حیدرآباد دکن کی سرزمین سے ایسے نامور شخصیات پیدا ہوئے ہیں جنہوں نے اردو ادب میں اپنے تخلیقی کارناموں کی بنا پر شہرت حاصل کی ہے اور اردو کے سرمایہ میں بے انتہا اضافہ کیا ہے۔ ان نامور شخصیات میں ایک نام جامعہ عثمانیہ کے فرزند پر وفیسر محمد علی اثرؔ کا بھی ہے۔ جنہوں اردو شعر و ادب میں وہ کارہائے نمایاں خدمات انجام دے ہیں جس کی بدولت اردو دنیا ان کو صدیوں تک یاد رکھے گی۔ پر وفیسر محمد علی اثرؔ کو خدائے ذوالجلال نے بے شمار صفات سے مشرف فرما یا، موصوف ایک عمدہ شاعر بھی ہیں، بحیثیت محقق و نقاد کے علاوہ ایک دانشور بھی ہیں۔ خصوصاً دکنیات پر عبور رکھتے ہیں، انہوں نے اب تک تقریباً پانچ درجن تصانیف کو تخلیق کیا ہے جو ایک عظیم کارنامہ ہے۔ پروفیسر محمد علی اثرؔ عصر حاضر میں اردو کی قد آور شخصیت ہیں۔ جن کے تذکرہ کے بغیر دکنی ادب کی جدید تاریخ نا مکمل سمجھی جائے گی۔
ان کا مکمل نام محمد علی اثر تخلص اثرؔ ہے۔ وہ22ڈسمبر 1949ء حیدر آباد میں پیدا ہوئے۔ 1974ء میں ایم اے کی تعلیم مکمل کی 1980ء میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی، اس کے بعد 1984ء میں مخطوطہ شناسی میں پوسٹ ایم اے ڈپلومہ کیا انہوں نے بحیثیت ریڈر شعبہ اردو عثمانیہ یونیورسٹی حیدرآباد میں تدریسی خدمات انجام دئے ہیں۔ زمانہ طالب علمی سے ہی شعر گوئی و دیگر مقابلہ جات میں حصہ لینا ان کا مشغلہ رہا، سینکڑوں مشاعروں، ادبی جلسوں، سمیناروں میں وہ شرکت کرتے رہے ہیں۔ وہ آج بھی کئی ادبی انجمنوں سے وابستگی رکھتے ہیں جن میں اردو تحریک، ایوان ادب اردو، ادارہ ادبیات اردو وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ ان کی تصانیف کی تعداد تقریباً پانچ درجن ہیں جن میں ’’غواصی شخصیت اور فن‘‘(تحقیق)1977ء، ’’ملاقات‘‘(شعری مجموعہ)1980ء، ’’شمع جلتی رہی‘‘(رپورتاژ) 1980ء، ’’دبستان گولکنڈہ ادب اور کلچر‘‘(مرتبہ)1980ء، ’’دکنی اور دکنیات‘‘(وضاحتی کتابیات) ’’تذکرہ اردو مخطوطات‘‘ جلد ششم1983ء، ’’دکنی غزل کی نشو و نما‘‘(تحقیق)1986، ’’دکنی اور دکنیات‘‘(وضاحتی کتابیات)پاکستانی ایڈیشن1986ء، ’’دکن کی تین مثنویاں ‘‘(تحقیق و تدوین)1987ء، ’’دکنی شاعری تحقیق و تنقید‘‘(مضامین کا مجموعہ )1988ء، ’’کلیات ایمان‘‘(تحقیق و تدوین)1988ء، ’’حرف نم دیدہ ‘‘(شاعری)1992ء ’’ تحقیقی نقو‘‘ش، ’’نعت رسولؐ خدا‘‘(نعتیہ شاعری)2000ء، ’’انوارِ خطِ روشن‘‘(نعتیہ شاعری)2003ء، ’’نوادراتِ تحقیق‘‘، ’’مقالات اثر‘‘، ’’اللہ جل جلالہ‘‘، ’’تحقیقات اثر‘‘، ’’خرابے میں روشنی‘‘، ’’انکشافات ‘‘، ’’تحقیقات و تاثرات ‘‘، ’’بصارت سے بصیرت تک‘‘( تحقیق و تنقید)2012ء، ’’اشراق ادبیات دکن‘‘2015، ’’قطب شاہی دور میں اردو غزل‘‘2015ء وغیرہ شامل ہیں۔
