکہ ساہوکار صاحب خود کھڑے ہو کر معماروں سے نقب لگوائیں گے۔ رات کے سناٹے میں چور آ کر روپے اور زیور مناسب مقام پر رکھ کر سوکھی اینٹوں اور سوکھے گارے سے نقب کو اس خوش اسلوبی سے بند کر دیں گے کہ در اصل اصلی دیوار ہو جائے گی۔ واہ وا، ہاتھ چوم لیجیے ایسے چوروں کے! اجی اور تو اور، یہ ظالم قصائی واللہ پوجنے کے قابل ہو جائیں گے۔ ہر قصائی دن بھر اپنی دکان پر بیٹھے بیٹھے گاہکوں سے بوٹیاں لے لے کر، ان کو جوڑ جوڑ کر، بکروں کے ڈھانچے تیار کریں گے اور شام کی سہانی روشنی میں مذبح میں ان لاشوں کو لے جا کر اپنے خنجرِ مسیحائی سے اچھلتے کودتے بکرے کھڑے کر کے زندہ جانور لے آیا کریں گے۔

بھیا، اس الٹی چال کو جس پہلو سے دیکھو، خوشنما ہی خوشنما ہے۔ میں کہاں تک بیان کروں، تم خود ماشا اللہ سے سمجھدار ہو۔ دیکھو بھائی، آج رات کو جب اپنے پلنگ پر لیٹتا تو میرے کہنے سے ان مسئلوں پر بھی ہر پہلو سے غور کرنا۔ اول، مرغی اور انڈے کا مسئلہ۔ دوم، گیہوں اور کھیت کا مسئلہ۔ سوم، پیڑھی در پیڑھی کا مسئلہ۔ چہارم یہ کہ کیوں نہ اس عاجز خاکسار فلسفی عالم کی یادگار میں ایک میموریل یا اسٹیچو دہلی کے چاوڑی بازار میں کھڑا کیا جائے۔ خیر، یہ تو یونہی کہہ دیا، کیا میں جانتا نہیں، آپ لوگ خود قدر دان ہیں۔ یہ دماغ کے کیڑے نکال نکال کر کاغذ پر بچھاتا ہوں تو آپ ہی قدر دانوں کے واسطے۔ ہاں، تو اب دیکھیے۔ جب دنیا بگڑے ہوے ٹٹو کی طرح قدم بہ قدم پیچھے ہی ہٹنے لگ جائے گی تو عجب لطف آئیں گے۔ بندے کا مشغلہ بھی پُر لطف ہوا کرے گا۔ عینک لگائے، سر جھُکائے، سوچ سوچ کر، داڑھی کھجا کھجا کر، صفحۂ قرطاس سے اپنی تمام سیاہ کاریوں کو زبانِ قلم سے چاٹا کرے گا اور رجسٹر کے رجسٹر کورے کر کے دکاندار کو واپس کیا کرے گا۔ اجی صاحب، مجھی پر کیا منحصر ہے، وکیل موکلوں کی اصلی خدمت کیا کریں گے۔ ڈاکٹر، حکیم، اور خاص کر نیم حکیم تو خالص مسیحائی کیا کریں گے! قُرق امین حاتم زادے بن جائیں گے۔ اور تو اور، اسکول کے لونڈوں کی بھی مصیبت جائے گی۔ روز روز نئے نئے مشکل سے مشکل سبق یاد کرنے کے بجائے سب پڑھا لکھا بھُلاتے جانا کس قدر آسان ہو گا! برخوردار، میں کہاں تک اس کے فائدے بیان کروں۔ بس تم بھی میری طرح کوشاں رہو۔ کسی لیڈر منش، رقیق القلب، افشار الطبع، زاہد وضع کو تیار کرو کہ وہ جا کر یہ کام کر دے۔ جب ہزاروں سے کہو گے تو ایک تو کر ہی دے گا۔ اور میاں، جو میری کہو تو بے شک بڈھا تو میں بھی ہو گیا ہوں۔ مگر بھیا، اوّل تو یہاں سے جانے کو میرا جی ہی نہیں چاہتا ہے، اور اگر وہ کہتے ہیں، پا بدستِ دگرے، دست بدستِ دگرے، جانا ہی پڑے تو ساری عمر تو لوہار کی بھٹیوں، ڈھلائی کی بھٹیوں، بوائلروں کی بھٹیوں کی دیکھ بھال میں کٹی ہے، وہاں بھی بھٹیوں ہی کی دیکھ بھال کا کام سپرد ہو گا۔ اور بھئی، اگر بفرضِ محال، کسی غلطی سے بندے کو فردوسِ بریں میں بھیج دیا گیا تو پھر… پھر… پھر دیکھا جائے گا۔ وعدہ نہیں کرتا… وہ… یہ… اچھا، کہو تو کہہ دوں، مگر دیکھو، یہ بات کسی اور کو نہ معلوم ہو، تم ہی تک رہے۔ کان میں سنو۔ ارے بھیا، تب کون ہو گا جو ایک دفعہ وہاں پہنچ کر پھر گیئر کو ریورس میں بھی ڈال دے اور نتیجے میں ایک دن خود بھی حضرت آدم کی طرح واپس دھکیلا جائے۔ یارو، جو کہیں فرشتوں کی بھول چوک سے وہاں پہنچ گیا تو پھر تو میری بلا سے، ایسی ایسی ہزاروں دنیائیں ٹھوکریں کھاتی پھریں تو بھی میں ایسا کام نہ کروں گا کہ پھر وہ جگہ مجھ سے چھُوٹے۔ لو میاں، تم جانو تمھارا کام۔

٭٭٭

تشکر: اجمل کمال

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے