سہ ماہی الاقربا، اسلام آباد، جلد ۱۹، شمارہ۴ ۔۔۔ تبصرہ نگار: ڈاکٹر غلام شبیر رانا

سہ ماہی الاقربا، اسلام آباد، جلد ۱۹، شمارہ۴

اکتوبر۔ دسمبر۲۰۱۶،

صفحات، ۳۶۰

قیمت: ۳۵۰ روپے

 

پاکستان کے وفاقی دار الحکومت سے ممتاز ادیب سید منصور عاقل کی ادارت میں شائع ہونے والا سہ ماہی ادبی مجلہ ’’الاقربا‘‘ اپنے بلند معیار کی بنا پر ذوق سلیم سے متمتع دنیا بھر کے قارئین میں بہت مقبول ہے۔ رجحان ساز ادبی مجلے ’’ الاقربا ‘‘کی مجلس ادارت میں سید منصور عاقل کے معاونین میں محترمہ شہلا احمد، ناصر الدین اور پروفیسر ہما سالاری شامل ہیں۔ اس ادبی مجلے کی مجلس مشاورت میں پاکستان اور پاکستان سے باہر کے ممالک میں مقیم آٹھ نامور ادیب شامل ہیں۔ مجلے کو معیار اور وقار کی رفعت سے آشنا کرنے میں سید منصور عاقل نے جس محنت سے کام لیا وہ اپنی مثال آپ ہے۔ مجلہ ’’الاقربا‘‘ کا نیا شمارہ حسب معمول افکارِ تازہ سے مزین ہے اور اپنی دیرینہ روایات کے مطابق جہانِ تازہ کی جانب رواں دواں ہے۔ اس شمارے کے سرورق پر حکیم الامت اقبال کی جو تصویر ہے وہ محترمہ صوفیہ انجم تاج (کینٹن۔ امریکہ ) کی مصوری کا عمدہ نمونہ ہے۔ روشنی کے اس سفر میں اس مجلے نے اذہان کی تطہیر و تنویر کا جو مؤثر اہتمام کیا ہے اس میں کوئی اس کا شریک و سہیم نہیں۔ اپنے ادارتی کلمات میں سید منصور عاقل نے ’’نظامِ تدریس اور کردارسازی ‘‘کے موضوع پر چشم کشا صداقتوں کی جانب متوجہ کیا ہے۔ ’’سانحات رحلت ‘‘کے عنوان سے فاضل مدیر نے پُر نم آنکھوں سے ہماری بزم وفا کے اُن ساتھیوں کو یاد کیا ہے جو کوہِ ندا کی صدا سُن کر چپکے سے اُٹھ کر عدم کی بے کراں وادیوں کی جانب رختِ سفر باندھ کر چل دئیے۔ دائمی مفارقت دینے والوں کے بارے میں مدیر نے جس خلوص اور دردمندی کے ساتھ اپنے جذباتِ حزیں کا اظہار کیا ہے اسے پڑھ کر آنکھیں بھیگ بھیگ گئیں۔ ان سطور میں مایہ ناز صحافی امجد قریشی، ممتاز قانون دان حبیب وہاب الخیری اور پروفیسر حسین سحر کے نہ ہونے کی ہونی مذکور ہے۔ حیف صد حیف کہ اجل کے بے رحم ہاتھوں نے ان نابغۂ روزگار دانش وروں کے لیے ساتواں در کھول کر ہنستے بولتے گلستانِ ہستی کے در و بام اور سب دریچوں کو بے صدا کر دیا۔ پرِ زمانہ کی برق رفتاریاں اپنی جگہ مسلمہ ہیں مگرایسے یادگارِ زمانہ اور نادر و نایاب لوگ ملکوں ملکوں ڈھونڈنے سے بھی کہیں نہیں ملتے۔ ان کی وفات سے جو خلا پیدا ہوا ہے وہ کبھی پُر نہیں ہو سکتا۔

اس مجلے کے مشمولات کو اصناف ادب کے اعتبار سے تیرہ (۱۳) مختلف حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے اور ہر حصہ جہانِ دیگر کا مظہر ہے۔ نابغۂ روزگار تخلیق کاروں نے اپنے خونِ جگر سے اس گلشن کو خوب نکھارا ہے۔ جگمگاتی ہوئی یہ تخلیقی تحریریں اذہان کی تطہیر و تنویر کا مؤثر اہتمام کرتی ہیں اور دلوں کی دھڑکنوں سے ہم آہنگ ہو کر قارئین کو مسحور کر دیتی ہیں۔ اس نوعیت کی نئی تخلیقی تحریریں اس بات کا ثبوت ہیں کہ پرورش لوح و قلم میں مصروف جری تخلیق کار اپنی قلبی کیفیات کو زیب قرطاس کرنے میں پیہم مصروف رہتے ہوئے اپنے وجود کا اثبات کر رہے ہیں۔ ان تحریروں میں الفاظ ایک ایسے محدب عدسے کا کردار ادا کرتے ہیں جو تخلیق کار کے ذہن و ذکاوت اور تخلیقی فعالیت کے تمام رنگوں کو منعکس کر دیتے ہیں۔ مجلے کے مشمولات پر مشتمل ان دھنک رنگ حصوں کی تفصیل کچھ اس طرح سے ہے :

مضامین و مقالات، اقبالیات، گوشہ احمد ندیم قاسمی، یاد، رفتگاں، تاریخ و ادب، عالمی ادب، انشائیہ، افسانہ، کہانی، متفرقات، حمد و نعت، غزلیات، منظومات، نقد و نظر، مراسلات

مضامین و مقالات کے حصے میں تین وقیع مقالات شامل کیے گئے ہیں، اقبالیات کے حصے میں ایک مضمون، احمد ندیم قاسمی کے گوشے میں دو مضامین، یاد رفتگاں میں چار مضامین، تاریخ و ادب میں دو مضامین، عالمی ادب میں ایک مضمون، انشائیہ۔ افسانہ اور کہانی کے حصے میں چار تخلیقات، متفرقات میں دو تحریریں، حمد و نعت میں چار شعرا کا کلام، غزلیات میں دس شعرا کی غزلیں، منظومات میں گیارہ شعرا کی نظمیں، نقد و نظر کے تحت چار تصانیف پر تبصرے اور تیرہ قارئین کی آرا کو مراسلات کے عنوان سے شامل کیا گیا ہے۔ مجموعی اعتبار سے یہ مجلہ علم و ادب کا ایک دھنک رنگ منظر نامہ پیش کرتا ہے۔

مراسلات میں اس مجلہ کے ذہین قارئین نے قطرے میں دجلہ اور جزو میں کُل کی کیفیات کو سمو کر ید بیضا کا معجزہ دکھایا ہے۔ مجلے کی اس اشاعت میں جن مراسلہ نگاروں کے وقیع مکاتیب کو جگہ ملی ہے ان میں بیرسٹر سلیم قریشی، محمد طارق غازی، شجاع طلعت، عثمانہ جمال، منیر قریشی، شاہ شجاعت اللہ، پروین شیر، عقیل دانش، ڈاکٹر قرۃ العین طاہرہ، عارف محمود کسانہ، عامر سہیل، سید حبیب اللہ بخاری، نوید سروش، رشید آفرین اور سعود صدیقی شامل ہیں۔ عالمی شہرت کے حامل ادیبوں کے یہ مکاتیب علم و ادب کا گنج گراں مایہ ہیں۔ ان کے مطالعہ سے یہ راز کھلتا ہے کہ تکلم کے لہجے تو عنقا ہو سکتے ہیں مگر مکاتیب کے الفاظ کو دوام حاصل ہے۔ ادیبوں کی تخلیقات کے بارے میں لکھے گئے یہ خطوط جہاں تنہائیوں کے زہر کا تریاق ہیں وہاں یہ سدا بہار ادبی محفلوں کے حیات آفریں پیغام کے احساس و ادراک کے امین بھی ہیں۔