اپنے ادبی سفر اور کارناموں سے متعلق پروفیسر محمد علی اثرؔ اپنی تصنیف ’’بصارت سے بصیرت تک ‘‘میں لکھتے ہیں :
’’میں اپنے چار دہوں پر مشتمل ادبی سفر کے دوران صرف تحقیق و تدقیق اور تدوین و ترتیب سے ہی سروکار نہیں رکھا بلکہ شعر و سخن کی مختلف اصناف، حمدو مناجات، نعت و منقبت، غزل، نظم، رباعی، قطعہ، نثری نظم، ثلاثی، ماہیا، ہائیکو وغیرہ پر بھی طبع آزمائی کی ہے۔ نیز مخطوطات اور مطبوعات کی توضیحی فہرستیں مرتب کی ہیں، بعض فہرستوں اور کتابوں پر نظر ثانی اور ترمیم وضع بھی کئے ہیں۔ اس طرح اب تک خاکسار کی پچپن کتابیں منظر عام پر آ چکی ہیں ‘‘۱؎
انعامات و اعزازات
_______________________
حکومت اتر پردیش سے طلائی تمغہ، ایم اے میں اعلی نشانات کے حصول پر رائے جانکی پرشاد میموریل گولڈ میڈل، تصانیف پر اردو اکیڈیمی تلنگانہ، آندھراپردیش، بنگال، بہار، اتر پردیش کی جانب سے ایورڈ حاصل ہوئے۔
انہوں نے امریکہ، لندن اور سعودی عرب یہ کا سفر بھی کیا ہے۔ ان کے بیشتر مضامین کا موضوع دکنی ادب ہے۔ پروفیسر صاحب ایک عرصہ سے علیل ہیں اس کے باوجود ادب کی تخلیق میں منہمک رہتے ہیں عمر کے اس حصے میں صحت کی ناسازی ان کے کام میں رکاوٹ نہیں بنی وہ دیگر محققین کے لئے ایک مشعل راہ ہیں۔
پروفیسر محمد علی اثرؔ دکنی ادب پر اتھاریٹی سمجھے جاتے ہیں، ان کو دکنی ادب سے کافی دلچسپی رہی ہے اور یہ ان کا اپنا خصوصی میدان ہے۔ ان کی بیشتر تصانیف کا تعلق دکنی ادب سے ہے۔ وہ ایک معروف شاعر بھی ہیں، بہت کم ادیب ہوتے ہیں جنھیں اردو نظم و نثر پر یکساں اور مکمل دسترس حاصل ہوتی ہیں انہی میں پروفیسر محمد علی اثرؔ کا شمار بھی ہوتا ہے۔ ان کا یہ شعر خود ان کی شخصیت کا غماز ہے۔
بارش میں بھی وہ بھیگتا رہتا ہے خوشی سے
آندھی میں بھی وہ پیڑ دہائی نہیں دیتا
بحیثیت ماہر دکنیات
_______________________
ڈاکٹر محمد علی اثرؔ کی تصانیف میں تین تہائی حصہ دکنی ادب سے متعلق ہے۔ انہوں نے بڑی باریک بینی سے ممتاز دکنی شعراء پر تحقیقی کام انجام دیا ہے اور ان کے زندگی کے مختلف گوشوں کو اجاگر کیا ہے۔ ڈاکٹر صاحب دکنی ادب کے بعض عنوانات پر انفرادیت رکھتے ہیں۔ انہوں نے دکنی تخلیقات میں غواصی کے قصیدے، مثنویوں کو تدوین متن کے ساتھ پیش کیا ہے۔
پروفیسر محمد علی اثر دکنی ادب کا آغاز، صو فیاء اکرام کی خدمات اور شاعری کے آغازسے متعلق لکھتے ہیں :
’’ہماری ادبی اور تہذیبی تاریخ کی جڑیں عہدِ ماضی میں دُور دُور تک پھیلی ہوئی ہیں۔ دکنی ادب سے مراد ہمارا وہ ادبی اور تہذیبی ورثہ ہے جو آج سے تقریباً چھ سو سال پہلے، تدریجی طور پر، دکن کے مختلف ادبی مراکز جیسے گلبرگہ، بیدر، گولکنڈہ، بیجاپور اور اور نگ آباد کے علاقوں میں نشو و نما پاتا رہا۔ دنیا کی دیگر بڑی زبانوں کی طرح دکنی اردو میں بھی نثر کے علی الرغم، نظم کی تخلیق پہلے ہوئی۔ شاعری کے میدان میں سب سے پہلے مذہبی مبلغین اور صوفیائے عظام نے قدم رکھا۔ ان بزرگوں نے مختلف گیتوں، نظموں اور چکی ناموں کی صورت میں صوفیانہ شاعری کا بیج بویا جو دیکھتے ہی دیکھتے اردو شاعری کے ایک شجر سا یہ دار کی شکل اختیار کر گیا۔ ۔ قدیم دکنی میں مذہبی اور صوفیانہ شاعری کے اولین نقوش کب ابھرنے شروع ہوئے اس کا قطعی طور پر تعین مشکل ہے۔ بہمنی عہد کا وہ دور جس میں دکنی زبان میں تصنیف و تالیف کی روایت پڑنی شروع ہوئی یا شعر گوئی کا آغاز ہوا۔ ۲؎
پروفیسر نسیم الدین فریس، پروفیسر محمد علی اثر کو ماہر دکنیات قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’پروفیسر محمد علی اثرہیں جن کی شخصیت اور علمی و ادبی خدمات کا تعارف کرانا ایسے ہی ہے جیسے سورج کو چراغ دکھلانا۔ پروفیسر محمد علی اثر نے دکنیات کے میدان میں اتنا اور ایسا کام کیا ہے کہ اب دکنیات ان کی شناخت اور وہ دکنیات کی پہچان بن گئے ہیں۔ دکنی شعر و ادب کی تحقیق و تلاش اور تفہیم تحسین سے متعلق تا حال ان کی (37) کتا بیں منظر عام پر آ چکی ہیں۔ پیش نظر کتاب دکنیات کے سلسلے میں ان کی 38ویں تصنیف ہے۔ اس سے قبل انہوں نے ’’عادل شاہی دور میں اردو غزل ‘‘ کے عنوان سے ایک کتاب تصنیف کی تھی جو کرناٹک اردو اکیڈیمی کے زیر اہتمام 2012میں شائع ہوئی تھی۔ اس میں انہوں نے دبستان بیجاپور میں دکنی غزل کے آغاز و ارتقا کا نہایت تفصیلی اور تحقیقی جائزہ لیا ہے۔ ۳؎
بحیثیت محقق
_______________________
تحقیق کے معنی کسی چیز کی اصلیت و حقیقت کو معلوم کرنے، چھان بین اور تفتیش کرنے کے ہیں۔ اصطلاحاً تحقیق کا مطلب ہے کہ کسی منتخب موضوع کے متعلق چھان بین کر کے کھرے کھوٹے اور اصلی و نقلی میں امتیاز کرنا، پروفیسر محمد علی اثر بھی ایک محقق ہیں ایک تحقیق کار میں جو خصوصیات ہونی چاہئے وہ تمام کی تمام خصوصیات پروفیسر محمد علی اثر کی شخصیت میں مکمل طور پر پائی جاتی ہیں انہوں نے اپنی تحقیق سے دکن کے مخطوطات پر بہترین تحقیقی کام انجام دیا ہے اور اپنی تحقیق سے کئی حقائق کو منظر عام پر لایا ہے۔ وہ محقق کے ساتھ ساتھ ماہر نقاد بھی ہیں۔
