مصنف :ڈاکٹر عابد معز
مبصر : ڈاکٹر عزیز سہیل
________________________
عصر حاضر میں خصوصاً شہر حیدرآباد میں طنز و مزاح پر جب بھی تحقیق ہو گی تو ڈاکٹر عابد معز کے ذکر خیر کے بغیر وہ تحقیق نامکمل تصور کی جائے گی۔ کیونکہ طنز و مزاح کے شعبۂ میں عابد معز کی خدمات نہ قابل فراموش ہیں ، عصر حاضر میں کتاب چھاپنا آسان ہے لیکن کتاب کی فروختگی بہت مشکل امر ہے، لیکن اس مشکل امر میں بھی ڈاکٹر عابد معز وہ کامیاب رائٹر ہیں جن کی کتاب ہاتھوں ہاتھ فروخت ہوتی ہیں ۔ یہی وجہہ ہے کہ بہت کم عرصہ میں عابد معز کی 6کتابیں طنزو مزاح کے میدان میں بڑی تیزی سے چھا گئی ہیں ۔ ان میں واہ حیدرآباد، عرض کیا ہے، بات سے بات، اردو ہے جس کا نام، فارغ البال، یہ نہ تھی ہماری قسمت شامل ہے، اب یہ ساتویں کتاب جو دنیا کے سات عجوبوں کی طرح عالمِ اردو میں پیش ہوئی ہے اس کا نام انہوں نے ’’ پھر چھڑی بات ‘‘رکھا ہے اور جس کو معنون کیا ہے ’روزنامہ اعتماد‘ اور آرکیٹکٹ جناب احمد الدین اویسی کے نام۔
زیر تبصرہ کتاب کو مختلف موضوعات کے تحت تقسیم کیا گیا ہے جس کے عنوانات اس طرح ہیں ، شخصیات، امریکی صدور، نو گیارہ، سیاست دان، کرکٹ، ایر انڈیا، نیا سال، چین، رمضان المبارک، پٹرول ڈالر اور گولڈ، مہنگائی اور روپیہ۔
کتاب کی ابتداء میں ڈاکٹر عابد معز نے اپنی بات عرض مصنف کے عنوان سے رقم کی ہیں اور اس کتاب کی اشاعت کے محرکات کا تذکرہ کرتے ہوئے اوراق ادب، روزنامہ اعتماد اور جناب احمد الدین اویسی کے بارے میں لکھتے ہیں ’’جناب احمد الدین اویسی نے سنہ 2006ء کے اوائل میں اس خواہش کا اظہار کیا کہ میں اپنے کالموں کو روزنامہ اعتماد حیدرآباد میں چھپنے کے لیے دوں ۔ موصوف کی فرمائش کے جواب میں ، میں نے اعتماد کے لئے الگ سے کالم لکھنے کا ارادہ ظاہر کیا۔ اس خیال کو احمد الدین اویسی نے سراہا اور پسند کیا۔ غوث ارسلان نے ’’پھر چھڑی بات ‘‘ عنوان تجویز کیا۔ ۔ ۔ یوں ہر دو شنبہ کو روزنامہ اعتماد کے ادبی سپلیمنٹ اوراق ادب میں میرا کالم ڈاکٹر محسن جلگانوی کی ادارت میں شائع ہونے لگا‘‘۔
اوراق ادب میں شائع ہونے والے کالموں کو ڈاکٹر عابد معز نے ’’پھر چھڑی بات ‘‘ کے عنوان سے مرتب کر کے شائع کیا ہے یہ ان کے کالموں کا ددسرا مجموعہ ہے اس سے قبل ’’ بات سے بات ‘‘پہلا کالموں کا مجموعہ شائع ہو چکا ہے۔ زیر تبصرہ کتاب کا پیش لفظ ’’عابد معز کی کالم نگاری ‘‘کے عنوان سے ڈاکٹر محسن جلگانوی نے لکھا ہے۔ انہوں نے مفصل انداز میں عابد معز کی شخصیت اور ان کی طنز و مزاح نگاری پر روشنی ڈالی ہے وہ لکھتے ہیں :’ ’ڈاکٹر عابد معز نے سنجیدہ اور غیر سنجیدہ انشائیے لکھ کر قارئین ادب کی ذہانتوں کو سیراب کیا بلکہ وہ حکومت اور انتظامیہ میں پھیلی برائیوں ، ذہنی تعصب اور دہشت گردی پر بھی متفکر رہے ہیں ، لیکن اپنی تشویش کے اظہار میں وہ کبھی خطیبانہ یا فلسفیانہ رویہ اختیار نہیں کرتے اور نہ غیر ضروری مشوروں کا انبار لگاتے ہیں ، پولیس کے عوامی دشمنی رویہ کی مذمت میں ان کا ایک انشائیہ ’چھپ جا بیٹا‘‘ عام آدمی کی دل کی دھڑکن بن کر قرطاس پر آیا ہے ‘‘۔
