غزل کو اردو شاعری کی آبرو کہا گیا ہے۔ اور اس آبرو کو بڑھانے اور غزل کے گیسو سنوارنے کا کام ہر دور میں اردو شعرا نے کیا ہے۔ اردو غزل کا سفر آج بھی جوش و خروش سے جاری ہے اور بلا لحاظ مذہب و ملت ، زبان اور تہذیب اردو غزل نے اپنے تغزل اور بانکپن سے لوگوں کا دل جیتا ہے۔ اردو غزل کے کارواں میں روایت کی پاسداری کرنے اور عصری حسیت کا امتزاج رکھنے والے ایک اہم شاعر جمیلؔ نظام آبادی ہیں۔ جمیلؔ نظام آبادی جنوبی ہند کے علاقہ تلنگانہ کے شہر اردو ، نظام آباد سے اٹھنے والی اردو غزل کی ایک معتبر آواز ہے۔ اپنی غزلوں پر مشتمل ان کا چھٹا شعری مجموعہ ’’ حرف و سخن‘‘ہے۔ اس سے قبل ان کے دیگر شعری مجموعے ـ’’سلگتےخواب‘‘1978 ’’تجدید آرزو‘‘1985 ء، ’’صبر جمیل‘‘ 1993ء ، ’’دل کی زمین‘‘ 2004ء ،’’سب سخن میرے‘‘ 2009ء شائع ہو کر ادبی حلقوں میں مقبول ہو چکے ہیں ساتھ ہی نثری مجموعہ ’’حروف جمیل‘‘ 2006ء شائع ہوا ہے۔ وہ گذشتہ چالیس سال سے ادبی رسالہ ’’ گونج‘‘ بھی نکال رہے ہیں۔ جو ان کی ادبی صحافت کی پختہ کاری کو ظاہر کرتا ہے۔ اور اپنے دعویٰ
اور پھیلوں گا جو لوٹاؤ گے آواز میری
اتنا گونجوں کا صدیوں کو سنائی دوں گا
کے مصداق بڑی آب و تاب کے ساتھ اردو ادب کی خدمت کر رہا ہے۔
جمیلؔ نظام آبادی کے سابقہ اور موجودہ شعری مجموعے کے مطالعے سے واضح ہوتا ہے کہ وہ اردو غزل کی رسمیات سے واقف ہیں۔ اور عشق کے روایتی بیان کے ساتھ عصر حاضر کے مسائل سے آگاہ ہیں۔ وہ اپنے عہد کے ترجمان ہیں۔ انہوں نے عہد کے نشیب و فراز کا گہرا مطالعہ کیا اور انہیں اپنے اشعار میں ڈھالا۔ زندگی کا مطالعہ جمیلؔ نظام آبادی کی شاعری کا اہم وصف ہے۔ ادب کو زندگی کا ترجمان کہا گیا ہے۔ شاعر اپنے عہد کی پیداوار ہوتا ہے۔ وہ ایک تخلیق کار ہوتا ہے۔ عام آدمی سے اوپر اٹھ کر وہ زندگی کے تجربات کو محسوس کرتا ہے اور انہیں شعر کے سانچے میں ڈھالتا ہے۔ جمیلؔ نظام آبادی کی مخصوص لفظیات بھی انہیں صاحب طرز شاعر بناتی ہے۔ ان کے کلام میں زندگی، پتھر، آئینہ، دریا ، سمندر جیسے الفاظ استعاروں کے طور پر استعمال ہوئے ہیں اور ان کی شناخت بن گئے ہیں۔ خود شاعر نے زندگی کے نشیب و فراز دیکھے ہیں اور اس کا اثر محسوس کیا ہے تب ہی تو زندگی کا بیان ان کی شاعری پر چھایا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ ملاحظہ ہو ’’ حرف و سخن‘‘ سے جمیلؔ صاحب کے زندگی سے متعلق کچھ اشعار۔