ڈاکٹر سید فضل اللہ مکرم نے پروفیسر محمد علی اثرؔ کی تصنیف بصارت سے بصیرت تک پر تبصرہ کرتے ہوئے انہیں درجہ اول کے محقق و نقاد قرار دیا ہے۔ وہ رقمطراز ہیں۔
’’مضامین کے موضوعات دیکھنے سے یہ اندازہ ہو جاتا ہے کہ صاحب تصنیف درجہَ اول کے محقق اور نقاد ہیں اور یہ تمام مضامین ‘ مصنف کے عمیق مطالعہ اور مشاہدہ کے غماز ہیں اور وہ اصول تحقیق سے کما حقہُ واقف ہیں بلکہ انہیں تحقیق و تدوین میں کمال حاصل ہے تبھی تو وہ دکنی ادب کی معاصر تحقیق کے سپہ سالار ہیں۔ پروفیسر محمد علی اثر کے مضامین کی زبان اور اسلوب نہایت سادہ اور عام فہم ہے ان کی تحریر میں کوئی الجھاؤ نہیں ہے بلکہ موضوع سے متعلق جتنا بھی مواد اکٹھا کیا جا سکتا ہے وہ تمام ذرائع سے حاصل کر لیتے ہیں پھر وہ عالمانہ طریقہ سے تجزیہ کر کے واضح انداز میں پیش کرتے ہیں اس دوران تحقیق کے تمام مروجہ اصول پر عمل پیرا ہوتے ہیں ‘کبھی ضد اور ہٹ دھرمی کا مظاہرہ نہیں کرتے جو ایک کامیاب محقق کی نشانی ہے۔ صاحب تصنیف کی ایک اور خوبی یہ ہے کہ وہ کبھی کسی کے دباؤ میں کام نہیں کرتے اور نہ ہی کوئی سمجھوتہ کرتے ہیں بلکہ حفظ مراتب کا خیال کرتے ہوے سچ کو واضح طور پر پیش کرنے کی اخلاقی جرأت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ ۴؎
بحیثیت شاعر:پروفیسر محمد علی اثرؔ ماہر دکنیات، محقق کے ساتھ ساتھ ایک بہترین اور تجربہ کار شاعر بھی ہیں وہ پچھلے چار دہوں سے اردو شاعری کے میدان میں طبع آزمائی کر رہے ہیں انہوں نے بحیثیت شاعر کے اپنے آپ کو منوایا ہے ادب میں اکثر یہ کہتے سنا گیا ہے کہ جو نثر نگار ہوتا ہے اس کی شاعری پھیکی ہوتی ہے لیکن یہ پہلو پروفیسر اثر کی شاعری میں نہیں پایا جاتا وہ بہترین اور عمدہ کلام تخلیق کرتے ہیں ان کی غزلیں اور نظمیں کافی مقبول ہوئی ہیں عام سامع بھی ان کی شاعری سے لطف انداز ہوتا ہے۔ انہوں نے شاعری کی تقریباً اصناف میں طبع آزمائی کی ہے۔ اپنے ہم عصر شعراء میں ادب و احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں، طبیعت کی ناسازی کی وجہہ آج کل مشاعروں میں شرکت نہیں کرتے۔ ان کا اسلوب آسان اور عام فہم ہیں ان کی شاعری میں فکر کی بلندی اور سعت کو محسوس کیا جا سکتا ہے۔ ان کے یہ اشعار سادگیاور معنویت کا بہترین مظہر ہیں۔
یاں کسی شئے کو بھی ثبات نہیں
ایک فانی بس اس کی ذات نہیں
اس سے پوشیدہ کوئی بات نہیں
کیسے کہہ دوں کہ التفات نہیں