بہر حال ڈاکٹر محسن جلگانوی نے ڈاکٹر عابد معز کے فن کا باریک بینی سے جائزہ لیا ہے اور انھیں طنز و مزاح کا ڈاکٹر قرار دیا ہے، ڈاکٹر عابد معز کو طنز و مزاح میں کمال درجہ کی مہارت حاصل ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ عام ادب لکھنا آسان ہے اور طنز و مزاح لکھنا بہت مشکل اور کٹھن کام ہے ایک طرف سماج کا گہرائی و گیرائی سے مطالعہ تو دوسری جانب سماجی برائیوں پر نشتر زنی کرنا اور پھر اصلاح کے لیے آمادہ کرنا کسی چوٹی کو سر کرنے سے کم نہیں ہے لیکن ان تمام مراحل میں ڈاکٹر عابد معزسنجید گی سے قلم چلاتے ہوئے بڑی آسانی سے گذر جاتے ہیں یہ کوئی معمولی کام نہیں ۔
زیر تبصرہ کتاب کا پہلا مضمون ’’پہلی بات ‘‘ کے عنوان سے شامل ہے۔ اس مضمون میں مصنف نے بات کی خوب تعریف بیان کی ہے ان کا تحریری انداز مشاہدہ کریں ’’بات آواز ہے، بات فقرہ کلام، قول اور کہاوت ہے تو بات حال، احوال، قصہ، کہانی، چرچا ہے اور ذکر کو بھی بات کہتے ہیں ۔ بات نثر ہے اور بات شاعری بھی !بات حقیقت ہوتی ہے اور افواہ بھی۔ بات شکوہ، شکایت اور الزام ہے تو بات اعتراف بھی ہے بات اعلان ہے تو بات راز بھی ہوتی ہے۔ بات پیار ہے تو بات ڈانٹ ڈپٹ بھی ہے بات وعدہ ہے تو بات عہد شکن بھی ہوتی ہے، بات سچ اور جھوٹ ہوتی ہے، بات اہم اور غیر اہم ہوتی ہے۔ بات فضول اور کام کی ہوتی ہے ‘‘۔ وغیرہ
ڈاکٹر عابد معز نے اس عنوان پر بات کی اہمیت کو بیان کیا ہے اور بات کی حقیقت بیانی کو بڑے ہی شستہ انداز میں پیش کیا ہے۔ شخصیات کے تحت جو موضوعات اس کتاب میں شامل کی گئی ہیں ان میں وی آئی پی، عام آدمی کون ہے ؟، خوب گزرے گی جو مل بیٹھیں گے کنوارے دو، میں نے پچاس سال میں کوئی فلم نہیں دیکھی، ڈاکٹر کلام کو دوبارہ راشٹر پتی بنایا جائے، صدارت سے پھر تدریس کی طرف، نائب صدر سے پہلے شامل ہیں ۔
زیر نظر کتاب میں شامل تمام ہی مضامین لائق مطالعہ ہیں ، جدید دور کی اس بھاگم بھاگ میں اردو ادب کے قارئین کو ڈاکٹر عابد معز کی طنز و مزاح نگاری کسی حد تک سکون اور فکر میں تازگی عطا کرتی ہے، ڈاکٹر عابد معز کی فکر سنجیدہ ہے وہ اصلاحی ادب کا نمائندہ رائٹر ہے جس کے قلم میں تاثیر ہے لوگ ان تحریروں کے مطالعہ سے لطف اندوز بھی ہوتے ہیں اور اپنے خیالات و تاثرات سے ان کی مزید ہمت افزائی بھی فرماتے ہیں ۔
عابد معز کی اس تصنیف میں سماجی مسائل، جدے دیت، سائنس اور ٹکنالوجی، سیاسی معاشی، قانونی موضوعات کا احاطہ نظر آتا ہے۔ وہ پیشہ سے طب کے ڈاکٹر ہیں ۔ لیکن ان کا زیادہ تر رجحان اردو ادب کی جانب مبذول ہے، سائنسی ادب میں بھی انہوں نے لائق تحسین کام انجام دیا ہے جتنی تصانیف ان کی ادب سے تعلق رکھتی ہے ان سے کئی زائد تصانیف وہ سائنسی علوم میں پیش کر چکے ہیں ۔ بہر حال ادب میں طنز و مزاح نگار کی حیثیت سے عابد معز نے اپنی خوب پہچان بنا لی ہے، ان کا اپنا جداگانہ اسلوب ہے، ان کے مضامین میں تازگی اور شگفتگی پائی جاتی ہے میں ’’پھر چھڑی بات‘‘ کی اشاعت پر ڈاکٹر عابد معز صاحب کو مبارکباد پیش کرتا ہوں ، اور ان سے امید بھی ہے کہ وہ اپنی شگفتہ تحریروں سے طنز و مزاح کے میدان میں اور مزید گل کھلائیں گے، ان کا تحریری سفر جاری و ساری رہے گا۔
ڈاکٹر عابد معز کی اس کتاب کو حسب روایت ہدی ٰ پبلی کشینز، حیدرآباد نے شائع کیا ہے، 236صفحات پر مشتمل اس کتاب کی قیمت 230روپئے رکھی گئی ہے جو ہدی پبلی کشینز، پرانی حویلی حیدرآباد سے خریدی جا سکتی ہے۔
٭٭٭