اپنے وعدے پہ میں قائم ہوں ابھی تک مگر
زندگی تو نے مرا ساتھ نبھایا ہی نہیں
کھلی کتاب سی ہے زندگی مگر پھر بھی
اسے پڑھانے میں پڑھنے میں اک زمانہ لگے
جانتے ہیں ہم یہ کتنی قیمتی ہے دوستو
زندگی مشکل سہی پر زندگی ہے دوستو
لوگ اوب جاتے ہیں چار دن کے جینے سے
ہم گزار آئے ہیں زندگی قرینے سے
بے بھروسہ ہے بے وفا ہے تو
زندگی تجھ سے پیار مشکل ہے
جمیلؔ صاحب نے پتھر کے استعارے کو زندگی کی مشکلات اور مسائل کے طور پر استعمال کیا ہے۔ اور زندگی کا مثبت نظریہ رکھتے ہوئے انہوں نے مسائل کا عزم و حوصلے کے ساتھ سامنا کرنے کی بات کی ہے۔ ورنہ اکثر لوگ حالات کا شکوہ کرتے ہیں اور مایوسی کا اظہار کرتے ہیں جب کہ جمیلؔ صاحب نے اپنی شاعری کے ذریعے سماج کو روشنی دکھائی ہے اور لوگوں کو حالات کا سامنا کرنے کے لئے تیار کیا ہے۔ پتھر سے متعلق جمیلؔ صاحب کے اشعار ملاحظہ ہوں:
عزم و ہمت اور جوانی دیکھئے
ہو گیا پتھر بھی پانی دیکھئے
ہر بار لگا آ کے ترے ہاتھ کا پتھر
ٹوٹا ہی نہیں پھر بھی مری ذات کا پتھر
تم کو بننا ہے تو بن جائیے پتھر والے
ناز ہے ہم کو کہ ہم لوگ تو ہیں سر والے
لوگ پتھر اٹھائے پھرتے ہیں
اور ہم سر اٹھائے پھرتے ہیں
جمیلؔ نظام آبادی کی شاعری میں حالات کے کرب کے بیان کے ساتھ حسن و عشق کے روایتی موضوعات بھی فنکاری کے ساتھ ملتے ہیں۔ اور اس بیان میں شاعر کا اسلوب عاشقانہ ماحول پیدا کر دیتا ہے۔ جمیلؔ صاحب کہتے ہیں۔
نام مہندی سے لکھا لکھ کے مٹایا ہی نہیں
ایسا لگتا ہے مجھے اس نے بھلایا ہی نہیں
اس کی باتیں مرے کانوں میں ابھی بجتی ہیں
اس نے کاندھوں پہ رکھا سر تو اٹھایا ہی نہیں
میں اکیلا ہی چلا پیار کی راہوں پہ جمیلؔ
دو قدم ساتھ مرے کوئی بھی آیا ہیں نہیں
عشق اردو غزل کا اہم موضوع رہا ہے۔ اور یہ مجاز سے حقیقت تک سفر کراتا ہے۔ جمیلؔ نظام آبادی جیسے پختہ کار شاعر نے بھی اس موضوع کو اپنے انداز میں پیش کیا ہے۔ اور قاری کو اپنے ساتھ عشق کے صحرا کی سیر کرائی ہے وہ کہتے ہیں:
محبت تری دنیا کا عجب دستور ہوتا ہے
جو دل کے پاس ہوتا ہے نظر سے دور ہوتا ہے
اک پل بھی قرار مشکل ہے
دل پہ اب اختیار مشکل ہے
عشق میں تیرے اگر خاک ہوا ہوں میں بھی
ہاں مگر صاحب ادراک ہوا ہوں میں بھی
شاعر عشق حقیقی میں ڈوبا ہوا ہے۔ اور وہ اپنے خالق کی قدرت کو پہچانتا ہے۔ اور اپنے سچے رہبر و ہادی حبیبﷺ کے سراپا کے بیان کو اپنا جزوِ ایمان سمجھتا ہے۔ چنانچہ جمیلؔ صاحب کی غزلوں میں جا بجا حمدیہ و نعتیہ اشعار بھی ملتے ہیں۔ جیسے :
ہواؤں پر بھی حکومت چلا رہا ہے کوئی
سمندروں میں بھی رستے بنا رہا ہے کوئی
وگر نہ دیکھئے میری بساط ہی کیا ہے
میں لکھ رہا ہوں مسلسل لکھا رہا ہے کوئی
ایسا پر نور سراپا تھا مرے آقا کا
جن کا پر تو نہیں جن کہیں سایا ہی نہیں
جمیلؔ صاحب کے اکثر اشعار حالات حاضرہ کی تصویر کشی کرتے ہیں۔ اور قاری کو شعر پڑھتے ہیں ساری کیفیت معلوم ہو جاتی ہے۔ جیسے
میں کیسے مان لوں ہندوستان سونے کی چڑیا ہے
مرے بچے کے ہاتھوں میں مٹی کا کھلونا ہے
ایسے بھی لوگ ہیں جو بھوک سے بلکتے ہیں
اور کچھ تو ایسے ہیں کھیلتے ہیں ہیروں میں
دیکھو تو فلسطین کا وہ ننھا سپاہی
پتھر ہے کوئی ہاتھ ہتھیار نہیں ہے
دس بیٹوں کو پالا ہے جواں میں نے کیا ہے
اب کوئی مجھے پالنے تیار نہیں ہے
اپنی بہو کے بارے میں کہنا نہیں مجھے
مجھ کو یہ کہنا ہے مرا بیٹا بدل گیا
جمیلؔ نظام آبادی نے اپنے اشعار میں کہیں کہیں تلمیحات بھی استعمال کی ہیں اور سارے تاریخی واقعہ کو ایک لفظ میں بیان کیا ہے وہ کہتے ہیں :
اس سفر نے سمت دی ہے تاریخ اسلام کو
وہ بہترـ۷۲نا تواں بھوکوں کا پیاسوں کا سفر
چھوٹی بحر میں جمیل ؔ صاحب نے روانی کے ساتھ اپنی بات پیش کی ہے۔ اور ان کی اس طرح کی غزلوں میں ترنم کا بھی احساس ہوتا ہے۔
لوٹ آیا نہیں ہرا موسم
چھوڑ کر جو گیا گیا موسم
یہ میرا حوصلہ میرا ارادہ ہے
مرے رستے میں سایہ کر رہا ہے
روشنی کی کسے ضرورت ہے
بے سبب گھر جلا کے پچھتائے
ایک پل بھی قرار مشکل ہے
دل پہ اب اختیار مشکل ہے
مجموعی طور پر جمیلؔ نظام آبادی کا یہ شعری مجموعہ غزل کے شائقین کے لئے بیش قیمت ادبی سرمایے سے کم نہیں۔ کلام میں روانی اور الفاظ کا بر محل اور مناسب استعمال شاعر کے کمال کا غماز ہے۔ اس شعری مجموعے میں شاعری کی دیگر اصناف نظم۔ رباعی وغیرہ کی کمی محسوس ہوتی ہے۔ لیکن یہ بھی ایک سلیقہ ہے کہ ایک مجموعہ صرف غزلوں پر مشتمل ہو۔ ’’حرف و سخن‘‘ کی اشاعت پر میں جناب جمیلؔ نظام آبادی صاحب کو مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ اور امید کرتا ہوں کہ اچھی شاعری کے چاہنے والے اس مجموعہ غزل کا خیر مقدم کریں گے۔ اور یہ بھی امید ہے کہ جمیلؔ صاحب کی شاعری کا سفر یوں ہی جاری رہے اور وہ اپنی غزل کائنات سے اردو شاعری کا دامن وسیع کرتے رہیں۔
٭٭٭