مادر علم یہ جامعہ عثمانیہ حیدرآباد کے جشن الماس کے موقع پرپروفیسر محمد علی اثر نے جو نظم لکھی تھی وہ بہت ہی عمدہ اور لاجواب ہے جس کے دو بند یہاں پیش کئے جا رہے ہیں :
جامعہ ! فکر و تہذیب کی انجمن
جامعہ ! آگہی کی سنہری کِرن
تیری آغوش میں زندگی موجزن
از افق تا ا فق روشنی کا چلن
جامعہ! میرے خوابوں کا نیلا گگن
شمع علم و ہنر جگمگاتی رہے
جہاں کی تیرگی کو مٹاتی رہے
اے اثرؔ تا قیامت مری جامعہ
روشنی میں یونہی مسکراتی رہے
تو ہے مینارۂ نورِ ارض دکن
ڈاکٹر راہی فدائی، پرو فیسر محمد علی اثر کو شاعر تحقیق قرار دیتے ہیں وہ ان کے بارے میں رقمطراز ہیں :
’’کوئی دانشور بیک وقت شاعر بھی ہو اور محقق بھی ہو تو یہ امر حیرت انگیز واقعہ اور ناقابل اعتبار حادثہ متصور ہو گا اور مذکورہ دونوں غیر معمولی صلاحیتوں کا شخص واحد میں یکجا ہونا بے انتہا مشکل اور بہت ہی نادر تسلیم کیا جائے گا۔ یہ محض فضل رب تعالیٰ ہے کہ ڈاکٹر محمد علی اثرؔ کی شخصیت میں دونوں متضاد اوصاف اور مختلف النوع صفات جمع ہو گئے ہیں۔ ڈاکٹر اثر دکنیات کے ایک عظیم محقق ہیں اور انہوں نے دکنی شعر و ادب کی تحقیق میں اپنے معاصرین کے مقابلے میں کارہائے نمایاں انجام دئیے ہیں، چنانچہ اب تک آپ کی تقریباً دو درجن کتابیں منظر عام پر آ چکی ہیں۔ جس سے آپ کی وسعت کار اور قوت اعتبار کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔ مگر یہ بات حیرت انگیز ہے کہ آپ نے ایک محقق ہونے کے باوجود بحیثیت شاعر بلکہ بطور عمدہ شاعر خود کو منوایا ہے۔ ڈاکٹر اثر چونکہ اصلاً بحر تحقیق کے ایک ماہر و تجربہ کار شناور ہیں، اس لئے ان کی شاعری میں جگہ جگہ تحقیق و تدقیق کے مضامین گوہر تاباں کی طرح دیدہ و دل کو اپنی طرف متوجہ کرتے نظر آتے ہیں۔ ۵؎
بہر حال پروفیسر محمد علی اثر کی شخصیت اور ادبی خدمات کو اس چھوٹے سے مضمون میں سمیٹ نے کی کوشش کی گئی ہے ورنہ یہ کہ ان کی خدمات ایک ضخیم مقالہ کی متقاضی ہیں۔ ان کی شخصیت پر یہ اشعار خوب جچتے ہیں کہ
اتنی آسانی سے ملتی نہیں فن کی دولت
ڈھل گئی عمر تو غزلوں پہ جوانی آئی(اقبال اشہر)
ہمارے فن کی بدولت ہمیں تلاش کرے
مزہ تو تب ہے کہ شہرت ہمیں تلاش کرے
(احمد فرازؔ )
٭ ٭ ٭
حوالے
_______________________
۱) پروفیسر محمد علی اثر، بصارت سے بصیرت، ص۸
۲) پروفیسر محمد علی اثر: خواجہ بندہ نواز کی نعت گوئی۔ فروغ نعت ڈاٹ کام شمارہ12اگسٹ2016ء
۳) پروفیسر نسیم الدین فریس، جہان اردو، شمارہ27اکٹوبر2015ء
۴) ڈاکٹر سید فضل اللہ مکرم، اردوسخن، شمارہ3اپریل2013ء
۵) ڈاکٹر راہی فدائی، مدرکات، الانصار پبلی کیشنز حیدر آباد، ص112,113
٭٭٭