کتابوں پر تبصرے میں سیدمنصور عاقل، اویس الحسن، نعیم فاطمہ علوی، نوید سروش نے صحت مند تنقید و اور بے لاگ تجزیہ کا حق ادا کر دیا ہے۔ یہ تبصرے پڑھنے کے بعد بنیادی مآخذ تک رسائی کا تجسس پیدا ہوتا ہے۔ مبصرین نے اپنی وسعت نظر کا لو ہا منوایا ہے اور قارئین کو مطالعہ پر مائل کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ ترجمہ کے ذریعے دو تہذیبوں کو قریب تر لانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ترکی زبان کے صوفی شاعر یونس ایمرے (Yunus Emre ) کی نظم ’’قطرہ و قلزم‘‘ کا منظوم اُردو ترجمہ اویس جعفری (سیاٹل Seattle۔ امریکہ)نے کیا ہے۔ یونس ایمرے کی صوفیانہ شاعری اور اس کے تخلیقی محرکات کی تفہیم میں یہ ترجمہ بے حد معاون ثابت ہوتا ہے۔ مترجم نے جس فنی مہارت سے ترجمے کو تخلیق سے قریب تر کر دیا ہے وہ قاری کے لیے ایک منفرد تجربہ ہے جس سے روحانی اور قلبی سکون نصیب ہوتا ہے۔ زندگی اور موت کے سر بستہ رازوں کے بارے میں یہ صوفیانہ کلام قاری پر فکر و نظر کے متعدد نئے دریچے وا کرتا ہے۔ ظہیر حسن برنی نے اپنی اہلیہ سیما برنی کی پانچویں برسی (۲۰دسمبر ۲۰۱۶)کے موقع پر داخلی کرب کے مظہر اپنے جذباتِ حزیں کو نہایت دردمندی سے اشعار کے قالب میں ڈھال کر تزکیۂ نفس کی ایک صورت تلاش کی ہے۔ نظم ’’سیما‘‘پڑھ کر آنکھیں بھیگ بھی گئیں۔ میری دعا ہے اللہ کریم مرحومہ کو جوارِ رحمت میں جگہ دے اور پس ماندگان کو یہ جان لیوا صدمہ برداشت کرنے کا حوصلہ عطا فرمائے۔ ٹورنٹو (کینیڈا ) میں مقیم عالمی شہرت کے حامل ادیب محمد طارق غازی نے اس شمارے میں اپنے اشہبِ قلم کی خوب جولانیاں دکھائی ہیں۔ تنقید و تحقیق، نظم، غزل اور مکتوب نگاری میں ان کا منفرد اسلوب فکر و نظر کو مہمیز کرتا ہے۔ قدیم تلمیحات، خیالات اور واقعات کو نیا روپ عطا کر کے طارق غازی نے اپنی تخلیقی فعالیت کا لو ہا منوایا ہے۔ مثال کے طور پر نیلی آنکھوں والی عرب حسینہ زرقا الیمامہ جو مستقبل کی پیش بینی کرتی تھی کا حوالہ بہت معنی خیز ہے۔ اردو ادب میں نئی تلمیحات، تراکیب، استعارات اور علامات کے استعمال سے نہ صرف زبان کا دامن وسیع ہو گا بل کہ جدید رجحانات کی مظہر تخلیقی فعالیت کے معجز نما اثر سے ادب کی ثروت میں بھی اضافہ ہو گا۔

ادبی مجلہ ’’ الاقربا ‘‘نے جمود کا خاتمہ کر کے تہذیبی و ثقافتی اقدار و روایات کو نئی نسلوں تک منتقلی کا عزم کر رکھا ہے۔ اس رجحان ساز ادبی مجلے نے تاریخ، سائنس، لسانیات، عالمی ادبیات، فلسفہ اور علم بشریات سے وابستہ امکانات کو نیا آہنگ عطا کیا ہے۔ افکارِ تازہ سے لبریز اس مجلے کا مطالعہ کرتے وقت قاری کو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ حکمت و دانش کے ایسے سر سبز و شاداب گلشن کی سیر کر رہا ہے جس میں مختلف اصنافِ ادب کے گل ہائے رنگ رنگ کی بہار قلب و نظر کو مسخر کر لیتی ہے۔ حرفِ صداقت کی اس اقلیم میں رنگ و خوشبو اور تہذیب و ثقافت کے تمام استعارے خلوص و دردمندی کے مرہونِ منت ہیں۔ میری دعا ہے ’’الاقربا ‘‘کی تابانیوں کا سلسلہ جاری رہے اور اس کے قلمی معاونین سدا شاد و آباد رہیں۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے